چینی برآمد کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ چینی تو پہلے ہی ملک میں کم ہے اور ہماری ضرورت کے لیے ہی دستیاب نہیں ہے اب درآمد کی جارہی ہے۔ پاکستان میں یہ واقعہ پہلی مرتبہ رونما نہیں ہوا گزشتہ سال بھی اسی قسم کی واردات ہوچکی ہے لیکن یہ واردات چینی میں نہیں گندم میں ہوئی تھی۔
گندم اور چینی اسکینڈل میں فرق
چینی اور گندم کے معاملات میں فرق بس اتنا ہی ہے کہ چینی برآمد کرکے کچھ عناصر کو فائدہ پہنچایا گیا اور اب درآمد کرکے فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے، جب کہ گندم کی بمپر پیداوار ہوئی تھی اور پہلے کے ذخائر بھی موجود تھے لیکن اس کے باجود قلت ظاہر کرکے گندم درآمد کی گئی جس کے بعد ملک گندم گندم ہوگیا اور گندم کے انوکھے بحران نے جنم لیا، قیمتیں گر گئیں کسانوں کو نقصان ہوا اور ملکی خزانے کو بھی اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔
آڈیٹرجنرل آف پاکستان کی زیر نگرانی گندم بحران 2023.24کے حوالے سے خصوصی تحقیقات کی گئیں جس کی رپورٹ13 اگست کو جاری کردی گئی ہے اس رپورٹ میں مذکورہ گندم بحران کے حوالے سے ہوشربا انکشافات سامنے آئے ہیں۔
گندم کے وافر ذخائر کے باجود درآمد کیوں؟
رپورٹ کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے گزشتہ سال بڑے پیمانے پر غلط فیصلے کیے گئے، سال 2023 میں گندم کی پیداوار 3 کروڑ 14 لاکھ میٹرک ٹن ہوئی جو اس سے پچھلے سال 2022 کے 2 کروڑ 81 لاکھ میٹرک ٹن کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ اس کے باجود 24 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی اجازت دی گئی اور حیرت انگیز طور پر درآمدی اجازت سے بھی زیادہ 35 لاکھ 90 ہزار میٹرک ٹن گند م منگوایا گیا جب کہ 16 لاکھ 10 ہزار میٹرک ٹن کے اسٹاک بھی موجود تھے۔
صرف یہی نہیں 2022 میں بھی گندم 27 لاکھ میٹرک ٹن ایسے وقت میں درآمد کیا گیا جب گندم کی اپنی فصل تیار تھی۔ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ صوبوں کی جانب سے مارکیٹ میں بروقت گندم ریلیز نہیں کی گئی جس سے قلت کا تاثر ملا جب کہ کسانوں سے 2023 میں 25 فیصد اور 2024 میں 40 فیصد کم خریداری کی گئی پنجاب نے تو 2024 میں کسانوں سے بالکل خریداری ہی نہیں کی۔
غلط تخمینے بحران کی بنیاد بنے
حکومتی تخمینوں کے مطابق ملک بھر کی سالانہ انسانی خوراک کی ضرورت 2 کروڑ 87 لاکھ میٹرک ٹن ہے جب کہ جانوروں کا خواراک بیج اور اسٹریٹجک ذخائر کو بھی شامل کیا جائے تو 3 کروڑ 22 لاکھ میٹرک ٹن بنتا ہے۔ تاہم رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ اسٹریٹجک ذخائر کا تخمینہ 20 لاکھ میٹرک ٹن رکھا گیا ہے جو غیر حقیقی ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر گندم درآمد کیا گیا حالانکہ ملک بھر میں 335 گودام ہیں جس میں 5 لاکھ 72 ہزار میٹرک ٹن گندم ہی ذخیرہ ہوسکتا ہے۔ذخیرہ کرنے کی کم گنجائش کی وجہ سے زیادہ گندم درآمد کرکے 148 ارب روپے سے زائد مالیت کا گندم خراب ہونے کا خطرہ مول لیا گیا۔
افغانستان کی طلب کو بھی اسٹریٹجک ذخائر کا حصہ بنایا گیا
تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف ہو اہے کہ گندم کی مقامی ضرورت میں افغانستان کی طلب کو بھی شامل کیا جاتا ہے جس کی منطق سمجھ نہیں آتی۔ رپورٹ میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں روابط اور پالیسیوں میں یکسوئی کے فقدان کی نشاندہی کی گئی ہے جب کہ وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ، وزارت خزانہ، وزارت تجارت ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان، پاسکو سمیت دیگر اداروں کی مجرمانہ غفلت اور نااہلی کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور سفارش کی گئی ہے کہ ایسی منظم پالیسیاں مرتب کی جائیں کہ آئندہ اس قسم کے بحران جنم نہ لے اور نقصانات سے بھی بچا جاسکے۔