اسلام آباد کے رہائشی محمد اسحاق گذشتہ ماہ ویک اینڈ پر اپنے گھر کی چھت پر دھوپ سینک رہے تھے کہ اُنہیں پی ٹی سی ایل نمبر سے ایک غیر متوقع کال موصول ہوئی۔
کالر نے خود کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کا نمائندہ ظاہر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اُن کے فون نمبر کے خلاف ایک مصدقہ شکایت موصول ہوئی ہے۔
ساتھ ہی محمد اسحاق کو خبردار کیا گیا کہ اگر انہوں نے فوری طور پر اپنی معلومات فراہم نہ کیں تو اُن کے نام پر رجسٹرڈ تمام سم کارڈز دو گھنٹوں کے اندر بلاک کر دیے جائیں گے۔
محمد اسحاق نے کال کرنے والے نمبر کی صداقت جانچنے کے لیے اُسے گوگل پر تلاش کیا تو وہ واقعی ایک پی ٹی سی ایل نمبر ظاہر ہوا اور اِسی بنا پر انہوں نے کال کو اصل سمجھا۔
اگلے چند لمحوں میں اُن سے شناختی کارڈ نمبر سمیت دیگر حساس معلومات طلب کی گئیں اور پھر وہ ایک مالی دھوکہ دہی کا شکار بن گئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جعل ساز اب اداروں کا سہارا لے کر شہریوں کو خوف زدہ کرتے ہیں اور اُن سے ایسی معلومات حاصل کر لیتے ہیں، جن کی مدد سے آن لائن بینک اکاؤنٹس اور ڈیجیٹل شناخت تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
یہ سائبر حملے صرف عام شہریوں تک محدود نہیں رہے بلکہ اب ارکانِ پارلیمنٹ بھی اِن کا شکار ہو رہے ہیں۔ جعلی کالز اور سوشل میڈیا پروفائلز کے ذریعے فراڈ کا معاملہ حالیہ دنوں میں قومی اسمبلی تک جا پہنچا ہے۔
ایوان کے نمائندے بھی متاثر
قومی اسمبلی کے 15ویں اجلاس میں مسلم لیگ ن کے رکنِ اسمبلی انجم عقیل خان نے سوال اٹھایا کہ شہریوں کو جعل سازوں کی جانب سے دھوکہ دہی پر مبنی کالز موصول ہو رہی ہیں، ایسے میں متعلقہ ادارے کیا اقدامات کر رہے ہیں؟
اردو نیوز کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی رکنِ قومی اسمبلی شاہدہ رحمانی بھی ایسی ہی جعل سازی کا نشانہ بنی ہیں۔
انہوں نے رابطہ کرنے پر اُردو نیوز کو بتایا کہ جب وہ آسٹریلیا میں مقیم تھیں، تو اُنہیں ایک ساتھی رکنِ اسمبلی کے نام سے واٹس ایپ پر پیغام موصول ہوا۔
ایم این اے شاہدہ رحمانی کے مطابق ’واٹس ایپ پر اُن سے مالی مدد کی درخواست کی گئی تھی‘ (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)
شاہدہ رحمانی کے مطابق ’واٹس ایپ پر اُن سے مالی مدد کی درخواست کی گئی تھی۔ بظاہر یہ پیغام حقیقی معلوم ہو رہا تھا کیونکہ بھیجنے والے کو یہ بھی علم تھا کہ وہ اس وقت بیرونِ ملک ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’جعل سازوں نے اُن کے نام سے بھی سوشل میڈیا پر جعلی پروفائلز بنا کر اُن کے دوستوں اور رشتہ داروں سے رقم طلب کی۔‘
شاہدہ رحمانی نے سوال اٹھایا کہ آخر شہریوں کی ذاتی معلومات، فون نمبرز اور لوکیشن کی تفصیلات جعل سازوں تک کیسے پہنچ رہی ہیں؟
انہوں نے مزید کہا کہ ’پی ٹی اے سمیت دیگر متعلقہ ادارے ایسے عناصر کے خلاف مؤثر کارروائی کیوں نہیں کر رہے؟‘
پی ٹی اے کا مؤقف اور اقدامات
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے شہریوں کو متعدد بار خبردار کیا جا چکا ہے کہ وہ کسی بھی مشکوک کال پر اپنی ذاتی معلومات ہرگز فراہم نہ کریں۔
حکام پی ٹی اے کے مطابق ’کوئی بھی سرکاری ادارہ فون کال یا میسج کے ذریعے شہریوں سے شناختی کارڈ، بینک اکاؤنٹ کی تفصیل یا او ٹی پی (ون ٹائم پاس ورڈ) جیسی معلومات طلب نہیں کرتا۔‘
پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ ’شہری مشکوک کال پر ذاتی معلومات فراہم نہ کریں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پی ٹی اے کا ایک بیان میں کہنا ہے کہ ’وہ اب تک ایسی 604 ویب سائٹس کو بلاک کر چکی ہے جو مالی دھوکہ دہی میں ملوث پائی گئی ہیں۔‘
’جعلی پروفائلز کے خلاف مؤثر کارروائی کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ضابطے میں لانا ضروری ہے، تاہم جعل سازوں کی شناخت میں درپیش تکنیکی رکاوٹیں تاحال اس عمل میں تاخیر کا سبب ہے۔‘
سائبر ماہرین کیا کہتے ہیں؟
سائبر سکیورٹی کے ماہر محمد اسد الرحمان کہتے ہیں کہ ’جعل ساز جعلی کالز یا پیغامات کے ذریعے شہریوں سے او ٹی پی اور دیگر ذاتی معلومات حاصل کرتے ہیں اور اُنہیں مالی فراڈ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘
اُن کے مطابق ’سوشل میڈیا پروفائلز ہیک کر کے یا کسی معروف شخصیت کے نام سے جعلی پروفائل بنا کر اُس کے دوستوں اور اہلِ خانہ سے رقم طلب کی جاتی ہے۔‘
محمد اسد الرحمان نے سائبر حملوں سے بچاؤ کے طریقہ کار پر کہا کہ ’جب تک صارفین خود اپنی معلومات فراہم نہیں کرتے، کسی بھی سائبر حملہ آور کے لیے کامیاب ہونا ممکن نہیں۔‘
انہوں نے زور دیا کہ شہری کسی بھی مشکوک کال، میسج یا پروفائل کو نظرانداز کریں اور فوری طور پر پی ٹی اے یا ایف آئی اے میں شکایت درج کروائیں۔