"میں نے کبھی ہار نہیں مانی... ہر دن تھوڑا تھوڑا بچایا، اور آج اللہ کے گھر پہنچ گیا" 40 سالہ انتظار کے بعد انڈونیشی صفائی ملازم کا حج کا خواب پورا
"یقین نہیں آ رہا، میں اپنی آنکھوں سے خانہ کعبہ دیکھنے والا ہوں۔ سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں، اور پھر اُن سب کا جنہوں نے اس سفر کو ممکن بنایا، خاص طور پر مکہ روڈ پروگرام کے لوگوں کا۔ اگر دل میں یقین ہو اور قدم میں صبر، تو منزل خود راستہ بناتی ہے۔ میری یہ کہانی نوجوانوں کے لیے ہے: کبھی بھی اپنے خواب کو دفن نہ کریں، چاہے وہ کتنا ہی دور کیوں نہ لگے۔"
یہ جذباتی الفاظ انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے 60 سالہ لیگیمن کے ہیں، جنہوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر وہ کارنامہ انجام دیا جو بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔ صفائی کا پیشہ، دن بھر کا تھکا دینے والا کام، اور اس کے بدلے محض چند سکوں کی آمدنی لیکن دل میں ایک خواب تھا، جو چالیس سال تک ہر دن کے بعد بھی زندہ رہا: اللہ کے گھر کا دیدار۔
1986 سے روزانہ محض ایک ہزار انڈونیشی روپے (تقریباً بیس پاکستانی روپے) بچا کر لیگیمن نے وہ خزانہ جمع کیا جو کسی بینک بیلنس سے قیمتی ہے — یقین، استقامت اور خلوص۔ مشکل وقت آیا، پیسوں کی کمی بھی ہوئی، لیکن کبھی مقصد کو کمزور نہ ہونے دیا۔ بیوی کا حوصلہ ان کا سب سے بڑا سہارا رہا، جنہوں نے ہر روز کے معمولات کو اس عظیم مقصد کی روشنی میں برداشت کیا۔
بالاخر، اس برس وہ لمحہ آ گیا۔ مکہ روڈ انیشیٹو جیسے سعودی عرب کے انقلابی اقدامات نے حج کے سفر کو سہل اور منظم بنایا، اور وہ دونوں حرم کی سرزمین پر پہنچ گئے۔
لیگیمن کی یہ کہانی صرف ایک سفر کی نہیں، یہ وقت کے خلاف امید کے ایک طویل معرکے کی روداد ہے۔ ایسے وقت میں جب لوگ لمحوں میں سب کچھ چاہتے ہیں، لیگیمن اور ان کی بیوی نے برسوں کی مشقت سے ثابت کیا کہ خواب اگر خالص ہو تو وہ حقیقت بن کر رہتا ہے۔