’شانگلہ کے ڈومیسائل کا غلط استعمال‘، طالبات پہلی بار احتجاج کے لیے کیوں نکلیں؟

اردو نیوز  |  May 15, 2025

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کے بالائی علاقے پیرخانہ بیلئی گرلز مڈل سکول کی طالبات نے اساتذہ کی مسلسل غیر حاضری کے خلاف ایک تاریخی احتجاج ریکارڈ کیا۔

یہ ضلع شانگلہ کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ طالبات نے اپنے تعلیمی حقوق کے لیے سڑکوں پر نکل کر اپنی آواز بلند کی۔

منگل 13 مئی 2025 کو طالبات نے والدین اور عمائدین کے ہمراہ پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر ’حق دو، ہم حق مانگ رہے ہیں‘ جیسے نعرے لکھے ہوئے تھے۔ یہ احتجاج شانگلہ پریس کلب الپوری سے شروع ہوا اور پھر مرکزی چوک تک پہنچا جہاں مظاہرین نے اپنے مسائل سے متعلق تقاریر کیں۔

احتجاج کے دوران طالبات اور والدین نے بتایا کہ پیرخانہ بیلئی گرلز مڈل سکول میں گذشتہ دو سال سے اساتذہ کی شدید کمی اور غیر حاضری کا مسئلہ جاری ہے۔ سکول میں صرف ایک ٹی ٹی (تھیالوجی ٹیچر) استانی تعینات ہے جو اکثر غیر حاضر رہتی ہے۔

اس حوالے سے ضلعی شانگلہ کی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (ڈی ای او زنانہ) نے بتایا کہ ’دیگر اساتذہ یا تو ڈیوٹی پر نہیں آتیں یا ان کے احکامات کی تعمیل نہیں کرتیں۔‘

انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس صورتحال نے سینکڑوں طالبات کی تعلیم کو شدید متاثر کیا ہے اور ان کا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے۔ یہ معاملہ صرف اس ایک سکول کا نہیں ہے بلکہ ضلع بھر کو اسی طرح کی صورت حال کا سامنا ہے۔‘

احتجاج کے دوران مظاہرین نے صوبائی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’صوبائی حکومت تعلیمی ایمرجنسی اور ’آؤ بچو سکول چلو‘ مہم پر کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہے لیکن شانگلہ کے دور افتادہ علاقوں کے سکولوں میں درس و تدریس کا سلسلہ تعطل کا شکار ہے۔‘

یوتھ آف شانگلہ کے سابق صدر محمد ایدریس نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جس سکول کی طالبات پہلی بار احتجاج کرنے نکلی تھیں یہ مڈل سکول ہے لیکن آج تک یہاں صرف ایک استانی ڈیوٹی دیتی آئی ہے اور وہ بھی کئی مہینوں سے غیرحاضر ہے۔ والدین نے بارہا انتظامیہ کو آگاہ کیا، لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ اس لیے طالبات کو خود احتجاج کے لیے نکلنا پڑا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ طالبات کا پہلا احتجاج ہے اور اس سے قبل ضلع بھر میں کہیں بھی طالبات نے احتجاج نہیں کیا۔‘

طالبات نے مطالبہ کیا کہ پیرخانہ بیلئی گرلز مڈل سکول میں فوری طور پر مستقل اساتذہ تعینات کی جائیں (فوٹو: اے ایف پی)بیلئی گرلز میڈل سکول کی طالبات اور دیگر مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پیرخانہ بیلئی گرلز مڈل سکول میں فوری طور پر مستقل اساتذہ تعینات کی جائیں اور شانگلہ کے دور افتادہ علاقوں میں اساتذہ کی خصوصی مانیٹرنگ کی جائے جبکہ غیر حاضر اساتذہ کے خلاف سخت کارروائی کی جائے جو گھر بیٹھ کر تنخواہیں وصول کر رہی ہیں۔

ڈی ای او پروین رحمان کے مطابق اس سکول سے پہلے بھی کئی اساتذہ جا چکے ہیں۔ ’ہم نے دو خاتون ٹیوٹرز ہائر کیں جنہوں نے آٹھ ماہ تک ڈیوٹی دی لیکن پھر وہ بھی چلی گئیں۔ ہم نے اساتذہ کے آرڈر جاری کیے لیکن کوئی بھی اس دور افتادہ علاقے میں جانے کو تیار نہیں تھا۔‘

انہوں نے طالبات کے احتجاج پر افسوس اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے بہت دکھ ہوا کہ بچیاں اس حال میں احتجاج کر رہی ہیں لیکن مجھے خوشی بھی ہے کہ وہ اپنا حق مانگ رہی ہیں۔ میں نے ان سے بات کی اور انہیں چائے پلائی۔ ایک بچی نے باقاعدہ تقریر کر کے اپنا حق مانگا جو کہ خوش آئند ہے۔‘

یہ احتجاج اس حوالے سے بھی متاثر کن رہا کہ احتجاج کے دوران ہی ضلعی انتظامیہ اور محکمہ تعلیم حرکت میں آ گیا اور احتجاج کا نوٹس لیتے ہوئے محکمہ تعلیم اور ضلعی انتظامیہ نے طالبات اور دیگر مظاہرین کو اسسٹنٹ کمشنر الپوری کے دفتر میں مذاکرات کے لیے بلایا۔ اس موقع پر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (زنانہ) پروین رحمان نے مظاہرین کو یقین دلایا کہ غیر حاضر اساتذہ کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔

انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم نے فوری طور پر دو اساتذہ کو معطل کر دیا جو اس سے قبل سرکاری حکم کی تعمیل نہیں کر رہی تھیں جبکہ دیگر دو اساتذہ کو فوری طور پر متاثرہ سکول میں ڈیوٹی سنبھالنے کی ہدایت بھی کی۔‘

ڈی ای او پروین رحمان نے شانگلہ میں اساتذہ کی کمی کے حوالے سے کئی مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ ’ضلع میں اس وقت خواتین سبجیکٹ سپیشلسٹ (ایس ایس) کی 32 نشستیں خالی ہیں اور کئی سکولوں میں پرنسپل تک موجود نہیں۔‘

احتجاج کے فوری نتائج میں دو اساتذہ کی معطلی اور نئے اساتذہ کی تعیناتی کے احکامات شامل ہیں (فوٹو: اے ایف پی)ان کے بقول ‘لڑکیوں کے سکول پہاڑوں پر واقع ہیں جہاں رسائی مشکل ہے۔ خواتین اساتذہ کے لیے روزانہ 4 سے 6 گھنٹے کا سفر اور دو سے تین ہزار روپے کا کرایہ برداشت کرنا ممکن نہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’لڑکوں کے سکول اُترائی میں گاؤں میں واقع ہیں۔ ہم نے لڑکیوں کے سکولوں کو پہاڑوں سے نیچے منتقل کرنے یا لڑکوں کے سکولوں کے ساتھ تبدیل کرنے کی درخواست بھی کی لیکن ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔‘

انہوں نے ایک اور مسئلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’کئی اساتذہ شانگلہ کے ڈومیسائل کا غلط استعمال کرتی ہیں۔ ایسی اساتذہ دوسرے شہروں میں رہتی ہیں اور ڈیوٹی پر نہیں آتیں۔ ہم ان سے درخواست کر کر کے تھک گئے ہیں اب میں بندوق لے کر تو ان کے پیچھے نہیں جا سکتی۔‘ 

احتجاج کے فوری نتائج میں دو اساتذہ کی معطلی اور نئے اساتذہ کی تعیناتی کے احکامات شامل ہیں تاہم ڈی ای او پروین رحمان کے بقول ان پر ان دو خواتین اساتذہ کی معطلی منسوخ کرنے کے لیے دبائو ڈالا جا رہا ہے۔

ان کے بقول ان مسائل کا حل تب ممکن ہے ’جب ضلع میں خالی اسامیوں پر مقامی خواتین کو ترجیح دی جائے گی اور لڑکیوں کے سکولوں کو قابل رسائی مقامات پر منتقل کیا جائے گا یا اساتذہ کو سفری سہولیات فراہم کی جائیں گی۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More