Getty Imagesانڈیا کے وزیر برائے ایوی ایشین امور نے کہا کہ رواں سال ریگولیٹری اور جیو پولیٹیکل مسائل کی وجہ سے 2,458 پروازیں منسوخ یا ری شیڈول کی گئیں
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں شدت پسندوں کے حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی ابھی تک ختم نہیں ہو سکی۔
پاکستان اور انڈیا نے اس کشیدگی کے نتیجے میں اپنی اپنی فضائی حدود کو ایک دوسرے کی پروازوں کے لیے بند کر دیا تھا اور تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی ابھی تک دونوں ملکوں کے درمیان موجود فضائی روٹس کی بحالی ممکن نہیں ہو سکی۔
تاہم دونوں ملکوں کے حکام نے فضائی حدود کی بندشوں کے باعث ہونے والے نقصان کا اعتراف کیا ہے۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بتایا ہے کہ 24 اپریل سے 30 جون 2025 تک انڈین پروازوں کے لیے فضائی حدود کی بندش سے پاکستان کی آمدن میں4.1 ارب روپے کی کمی ہوئی جبکہ اس سے ایک دن قبل یعنی جمعرات کے روز انڈیا کے وزیر برائے ایوی ایشین امور نے کہا تھا کہ اس سال ریگولیٹری اور جیو پولیٹیکل مسائل کی وجہ سے 2,458 پروازیں منسوخ یا ری شیڈول کی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب پاکستان اور انڈیا نے ایک دوسرے کے لیے اپنی اپنی فضائی حدود کو بند کیا ہو۔
فروری 2019 میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں نیم فوجی اہلکاروں پر ایک حملے کے بعد انڈیا نے پاکستان کے علاقے بالاکوٹ میں شدت پسندوں کے ٹھکانے پر فضائی حملہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ پاکستان کی جانب سے انڈیا کا جنگی طیارہ گِرایا گیا تھا۔
اس برس بھی دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے لیے اپنی اپنی فضائی حدود بند کر دی تھی۔
سنہ 2019 میں انڈیا کے وزیر ہوا بازی ہردیپ سنگھ پوری نے پارلیمان کو بتایا تھا کہ ایئر انڈیا، سپائس جیٹ، انڈیگو اور گو ایئر جیسی انڈین ایئرلائنز کو پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے آٹھ کروڑ ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
مختلف رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان کو اس فضائی بندش سے 10 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا تاہم گذشتہ روز خواجہ آصف نے یہ واضح کیا کہ سنہ 2019 میں انڈیا کے لیے فضائی حدود کی بندش سے پاکستان کی اس مد میں آمدن میں پانچ کروڑ 40 لاکھ امریکی ڈالر کی کمی ہوئی تھی۔
Getty Imagesوزیر دفاع نے بتایا کہ 24 اپریل سے 30 جون 2025 تک انڈین پروازوں کے لیے فضائی حدود کی بندش سے پاکستان کی آمدن میں4.1 ارب روپے کی کمی ہوئیپاکستان کو اس بندش سے کیا نقصان ہوا؟
فضائی حدود کی اس بندش کا تذکرہ گذشتہ روز پاکستان کی قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں بھی ہوا، جب وزیر دفاع خواجہ آصف سے اس بارے میں سوال کیا گیا۔
پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی رکن پارلیمان شرمیلا فاروقی نے پاکستان کے وزیر دفاع سے سوال کیا کہ فضائی حدود کی بندش کے حوالے سے رپورٹس ہیں کہ پاکستان کی سول ایوی ایشن کو 8.5 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ آپ کی وزارت نے فلائٹ فیس کی وصولی کی مد میں ہونے والے اس نقصان سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟
اپنے جواب میں خواجہ آصف نے نہ صرف انڈیا کے لیے فضائی حدود بند کرنے کے فیصلے کا دفاع کیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ پاکستان کو اس سے نقصان نہیں ہوا بلکہ اس کی ’آمدن میں کمی‘ ہوئی۔
خواجہ آصف نے ان رپورٹس کی تردید کی کہ پاکستان کو اس بندش سے 8.5 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
وزیر دفاع نے بتایا کہ 24 اپریل سے 30 جون 2025 تک انڈین پروازوں کے لیے فضائی حدود کی بندش سے پاکستان کی آمدن میں 4.1 ارب روپے کی کمی ہوئی۔
خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ ’اگرچہ اس سے پاکستان کو کچھ معاشی دھچکے کا سامنا کرنا پڑا لیکن جب بات اپنی خود مختاری اور قومی سلامتی کی ہو تو کوئی بھی قیمت زیادہ نہیں۔ اپنے ملک کا دفاع ہمیشہ اہم رہے گا۔‘
اس کے علاوہ پاکستانی ایئرلائنز کے بعض روٹ متاثر ہوئے ہیں۔
ماہرین کے مطابق انڈین فضائی حدود کی پاکستانی پروازوں کے لیے بندش کے بعد پاکستان کی ایئرلائنز کا کوئی خاص خسارہ نہیں ہوا کیونکہ پی آئی اے کی ہفتے میں چھ پروازوں کے علاوہ کوئی ایئر لائنز انڈین فضائی حدود استعمال ہی نہیں کرتی تھیں۔
پی آئی اے ترجمان نے صحافی تنویر ملک کو بتایا تھا کہ پی آئی اے کی ہفتے میں تین پروازیں پاکستان سے کوالالمپور جاتی ہیں اور تین پروازیں کوالالمپور سے پاکستان آتی ہیں۔
پی آئی اے ترجمان نے بتایا تھا کہ کوالالمپور کے لیے پی آئی اے کی پرواز اب چین کے روٹ سے جاتی ہیں جس سے مسافت اور ایندھن کی لاگت بڑھی ہے۔
پاکستان ایئر پورٹ اتھارٹی کے ترجمان نے کہا تھا کہ انڈین فضائی حدود بند ہونے سے پاکستان ایئر لائنز انڈسٹری کے لیے مالی خسارہ نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ انڈین فضائی حدود استعمال کرنے والی پاکستانی پروازوں کا حجم بہت کم ہے۔
کیا انڈین فضائی حدود کی بندش سے پاکستانی ایئرلائنز متاثر ہوں گی؟ساڑھے چار سال کی پابندی کے بعد پی آئی اے پرواز کی یورپ روانگی: مگر اس پابندی سے قومی ایئرلائن کو کتنے ارب کا نقصان اٹھانا پڑا؟ایئر انڈیا حادثے کی ابتدائی رپورٹ، فیول سوئچ بند ہونے کا معمہ اور اہم معلومات کی عدم دستیابی جو قیاس آرائیوں کو جنم دے رہی ہےپی کے 8303 کی تباہی: ’کپتان چیخا مے ڈے، مے ڈے، طیارہ مڑا مگر پائلٹس کو اندازہ ہو چکا تھا کہ رن وے تک پہنچنا ممکن نہیں‘انڈیا کو کیا نقصان ہوا؟
انڈیا سے وسطی و مغربی ایشیا، یورپ، برطانیہ اور امریکہ جانے والی پروازیں بحیرۂ عرب یا وسطی ایشیا کے طویل راستے کی بجائے عموماً پاکستان کی فضائی حدود کا استعمال کرتی ہیں۔
جب انڈین ایئرلائنز اس کا متبادل روٹ استعمال کرتی ہیں تو ان کے اخراجات جیسے ایندھن پر اٹھنے والے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔
پاکستان کی جانب سے فضائی حدود بند کرنے کے بعد انڈیا سے مغربی روٹ استعمال کرنے والی سب سے بڑی ایئرلائن ایئر انڈیا کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اس اقدام سے ’شمالی امریکہ، برطانیہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ جانے یا وہاں سے آنے والی پروازوں کو متبادل طویل روٹ استعمال کرنا پڑے گا۔‘
ایوی ایشن سروس ’سیریئم‘ نے انڈین نیوز ویب سائٹ لائیو منٹ کو بتایا تھا کہ اس اقدام سے سب سے زیادہ ایئر انڈیا اور دلی ایئرپورٹ متاثر ہوں گے۔
اس کے ڈیٹا کے مطابق دلی سے ایئر انڈیا کی یورپ اور شمالی امریکہ کے لیے ہفتہ وار 134 پروازیں اڑان بھرتی ہیں جو پاکستانی فضائی حدود استعمال کرتی ہیں۔
سیریئم کے مطابق دلی ایئرپورٹ سے سعودی، متحدہ عرب امارات، عمان، کویت، قطر اور بحرین کے لیے ہفتہ وار 144 پروازیں اڑان بھرتی ہیں اور یہ بھی پاکستانی فضائی حدود استعمال کرتی ہیں۔
یعنی ایک اندازے کے مطابق ایک ہفتے میں دلی ایئرپورٹ پر قریب 300 پروازیں متاثر ہوں گی جس میں اخراجات میں اضافے کے علاوہ پروازوں کی آمد اور روانگی کے اوقات میں تبدیلی شامل ہے۔
جون کے مہینے میں ایئر انڈیا کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے کہا تھا کہ پاکستان کی فضائی حدود کی بندش سے ایئر لائن کے فضائی اخراجات میں اضافہ ہوا۔
ایئر انڈیا کے سی ای او کیمبل ولسن نے بلومبرگ کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’اس کا واقعی اثر پڑا لیکن ہم شمالی امریکہ اور یورپ میں زیادہ تر مقامات پر نان سٹاپ آپریشنز برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’یہ لازمی طور پر ہمیں مالیاتی طور پر اثر انداز کرے گا۔‘
دوسری جانب سات اگست کو انڈیا کے وزیر برائے ایوی ایشین امور نے لوک سبھا میں بتایا کہ اس سال ریگولیٹری اور جیو پولیٹیکل مسائل کی وجہ سے 2,458 پروازیں منسوخ یا ری شیڈول کی گئیں۔
اپنے تحریری جواب میں ہوابازی کے وزیر مملکت مرلیدھر موہول نے کہا کہ تاخیر اور منسوخی کی وجہ سے ایئر لائنز کو اضافی ایندھن، عملے کے اوور ٹائم، دیکھ بھال، ایئر پورٹ کی فیس اور ری بکنگ کی مد میں زیادہ اخراجات کرنا پڑتے ہیں۔
Reutersزیادہ تر ممالک اپنی اپنی فضائی حدود کو غیر ملکی ایئر لائنز کو 'کرائے پر' دیتے ہیں اور وہ ایئر لائنز اس کے ذریعے پرواز کر سکتی ہیں’اوور فلائٹ فیس‘ کیا ہوتی ہے؟
ایئر لائنز کسی بھی ملک کے اوپر سے پرواز کرنے کے عوض ایک فیس ادا کرتی ہیں جسے ’اوور فلائٹ فیس‘ کہا جاتا ہے۔ جیسے کسی بھی ملک کو اپنی زمین کے حقوق حاصل ہوتے ہیں ویسے ہی انھیں اپنی فضائی حدود پر بھی مالکانہ حقوق حاصل ہوتے ہیں۔
زیادہ تر ممالک اپنی اپنی فضائی حدود کو غیر ملکی ایئر لائنز کو ’کرائے پر‘ دیتے ہیں اور وہ ایئر لائنز اس کے ذریعے پرواز کر سکتی ہیں۔
کچھ ممالک ہوائی ٹریفک کنٹرول کی سروسز بھی فراہم کرتے ہیں۔ فیس کا کچھ حصہ ان سروسز کے لیے بھی ہوتا ہے۔
دیگر ملکوں کی طرح پاکستان کے لیے بھی ایئرلائنز سے موصول ہونے والا یہ فضائی کرایہ آمدن کا ذریعہ ہیں۔ پاکستان غیر ملکی طیاروں کے ٹیک آف کے وقت وزن اور کلومیٹرز میں پرواز کے فاصلے کے اعتبار سے اوورفلائٹ فیس کا تعین کرتا ہے۔
بعض اوقات ایئر لائنز اس نوعیت کی فیس سے بچنے کے لیے لمبے روٹس بھی اپناتی ہیں لیکن کسی فضائی حدود سے بچنا اتنا آسان بھی نہیں کیونکہ یہ کسی ملک کے سائز سے بھی زیادہ بڑی ہو سکتی ہے۔
مثال کے طور پر امریکہ کی فضائی حدود فلپائن تک پھیلی ہوئی ہے لیکن زمین کے اوپر پرواز کرنے کے مقابلے سمندر پر پرواز کرنے سے کم خرچ آتا ہے۔
اگرچہ پانی کے اوپر سے پرواز کرنے میں کم لاگت آتی ہے لیکن اس کے باوجود کچھ ایئر لائنز کو اب بھی امریکہ کو ادائیگی کرنی پڑتی ہے، چاہے وہ صرف آسٹریلیا سے جاپان ہی جا رہی ہوں۔
کیا انڈین فضائی حدود کی بندش سے پاکستانی ایئرلائنز متاثر ہوں گی؟پی کے 8303 کی تباہی: ’کپتان چیخا مے ڈے، مے ڈے، طیارہ مڑا مگر پائلٹس کو اندازہ ہو چکا تھا کہ رن وے تک پہنچنا ممکن نہیں‘’پیرس ہم آ رہے ہیں‘: پی آئی اے کے ’احمقانہ‘ اشتہار کا خیال کسے آیا، تحقیقات شروعساڑھے چار سال کی پابندی کے بعد پی آئی اے پرواز کی یورپ روانگی: مگر اس پابندی سے قومی ایئرلائن کو کتنے ارب کا نقصان اٹھانا پڑا؟ایئر انڈیا حادثے کی ابتدائی رپورٹ، فیول سوئچ بند ہونے کا معمہ اور اہم معلومات کی عدم دستیابی جو قیاس آرائیوں کو جنم دے رہی ہے