گزشتہ شب جب دشمن نے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر بزدلانہ حملہ کیا، تو ایک ایسا چراغ بجھ گیا جس کی روشنی ابھی پوری طرح چمکنا شروع ہی ہوئی تھی۔ یہ معصوم چہرہ ارتضیٰ عباس طوری کا تھا — ایک پھول سا بچہ، جو پاراچنار سے تعلق رکھنے والے کرنل ظہیر عباس طوری کا جگر گوشہ تھا۔ دشمن کی درندگی نے ایک ایسا معصوم چھینا جو ابھی اپنے کھلونوں سے کھیلتا، ماں کی آغوش میں سوتا اور باپ کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھ رہا تھا۔
ارتضیٰ کی شہادت نے نہ صرف ان کے والدین کے دل چیر دیے، بلکہ پوری قوم کے سینے پر ایک زخم چھوڑ دیا ہے۔ یہ شہادت اس بات کی گواہی ہے کہ بھارت کی جارحیت کس حد تک غیر انسانی اور بزدلانہ ہے — کہ وہ ایک نونہال کو بھی نہ بخش سکے۔
آج اسلام آباد کے علاقے پی ڈبلیو ڈی میں ارتضیٰ کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی، جہاں ان کا چھوٹا سا جسدِ خاکی پاکستانی پرچم میں لپٹا ہوگا۔ ایک ایسے پرچم میں جس کی حرمت اور وقار کے لیے یہ بچہ ناحق قربانی کا استعارہ بن گیا۔
قوم کا ہر فرد آج غمزدہ ہے، مگر ساتھ ہی یہ عہد بھی کرتا ہے کہ ارتضیٰ کی شہادت رائیگاں نہیں جائے گی۔ پاکستان کے یہ سپوت — چاہے وردی میں ہوں یا ماں کی گود میں — دشمن کو ہر حال میں یاد دلاتے رہیں گے کہ اس سرزمین کی مٹی میں جذبہ، غیرت اور قربانی کے رنگ کبھی مدھم نہیں پڑتے۔