پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے شہریوں کو 48 گھنٹوں کے اندر ملک چھوڑنے کی ہدایت جاری کی ہے۔
اس پس منظر میں یہ پیشِ نظر رہے کہ اس وقت پاکستان سپر لیگ سیزن 10 (پی ایس ایل) کے براڈکاسٹنگ عملے میں شامل بیسیوں انڈین شہری مختلف تکنیکی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
اردو نیوز کو دستیاب معلومات کے مطابق اس وقت پی ایس ایل کے براڈکاسٹنگ عملے میں قریباً 25 انڈین شہری شامل ہیں، جو مختلف شعبوں میں اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔
اردو نیوز نے انڈین شہریوں کی پی ایس ایل کی براڈکاسٹنگ ٹیم میں شمولیت اور حکومتِ پاکستان کی جانب سے 48 گھنٹوں کے اندر انڈین شہریوں کو وطن چھوڑنے کی ہدایت کے تناظر میں پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے ترجمان عامر میر سے رابطہ کیا۔
’حکومت پاکستان کا فیصلہ سب کے لیے مقدم ہے‘
عامر میر سے جب پوچھا گیا کہ آیا پی ایس ایل میں تعینات انڈین براڈکاسٹنگ عملہ پاکستان چھوڑ چکا ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ’حکومتِ پاکستان کا فیصلہ سب کے لیے مقدم ہے۔‘
واضح رہے کہ گزشتہ روز قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں انڈیا کے فیصلے کے ردِ عمل میں پاکستان کی وفاقی حکومت نے بھی انڈین شہریوں کو 48 گھنٹوں کے اندر ملک چھوڑنے کی ہدایت جاری کی تھی۔
انڈین عملے کی واپسی کے پی ایس ایل پر ممکنہ اثرات؟
پی سی بی کے ترجمان نے اس سوال کے جواب میں اردو نیوز کو بتایا کہ ’چاہے کسی قسم کی صورتِ حال پیدا ہو جائے، پی ایس ایل اپنے شیڈول کے مطابق جاری رہے گی۔‘
اردو نیوز کو دستیاب معلومات کے مطابق اگر انڈیا سے تعلق رکھنے والے براڈکاسٹنگ ماہرین نے پاکستان سے واپسی اختیار کی تو پاکستان کرکٹ بورڈ دیگر ممالک سے تکنیکی ماہرین کی خدمات حاصل کرے گا۔
پی ایس ایل کی انتظامیہ متبادل انتظامات کے تحت مختلف ملکوں سے تعاون حاصل کرنے پر غور کر رہی ہے، جب کہ مقامی سطح پر بھی کچھ تکنیکی افراد کو بطور بیک اَپ تیار رکھا گیا ہے۔
حکام کے مطابق بگی کیمرا آپریٹرز اور دیگر ٹیکنیکل سٹاف میں کئی انڈین اہلکار شامل ہیں، جن میں سے کچھ لاہور جبکہ باقی ملتان میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
پاکستان نے بھی انڈین شہریوں کو 48 گھنٹوں کے اندر ملک چھوڑنے کی ہدایت جاری کی تھی۔ فائل فوٹو: اے ایف پیپی سی بی کے پاس موجود آپشنزبین الاقوامی متبادل عملہ
انڈین براڈکاسٹنگ عملہ اگر واپس چلا جاتا ہے تو پی سی بی ایسے تکنیکی ماہرین اور نشریاتی عملے کی خدمات سری لنکا، جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش یا متحدہ عرب امارات جیسے ممالک سے حاصل کر سکتا ہے، جو ماضی میں بھی پاکستان میں نشریاتی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
مقامی ماہرین کی خدمات کا حصول
اس کے علاوہ پاکستان میں موجود تجربہ کار فری لانسرز یا مستقل نشریاتی ماہرین، کیمرہ مین اور انجینیئرز کو بھی فوری طور پر متحرک کیا جا سکتا ہے۔ پی سی بی نے پہلے ہی بعض مقامی افراد کو سٹینڈ بائی پر رکھا ہوا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر ان کی خدمات حاصل کی جا سکیں۔
’پی سی بی کوئی نہ کوئی متبادل ضرور نکال لے گا‘
پاکستان کرکٹ کے امور پر گہری نظر رکھنے والے سینئر کرکٹ تجزیہ کار مرزا اقبال بیگ کا کہنا ہے کہ ’پی ایس ایل کی براڈکاسٹنگ ٹیم میں شامل انڈین اہلکار اگر واپس چلے بھی جائیں تو یہ کوئی غیر معمولی مسئلہ نہیں ہو گا کیونکہ پی سی بی کے پاس متبادل آپشنز موجود ہیں۔‘
پاکستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان کے مطابق حکومت کے فیصلے پر ہر ایک کو عمل کرنا ہوتا ہے۔ فائل فوٹو: پی ایس ایل
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں بھی ایسا تکنیکی عملہ موجود ہے جو عالمی معیار کی نشریات کو پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘
’2019 میں بھی انڈین عملہ واپس چلا گیا تھا مگر پی ایس ایل جاری رہی تھی‘
مرزا اقبال بیگ نے فروری 2019 کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت بھی پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کے باعث انڈین براڈکاسٹنگ عملہ واپس چلا گیا تھا، مگر پی ایس ایل کی نشریات بلا تعطل جاری رہیں۔‘
اُنہوں نے کہا کہ ’ان وجوہات کی بنا پر ہی موجودہ صورتِ حال میں بھی پی سی بی کے پاس راستے موجود ہیں، اور پی ایس ایل کی براڈکاسٹنگ متاثر نہیں ہو گی۔‘