Getty Imagesناہید اسلام کے بقول پروفیسر یونس نے کہا ہے کہ ’انھیں لگتا ہے کہ اس صورتحال میں وہ کام جاری نہیں رکھ پائیں گے‘
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت میں چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس کی جانب سے استعفی دینے کی باتیں منظر عام پر آنے سے اس حکومت کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔
لیکن پروفیسر یونس کو استعفیٰ دینے پر غور کیوں کرنا پڑ رہا ہے اور سیاسی حمایت کے باوجود یہ حکومت بحران سے دوچار کیوں ہے، یہ سوالات بحث کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے کہ جب خالدہ ضیا کی جماعت بی این پی سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہے اور یہ اشارہ دے رہی ہے کہ وہ اب اس حکومت کا ساتھ نہیں دے گی۔
دوسری جانب آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے بدھ کے روز افسران کے ساتھ میٹنگ کی جس میں مختلف مقامی مسائل بشمول انتخابات، رخائن کے لیے انسانی راہداری اور احتجاجی مظاہروں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ایسے پس منظر میں، چیف ایڈوائزر پروفیسر یونس نے جمعرات کو دیگر مشیروں کے ساتھ ایک غیر طے شدہ میٹنگ میں استعفیٰ دینے سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس حوالے سے انھوں نے غصے اور مایوسی کا اظہار کیا کہ ان کی حکومت مختلف جماعتوں کی رکاوٹوں اور سیاسی جماعتوں کے عدم تعاون کی وجہ سے کام نہیں کر پا رہی۔
نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) کے کنوینر ناہید اسلام نے بی بی سی بنگلہ کو پروفیسر یونس کے خیالات کے بارے میں بتایا۔ انھوں نے جمعرات کی شام چیف ایڈوائزر سے ملاقات کی۔ چیف ایڈوائزر کے خیالات ناہید اسلام کے ذریعے میڈیا میں سامنے آئے۔
ناہید اسلام کے بقول پروفیسر یونس نے کہا ہے کہ 'چیف ایڈوائزر مستعفی ہونے کا سوچ رہے ہیں۔۔۔ انھیں لگتا ہے کہ اس صورتحال میں وہ کام جاری نہیں رکھ پائیں گے۔'
سیاسی جماعتیں صورتحال کا مختلف انداز میں تجزیہ کر رہی ہیں۔ بی این پی کا کہنا ہے کہ چیف ایڈوائزر کے استعفے کا خیال ان کے مخصوص انتخابی روڈ میپ اور تین مشیروں کے استعفے کے مطالبات سے بچنے کے لیے سامنے لایا گیا ہے۔
پارٹی کی پالیسی سازی کی سطح پر ایک رہنما نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا 'ملک چلاتے ہوئے جذبات پیدا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔'
بی این پی سمیت مختلف جماعتوں کے رہنما یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جب حکومت کی کمزوری کی وجہ سے حالات کو سنبھالنے میں ناکامی کا سوال اٹھتا ہے تو وہ مستعفی ہونے کے اس خیال کو سیاسی جماعتوں کے لیے ایک طرح کی دھمکی یا وارننگ سمجھتے ہیں۔
اب جماعت اسلامی نے بھی عبوری حکومت کے اس بحران سے نمٹنے کے لیے آل پارٹی اجلاس بلانے کی تجویز دی ہے۔
تاہم حکومت نے ابھی تک اس صورتحال پر کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا ہے۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت بحران کا شکار کیوں ہے؟
گذشتہ سال جولائی میں طلبہ کے مظاہروں کے بعد عوامی لیگ اور شیخ حسینہ کی حکومت گِرنے کے بعد قائم ہونے والی یونس حکومت پر طلبہ رہنماؤں، بی این پی اور جماعت اسلامی سمیت تمام جماعتوں اور فوج نے مکمل حمایت کی تھی۔
اب سیاستدان اور تجزیہ کار سوال کر رہے ہیں کہ اتنی حمایت ملنے کے باوجود حکومت پر ناکامی کا الزام کیوں لگایا جا رہا ہے۔
مبصرین کے مطابق طلبہ قیادت کے سامنے پروفیسر یونس کمزور پڑ رہے ہیں جس کا اظہار وہ خود بھی مختلف اوقات میں کر چکے ہیں۔
جب طلبہ قیادت نے سیاسی جماعت این سی پی بنائی تو حکومت پر اس جماعت کی طرف جھکاؤ کا الزام لگا۔ بی این پی نے اس پر ناراضی ظاہر کی۔
1971 پر معافی، 4 ارب ڈالر اور ’پاکستانیوں‘ کی واپسی: پاکستان اور بنگلہ دیش کے خارجہ سیکریٹریز کی ملاقات میں کیا ہوا؟دشمن سے ’دو عام پڑوسی‘: بنگلہ دیش کی پاکستان سے بڑھتی قربت اور انڈیا کی ’سلامتی کا مسئلہ‘انڈیا کی زمینی راستے سے آنے والے بنگلہ دیشی سامان پر پابندی مگر ’نقصان دونوں کو ہو گا‘انڈیا کی ’پش بیک‘ پالیسی پر بنگلہ دیش برہم: مبینہ غیر قانونی تارکین وطن کی زبردستی سرحد پار واپسی کا الزام
تاہم مشاورتی کونسل میں شامل طلبہ کے نمائندوں میں سے ایک نے استعفیٰ دے کر پارٹی کی قیادت سنبھال لی۔ لیکن دو دیگر طلبہ کے نمائندہ مشیر اپنے عہدوں پر برقرار ہیں۔ بی این پی اب ان کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئی ہے۔
حکومت کے پچھلے نو مہینوں میں مختلف مظاہرے ہوئے ہیں۔ عوامی لیگ پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے مشیر اعلیٰ کی رہائش گاہ کے سامنے دھرنا بھی دیا گیا۔ اس صورتحال میں حکومت نے پارٹی کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی۔
بی این پی نے مختلف اوقات میں حکومت پر این سی پی کی طرفداری کا الزام لگایا ہے۔ چنانچہ وہ اس الزام کو آگے لے آئے۔
BBCمحی الدین احمد کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں بی این پی، جماعت اور این سی پی ان تینوں جماعتوں کا اب اثر و رسوخ ہے
دوسری طرف مختلف گروہوں کی طرف سے پیدا کردہ ہجوم یا گروہی افراتفری کا معاملہ زیر بحث ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بعض معاملات میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہجوم پیدا کرنے اور سیاسی سمیت مختلف مسائل پر مطالبات اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس حوالے سے حکومت کی کمزوری کھل کر سامنے آ گئی ہے۔
مختلف شعبوں میں حکومت کو ناکامی کے الزامات کا سامنا ہے۔ دوسری جانب سیاسی جماعتوں کے درمیان عدم تعاون کا معاملہ بھی زیر بحث ہے۔
متعدد حکومتی مشیروں نے بتایا کہ گذشتہ روز چیف ایڈوائزر کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں خود پروفیسر یونس نے سٹیک ہولڈرز کی جانب سے تعاون نہ ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے مایوسی اور غصے کا اظہار کیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سیاست میں تقسیم، مختلف جماعتوں اور حکومتی سٹیک ہولڈرز کے مفادات میں ٹکراؤ اور عدم تعاون اب کھل کر نظر آ رہا ہے۔
مصنف اور سیاسی تجزیہ کار محی الدین احمد نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ بی این پی، جماعت اور این سی پی، ان تینوں جماعتوں کا اب اثر و رسوخ ہے۔ تینوں جماعتوں کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی ہے، نتیجتاً سیاست میں تقسیم ہے۔
ان کا خیال ہے کہ حکومت نے بی این پی اور دیگر جماعتوں اور سٹیک ہولڈرز کے ساتھ راہداری کے مسئلے سمیت مختلف مسائل پر بات نہیں کی۔ اس کے نتیجے میں بی این پی اور دیگر اہم سٹیک ہولڈر ناراض ہیں۔
ساتھ ہی محی الدین احمد نے کہا کہ چیف ایڈوائزر میں سیاسی صورتحال کو سنبھالنے کی مہارت کی کمی ہے۔ مجموعی طور پر حکومت کام کرنے سے قاصر ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ حکومت کے لیے بحران مزید گہرا ہوا ہے یا حکومت کو چیلنجز کا سامنا ہے۔
حکومت کے اندر سے جب راہداری سمیت مختلف متنازع معاملات کو منظر عام پر لایا جا رہا ہے تو تجزیہ کار یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ کیا حکومت کے اندر کوئی گروہی یا انفرادی مفادات کام کر رہے ہیں؟
بی این پی سمیت دیگر جماعتوں کا موقف کیا ہے؟
جماعتیں صورتحال پر گہری نظر رکھتی ہیں اور احتیاطی تدابیر اختیار کرتی نظر آتی ہیں۔ تاہم بی این پی چیف ایڈوائزر کے استعفیٰ کے خیال کو 'جذبات کا معاملہ' قرار دے رہی ہے۔
پارٹی کی قائمہ کمیٹی کے رکن صلاح الدین احمد نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ ریاست چلانے میں جذبات پیدا کرنے کی کوئی جگہ نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایسے جذبات کا اظہار اس وقت کیا جا رہا ہے جب انتخابات کے لیے مخصوص روڈ میپ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
BBCبی این پی کی قائمہ کمیٹی کے رکن صلاح الدین احمد
دریں اثنا جمعرات کو مشیروں کے ساتھ ایک غیر طے شدہ ملاقات میں، چیف ایڈوائزر نے گذشتہ ہفتے بی این پی کے سٹریٹ پروگرام پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے استعفیٰ دینے کے بارے میں خیالات ظاہر کیے۔
تاہم، بی این پی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بی این پی رہنما اشراق حسین کو ڈھاکہ ساؤتھ سٹی کارپوریشن کے میئر کی حیثیت سے عدالتی فیصلہ مل گیا ہے۔ پھر بھی انھیں یہ ذمہ داری نہیں دی جا رہی ہے۔ اس لیے انھوں نے تحریک شروع کی ہے۔ حکومت اس مطالبے کی تعمیل میں قانونی پیچیدگیوں کا حوالہ دے رہی ہے۔
تاہم بی این پی نے مشیروں آصف محمود سجیب بھویاں اور محفوظ عالم، دو طالب علموں کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کے مشیر خلیل الرحمان کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔
بی این پی کا کہنا ہے کہ وہ اشراق حسین کو میئر قرار دینے کے مطالبے میں دیگر مطالبات شامل کرکے تحریک جاری رکھے گی۔
پارٹی لیڈروں کا کہنا ہے کہ این سی پی نے مختلف اوقات میں سڑکوں پر آنے اور دباؤ میں مطالبات مانگنے کا کلچر بنایا ہے۔ جبکہ بی این پی کے جائز مطالبات پورے نہیں ہو رہے۔
این سی پی لیڈران ایسے الزامات کو مسترد کر رہے ہیں۔
تاہم بی این پی کے رہنما صلاح الدین احمد نے کہا کہ اب حکومت کو ان سرگرمیوں کی ذمہ داری اٹھانی ہوگی جو دو طلبہ نمائندے حکومت میں رہتے ہوئے کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ انھوں نے کہا کہ بی این پی کے تمام مطالبات بشمول الیکشن، جائز ہیں۔ احمد نے کہا کہ ان مطالبات کو ٹالنے اور طرح طرح کے بیانات دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جماعت اور این سی پی سمیت مختلف جماعتوں کے اندر بھی مختلف بحثیں جاری ہیں۔ جماعت کے امیر شفیق الرحمان نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں بحران کے حل کے لیے آل پارٹی اجلاس بلانے کی تجویز دی۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پروفیسر یونس یا تو مستعفی ہو سکتے ہیں یا اپنی جماعتوں اور سٹیک ہولڈرز کا اعتماد جیت کر الیکشن لڑ سکتے ہیں۔ یہی دو راستے ہیں۔
تجزیہ کار محی الدین احمد نے کہا کہ اگر حکومت اب انتخابات کی طرف جاتی ہے تو بی این پی سمیت دیگر جماعتیں دوبارہ تعاون بڑھائیں گی اور ان کا ماننا ہے کہ بحران پر قابو پانا ممکن ہے۔
انڈیا کی زمینی راستے سے آنے والے بنگلہ دیشی سامان پر پابندی مگر ’نقصان دونوں کو ہو گا‘انڈیا کی ’پش بیک‘ پالیسی پر بنگلہ دیش برہم: مبینہ غیر قانونی تارکین وطن کی زبردستی سرحد پار واپسی کا الزام’1971 سے پہلے کے پرانے تعلقات کی طرف واپسی‘: کیا بنگلہ دیش کے ساتھ بگڑتے روابط انڈیا کے لیے نیا درد سر ہیں؟1971 پر معافی، 4 ارب ڈالر اور ’پاکستانیوں‘ کی واپسی: پاکستان اور بنگلہ دیش کے خارجہ سیکریٹریز کی ملاقات میں کیا ہوا؟دشمن سے ’دو عام پڑوسی‘: بنگلہ دیش کی پاکستان سے بڑھتی قربت اور انڈیا کی ’سلامتی کا مسئلہ‘