کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے آڈیٹوریم میں جمعرات کو ایک پرہجوم پریس کانفرنس کی گئی جس میں کراچی چیمبر آف کا مرس کے صدر جاوید بلوانی اور چیئرمین بزنس مین گروپ زبیر موتی والا نے خطاب کیا۔
اس موقع پر بی ایم جی کے وائس چیئرمین انجم نثار، میاں ابرار احمد، سینئر نائب صدر ضیاء العارفین، نائب صدر فیصل خلیل احمد، ساتوں انڈسٹریل ٹاؤن ایسوسی ایشنز کے صدور، سابق صدور کے سی سی آئی، ممتاز کاروباری شخصیات، کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین اور بڑی تعداد میں تاجر و صنعتکار بھی موجود تھے۔ صدر لاہور چیمبر ابوذر شاد اور صدر فیصل آباد چیمبر ریحان نسیم بھرارا نے بھی بذریعہ زوم پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔
تاجر رہنماؤں نے سیلز ٹیکس ایکٹ کے نئے سیکشن 37 اے اور 37 بی کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت سے فوری طور پر ان ظالمانہ سیکشن کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان دونوں سیکشن کے تحت ایف بی آر افسران کو گرفتاری کے وسیع اختیارات دیے گئے ہیں جو ایک آمرانہ اقدام ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ایسے غیر معقول اختیارات نہ صرف پاکستان کے بزنس فرینڈلی امیج کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی سرمایہ کاری سے روکتے ہیں۔
جاوید بلوانی نے کہا کہ ہم اس بات پر متفق ہیں کہ سیکشن 37 اے پاکستان میں کاروبار کرنے کے لیے بالکل بھی سازگار نہیں ہے۔ پوری تاجر برادری اس قانون کی سخت مخالف ہے اور اس کے خاتمے کا پر زور مطالبہ کر رہی ہے اور کراچی چیمبر ان سب کے مؤقف سے مکمل طور پر اتفاق کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کے سی سی آئی کو ان سیکشنز کے حوالے سے بے شمار شکایات اور تشویش موصول ہو رہی ہیں جہاں کاروباری مالکان بار بار یہ سوال کر رہے ہیں کہ سیکشن 37 اے کے مستقل خطرے میں ہم کیسے کام جاری رکھ سکتے ہیں جو ہماری عزت پر تلوار کی طرح منڈلا رہا ہے؟
صدر کے سی سی آئی نے کہا کہ یہ قانون ناجائز طریقوں سے نمٹنے کے بجائے قانون کی پیروی کرنے والے ٹیکس دہندگان کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بناتا ہے جو پہلے ہی ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں بجائے ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کے جو جعلسازی جیسے جعلی یا فلائنگ انوائسز جاری کرنے میں ملوث ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کہ پاکستان کی معیشت کا صرف 40 فیصد حصہ دستاویزی ہے جبکہ 60 فیصد غیر رسمی ہے۔ 40 فیصد دستاویزی میں سے بمشکل 2 فیصد اس طرح کے غلط کاموں میں ملوث ہو سکتے ہیں جبکہ 98 فیصد رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان مکمل طور پر ٹیکس کی پاسداری کرتے ہیں پھر بھی چند مجرموں پر توجہ دینے کے بجائے تمام ٹیکس دہندگان کو متنازع سیکشن 37 اے اور 37 بی کے تحت ہراساں کیا جائے گا۔
زبیر موتی والا نے کہا کہ اس کالے قانون کے خاتمے کا مطالبہ اس لیے بھی زور پکڑ چکا ہے کیونکہ چیک اینڈ بیلنس کے بغیرگرفتاری کے وسیع اختیارات صرف ہراساں کرنے کا باعث بنیں گے۔ اس کے نتیجے میں کرپشن کے دروازے کھل جائیں گے کیونکہ یہ قوی امکان ہے کہ گرفتاری کے اختیارات رکھنے والے افسران انہیں ذاتی مفادات کے لیے استعمال کریں گے۔ ایسی صورتحال میں قانون کی پاسداری کرنے والے ٹیکس دہندگان صرف اپنی عزت بچانے کے لیے غیر قانونی مطالبے تسلیم کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
زبیر موتی والانے کہا کہ سیکشن 37 اے کے تحت کوئی ایک بھی کارروائی پوری تاجر برادری میں ہلچل مچا دے گی جس سے نہ صرف موجودہ کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوں گی بلکہ جاری توسیعی منصوبے بھی رک جائیں گے۔