Getty Images
’ایک بار کامیابی مل جائے تو اگلی کامیابی آسان ہو جاتی ہے۔‘ انیل امبانی نے یہ بات سنہ 2004 میں بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی تھی۔
یقیناً اس وقت وہ ریلائنس انڈسٹریز کے لیے کام کر رہے تھے جس کی بنیاد ان کے والد دھیرو بھائی امبانی نے رکھی تھی اور انھیں اپنے بڑے بھائی مکیش امبانی کی حمایت حاصل تھی۔
لیکن اگلے چند مہینوں میں حالات تیزی سے بدل گئے اور دونوں بھائیوں نے خاندانی کاروبار کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا۔
انیل امبانی کو وہ ملا جو وہ چاہتے تھے یا جو ان کی شخصیت کی عکاسی کرتا تھا جیسے ٹیلی کام، مالیاتی خدمات اور توانائی جیسے نئے دور کے کاروبار۔
اگرچہ ریلائنس گروپ کا بنیادی کاروبار پیٹرو کیمیکل تھا لیکن انیل امبانی جو اس وقت انتہائی پر اعتماد تھے، انھیں ان نئے دور کے کاروباروں میں ترقی کے زیادہ امکانات نظر آئے۔
انڈیا ٹیلی کام انقلاب کے عروج پر تھا اور توانائی، انشورنس اور مالیاتی خدمات میں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے اپنے دروازے کھول رہا تھا۔
ایسے میں انیل امبانی نے 2006 میں انیل دھیرو بھائی امبانی گروپ (ADAG) قائم کیا۔
بہت سے تجزیہ کار انیل کی قیادت میں ریلائنس گروپ پر بھی شرط لگا رہے تھے۔ 2008 میں انھوں نے ریلائنس پاور کا آئی پی او لانچ کیا۔
یہ انڈین سٹاک مارکیٹ کے لیے ایک تاریخی لمحہ تھا کیونکہ آئی پی او کو صرف چند منٹ میں اوور سبسکرائب کر دیا گیا۔
پیش کردہ حصص کی تعداد سے تقریباً 69 گنا کے لیے بولیاں لگائی گئیں۔ یہ اس وقت انڈیا کا سب سے بڑا آئی پی او تھا۔
2008 میں فوربز میگزین کے ایک سروے میں انیل امبانی 42 ارب ڈالر کی مجموعی مالیت کے ساتھ دنیا کے چھٹے امیر ترین شخص تھے۔
Getty Imagesتقریباً 22 سال قبل مکیش امبانی اور انیل امبانی کے درمیان دولت کی تقسیم کی لمبی لڑائی ہوئی تھیداؤ ناکام ہونے لگے
پنسلوانیا کی وارٹن یونیورسٹی سے ایم بی اے کرنے والے انیل امبانی نے ایک پاور کمپنی بنائی لیکن ان کی اپنے بڑے بھائی مکیش امبانی سے لڑائی ختم نہیں ہوئی اور یہ لڑائیاں اس کاروبار کی راہ میں آ گئیں۔
سینیئر کاروباری صحافی پون کمار کہتے ہیں کہ انیل امبانی نے دادری گیس پروجیکٹ شروع کیا تھا۔ اس کے لیے کرشنا گوداوری بیسن (KGD-6) سے سستے نرخوں پر گیس حاصل کی جانی تھی۔ کے جی ڈی 6 کے مالکانہ حقوق مکیش امبانی کے پاس تھے۔ انھوں نے سستے نرخوں پر گیس دینے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ لڑائی سپریم کورٹ تک پہنچی۔‘
2010 میں سپریم کورٹ نے بھائیوں (انیل اور مکیش) کو خاندانی تصفیہ پر دوبارہ بات چیت کرنے کا حکم دیا۔ اس کے ساتھ عدالت نے گیس کی قیمت مقرر کرنے کا حق بھی حکومت کو دے دیا۔
نئے معاہدے کے مطابق گیس کی قیمت 4.2 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو (ملین میٹرک برٹش تھرمل یونٹ) مقرر کی گئی جبکہ سنہ 2005 میں دونوں بھائیوں نے 17 سال کے لیے قیمت 2.34 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کی تھی۔
اس کے علاوہ انیل امبانی نے جنوبی افریقہ کی ٹیلی کام کمپنی ایم ٹی این کے ساتھ معاہدہ کرنے کی کوشش کی لیکن یہ معاہدہ بھی کامیاب نہ ہو سکا۔
ٹیلی کام میں توسیع کے بہت زیادہ امکانات تھے لیکن اس کے لیے بھی بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت تھی۔
بزنس جرنلسٹ اسیم منچندا کہتے ہیں کہ ’ایسا لگ رہا تھا کہ انیل امبانی کے داؤ بیک فائر کرنے لگے ہیں۔ انیل ایسے پروجیکٹس میں کودتے تھے جن کے لیے ہزاروں کروڑ روپے درکار ہوتے تھے۔ وہ بیرون ملک کمپنیاں خریدنے اور اپنی سلطنت کو بڑھانے میں بے دریغ خرچ کر رہے تھے۔‘
اور پھر 2008 میں امریکہ میں لیمن برادرز کے خاتمے سے پوری دنیا معاشی کساد بازاری کی زد میں آ گئی۔ انیل امبانی بھی اس سے بچ نہ سکے۔
صحافی پون کمار کا کہنا ہے کہ ’لیمن برادرز کیس کے بعد انڈیا میں بھی بینکنگ سیکٹر کے لیے قوانین سخت کر دیے گئے، صنعت کاروں کو بھی قرضے حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انیل امبانی اپنے کاروبار کو بڑھا رہے تھے اور انھیں سرمائے کی ضرورت تھی لیکن اب انھیں اس کی شدید کمی تھی۔‘
2011 میں مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) نے مبینہ ٹو جی سپیکٹرم بدعنوانی میں انل امبانی سے پوچھ گچھ کی تھی۔
مکیش امبانی دنیا کی بڑی کاروباری شخصیات کو ایک چھت تلے جمع کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟ایلون مسک بمقابلہ مکیش امبانی: انڈیا میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ فراہم کرنے کے لیے ارب پتی کاروباری افراد کے درمیان جاری دلچسپ جنگکیا انڈیا کی دیوالیہ نجی کمپنی رفال جنگی طیارے تیار کر سکے گی؟رادھیکا مرچنٹ: انڈیا کے امیر ترین امبانی خاندان کی ہونے والی چھوٹی بہو کون ہیں؟شاہانہ انداز
جیسے ہی انیل نے ریلائنس انیل دھیرو بھائی امبانی گروپ کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا، ان کے کام کرنے کا شاہانہ انداز واضح طور پر نظر آنے لگا۔
انیل امبانی اکثر میڈیا میں خبروں میں رہتے تھے۔
اسیم منچندا کہتے ہیں کہ ’انیل امبانی اپنے ٹیلی کام کاروبار سے متعلق چھوٹے اعلانات کے لیے بھی پریس کانفرنسز بلایا کرتے تھے۔ وہ اپنے عہدیداروں سے تفصیلی پریزنٹیشن مانگتے تھے۔‘
ایک واقعے کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’وہ اکثر دہلی میں ٹیلی کمیونیکیشن کی وزارت جایا کرتے تھے۔ کبھی کبھی وہ اس کے قریب واقع نیوز ایجنسی یو این آئی کی کینٹین جاتے اور وہاں صحافیوں سے ملاقات کرتے۔‘
وہ امیتابھ بچن سمیت کئی بالی ووڈ ستاروں کے قریب تھے اور اکثر سماج وادی پارٹی کے رہنما امر سنگھ کے ساتھ بھی دیکھے جاتے تھے۔
انیل امبانی کی بالی ووڈ سے طویل وابستگی تھی۔ انھوں نے 1991 میں مشہور اداکارہ ٹینا منیم سے شادی کی ۔اپنے کاروبار کو وسعت دیتے ہوئے انیل امبانی نے انٹرٹینمنٹ کے میدان میں بھی قدم رکھا۔
انھوں نے فلم ساز سٹیون سپیلبرگ کے ڈریم ورکس سٹوڈیوز کے ساتھ شراکت میں فلمیں تیار کیں۔
انھوں نے ملٹی پلیکس چین ایڈلیب خریدی اور 2008 تک انڈیا اور بیرون ملک 700 سکرینوں کے ساتھ سب سے بڑے ملٹی پلیکس کے مالک بن گئے۔
Getty Imagesریلائنس کمیونیکیشنز
جب ریلائنس انفو کام کو 2002 میں لانچ کیا گیا تو اس نے سی ڈی ایم اے (Code Division Multiple Access)ٹیکنالوجی کا انتخاب کیا۔
یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ ایک ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی ہے اور ایئر ٹیل اور ہچیسن جیسے مسابقتی آپریٹرز کی جی ایس ایم (Global System for Mobile) ٹیکنالوجی سے بہتر ہے۔
لیکن سی ڈی ایم اے صرف 2G اور 3G تک محدود تھا اور جب انڈیا میں 4G اور بعد میں 5G خدمات شروع کی گئیں تو آر کام (RCom) پیچھے رہ گئی۔
حالات ایسے بن گئے کہ کمپنی نے ٹیلی کام کا کاروبار چھوڑ دینا ہی بہتر سمجھا۔
انیل امبانی نے ستمبر 2018 میں ریلائنس کمیونیکیشن کی سالانہ شیئر ہولڈر میٹنگ میں اعلان کیا کہ ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس شعبے میں مزید آگے نہیں بڑھیں گے۔‘
لیکن انیل کی مشکلات کم ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔
اسیم منچندا بتاتے ہیں کہ ’انیل نے اپنے ٹیلی کام اثاثے اپنے بڑے بھائی مکیش کے ریلائنس جیو (Reliance Jio) کو 18,000 کروڑ روپے میں فروخت کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی لیکن یہ معاہدہ اس وقت ٹوٹ گیا جب ٹیلی کمیونیکیشن کے محکمے نے اصرار کیا کہ ریلائنس جیو کو ریلائنس کمیونیکیشن کے واجبات بھی ادا کرنے ہوں گے، جسے ریلائنس جیو نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔‘
رفال معاہدہ
انیل امبانی نے 2015 میں پیپاو ڈیفینس اینڈ آف شور انجینئرنگ (Pipavav Defence and Offshore Engineering) کو 2,082 کروڑ روپے میں خریدا۔
ان کا ارادہ دفاعی شعبے میں آنے کا تھا لیکن یہاں بھی تنازعات نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔
اپوزیشن پارٹی کانگریس نے انیل امبانی پر رفال طیاروں کے سودے میں غیر منصفانہ فائدہ اٹھانے کا الزام لگایا۔
راہل گاندھی نے 7 مارچ 2019 کو دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’رفال سودے میں تاخیر ہوئی تاکہ انیل امبانی کو 30 ہزار کروڑ روپے مل سکیں۔ اگر یہ سودا ہماری حکومت کے معاہدے کے مطابق ہوتا تو رفال طیارے اب تک انڈیا میں ہوتے۔‘
سوال یہ ہے کہ کیا انیل امبانی کی کمپنیاں کاروباری مندی کا شکار ہوئیں یا بدانتظامی کی وجہ سے ان کا یہ انجام ہوا؟
صحافی پون کمار کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں یہ دونوں وجوہات تھیں۔ انیل امبانی اپنے کاروبار پر توجہ نہیں دے سکے، اگر وہ ایک کاروبار میں ناکام ہوتے تو دوسرے کاروبار کا رخ کرتے۔ یقیناً انھوں نے ہر اس کاروبار میں قدم رکھا جو منافع بخش سودا ہو سکتا تھا، لیکن کاروبار کو چلانے کے لیے کافی سرمائے کی ضرورت تھی، جو ان کے پاس نہیں تھا۔‘
Getty Imagesانیل امبانی کا شمار ایک مرحلے پر انڈیا کے دس بڑے ارب پتی افراد میں ہوتا تھا لیکن اس وقت وہ انتہائی برے دور سے گزر رہے ہیںکمپنیوں کی خراب حالت
انیل امبانی جو کبھی دنیا کے چھٹے امیر ترین شخص تھے، اب قرض فراڈ سے لے کر منی لانڈرنگ تک کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
2020 میں چینی بینکوں کے قرض سے متعلق ایک تنازعہ پر انگلینڈ کی ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران انیل امبانی نے اعتراف کیا کہ وہ دیوالیہ ہو چکے ہیں اور قرض ادا کرنے سے قاصر ہیں۔
انیل کے وکیل نے اپنی دلیل میں کہا تھا کہ ’انیل امبانی دیوالیہ ہو چکے ہیں، اس لیے وہ واجبات ادا نہیں کر سکتے۔ یہاں تک کہ ان کے خاندان والے بھی ان کی مدد نہیں کر سکیں گے۔‘
دریں اثنا انیل امبانی کی کمپنیوں سے منسلک 17000 کروڑ روپے کے مبینہ لون فراڈ کی تحقیقات جاری ہیں۔
انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے منی لانڈرنگ کیس میں انیل امبانی سے بھی پوچھ گچھ کی۔
اس سے نہ صرف ان کی گروپ کمپنیوں کے شیئر ہولڈرز کو جھٹکا لگا بلکہ انیل کے اپنے باقی ماندہ حصص کی قیمت بھی ختم ہو رہی ہے۔
ریلائنس انفراسٹرکچر کے حصص میں پچھلے ایک مہینے میں 28 فیصد کی کمی آئی ہے جبکہ ریلائنس پاور کے حصص پچھلے پانچ چھ تجارتی سیشنز میں تقریباً 20 فیصد گر گئے ہیں۔
مکیش امبانی کی بیٹی کو اہم ذمہ داری، وراثت کی منصوبہ بندی یا انڈیا میں سوچ کی تبدیلی؟کیا انڈیا کی دیوالیہ نجی کمپنی رفال جنگی طیارے تیار کر سکے گی؟مکیش امبانی دنیا کی بڑی کاروباری شخصیات کو ایک چھت تلے جمع کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟ایلون مسک بمقابلہ مکیش امبانی: انڈیا میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ فراہم کرنے کے لیے ارب پتی کاروباری افراد کے درمیان جاری دلچسپ جنگرادھیکا مرچنٹ: انڈیا کے امیر ترین امبانی خاندان کی ہونے والی چھوٹی بہو کون ہیں؟