وفاق اور پنجاب میں نئی فورسز کا قیام، سکیورٹی پالیسی یا سیاسی مخالفین کو دبانے کی کوشش؟

اردو نیوز  |  Jul 16, 2025

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں میں مسلم لیگ ن کی حکومت مختلف یونیفارمڈ فورسز کو متعارف کروا رہی ہے۔ ان نئی فورسز میں آخری اضافہ پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (پیرا) کے نام سے ہوا ہے۔

اس اتھارٹی اور فورس کا افتتاح وزیراعلیٰ مریم نواز نے منگل (14 جولائی) کو کیا تھا۔ اسی طرح ہجوم کو کنٹرول کرنے لیے پولیس رائٹس مینجمنٹ پولیس (آر ایم پی) بھی تشکیل پا چکی ہے۔

رواں برس کے آغاز میں سی سی ڈی نام کی ایک پولیس فورس تشکیل دی گئی جو پنجاب بھر میں عادی مجرموں کے خلاف سرگرم ہے جبکہ ماحولیاتی قوانین پر عمل درآمد کے لیے بھی ایک ماحولیاتی فورس کی تخلیق ہو چکی ہے۔

دوسری جانب حال ہی میں مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت نے فرنٹیئر کانسٹیبلری کو ایک آرڈیننس کے ذریعے فیڈرل کانسٹبلری میں تبدیل کر دیا ہے۔

اس اقدام کو ماہرین ملک کی مجموعی سکیورٹی پالیسی میں ایک اہم موڑ  قرار دے رہے ہیں تاہم، اپوزیشن، خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف نے ان فورسز بالخصوص آر ایم پی کو ’آمرانہ پولیس‘ قرار دیتے ہوئے انہیں موجودہ حکومت کے اقتدار کو طول دینے کی کوشش قرار دیا ہے۔

پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی

پیرا یعنی پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کو پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیشن ایکٹ 2024 کے تحت 14 جولائی 2025 کو باقاعدہ طور پر لانچ کیا گیا جس کی منظوری 17 اکتوبر 2024 کو پنجاب اسمبلی نے دی تھی۔

یہ اتھارٹی جس کی سربراہی وزیراعلیٰ مریم نواز کر رہی ہیں، صوبے میں مصنوعی مہنگائی، تجاوزات اور ذخیرہ اندوزی جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے بنائی گئی ہے۔

اس کے  ڈائریکٹر جنرل کیپٹن (ریٹائرڈ) فرخ عتیق خان ہیں اور اسے صوبائی، ڈویژنل، ضلعی، اور تحصیل کی سطح پر منظم کیا گیا ہے۔

سی سی ڈی نامی پولیس کا ذیلی ادارہ جسے رواں سال فروری میں ایک آرڈیننس کے ذریعے لانچ کیا گیا (فائل فوٹو: سی ایم ہاؤس، پنجاب)یہ فورس قیمتوں پر کنٹرول کرنے کے لیے  پنجاب پرائس کنٹرول آف ایسنشیئل کموڈٹیز ایکٹ 2024 اور پنجاب پریوینشن آف ہوارڈنگ ایکٹ 2020 کے تحت قوانین پر عمل درآمد کروائے گی۔ اسی طرح  سرکاری املاک سے ناجائز قبضہ ہٹانےجیسے اقدامات بھی اس نئی فورس کے ذریعے کیے جائیں گے۔

پیرا کے تحت ہر تحصیل میں انفورسمنٹ سٹیشنز قائم کیے گئے ہیں جہاں انفورسمنٹ آفیسرز اور ہیرنگ آفیسرز کام کرتے ہیں۔ یہ آفیسرز تجاوزات کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، جن میں ریموول آرڈر جاری کرنا اور ضروری ہونے پر طاقت کا استعمال شامل ہے۔

قیمتوں کی نگرانی کے لیے اے آئی پر مبنی نظام استعمال کیا جا رہا ہے اور عوامی شکایات کے لیے انٹرایکٹو کیوسک بنائے گئے ہیں۔  اس کے ساڑھے 8 ہزار  اہلکار لاہور ڈویژن سے آپریشن شروع کر چکے ہیں اور دسمبر 2025 تک پورے پنجاب میں پھیل جائیں گے۔

پاکستان کی پہلی رائٹس مینجمنٹ پولیس

رائٹس مینجمنٹ پولیس (آر پی ایم) جسے پاکستان کی پہلی خصوصی ہجوم کنٹرول فورس کے طور پر جولائی 2025 میں متعارف کرایا گیا، یہ پنجاب کے شہری علاقوں میں ہنگامہ آرائی اور حساس تنصیبات کی حفاظت کے لیے بنائی گئی ہے۔

پانچ ہزار اہلکاروں پر مشتمل اس فورس کے تین ہزار اہلکاروں کو تربیت دی جا چکی ہے۔ یہ فورس جدید آلات سے لیس ہے جن میں غیرمہلک ہتھیار، ڈرونز اور ہجوم کنٹرول کے جدید آلات شامل ہیں۔

روئٹس مینیجمنٹ فورس لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی جیسے بڑے شہروں میں تعینات ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)اس فورس کو تربیت دینے کے لیے امریکہ ، ترکیہ اور یورپ کے مینوئلز استعمال کیے گئے ہیں۔ اس فورس کا مقصد عوامی احتجاج اور ہنگاموں سے نمٹنا، حساس تنصیبات جیسا کہ سرکاری عمارات اور سفارتی دفاتر کی حفاظت اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔

یہ فورس لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی جیسے بڑے شہروں میں تعینات ہے۔ اس کے آپریشنزاے آئی پر مبنی نگرانی، ہجوم کی نقل و حرکت کی نگرانی، اور فوری ردعمل شامل ہیں۔

تاہم اپوزیشن نے آر ایم پی کو ’آمرانہ پولیس‘ قرار دیتے ہوئے اس کے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

پنجاب کے اپوزیشن لیڈر ملک احمد بھچر کا کہنا ہے کہ اس فورس کا قیام سیاسی احتجاج کو دبانے کے لیے خاص طور پر 5 اگست کے مجوزہ مظاہروں کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ یہ کسی صورت قبول نہیں ہے۔

کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ

سی سی ڈی نامی پولیس کا ذیلی ادارہ جسے رواں سال فروری میں ایک آرڈیننس کے ذریعے لانچ کیا گیا اور اس وقت پنجاب بھر میں پولیس مقابلوں کی وجہ سے اخباری اور سوشل میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

سی سی ڈی کو فروری 2025 میں پولیس (ترمیمی) آرڈیننس 2025 کے تحت پنجاب پولیس کے ایک خصوصی ونگ کے طور پر قائم کیا گیا۔ یہ فورس سنگین اور منظم جرائم جیسے اغوا، بھتہ خوری، قتل اور زمینوں پر قبضے سے نمٹنے کے لیے بنائی گئی ہے۔

سی سی ڈی کے تحت ہر ضلعے میں سٹیشنز قائم کیے گئے ہیں جن میں لاہور میں تین علاقائی مراکز شامل ہیں۔ اس فورس کے ابتدائی طور پر ساڑھے چار ہزار  اہلکار ہیں جو ایڈیشنل انسپکٹر جنرل کی قیادت میں کام کرتے ہیں۔  

ماحولیاتی فورس

پنجاب میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے ماحولیاتی فورس کو  بھی رواں برس متعارف کرایا گیا ہے جو پنجاب انوائرنمنٹل پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے تحت کام کرتی ہے۔

یہ فورس ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزیوں جیسے صنعتی آلودگی، غیرقانونی کٹائی اور فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے بنائی گئی ہے۔

پنجاب کے اپوزیشن لیڈر ملک احمد بھچر کا کہنا ہے کہ آر پی ایم کا قیام سیاسی احتجاج کو دبانے کے لیے ہے (فائل فوٹو: پنجاب اسمبلی)ماحولیاتی فورس کے اہلکاروں کو جدید مانیٹرنگ آلات جیسے ایئر کوالٹی سینسرز اور ڈرونز دیے گئے ہیں۔ یہ فورس فیکٹریوں، تعمیراتی سائٹس اور شہری علاقوں میں آلودگی کی نگرانی کرتی ہے۔ پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے یہ فورس ماحولیاتی جرائم کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی مجاز بھی ہےْ

فیڈرل کانسٹیبلری

دو روز قبل مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت نے فرنٹئیر کانسٹیبلری (ری آرگنائزیشن) آرڈیننس 2025 کے ذریعے فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی)کو فیڈرل کانسٹیبلری میں تبدیل کر دیا ہے۔

یہ فورس جو پہلے خیبرپختونخوا اور سابقہ فاٹا میں سرحدی سکیورٹی اور سمگلنگ کی روک تھام کے لیے کام کرتی تھی، اب پورے پاکستان میں فعال ہو گی۔

ناقدین اس فورس کو 18ویں ترمیم جس میں صوبوں کو خود مختاری دی گئی ہے، اس کے لیے ایک رکاوٹ قرار دے رہے ہیں۔

اس نئی ایف سی کا مقصد ملک کی داخلی سکیورٹی کو مضبوط کرنا، ہجوم کو کنٹرول کرنا، دہشت گردی اور سمگلنگ سے نمٹنا اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کرنا شامل ہے۔

فیڈرل کانسٹیبلری دو حصوں میں تقسیم ہے سکیورٹی ڈویژن (موجودہ ایف سی) اور فیڈرل ریزرو ڈویژن (ہجوم کنٹرول اور خصوصی تحفظ)۔ اس کے 41 ونگز ہیں جن میں سے 36 سکیورٹی اور پانچ ہجوم کنٹرول کے لیے ہیں۔

اس فورس کو کریمنل پروسیجر کوڈ 1898 اور اینٹی ٹیررازم ایکٹ 1997 کے تحت اختیارات بھی حاصل ہوں گے۔

فیڈرل کانسٹیبلری کے 41 ونگز ہیں جن میں سے 36 سکیورٹی اور پانچ ہجوم کنٹرول کے لیے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)اپوزیشن کے خدشات

اپوزیشن خاص طور پر پی ٹی آئی نے ان فورسز کو موجودہ حکومت کی جانب سے سیاسی مخالفین کو دبانے کی کوشش قرار دیا ہے۔

پی ٹی آئی کی رہنما عالیہ حمزہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آر ایم پی اور  فیڈرل کانسٹیبلری سیاسی احتجاج، خاص طور پر پانچ اگست کے مظاہروں کو کچلنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ یہ ان کے اقتدار کو طول دینے کی ایک اور کوشش ہے لیکن پاکستان کے عوام اب ان ہتھکنڈوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔ یہ جتنی مرضی فورسز بنا لیں جیت آخر میں عوام کی ہو گی۔‘

پنجاب میں وزیراطلاعات عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ ’پنجاب میں عوامی حکومت ہے اور ہر لمحہ عوامی خدمت میں کچھ نیا کیا جا رہا ہے۔ عوام کی جان و مال کا تحفظ کرنا ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ ان کو مروڑ اس لیے اٹھ رہے ہیں کہ انہوں نے کبھی خود کام کیا ہے نہ یہ دوسروں کو کرتا دیکھ سکتے ہیں۔ پنجاب بدل رہا ہے اور یہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔‘

پاکستان کے داخلی اور خارجی سکیورٹی امور پر نظر رکھنے والے آسٹریلیا میں مقیم پاکستانی پروفیسر ڈاکٹر ارشد کہتے ہیں کہ ’فیڈرل فورس بنانا اور آر ایم پی جیسی تخلیق بظاہر تو سکیورٹی کے تناظر میں کی جاتی ہیں لیکن عام طور پر اس کا استعمال سیاسی ہی ہوتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس طرح کے ادارے ایک مرتبہ بن جاتے ہیں تو پھر ان کا استعمال انہی کے خلاف بھی ہوتا ہے جو انہیں بناتے ہیں۔‘

’کم از کم پاکستان کی ماضی کی مثالیں تو ایسی ہی ہیں۔ انسداد دہشت گردی کے قانون کی مثال ہی لیجیے یا نیب کی مثال لے لیں۔‘

پروفیسر حسن عسکری نے کہا کہ ’ان فورسز کی تشکیل سے سکیورٹی ڈھانچہ مضبوط ہو سکتا ہے لیکن پارلیمانی بحث کے بغیر آرڈیننس سے نفاذ جمہوری اصولوں کے خلاف ہے۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More