ماہرین موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے مون سون کو جنوبی ایشیا کے ممالک کے لیے خطرناک بنا دیا ہے جس سے شدید بارشوں، سیلاب اور لینڈسلائڈنگ کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کی رپورٹ میں جن ممالک کا تذکرہ کیا گیا ہے ان میں پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، بھوٹان، سری لنکا، افغانستان، مالدیپ اور نیپبال کے نام شامل ہیں۔
ان ممالک میں جون سے ستمبر تک بارشیں ہوتی آئی ہیں تاہم ماضی میں ان کو سخت گرمی سے نجات کا ذریعہ اور فصلوں کے لیے خوش آئند سمجھا جاتا تھا تاہم کچھ برس سے صورت حال کافی بدل چکی ہے۔
خطے میں جاری مون سون کے سلسلے کے دوران ان ممالک سے سینکڑوں ہلاکتوں کی اطلاعات سامنے آ چکی ہیں۔
2024 کے مون سون کے دوران شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے انڈیا میں ایک ہزار تین سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے۔
کلائمیٹ چینج کے ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ درجہ حرارت اور تیز بارشوں کی وجہ سے ہمالیائی خطے میں موجود گلیشیئرز کے پگلھلنے کی رفتار میں تیزی آتی ہے اور اسی وجہ سے اس کے اردگرد واقع ممالک میں سیلاب اور لینڈسلائیڈنگ کی شکل میں آفات سامنے آ رہی ہیں۔
جنوبی ایشیائی خطے میں روایتی طور پر مون سون کے دو موسم ہوتے ہیں جن میں سے ایک جون سے ستمبر تک چلتا ہے اور اس دوران بارشیں ہوتی ہیں اور یہ سلسلہ جنوب مغربی سمت سے شمال مشرقی حصے کی طرف جاتا ہے۔
اسی طرح بارشوں کا دوسرا موسم اکتوبر سے دسمبر کے دوران چلتا ہے تاہم اس کا دائرہ علاقوں کے لحاظ سے الٹ یعنی شمال مشرقی سے جنوب مغربی حصے کی طرف ہوتا ہے۔
2024 میں انڈیا میں مون سون کے دوران 1300 افراد ہلاک ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)
تاہم ہوا میں بعض زمین کا درجہ حرارت بڑھانے میں معاون گیسوں کی بڑھتی مقدار کے باعث اب بارشوں کا یہ موسم اس پیٹرن سے ہٹتا نظر آ رہا ہے اور اس کی وجہ ہے کہ گرم ہوا بحر ہند سے زیادہ نمی حاصل کرتی ہے اور اس کے باعث بارش کا معمول تبدیل ہوا ہے۔
انسٹییوٹ آف ٹروپیکل میٹریولوجی سے منسلک ماہر موسمیات راکسی میتھیو کول کا کہنا ہے کہ ’ہم واضح طور پر پورے جنوبی ایشیا میں مون سون کے پیٹرن میں تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔‘
روایتی طور پر انڈیا اور قریبی ممالک کے لوگ مون سون کی بارشوں کا انتظار کرتے رہے ہیں جس کا مطلب ہوتا تھا کہ گرمی جا رہی ہے تاہم جب سے بارشوں کی وجہ سے ہلاکتوں کا سلسلہ بڑھا ہے اب لوگوں کا طریقہ کار بدل گیا ہے۔
ان کے مطابق ’بارشوں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے جن کی وجہ سے شہری علاقوں میں بھی سیلاب آ رہے ہیں۔‘
ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ زیادہ درجہ حرات اور خشک سالی کا طویل دورانیہ بھی جنوبی ایشیا کے ممالک میں زراعت کو مشکل بنا رہا ہے۔
پاکستان میں مون سون شروع ہونے کے بعد سے 80 کے قریب ہلاکتیں رپورٹ ہو چکی ہیں (فوٹو: اے پی)
کلائمیٹ سائنٹیسٹ فیرو سوریشتا کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں 60 فیصد سے زائد لوگوں کا دارومدار زراعت پر ہے اور آگے زراعت کا بھی زیادہ تر انحصار مون سون کی بارشوں پر ہوتا ہے تاہم موسمیاتی تبدیلیوں سے ان کا کام بھی مشکلات سے دوچار ہو رہا ہے۔
2023 میں جاری ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ہمالیہ اور ہندوکش میں گلیشیئرز جس تیزی سے پگھل رہے ہیں ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔
تحقیق کے مطابق خطے میں موجود 2000 سے زائد گلیشیئرز میں کم سے کم 200 کے مکمل طور پگھل جانے کے خدشات ہیں جن سے نیچے کی طرف تباہی آ سکتی ہے اور ایسے میں مون سون کی بارشیں اس صورت حال کو مزید گمبھیر بنا سکتی ہیں۔
خیال رہے پاکستان اور انڈیا سمیت خطے کے دورے ممالک میں مون سون کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کے ادارے این ڈی ایم اے کے مطابق اب تک بارشوں اور سیلاب سے 80 کے قریب ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ انڈیا اور دوسرے قریبی ممالک سے ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔