12 مئی 2025 کی صبح جب گجرات کے چار نوجوان واصف شہزاد، عمر احسان، عثمان ڈار اور سلیمان نصراللہ شمالی علاقہ جات کی سیر کے لیے گھر سے نکلے تو ان کے چہروں پر خوشی، آنکھوں میں خواب اور دلوں میں مہم جوئی کا جوش تھا۔ ان میں سے سلیمان نصراللہ کچھ عرصہ پہلے ہی اٹلی سے واپس آئے تھے۔ وہ ایک عرصے بعد وطن لوٹے تھے اور دوستوں نے طے کیا کہ اس بار وہ گلگت بلتستان کی وادیوں میں اپنے دوستی کے لمحے یادگار بنائیں گے۔سفر کا آغاز خوشگوار تھا۔ ہنزہ کی حسین وادیوں میں گھومتے ہوئے وہ اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے، ویڈیوز میں قہقہے لگاتے اور اپنے اہلِ خانہ کو فون کر کے نظاروں کا حال سناتے رہے۔ 15 مئی کی شام وہ گلگت پہنچے اور دنیور کے علاقے میں واقع ’محسن لاجز‘ میں قیام کیا۔ 16 مئی کی صبح وہ سفید ہونڈا سٹی گاڑی (رجسٹریشن نمبر: ANE 805، اسلام آباد) میں سکردو روانہ ہوئے، لیکن وہ سفر، جو صرف چند گھنٹوں کا تھا، اچانک ایک ایسا معمہ بن گیا ہے جو وقت کے ساتھ مزید پچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔
ان چاروں نوجوانوں کا اس دن کے بعد سے کوئی سراغ نہیں ملا۔ ان کے موبائل فون بند ہیں، ان کی گاڑی کا کوئی پتہ نہیں، نہ کسی ہوٹل میں ان کی موجودگی کا اندراج ملا اور نہ کسی چیک پوسٹ پر ان کی گاڑی دیکھی گئی۔ دمبود چیک پوسٹ سمیت گلگت سے سکردو جانے والے پورے راستے کی چھان بین کی جا چکی ہے لیکن ہر در بند ہے، ہر کونا خاموش ہے۔
واصف شہزاد کے والد اللہ دتہ کی آنکھوں میں آنسو رکنے کا نام نہیں لیتے۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’میرے بیٹے نے وعدہ کیا تھا کہ سات دن میں واپس آ جاؤں گا۔ تیسرے دن اس کا فون بند ہو گیا، آج 10 دن ہو گئے ہیں۔ مجھے نہیں پتہ میرا بچہ کہاں ہے۔ بس دل بیٹھا جا رہا ہے۔ میں صدر، وزیراعظم، آرمی چیف سمیت سب سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتا ہوں، خدارا میرے بچے کو تلاش کرو۔‘صرف واصف کے والد ہی نہیں بلکہ باقی تینوں نوجوانوں کے اہلِ خانہ بھی اسی بے یقینی، بےچینی اور بےبسی کی حالت میں جی رہے ہیں۔ عمر احسان کے بھائی سفیان نے بتایا کہ عمر راولپنڈی میں مقیم تھا اور وہیں سے دوستوں کے ساتھ شامل ہوا۔’جمعے کی صبح آٹھ بجے اس سے آخری بات ہوئی، اُس کے بعد جیسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ ہماری مائیں، ہماری بہنیں، ہر وقت دروازے کی طرف دیکھتی ہیں۔ کسی کے قدموں کی چاپ ہو، کسی کال کی گھنٹی ہو ، سب دل دھڑکا دیتی ہے۔‘لاپتہ نوجوانوں کے ایک قریبی رشتہ دار عثمان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان چاروں میں سے تین آپس میں کزن ہیں جبکہ چوتھا ان کا قریبی دوست ہے۔ عثمان کے مطابق یہ سفر کئی مہینوں کی منصوبہ بندی کے بعد ممکن ہوا تھا۔’جب ہمارا دوست بیرونِ ملک سے واپس آیا تو سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ اب کی بار شمالی علاقہ جات ضرور جائیں گے۔‘عثمان نے بتایا کہ’ 12 مئی سے لے کر 15 مئی تک ان کا گھر والوں سے مسلسل رابطہ تھا، وہ تصاویر بھیجتے رہے، سوشل میڈیا پر پوسٹیں کرتے رہے۔ سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا لیکن 16 مئی کے بعد جیسے وقت ہی رک گیا ہے، سمجھ نہیں آتی کہ انہیں آسمان نگل گیا یا زمین کھا گئی۔‘12 مئی کی صبح واصف شہزاد، عمر احسان، عثمان ڈار اور سلیمان نصراللہ شمالی علاقہ جات کی سیر کے لیے گھر سے نکلے تھے۔ (فائل فوٹو: ایکس)انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے دوسرے کزن شوکت علی کچھ دوستوں کے ہمراہ اس وقت گلگت بلتستان میں موجود ہیں اور وہاں کی سول انتظامیہ، پولیس اور ٹورسٹ پولیس سے مسلسل رابطے میں ہیں۔شوکت علی کے مطابق ’ہم نے ہر در کھٹکھٹایا، ہر افسر سے ملاقات کی۔ سب سن رہے ہیں، لیکن کوئی کچھ بتا نہیں رہا۔ صرف اندازے ہیں، اور ہمارے دل ہر لمحہ ٹوٹتے جا رہے ہیں۔ ہمیں تو صرف ایک اشارہ چاہیے کہ وہ کہاں ہیں۔ بس یہ جان لیں کہ سانس تب تک رکے گی نہیں جب تک ہم انہیں ڈھونڈ نہ لیں۔‘اسی دوران ایک نوجوان کے والد کی درد بھری ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے، جس میں انہوں نے گلگت بلتستان حکومت سے اپیل کی ہے کہ ہمارے بچوں کو تلاش کیا جائے۔’میرے بیٹے نے کہا تھا، ابا فکر نہ کرو، بس خوبصورتی دیکھنے جا رہے ہیں۔ لیکن اب ایک ہفتہ ہو گیا، نہ آواز آئی نہ پتہ، ہمیں بس اتنا بتا دو، وہ زندہ ہیں یا نہیں؟‘گلگت بلتستان کی سیاحتی پولیس نے بھی عوام سے مدد کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ علاقے کے تمام رہائشی، سیاح اور ٹرانسپورٹ سروسز اگر ان نوجوانوں یا ان کی گاڑی کے بارے میں کچھ بھی جانتے ہیں تو ان نمبرز 1422 یا 05811-930055 پر فوری اطلاع دیں۔