https://youtu.be/burRh13dFSE?si=Ae2-IG4EwGNnu5oz
’یہاں میدان جنگ تیار ہو رہا ہے، جنگ ہو گی جو پورے بلوچستان میں پھیل جائے گی۔۔۔ دو فلیش پوائنٹس ہوں گے ایک ڈیرہ بگٹی اور دوسرا گودار۔ میرے الفاظ یاد رکھنا۔۔۔‘
نواب اکبر بگٹی نے آج سے 19 سال قبل یعنی 26 اگست 2006 کو ایک فوجی آپریشن کے نتیجے میں اپنی ہلاکت سے کچھ عرصہ قبل یہ پیش گوئی اس وقت کی تھی جب سینیئر سیاستدان مشاہد حسین اُن سے ملنے گئے تھے۔ مشاہد حسین اُس پارلیمانی کمیٹی کا حصہ تھے جس نے نواب اکبر بگٹی کے ساتھ مذاکرات کیے تھے۔
نواب اکبر بگٹی کی یہ پیشگوئی بظاہر آج ایک کربناک حقیقت بن چکی ہے۔ اُن کی موت نے بلوچستان میں ایک ایسی شورش کو جنم دیا جو آج شدت اختیار کر چکی ہے۔ بلوچستان میں اگست وہ مہینہ بن چکا ہے جس میں سب سے زیادہ عسکریت پسندی کی کارروائیاں اور دھماکے ہوتے ہیں، چاہے وہ قیام پاکستان کا دن 14 اگست ہو، جس کی اکبر بگٹی نے حمایت کی تھی، یا اُن کی برسی کا دن یعنی 26 اگست: گوادر اور ڈیرہ بگٹی سمیت بلوچستان کی بلوچ آبادی والے ہر علاقے میں یہ گونج سنائی دیتی ہے۔
مسلم لیگی رہنما مشاہد حسین، جو نواب اکبر بگٹی کے ساتھ مذاکرات میں شریک تھے، اس سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’بلوچستان کے موجودہ بحران اور چپقلش کی جڑ نواب اکبر خان بگٹی کا قتل ہے۔‘
سوئی گیس کی رائلٹی اور ڈاکٹر شازیہ خالد کے مبینہ ریپ کے معاملات پر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ریاست کی نواب اکبر بگٹی سے کشیدگی پیدا ہوئی، جس نے آگے چل کر تصادم کی شکل اختیار کی۔ اگرچہ اس کشیدگی کی روک تھام کے لیے مذاکراتی کمیٹیاں بنائی گئیں، لیکن یہ ناکام ہوئیں۔
بی بی سی اردو کی اس تحقیقی رپورٹ میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ یہ مذاکرات کیوں ناکام ہوئے اور اس ناکامی کے بعد آج بلوچستان کس نہج پر جا پہنچا ہے؟
نواب اکبر بگٹی کون تھے؟Getty Imagesنواب اکبر بگٹی آج سے ٹھیک 20 سال قبل ایک فوجی آپریشن میں مارے گئے تھے
نواب اکبر بگٹی کا کردار تنازعات اور بغاوت دونوں کو ظاہر کرتا ہے۔
اُن کی پیدائش 12 جولائی 1927 کو ہوئی۔ اُن کے والد محراب خان بگٹی قبیلے کے سردار تھے۔ والد کی وفات کے بعد 12 سال کی ہی عمر میں انھیں بگٹی قبیلے کا سردار بنایا گیا۔ ڈیرہ بگٹی کوہ سلیمان کا مغربی حصہ ہے اور یہ خانہ بدوش بگٹی قبائل کا مسکن بھی ہے۔
نواب اکبر نے بچپن کراچی میں گزارا اور سندھ کے ماہر تعلیم علامہ آئی آئی قاضی اور اُن کی جرمن نژاد اہلیہ ایلسا قاضی کی زیر نگرانی انھوں نے تعلیم حاصل کی، جس کے بعد وہ ایچی سن لاہور چلے گئے جہاں شیرباز مزاری اور خیربخش مری بھی زیر تعلیم تھے۔
بگٹی بعد میں مزید تعلیم کے لیے آکسفورڈ یونیورسٹی بھی گئے۔
انھوں نے سیاست میں قدم اُس وقت رکھا جب سنہ 1947 میں پاکستان سے الحاق کے لیے کوئٹہ کے شاہی جرگے میں شامل تمام قوم پرست رہنما اور سردار بلوچستان کی آزادانہ حیثیت کے حامی تھے۔ تب اکبر بگٹی نے ان کے مخالفت کی اور پاکستان کے حق میں ووٹ دیا اور یوں وہ پاکستان کی قومی دھارے کی سیاست میں آ گئے۔
سنہ 1950 میں وہ حکومت کی بلوچستان ایڈوائزری کونسل کے رکن نامزد کیے گئے اور سنہ 1957 میں پہلی بار بلامقابلہ رُکن اسمبلی منتخب ہوئے۔
بگٹی نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ رپبلکن پارٹی اُن کی پہلی جماعت تھی جس کا دفتر لاہور میں تھا اور جو ون یونٹ کے خلاف تھی اور اسی دوران وہ فیروز خان نون کی حکومت میں وزیر مملکت برائے داخلہ بنے۔ اُن کا اُس انٹرویو میں دعویٰ تھا کہ اُن کی ہی تجویز پر حکومت پاکستان نے مسقط سے گودار 60 لاکھ ڈالر میں خریدا تھا۔
فوجی صدر ایوب خان کے دور میں انھیں قتل کے الزام میں گرفتار بھی کیا گیا اور آٹھ سال بعد ان کی رہائی ممکن ہو سکی۔ وہ نواب خیربخش مری، عطااللہ مینگل اور غوث بخش بزنجو کے قریب بھی رہے اور نیشنل عوامی پارٹی یعنی (نیپ) کا حصہ بھی بنے۔
سنہ 1970 میں پہلی بار بلوچستان میں عام انتخابات ہوئے اور قوم پرستوں کی جماعت ’نیپ‘ کامیاب ہو گئی، تاہم آگے چل کر ان کے نیپ کی قیادت سے اختلافات ہو گئے۔
صحافی انور ساجدی اپنی کتاب ’نواب اکبر کو کیوں قتل کیا گیا؟‘ میں لکھتے ہیں کہ اوستہ محمد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نواب اکبر نے کہا تھا کہ نیپ کے اندر ایک سیکرٹ بلوچ آرگنائزیشن تھی جس کا بنیادی مقصد بلوچستان کی آزادی تھا، خیر بخش مری اور عطااللہ مینگل اور وہ اس کے رکن تھے۔ اگرچہمینگل اور مری نیپ کے رکن تھے لیکن وہ نہیں تھے اور یہ تنظیم 16 دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکہ کی رات ختم ہوگئی۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں بلوچستان میں وزیر اعلیٰ عطااللہ مینگل اور گورنر غوث بخش بزنجو کی سربراہی میں نیپ کی حکومت کو ختم کر دیا اور ان پر پاکستان کے خلاف جنگ مسلط کرنے کا الزام عائد کیا۔ بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو نے نواب اکبر کو صوبے کا گورنر مقرر کیا اور یہ وہی دور تھا جب بلوچستان میں ایک آپریشن کا آغاز ہو چکا تھا۔ تاہم یہ ساتھ زیادہ نہ چل سکا اور اُن کے بھٹو کے ساتھ بھی اختلافات پیدا ہوئے جس کے نتیجے میں وہ گورنر کے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔
نواب اکبر قیام پاکستان کے بعد زیادہ تر حکومتوں کا حصہ رہے تاہم انھوں نے اپوزیشن بھی اختیار کی اور جمہوری وطن پارٹی کے نام سے جماعت بھی بنائی، جس کے پلیٹ فارم سے انھوں نے اپنی سیاست آگے بڑھائی۔ وہ وزیر مملکت برائے دفاع اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر بھی فائز رہے۔
سوئی گیس اور رائلٹی پر تنازع
بلوچستان کے علاقے سوئی میں قیام پاکستان سے قبل ہی قدرتی گیس کے ذخائر دریافت ہو چکے تھے۔ سنہ 1955 میں یہاں سے نکالی گئی گیس کراچی اور لاہور سمیت پاکستان کے کئی بڑے شہروں کو تو پہنچائی گئی لیکن بلوچستان کے مقامی لوگ اس سے محروم رہے۔
چونکہ یہ گیس کے ذخائر بگٹی ایریا میں واقع تھے لہٰذا گیس کی رائلٹی اور ملازمتوں کے حوالے سے نواب اکبر بگٹی اور پاکستان پیٹرولیم لمیٹیڈ میں اختلافات جاری رہتے تھے، جن میں کبھی اکبر بگٹی اور کبھی کمپنی حاوی ہو جاتی۔
سنہ 1988 میں جب وہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے تو انھوں نے اُس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو سے مطالبہ کیا کہ بلوچستان کو گرانٹ دینے کے بجائے سنہ 1955 سے لے کر اب تک سوئی گیس کی آمدن میں سے حصہ دیا جائے۔ اس کے علاوہ انھوں نے گیس کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں بلوچستان کی نمائندگی کا مطالبہ بھی کیا۔
انور ساجدی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ نے نواب اکبر بگٹی سے معاہدہ کیا تھا کہ جن زمینوں سے گیس کی پائپ لائن گزرتی ہے، اِس کا اور وہاں موجود پانی کے چشموں کا کرایہ دیا جائے گا۔ پاکستان پیٹرولیم لمیٹیڈ ہر سال یہ رقم نواب اکبر بگٹی کو ادا کرتی تھی جو غالبا تین کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ بینظیر بھٹو نے 1988 میں آ کر گیس کمپنی کو حکم دیا کہ یہ رقم ادا نہ کی جائے۔ بعد میں میاں نواز شریف نے 1990 میں برسر اقتدار آ کر تمام واجبات ادا کیے، مگر ایک بار پھر جب بینظیر بھٹو 1993 میں اقتدار میں آئیں تو سوئی فیلڈ اور کمپنی کے معاملات سے نواب کا عمل دخل ختم کر دیا گیا۔‘
پرویز مشرف جب میاں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کر کے اقتدار پر قابض ہوئے تو ڈیرہ بگٹی سمیت بلوچستان میں چھاؤنیوں کی تعداد میں اضافے اور گودار پورٹ کی تعمیر اور اس کا آپریشن غیرملکی کمپنیوں کے حوالے کرنے کے اعلانات کیے گئے، جس کی نواب اکبر نے مخالفت کی اور ساحل اور وسائل کا نعرہ دیا اور 15 نکاتی مطالبات بھی پیش کیے گئے۔
بگٹی نے اپنے آخری ایام کے دوران ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ہر کوئی ہماری قومی دولت کے پیچھے پڑا ہوا ہے، جو بلوچوں کی قومی ملکیت ہے۔ مثال کے طور پر قدرتی گیس کو ہی لے لیں جو پائپ لائنوں کے ذریعے گذشتہ پچاس سالوں سے زائد عرصے سے پاکستان کے ہر کونے میں فراہم کی جا رہی ہے، لیکن بلوچستان میں نہیں۔ تو یہ دن دہاڑے کی ڈکیتی ہے بزور طاقت۔‘
مبینہ ریپ کیس اور تصادم
نواب اکبر اور پرویز مشرف حکومت کے درمیان پہلا تصادم اُس وقت ہوا جب جنوری 2005 میں سوئی گیس فیلڈ کے ہسپتال میں تعینات ایک ڈاکٹر سے مبینہ طور پر ریپ کا واقعہ پیش آیا جس کا الزام ایک کیپٹن پر عائد کیا گیا۔
نواب اکبر بگٹی نے اپنے علاقے میں پیش آنے والے اس واقعے پر شدید ناراضی کا اظہار کیا جس کے بعد سوئی پلانٹ پر راکٹ برسائے گئے جس کی وجہ سے پلانٹ کو عارضی طور پر بند کرنا پڑا اور نتیجتاً ملک میں گیس کی فراہمی متاثر ہوئی۔
نواب بگٹی کا کہنا تھا کہ یہ حملے بلوچ لبریشن فرنٹ نے کیے ہیں اور یہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی زمین پر یہ ایک ’غلط عمل ہوا‘ ہے جس سے ان کی بلوچ روایات مجروح ہوئی ہیں۔
’میری تصویر اس طرح نہ لینا کہ دشمن سمجھے بگٹی کمزور ہو گیا‘نواب اکبر بگٹی کا مجسمہ ’طوفانی بارشوں‘ سے گرا یا ’توڑا‘ گیا؟بلوچستان کی ’ناراض بلوچ قیادت‘ کو حکومتی مذاکرات کی دعوت پر کیا تحفظات ہیں؟اسد اللہ مینگل: بلوچستان کا ’پہلا جبری لاپتہ‘ نوجوان جس کی موت تاحال ایک معمہ ہے
آگے چل کر عدالتی ٹربیونل نے کیپٹن کو بےقصور قرار دیا جبکہ متاثرہ ڈاکٹر بیرون ملک چلی گئیں، بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں متاثرہ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ ’شناخت پریڈ بھی نہیں ہوئی، صدر مشرف نے کیپٹن کو بےقصور قرار دے دیا، اب میری بات کون مانے گا۔‘
اس معاملے کے تناظر میں پیدا ہونے والی کشیدگی کے بعد ڈیرہ بگٹی اور سوئی میں بگٹی قبائل اور سکیورٹی فورسز آمنے سامنے آ گئیں اور مارچ 2005 میں درجن کے قریب سکیورٹی اہلکار ایک جھڑپ میں مارے گئے۔ اس کے ردعمل میں 17 مارچ کو ڈیرہ بگٹی پر آپریشن کیا گیا جس میں 30 کے قریب ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں۔
مذاکراتی کمیٹیوں کا قیام
اسی کشیدگی کے دوران پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں اس وقت کی پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کے رکن بشمول شیری رحمان، نثار میمن، حافظ حسین احمد اور دیگر اراکین شامل تھے۔ ان اراکین نے ڈیرہ بگٹی پہنچ کر نواب اکبر سے مذاکرات کیے جبکہ اکبر بگٹی نے انھیں ڈیرہ بگٹی میں مبینہ طور پر گولہ باری سے متاثر مکانات بھی دکھائے۔
اس ملاقات کے دوران نواب اکبر کے فرزند جمیل بگٹی بھی موجود تھے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے انھیں سارا منظر دکھایا تو اراکین پارلیمان نے کہا کہ ’اس سے واضح ہے کہ یہ ایک قتل کا منصوبہ تھا۔ میں نے جواب دیا کہ اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے؟ ہم جہاں بیٹھے تھے، وہاں بم گرا۔ یہ تو قتل ہی کا ارادہ تھا، جہاں جہاں والد گئے وہاں وہاں نشانہ بنایا گیا۔‘
’دو تین گھنٹے میں ہم نے انھیں سارا دورہ کروایا، پھر وہ چلے گئے۔ مگر اس کے بعد کسی نے کچھ نہیں کہا۔ میں نے دس بار کہا کہ جو آئے تھے، وہ اپنا منہ کھولیں اور بتائیں کہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے کیا تباہی دیکھی تھی۔‘
ڈیرہ بگٹی پر حملے کے بعد بگٹی قبیلے کے لوگوں نے سکیورٹی اہلکاروں کا گھیراؤ کر لیا، اس حملے کے چند روز کے بعد حکومت نے مسلم لیگی رہنما چوہدری شجاعت حسین اور مشاہد حسین کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی جو ڈیرہ بگٹی پہنچی، نواب اکبر بگٹی نے ان کے سامنے چیک پوسٹس کے خاتمے سمیت دیگر مطالبات سامنے رکھے۔
کوہلو میں جنرل مشرف پر حملہGetty Images
نواب اکبر بگٹی اور پرویز مشرف حکومت میں کشیدگی سے قبل مری قبیلے اور مشرف حکومت میں پہلے سے ناراضی موجود تھی۔ جب سنہ 2000 میں کوئٹہ میں بلوچستان ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ جج نواز مری کا قتل ہوا اور اس الزام میں مری قبیلے کے سردار اور بلوچ رہنما نواب خیربخش مری کو گرفتار کیا گیا۔
مگر اسی دوران نواب اکبر بگٹی کے ’بلوچستان کے ساحل اور وسائل پر فقط مقامی لوگوں کا حق ہے‘ جیسےنعرے نے مقبولیت حاصل کی اور ماضی کے مخالف اب قریب آنے لگے۔ جلد ہی نواب خیر بخش مری کے بیٹے بالاچ مری نواب اکبر بگٹی کے ساتھ سامنے آنے لگے۔
اس کشیدہ صورتحال کے بیچ جنرل پرویز مشرف 15 دسمبر 2005 کو مری قبائل کے علاقے کوہلو کے دورے پر آئے جہاں اُن کے جلسے کے دوران راکٹوں سے حملہ کیا گیا۔اس حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی جس کے سربراہ بالاچ مری سمجھے جاتے تھے۔
بلوچستان میں اُن دنوں جام یوسف کی حکومت تھی۔ جام یوسف نے سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر پرویز مشرف کو کوہلو کا دورہ کرنے سے منع کیا تھا۔
سینیئر صحافی شہزادہ ذوالفقار بتاتے ہیں کہ ’جام یوسف نے پرویز مشرف سے کہا تھا کہ کوہلو جانا ٹھیک نہیں ہے۔لیکن وہاں کچھ مری قبائل کے لوگ، جو ہمیشہ حکومتوں کا حصہ رہے تھے، نے کہا نہیں یہ آپ کی بہادری ہے کہ آپ نے کوہلو آنا ہے۔ پرویز مشرف کو کافی بڑھا چڑھا کر وہ کوہلو لے گئے۔‘
’اُس کے بعد راکٹ حملے ہوئے۔ وہ لوگ جو پہاڑوں میں تھے، وہ سمجھتے تھے کہ پرویز مشرف کا کوہلو آنا اُن کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس پر مشرف آگ بگولا ہو گئے کہ انھیں چیلنج کیا گیا؟ اس پر وہ بہت برہم ہوئے۔‘
کوہلو کے دورے پر پرویز مشرف کے ساتھ مشاہد حسین بھی موجود تھے جو اس واقعے کو ’ٹرننگ پوائنٹ‘ قرار دیتے ہیں۔
بقول مشاہد حسین وہاں جنرل مشرف کا ایک جلسہ تھا۔ ’وہاں راکٹ فائر ہوئے اس میں کوئی زخمی نہیں ہوا۔ اس وقت کے آئی جی ایف سی جنرل ڈار بھی وہاں موجود تھے۔ اس حملے کے لیے نواب بگٹی صاحب پر الزام لگایا گیا۔ میرے خیال میں کچھ لوگ نہیں چاہتے تھے۔ ہمیں روکا بھی گیا اور فوجیوں نے کہا، تم کیوں جا رہے ہو؟ ہم اس کو ٹھیک کر لیں گے۔ لیکن میں نے کہا کہ آپ ٹھیک نہیں کر سکے۔ مسئلہ حل ہو چکا تھا۔‘
کوہلو میں حملے کے بعد جنرل پرویز مشرف کی وہ متنازع تقریر سامنے آئی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’انھیں پتا بھی نہیں چلے گا کہ کس چیز سے ہٹ ہوئے ہیں۔‘ اور چند ہفتوں کے بعد ڈیرہ بگٹی میں آپریشن شروع ہو گیا۔
نواب اکبر بگٹی نے اس حملے کے آغاز کے بعد دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’جنرل مشرف کوہلو گئے تھے وہاں کچھ گولے گرائے گئے جس کو انھوں نے اپنی توہین سمجھا، پھر کھل کر کہا کہ ہم نے اس کا بدلہ لینا ہے، جب انھوں نے خود اعلان کیا تو اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ وہ بدلہ لے رہے ہیں۔‘
اکبر بگٹی نے سوال کیا تھا کہ ’جنرل مشرف پر اسلام آباد میں بھی حملہ ہوا، کراچی میں بھی۔۔۔ کیا انھوں نے وہاں بدلہ لیا؟‘
کمیٹی کے مذاکرات اور مینڈیٹBBCمشاہد حسین کے مطابق انھوں نے جنرل مشرف سے ملاقات کی اور استفسار کیا کہ آپ معاہدہ کیوں خراب کر رہے ہیں؟
اس کشیدگی کے باوجود مذاکرات جاری رہے اور اب چوہدری شجاعت حسین اور مشاہد حسین پر مشتمل کمیٹی مذاکرات کر رہی تھی۔ مشاہد حسین بتاتے ہیں کہ ایک بار وہ نواب بگٹی سے ملنے گئے، یہ معاہدہ بھی ہو گیا تھا کہ فرنٹیئر کانسٹیبلری واپس چلی جائے گی۔
’انھوں نے کہا یہ ایف سی کی پوسٹ ابھی تک ہے، آپ نے وعدہ کیا تھا اور یہ پوسٹ ہمارے گھر کو دیکھ رہی ہے، بےپردگی بھی ہوتی ہے۔ میں نے کہا اسے واپس لینا چاہیے۔ میں نے دو فوجی کمانڈروں سے بات کی۔ انھوں نے کہا یہ بات نہیں ہو گی، یہ ہماری سکیورٹی کا مسئلہ ہے۔ میں نے کہا یہ غلط ہے۔‘
مشاہد حسین کے مطابق انھوں نے جنرل مشرف سے ملاقات کی تو وہاں طارق عزیز، جنرل جاوید حمید اور جنرل مشرف موجود تھے۔ ’میں نے نقشہ دکھایا اور بتایا کہ یہ دیکھیں، یہ یہاں ہے۔ معاہدہ ہو چکا ہے، صرف ایک جگہ پر لڑائی ہو رہی ہے۔ جنرل مشرف نے کہا ہم کیسے بگٹی صاحب پر اعتماد کریں؟ میرے فوجی کمانڈر کہتے ہیں کیسے آپ پر اعتماد کروں، میں نے کہا کہ آپ انڈیا سے بھی تو بات کر رہے ہیں۔ان سے مل رہے ہیں اس پر اعتماد کر رہے ہیں۔۔۔ یہ آپ معاہدہ کیوں خراب کر رہے یں؟ وہ سمجھ گئے۔‘
مشاہد حسین کا کہنا تھا اس ملاقات کے بعد جب وہ پھر ڈیرہ بگٹی گئے تو وہاں بدستور پوسٹ موجود تھی۔ اُن کے مطابق انھوں نے کمانڈر سے کہا کہ ’میں لنچ کے لیے آیا ہوں، ڈھائی گھنٹے بعد جانا ہے۔ پوسٹ نہ نکالی گئی تو تمہاری خیر نہیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ جب انھوں نے لنچ کیا تو وہ پوسٹ ہٹا رہے تھے۔
ڈیرہ بگٹی میں جاری ان مذاکرات کے چشم دید گواہ جمیل بگٹی بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کمیٹی بااختیار نہیں تھی اور بقول ان کے کوئی معاہدہ بھی نہیں ہوا تھا۔
’والد نے انھیں کہا کہ چوکی ہمارے سر کے اوپر لگی ہوئی ہے۔ وہ بولے، 'نواب صاحب، پانچ منٹ دیں'۔ وہ سامنے لان میں گئے سیٹلائٹ فون سے اسلام آباد یا پنڈی سے بات کر رہے تھے، مجھے والد نے کہا کہ انھیں ہدایات مل رہی ہیں، میں نے کہا لگتا ہے ایسا ہی ہے۔‘
جمیل بگٹی نے بتایا کہ ’وہ واپس آئے اور کہا کہ ہم چلتے ہیں، دوبارہ واپس آئیں گے۔ والد نے کہا ٹھیک ہے، وہ گئے اور پھر کچھ دن بعد واپس آئے۔ پھر بات ہوئی والد نے ان سے سوال کیا کہ تم لوگوں کے پاس مینڈیٹ ہے یا نہیں۔‘
’والد نے مجھے کہا منٹس لکھنا شروع کرو، جب بات ہوئی تو شجاعت نے کہا میں وضاحت لے کر آتا ہوں۔ پھر واپس آئے۔ والد نے کہا کہ جب تم سب نے وہاں سے ہدایات لینا ہیں تو تم میرے پاس کیوں آئے ہو؟ تم کیا میسنجر بوائے ہو، جو پیغام لا اور لیجا رہے ہو؟‘
اکبر بگٹی کے لیے آیا جہاز خالی واپس لوٹ گیا
اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے جنرل پرویز مشرف اور نواب اکبر میں براہ راست ملاقات کی بھی کوشش کی گئی تھی۔
چوہدری شجاعت حسین اپنی کتاب ’سچ تو یہ ہے‘ میں لکھتے ہیں کہ انھوں نے جنرل (ر) پرویز مشرف اور نواب اکبر کے درمیان براہ راست ملاقات کا بندوبست کیا تھا، تاکہ دونوں کے درمیان غلط فہمیاں دور ہو سکیں۔ یہ میٹنگ اسلام آباد میں رکھی گئی تھی لیکن جس روز یہ ملاقات ہونی تھی اس روز طے شدہ وقت سے کچھ دیر پہلے ہی اچانک منسوخ ہو گئی۔‘
چوہدری شجاعت مزید لکھتے ہیں کہ ’نواب اکبر نے انھیں بتایا کہ صدر مشرف کے آفس سے فون آیا تھا اور بتایا گیا کہاُن کو لے جانے والا جہاز ڈیرہ بگٹی پہنچنے کے بعد خراب ہو گیا ہے، لہٰذا ملاقات منسوخ کی جا رہی ہے۔‘
نواب اکبر نے بعدازاں دعویٰ کیا تھا کہ یہ فون کال موصول ہونے کے آدھ گھنٹے کے بعد انھوں نے مشرف کے اُس طیارے کو خود فضا میں اُڑتے دیکھا تھا۔
جمیل بگٹی بھی اس واقعے کی تصدیق کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ’والد کو بتایا گیا کہ جہاز سوئی ایئرپورٹ پر آئے گا اور اسلام آباد لے جائے گا۔ جب مقررہ وقت پر والد وہاں گئے تو بتایا گیا کہ جہاز خراب ہو گیا ہے اور اڑ نہیں سکتا۔ والد نے کہا ٹھیک ہے۔‘
’سوئی ایئرپورٹ کا رن وے اور ڈیرہ بگٹی جانے والی سڑک ساتھ ساتھ ہیں، والد نے اپنے سامنے جہاز اڑتے دیکھا۔ یہ واضح پیغام تھا کہ بالمشافہ ملاقات نہیں ہو گی۔‘
BBCنواب اکبر کے فرزند جمیل بگٹیمذاکرات میں ڈیڈ لاک
ڈیرہ بگٹی میں پنجاب سے مصطفیٰ کھر، سندھ سے ممتاز بھٹو اور دیگر سیاست دان آتے جاتے، نواب اکبر سے ملاقات کرتے اور اپنی حمایت کی یقین دہانی کراتے مگر دوسری جانب حکومتی سطح پر بات آگے نہیں بڑھ رہی تھی۔
چوہدری شجاعت حسین کی درخواست پر بلوچستان کے صحافیوں نے بھی حکومت اور نواب اکبر بگٹی کے بیچ ڈیڈ لاک کو ختم کرانے کی کوشش کی تھی۔
بلوچستان کے سینیئر صحافی انور ساجدی کے مطابق ’نواب بگٹی چوہدری شجاعت حسین اور مشاہد حسین کی ٹیلی فون کالز سننے کے روادار نہ رہے، شیر علی مزاری ،الہی بخش سومرو کی کوششیں بھی بے سود ثابت ہو رہی تھیں، اس لیے چوہدری شجاعت حسین نے صحافی نرگس بلوچ سے رابطہ قائم کیا کہ آپ انور ساجدی کو نواب صاحب کے پاس لے کر جائیں شاید وہ آپ کی بات نہ ٹالیں۔‘
انور ساجدی کے مطابق وہ ان سے ملنے ڈیرہ بگٹی گئے۔وہ بتاتے ہیں کہ ’مجلس میں نواب اکبر نے سب سے رائے معلوم کی جس پر کاظم بگٹی نے کہا کہ ’سیاست میں ڈائیلاگ ضروری ہوتا ہے‘، اس پر نواب بگٹی غصے میں آ گئے اور کہا کہ ’ناظم کا عہدہ بچانے کے لیے تو نہیں کہہ رہے؟‘ براہمدغ بگٹی (بگٹی کے پوتے) نے کہا کہ ’آپ کا تجربہ زیادہ ہے، جو فیصلہ کریں گے وہ درست ہو گا‘، اس کے بعد آغا شاہد نے کہا کہ ’گفت و شنید سے انکار نہیں کرنا چاہیے ورنہ ساری بات آپ پر آ جائے گی اور حکومت کو یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ ہم مسئلہ حل کرنا چاہتے تھے لیکن نواب انکاری تھے۔‘
انور ساجدی کے مطابق نواب بگٹی نے انھیں کہا کہ ’چوہدری (شجاعت) کو بتاؤ آخری موقع دیتا ہوں‘۔ پھر میں نے اپنے فون سے چوہدری شجاعت کو کال ملائی اور پھر نواب صاحب کو دی تاکہ بات کریں، اس طرح دوبارہ بات چیت شروع ہوئی۔‘
انور ساجدی کہتے ہیں کہ ’نواب بگٹی کا یہ ماننا تھا کہ یہ کمیٹیاں بے اختیار ہیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے یقین دہانیاں دی تھیں کہ ایف سی کی پوسٹس ہٹا دیں گے، لیکن پھر انھوں نے ڈیرہ بگٹی کو بالکل بند کر دیا، چاروں طرف نئی پوسٹیں بنائیں اور لوگوں کو اندر جانے نہیں دیا جاتا تھا۔‘
جنوری 2006 میں انسانی حقوق کمیشن کا وفد عاصمہ جہانگیر کی قیادت میں ڈیرہ بگٹی میں جاری کشیدگی کا جائزہ لینے اور نواب اکبر سے ملاقات کے لیے پہنچا تھا۔ اس وفد میں افراسیاب خٹک بھی شامل تھے۔ اس وفد پر فائرنگ بھی ہوئی مگر بعد میں انھوں نے پہاڑوں میں جا کر نواب اکبر بگٹی سے ملاقات کی۔
افراسیاب خٹک بتاتے ہیں کہ ’انھوں نے سب سے پہلا سوال اُن سے یہی کیا کہ جو ملاقاتیں ہو رہی تھیں، ان میں کیا مشکلات یا رکاوٹیں پیش آئیں؟‘
’اکبر بگٹی نے کہا کہ درحقیقت وہ (حکومتی نمائندہ) ملاقاتیں اس لیے نہیں کرنا چاہتے تھے کہ مسئلہ حل کریں۔ کیونکہ جو جنرل شاہی ہے پاکستان کی، وہ تمام بلوچستان کی معدنیات اور وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور وہ بلوچوں کو اس کا مالک تسلیم نہیں کرتے۔‘
اکبر بگٹی کا اصرار تھا کہ ’بلوچستان ایک فیڈریشن کا حصہ ہے اور اس فیڈریشن میں، جو بلوچستان کے رہنے والے ہیں، وہ اپنی زمین اور وسائل کے مالک ہیں۔‘
اکبر بگٹی کا کہنا تھا ’لیکن انھوں (حکومت) نے کہا کہ وہ نہیں مانتے اور بہانے بنا رہے ہیں۔ لیکن درحقیقت اصل مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان میں ہمیں مختلف قسم کے الزامات لگائے جاتے ہیں اور ہمیں کوئی موقع نہیں دیا جاتا، نہ کوئی قانونی کارروائی کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔‘
اکبر بگٹی نے اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کیا تھا کہ بات اتنی آگے بڑھ گئی ہے اور یہ کہ شاید انھیں قتل کر دیا جائے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’شاید مجھے قتل کر دیں اور بالاچ مری کو بھی قتل کر دیں۔‘
منیزے جہانگیر پاکستان کے ان صحافیوں میں سے ہیں، جنھوں نے نواب اکبر بگٹی سے آخری ایام میں ملاقات کی تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ انھوں نے سوال کیا تھا کہ ’اکبر بگٹی صاحب، آپ یہ لڑائی لڑ رہے ہیں، آپ کیسے امید کرتے ہیں کہ پاکستان آرمی جیسی منظّم فوج کو آپ ہرا سکیں گے؟‘
تو اکبر بگٹی کا جواب تھا کہ ’میرا بالکل یہ ارادہ نہیں ہے کہ میں فوج کو شکست دوں، مگر میرے پاس کوئی چوائس نہیں ہے۔ آپ دھماکے سُن سکتے ہیں، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری طرف بندوقیں تان دی گئی ہیں۔ اگر آپ ایک شریف انسان کو دیوار کے ساتھ لگا دیں، تو وہ واپس لڑے گا۔‘
منیزے جہانگیر کے مطابق انھوں نے پوچھا کہ کیا مذاکرات کی گنجائش موجود ہے؟
تو انھوں نے کہا ’کیسے مذاکرات؟ آپ نے سُنا ہے کہ وہ کس قسم کے مذاکرات چاہتے ہیں؟ وہ تو ہمارے اوپر بمباری کر رہے ہیں، مذاکرات کے لیے تو انھوں نے سارے دروازے بند کر دیے ہیں۔ کمیٹی کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا۔ سارے اختیارات ہمیشہ کی طرح فوج کے پاس تھے۔‘
اکبر بگٹی پہاڑوں پر چلے گئےGetty Images
دسمبر 2005 میں نواب اکبر بگٹی نے مزید مذاکرات سے انکار کر دیا اور وہ پہاڑوں کی طرف چلے گئے اور ایک پہاڑی سلسلے سے دوسری جانب سفر کرتے رہے۔ بلوچستان میں ’پہاڑ پر جانا‘ مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
جمیل بگٹی کہتے ہیں کہ ’اگر آپ میرے گھر پر بمباری کرو گے تو میں سمجھوں گا آپ نے مجھ پر حملہ کیا ہے، تو مجھے جواب دینا پڑے گا۔ پہاڑ پر جانا علامتی ہے کہ ابھی مزاحمت جاری رہے گی۔‘
انور ساجدی کہتے ہیں کہ اُن کی جب نواب اکبر سے آخری بات ہوئی تو اُن کا یہ کہنا تھا کہ ’اگر انھوں (فوج) نے مجھے مارنا ہے، تو میں اپنی موت کا طریقہِ کار اور جگہ خود منتخب کروں گا۔‘
اکبر بگٹی نے کہا تھا کہ ’اگر انھوں نے مجھے گرفتار کر لیا تو مجھے پنجاب لے جائیں گے اور پنجرے میں بند کریں گے اور وہاں کے چوراہوں پر رکھیں گے اور اپنے لوگوں کو کہیں گے کہ یہ ہے نواب اکبر خان بگٹی۔ لہٰذا جو ہمارا طریقہ کار ہو گا، میں پہاڑوں پر چلا جاؤں گا۔‘
ان پہاڑوں میں بھی صحافی ان سے ملتے اور موقف جانتے رہے۔ ان میں شہزادہ ذوالفقار بھی شامل ہیں۔ اُن کے مطابق نواب اکبر یہ کہہ رہے تھے کہ اب چیزیں آگے نکل گئی ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ جب اکبر بگٹی ڈیرہ بگٹی میں تھے تو وہ کہتے تھے کہ ’ہم بوڑھے ہو چکے ہیں، ہم سے بات کریں، ہم تو شاید کوئی راستہ نکال لیں، کیونکہ ہم اتنے جذباتی نہیں ہیں۔ جو نوجوان ہیں، شاید وہ بات بھی نہ کریں۔‘
شہزادہ ذوالفقار بتاتے ہیں کہ ’اُس وقت نواب بگٹی کی ایک ٹانگ بھی صحت مند نہیں تھی، لیکن وہ پہاڑوں میں زندگی گزار رہے تھے۔‘
غار میں ہلاکت کا دعویٰGetty Images
بلوچستان کے پہاڑوں میں نواب اکبر بگٹی کے لیے ریاستی اداروں کی تلاش جاری رہی اور بالاخر 26 اگست 2006 کو کوہلو کے قریب ترتانی کے پہاڑ کی ایک غار میں وہ ایک فوجی آپریشن میں ہلاک ہو گئے۔
حکومت کا دعویٰ تھا کہ اس آپریشن میں افسران سمیت 22 فوجی اہلکار بھی مارے گئے تھے۔ ہلاکت کی تصدیق کے لیے بعض صحافیوں کو بھی وہ جگہ دکھائی گئی اور بتایا گیا کہ لکڑیوں کا پلیٹ فارم بنا کر کالم چھت کو سپورٹ کریں گے پھر پتھر ہٹا کر اندر سے لاش نکالی جائے گی۔
اکبر بگٹی کے خاندان نے حکومت کا یہ دعویٰ قبول نہیں کیا۔
جمیل بگٹی بتاتے ہیں کہ ’چوہدری شجاعت نے ان کے چھوٹے بھائی طلال سے بات کی اور کہا کہ 'ہم تلاش کر رہے ہیں، ہم نے نواب صاحب کے پیر دیکھ لیے ہیں۔‘ جبکہ اویس غنی گورنر بلوچستان نے پیغام بھجوایا کہ ’نواب صاحب کا چہرہ دکھائی دیا ہے۔‘ اس پر میں نے کہا کہ ’چوہدری شجاعت وہاں سے تلاش کر رہے ہیں اور آپ یہاں سے تلاش کر رہے ہو، آپ کو چہرہ ملا ہے اُن کو پیر، کم از کم اپنے جھوٹ کو ہم آہنگ تو کرو۔‘
تالا لگے ہوئے تابوت کی تدفین
ڈیرہ بگٹی میں ایک تابوت لایا گیا جس پر تالے لگے تھے اور کسی کو یہ تالا کھولنے کی اجازت نہیں تھی۔ اسی تابوت کی تدفین کی گئی اور اس موقع پر نواب اکبر کے خاندان میں سے کوئی موجود نہیں تھا۔ ضلعی انتظامیہ کے اہلکاروں نے تدفین کی نگرانی کی اور نواب اکبر کا چشمہ اور گھڑی بطور ثبوت دکھائے گئے۔
اس وقت کے ڈی سی ڈیرہ بگٹی عبدلصمد لاسی نے کہا کہ انھوں نے شناخت کی ہے، کچھ ایسی چیزیں ملی ہیں جن کی بنیاد پر یہ شناخت ہوئی ہے۔ ’یہ ہی اکبر بگٹی کی لاش ہے جو انھوں نے دفنا دی ہے۔‘
جمیل بگٹی نے بعد میں لاش کے ڈی این اے کے لیے عدالت سے بھی رجوع کیا تھا تاہم ان کی یہ درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔
مذاکرات ناکام کیوں ہوئے؟
سیاست دان، صحافی اور انسانی حقوق کے رہنما نواب بگٹی سے مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار اس وقت کی فوجی قیادت کو قرار دیتے ہیں۔
چوہدری شجاعت حسین اپنی کتاب ’سچ تو یہ ہے‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک روز وہ صدر پرویز مشرف کے ساتھ معمول کی میٹنگ میں بیٹھے ہوئے تھے جب ڈی جی ملٹری انٹیلیجنس جنرل ندیم اعجاز نے نواب بگٹی کے بارے میں بتانا شروع کر دیا کہ 'وہ پہاڑوں میں روپوش ہو چکے ہیں لیکن جلدی ہم ان کو ڈھونڈ نکالیں گے۔‘ میں نے محسوس کیا کہ جنرل ندیم اعجاز جب بھی اکبر بگٹی کے بارے میں کوئی بات کرتے تو اُن کا لہجہ سخت ہو جاتا۔‘
شجاعت حسین مزید دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اور مشاہد حسین ندیم اعجاز کے گھر گئے اور انھیں درخواست کی ’اکبر بگٹی کو ماریں نہ، بلکہ گرفتار کر لیں، یہ کہہ کر ہم واپس آ گئے مگر اگلے ہی روز اکبر بگٹی کی موت کی خبر آ گئی۔‘
مشاہد حسین ان کی بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چوہدری شجاعت نے صحیح لکھا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’بدقسمتی سے یہی چیزیں نقصان کی وجہ ہیں۔ ہم نے عوامی سطح پر موقف لیا، مذمت کی اور مشرف صاحب بہت ناراض ہوئے۔ ہم نے کہا کہ آپ نے غلط کیا، حالانکہ اس وقت ہم حکومت کا حصہ تھے۔‘
مشاہد حسین کہتے ہیں کہ ’چوہدری شجاعت کے بھائی وزیراعلیٰ تھے، بھائی صاحب اُن کی حمایت کر رہے تھے، لوگ کہتے ہیں فوجی آمر وغیرہ، وہ نظام کا حصہ ہوتے ہیں، لیکن آخرکار ذمہ داری ٹاپ مین پر آتی ہے۔ اگر نیچے بھی غلطی ہوئی تو ذمہ داری جنرل مشرف پر آتی ہے، وہ نمبر ون تھے۔ ان کے قریبی سخت گیر لوگ غالب آ گئے، یہ محدود سوچ تھی۔ اس سے نقصان ہوا۔‘
منیزے جہانگیر کا الزام ہے کہ ’جنرل مشرف مذاکرات نہیں چاہتے تھے۔ وہ صرف ایک بہانہ بنا رہے تھے کہ انھوں مذاکرات کی کوشش کی جو کہ ناکام رہی کیونکہ اکبر بگٹی صاحب نہیں چاہتے تھے (کہ مذاکرات کامیاب ہوں)۔ لیکن ایسا بالکل نہیں تھا۔‘
وہ کہتی ہیں ’جان دینا بہت مشکل کام ہے اور اُس وقت اکبر بگٹی کے لیے مذاکرت کا مطلب تھا زندہ رہنا۔ وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے اگر مذاکرات کامیاب ہوتے تو انھیں ایک زندگی مل جاتی۔‘
Getty Imagesافراسیاب خٹک
اسی حوالے سے افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ ’جو بات سیاسی لوگوں کے درمیان تھی وہ کامیاب رہی لیکن جب عملدرآمد کا وقت آیا، جو جنرلز کے ہاتھ میں تھا، تو ان معاہدوں پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔‘
صحافی شہزادہ ذوالفقارچوہدری شجاعت حسین کے ساتھ اپنی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انھوں نے ’چوہدری شجاعت سے پوچھا کہ رکاوٹ کیا تھی؟ تو انھوں (چوہدری شجاعت) نے ایوان صدر کی طرف اشارہ کیا کہ ’وہ نہیں چاہتے تھے۔‘
پرویز مشرف حکومت نواب اکبر بگٹی کو ایک جاگیردار سردار سمجھتی تھی جو اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے ترقی کی مخالفت کر رہا تھا۔
جنرل پرویز مشرف اس ضمن میں اپنے اوپر عائد کردہ تمام الزامات کو مسترد کرتے تھے اور کہتے تھے کہ بگٹی نے ریاست کو چیلینج کیا تھا۔
جنرل پرویز مشرف نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’بگٹی کہتے تھے کہ یہاں ایف سی نہیں چلے گی، انھوں نے اپنے بندے لگا دیے۔ ایک حکومت کی فوج کو چیلنج کر رہے ہیں، روک کر چیک کر رہے ہیں اور ان کے کیمپ پر راکٹ فائر کر رہے ہیں، یہ چیزیں اگر آپ کو قبول ہیں تو ہم ایسے آدمی کے ساتھ مذاکرات کرتے ہیں اور اگر وہ اپنی ڈیمانڈ اپنی دس گنا زیادہ کرتا ہے تو آپ بنانا رپبلک ہیں۔‘
پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ ’سب سے پہلے پاکستان ہے۔۔۔ اس کو جو چیلنج کرے گا اس کو مارا جائے گا۔ جو چیلنج نہیں کرے گا۔۔۔ جو پاکستان سے محبت کرتا ہے اگر وہ کوئی تجویز دے رہا ہے تو سو بسم اللہ، بات چیت کرتے ہیں، پاکستان کے لیے کی سب کچھ کریں گے۔‘
نواب اکبر بگٹی کے قتل کا مقدمہ جنرل پرویز مشرف سمیت دیگر کے خلاف دائر کیا گیا تھا تاہم بلوچستان ہائیکورٹ نے انھیں ان الزامات سے بری کر دیا تھا۔
بلوچستان بھر میں پھیلتی شورش
وہ سفر جو مذاکرات سے شروع ہوا تھا اب مزاحمت تک آگیا تھا، کوئٹہ سے لے کر کراچی تک نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت پر ردعمل سامنے آیا جس کا پہلا اظہار سڑکوں پر ہونے والے احتجاج تھے اور اس کے بعد بظاہر پہاڑوں پر موجود عسکریت پسندی کی سوچ کو فروغ ملا۔
بلوچستان میں بغاوت کی ایک ایسی لہر اٹھی جس میں وقت کے ساتھ ساتھ شدت آتی گئی اور اس نے فدائی حملوں اور پرتشدد واقعات کی شکل اختیار کرلی۔
بلوچستان کے سینیئر صحافی انور ساجدی کی رائے میں موجودہ شورش کی سب سے بڑی وجہ نواب اکبر کی ہلاکت ہے۔
’پہلے بلوچستان میں عسکریت پسندی ہوتی رہی ہے۔ سنہ 1948 میں ایک، دو سال اور پھر 1958 کے مارشل لا میں ایک، دو سال۔ پھر 1973 میں دو، تین سال۔ لیکن 2006 سے شروع ہونے والی لہر اب تک جاری ہے اور اس میں شدت آتی جا رہی ہے۔ پہلے یہ صرف چھوٹے چھوٹے علاقوں میں تھی، جو مری ایریا تھا یا جو جہالاواں میں مینگلوں کا علاقہ تھا، اب تو بہت سا بلوچستان اس کے دائرے میں آ چکا ہے۔'
صحافی انور ساجدی مزید بتاتے ہیں کہ 'اس میں قبائلی لوگوں کا کردار نہیں ہے، بلکہ عام عوام اور غریب لوگ ہیں جو مظالم برداشت کر رہے ہیں۔ سب سے بڑی وجہ نواب صاحب کی وفات ہے۔‘
تقریبا دو دہائیوں بعد بھی نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد پھیلی شورش صوبے بھر کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک ’وفاق پرست‘ بلوچ سیاست دان کی موت اگلی نسل کے بلوچ جنگجوؤں کے لیے ایک نعرہ بن گئی جو اس وقت پورے بلوچستان میں گونج رہا ہے۔
’میری تصویر اس طرح نہ لینا کہ دشمن سمجھے بگٹی کمزور ہو گیا‘بلوچستان میں پراری کیمپوں اور مزاحمتی تحریک کے بانی ’جنرل شیروف‘ مری کون تھے؟نواب اکبر بگٹی کا مجسمہ ’طوفانی بارشوں‘ سے گرا یا ’توڑا‘ گیا؟اسد اللہ مینگل: بلوچستان کا ’پہلا جبری لاپتہ‘ نوجوان جس کی موت تاحال ایک معمہ ہےبلوچستان کی ’ناراض بلوچ قیادت‘ کو حکومتی مذاکرات کی دعوت پر کیا تحفظات ہیں؟’بگٹی کی موت کو حادثہ کے طور پر قبول کیا جائے‘