BBCاس تصویر میں حماد الدحدوح، محمد ابو طویلہ اور عبد الکریم مشتہٰی کو دیکھا جا سکتا ہے جنھیں حال ہی میں اسرائیل جیلوں سے رہائی ملی ہے
انتباہ: اس رپورٹ میں شامل تفصیلات قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں
اسرائیلی جیلوں سے رہائی پا کر غزہ واپس پہنچنے والے فلسطینی قیدیوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ دورانِ قید اسرائیلی فوج اور جیل حکام نے انھیں بدسلوکی اور اذیت کا نشانہ بنایا ہے۔
حال ہی میں رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں کے بیانات سے اسرائیلی جیلوں اور فوجی بیرکوں میں فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک سے متعلق پہلے سے موجود الزامات کو مزید تقویت ملی ہے۔
ایک قیدی نے بتایا کہ اُن پر کیمیکل پھینکا گیا اور اُن کے جسم کو آگ لگائی گئی۔ 36 سالہ محمد ابو طویلہ پیشے کے لحاظ سے ایک مکینک ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’اپنے جسم پر لگی آگ بھجانے کے لیے میں جانوروں کی طرح تڑپتا رہا۔‘
بی بی سی نے پانچ ایسے فلسطینیوں کے تفصیلی انٹرویوز کیے ہیں جنھیں غزہ سے اُس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب حماس نے اسرائیل پر بڑا حملہ کر کے 1200 اسرائیلی شہریوں کو ہلاک اور251 کو یرغمال بنا لیا تھا۔
ان قیدیوں کو ایک متنازع اسرائیلی قانون کے تحت بغیر کوئی مقدمہ چلائے جیل میں رکھا گیا۔ یہ قانون اُن افراد پر لاگو ہوتا ہے جنھیں اسرائیل کی سکیورٹی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔
قیدیوں کا کہنا ہے کہ ان پر حماس سے روابط کا الزام لگا کر اسرائیلی یرغمالیوں اور غزہ میں سرنگوں کی موجودگی کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی تاہم اسرائیلی حکام کو تفتیش کے بعد اُن کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اسی لیے حماس اور اسرائیل میں ہونے والے حالیہ جنگ بندی معاہدے کے تحت اُن کی رہائی ممکن ہوئی ہے۔
اگرچہ اس معاہدے کے تحت رہا ہونے والے کچھ افراد اسرائیلی شہریوں کے قتل جیسے سنگین جرائم کے الزامات کے تحت سزا کاٹ رہے تھے مگر جن قیدیوں نے ہمیں انٹرویو دیا ان پر ایسا کوئی الزام نہیں تھا۔ ہم نے اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) اور اسرائیلی جیل سروس (آئی پی ایس) سے بھی پوچھا کہ آیا ان افراد کے خلاف کوئی فردِ جرم یا مقدمہ تھا یا نہیں، مگر ہمیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
قیدیوں کے بیانات کے مطابق:
ان سب کو کپڑے اُتار کر، آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر اور ہاتھ باندھ کر مارا پیٹا گیاکچھ نے بتایا کہ انھیں بجلی کے جھٹکے دیے گئے، کتوں سے ڈرایا گیا اور طبی سہولیات سے محروم رکھا گیاکچھ نے دیگر قیدیوں کی ہلاکتیں اپنی آنکھوں سے دیکھیایک قیدی نے بتایا کہ انھوں نے اپنے سامنے دوسرے قیدی پر جنسی تشدد ہوتے دیکھا ایک نے بتایا کہ اس کا سر کیمیکل میں ڈبویا گیا اور اس کی کمر کو آگ لگا دی گئی
ہم نے ان پانچ رہائی پانے والوں میں سے دو افراد سے دوران حراست ملاقات کرنے والے وکیل کی رپورٹس بھی دیکھی ہیں اور اس طبی عملے سے بات کی ہے جنھوں نے رہائی کے بعد اُن کا علاج کیا۔
بی بی سی نے اسرائیلی فوج کو ایک تفصیلی سوالنامہ بھیجا جس میں قیدیوں کے الزامات اور ان کی شناخت کا ذکر کیا گیا ہے۔
اپنے جواب میں اسرائیلی فوج نے ان الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا مگر صرف اتنا کہا کہ وہ ’قیدیوں کے ساتھ منظم طریقے سے کی گئی بدسلوکی کے الزامات کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔‘
اسرائیلیفوج کا کہنا تھا کہ بی بی سی نے جن کیسز کا ذکر کیا، متعلقہ حکام ان میں سے کچھ شکایات کی تحقیقات کریں گے جبکہ دیگر ’ایسے الزامات ہیں جن میں نہ تو قیدیوں کی شناخت شامل ہے اور نہ ہی کوئی ٹھوس تفصیل، لہذاان کی تحقیقات ممکن نہیں۔‘
فوج نے یہ بھی کہا کہ ’اسرائیلی دفاعی افواج ایسے معاملات کو بہت سنجیدگی سے لیتی ہے جو اس کی اقدار سے متصادم ہوں۔ قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی یا ناکافی سہولیات سے متعلق شکایات متعلقہ حکام کو بھیجی جاتی ہیں اور ان پر مناسب کارروائی کی جاتی ہے۔ بعض صورتوں میں متعلقہ عملے کے خلاف تادیبی کارروائی اور مجرمانہ تحقیقات کی جاتی ہیں۔‘
اسرائیلی جیل سروس (آئی پی ایس) کا کہنا تھا کہ انھیں اپنی تحویل میں موجود کسی قیدی سے بدسلوکی کی اطلاعات نہیں ہیں۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف برسٹل سے منسلک ڈاکٹر لارنس ہل کورتھورن کا کہنا ہے کہ قیدیوں کی بیان کردہ صورتحال ’بین الاقوامی اور اسرائیلی دونوں قوانین سے مکمل طور پر متصادم ہے‘ اور بعض صورتوں میں یہ ’تشدد کی تعریف پر پورا اترتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بین الاقوامی قوانین کے تحت جنگی حالات میں بھی قیدیوں سے انسانی سلوک لازم ہے چاہے ان پر کسی جرم کا الزام ہو یا نہ ہو۔‘
تشدد کا آغاز گرفتاری کے وقت ہی ہو گیا تھاBBCمحمد ابو طویلہ نے بتایا کہ انھیں کئی دنوں تک اذیت دی گئی
بی بی سی نے جن پانچ رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں کاانٹرویو کیا انھیں رواں سال کے آغاز میں جنگ بندی معاہدے کے تحت رہا کیا گیا تھا۔
یہ پانچ افراد تقریباً ان 1900 فلسطینی قیدیوں اور نظربند افراد کے اس تبادلے میں شامل تھے جنھیں 33 اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے میں رہا کیا گیا۔ رہائی پانے والے اسرائیلی شہریوں میں 25 افراد زندہ حالت میں جبکہ آٹھ افراد مردہ حالت میں اسرائیلی حکام کے حوالے کیے گئے۔ رہائی پانے والے اسرائیلیوں میں سے کئی افراد کا دعویٰ ہے کہ انھیں حماس کی قید میں اذیت کا سامنا کرنا اور بھوکا رہنا پڑا جبکہ انھیں دھمکیاں بھی دی گئیں۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ فرانزک تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ جنگ بندی کے تحت واپس ملنے والے کچھ ہلاک شدہ یرغمالیوں (جن میں بچے بھی شامل تھے) کو حماس نے قتل کیا تاہم حماس ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
رہا کیے گئے پانچوں فلسطینیوں نے ایک جیسے حالات بیان کیے: انھیں غزہ سے گرفتار کر کے اسرائیل لے جایا گیا جہاں پہلے انھیں فوجی بیرکوں میں رکھا گیا، پھر جیلوں میں منتقل کیا گیا اور کئی ماہ بعد انھیں واپس غزہ بھیج دیا گیا۔
ان سب کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ ہر مرحلے پر بدسلوکی کی گئی۔
بی بی سی نے رہائی پانے والے جن دیگر درجنوں قیدیوں سے بات کی ان سب نے بھی مار پیٹ، بھوک اور دوران قید بیماریوں کی شکایت کی۔
جولائی میں اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ فلسطینی قیدیوں کو برہنہ کیا گیا، کھانے، پانی اور نیند سے محروم رکھا گیا، انھیں بجلی کے جھٹکے دیے گئے، سگریٹ سے جلایا گیا اور ان پر کتے چھوڑے گئے۔
گذشتہ ماہ اقوام متحدہ کے ماہرین کی ایک اور رپورٹ میں جنسی زیادتی اور ریپ کے واقعات کا ذکر تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے جنسی تشدد یا اس کی دھمکی دینا ایک ’عام طریقہ کار‘ بن چکا ہے۔ اسرائیل نے ان الزامات کو ’بے بنیاد‘ قرار دے کر مکمل طور پر مسترد کر دیا تھا۔
چونکہ اسرائیل غیر ملکی صحافیوں کو آزادانہ طور پر غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا اس لیے بی بی سی نے ان قیدیوں کے انٹرویوز فون، ٹیکسٹ اور مقامی صحافیوں کے ذریعے کیے ہیں۔
پانچوں افراد نے بتایا کہ ان کے ساتھ تشدد کا آغاز گرفتاری کے وقت ہی ہو گیا تھا۔ انھیں برہنہ کیا گیا، آنکھوں پر پٹیاں باندھی گئیں اور مارا پیٹا گیا۔
پیشے کے لحاظ سے مکینک محمد ابو طویلہ نے بتایا کہ انھیں کئی دنوں تک اذیت دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ مارچ 2024 میں گرفتاری کے بعد فوجی انھیں ایک قریبی عمارت میں لے گئے جہاں تین دن تک وہ اکیلے قیدی تھے اور مسلسل فوجیوں کی تفتیش اور تشدد کا سامنا کرتے رہے۔
’میں آگ بجھانے کے لیے جانوروں کی طرح تڑپتا رہا‘
انتباہ: اگلی تصویر قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہے
محمد ابو طویلہ نے بتایا کہ فوجی ایک برتن میں صفائی کے لیے استعمال ہونے والے کیمیکل ملاتے رہے اور پھر ان کا سر اس میں ڈبو دیا۔
اس کے بعد اسرائیلی تفتیش کاروں نے انھیں مکے مارے جس سے وہ گِر پڑے اور اُن کی آنکھ زخمی ہو گئی۔
پھر اسرائیلی فوجیوں نے ان کی زخمی آنکھ پر کپڑا باندھ دیا جس سے تکلیف اور بڑھ گئی۔
انھوں نے مزید بتایا کہ فوجیوں نے ان کے جسم کو آگ بھی لگائی۔
’انھوں نے خوشبو والا سپرے اور لائٹر استعمال کر کے میری کمر کو آگ لگائی۔ میں آگ بجھانے کے لیے جانوروں کی طرح تڑپتا رہا۔ آگ میرے گلے سے لے کر ٹانگوں تک پھیل گئی۔ پھر انھوں نے بار بار بندوقوں کے بٹ اور لکڑی کے ڈنڈوں سے مجھے مارا اور بار بار میرے جسم کو ان سے چھبوتے رہے۔‘
وہ بتاتے ہیں ’اس کے بعد انھوں نے میرے اوپر تیزاب ڈالنا شروع کر دیا۔ تقریباً ڈیڑھ دن تک میرا جسم اسی سے دھویا جاتا رہا۔‘
’وہ میرے سر پر تیزاب انڈیلتے اور جب میں کرسی پر بیٹھتا تو یہ تیزاب میرے پورے جسم پر بہتا رہتا۔‘
محمد ابو طویلہ بتاتے ہیں کہ آخر میں فوجیوں نے ان کے جسم پر پانی ڈالا اور پھر انھیں اسرائیل لے گئے جہاں ہسپتال میں ان کا علاج ہوا جس میں ان کی سکن گرافٹنگ کی گئی۔ یاد رہے یہ وہ طبی عمل ہے جس میں جسم کے کسی حصے سے صحت مند جلد لے کر اسے جلے ہوئے، زخم شدہ یا کسی اور حصے پر لگایا جاتا ہے تاکہ وہ حصہ دوبارہ ٹھیک ہو سکے۔
BBCبی بی سی نے جب ابو طویلہ سے رہائی کے کچھ ہی دن بعد بات کی تو ان کی کمر پر جلنے کے نشانات اور سوجن نمایاں تھی’سدی تيمان‘ جہاں قیدیوں کو زنجیروں سے باندھنا اور نیپی پہنانا ایک معمول ہے
ابو طویلہ نے بتایا کہ ان کا زیادہ تر علاج اسرائیل کے جنوبی علاقے بیر شبع کے قریب واقع ’سدی تیمن‘ نامی فوجی اڈے کے ایک فیلڈ ہسپتال میں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں برہنہ حالت میں بستر سے باندھ دیا گیا تھا اور بیت الخلا کی سہولت دینے کے بجائے صرف نیپی پہننے کو دی گئی۔
اس ہسپتال میں کام کرنے والے اسرائیلی ڈاکٹروں نے پہلے بھی بی بی سی کو بتایا تھا کہ قیدی مریضوں کو زنجیروں سے باندھنا اور نیپی پہنانا وہاں کا معمول ہے۔
بی بی سی نے جب ابو طویلہ سے رہائی کے کچھ ہی دن بعد بات کی تو ان کی کمر پر جلنے کے نشانات اور سوجن نمایاں تھی۔ انھوں نے بتایا کہ جلنے کا درد اتنا تکلیف دہ ہوتا کہ وہ نیند سے جاگ جاتے اور ان کی بینائی بھی متاثر ہوئی تھی۔
بی بی سی کسی ایسے فرد سے بات نہیں کر سکی جو ابو طویلہ پر ہونے والے حملے کا عینی شاہد ہو مگر غزہ میں ایک آنکھوں کے ماہر ڈاکٹر نے قید سے واپسی پر ان کا معائنہ کیا تھا اور انھوں نے بی بی سی کو تصدیق کی کہ ابو طویلہ کی آنکھ پر کیمیکل سے جلنے کا اثر تھا جس سے آنکھ کے آس پاس کی جلد کو نقصان پہنچا۔
ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ابو طویلہ کی نظر کمزور ہو رہی ہے جو یا تو کیمیکل کے اثرات ہو سکتے ہیں یا کسی اور جسمانی صدمے کی وجہ سے ہو سکتے ہیں۔
بی بی سی نے ابو طویلہ کے زخموں کی تصاویر اور انٹرویو میں مہیا کی گئی تفصیلات کئی برطانوی ڈاکٹروں کو دکھائیں جنھوں نے کہا کہ زخم اور علامات ابو طویلہ کی کہانی سے مطابقت رکھتے ہیں۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تصاویر دیکھ کر مکمل تشخیص ممکن نہیں۔
بی بی سی نے یہ تمام تفصیلات اسرائیلی فوج (آئی ڈی ایف) کو فراہم کیں انھیں ان کی تفتیش کے لیے پانچ دن کا وقت دیا۔
تاہم آئی ڈی ایف نے ابو طویلہ کے الزامات کا براہِ راست جواب نہیں دیا اور صرف اتنا کہا کہ وہ ایسے کسی بھی معاملے کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں ’جو اس کی اقدار کے خلاف ہو۔‘
انھوں نے یہ ضرور کہا کہ کچھ کیسز کی تفتیش کی جائے گی مگر یہ واضح نہیں کیا کہ آیا ابو طویلہ کا کیس ان میں شامل ہے یا نہیں۔
BBCغزہ میں آنکھوں کے ماہر ڈاکٹر نے قید سے واپسی پر ابو طویلہ کا معائنہ کیا تھا اور انھوں نے بی بی سی کو تصدیق کی کہ ابو طویلہ کی آنکھ پر کیمیکل جلنے کا اثر تھا’جو تم نے ہمارے بچوں کے ساتھ کیا، ہم وہی تمہارے بچوں کے ساتھ کریں گے‘
جن دوسرے فلسطینیوں سے بی بی سی نے بات کی انھوں نے بھی گرفتاری کے وقت بدسلوکی کی تفصیل بتائی ہے۔
عبدالکریم مشتہٰی کی عمر 33 سال ہے اور وہ مرغی خانے میں کام کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’اسرائیلی فوجیوں نے ہمیں ہتھکڑیاں لگائیں اور مارنا شروع کر دیا۔ کسی نے مجھے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ دیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ نومبر 2023 میں جب وہ اپنی فیملی کے ساتھ اسرائیلی انخلا کے حکم پر عمل کر رہے تھے تو ایک چیک پوسٹ پر انھیں گرفتار کر لیا گیا۔
بعد میں ان سے جیل میں ملنے والے ایک وکیل نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ جیل منتقل کیے جانے سے قبل عبدالکریم مشتہٰی کو شدید مارپیٹ، ذلت، برہنہ کرنے اور بےعزتی کا نشانہ بنایا گیا۔
دو قیدیوں نے بتایا کہ انھیں گھنٹوں سردی میں باہر کھڑا رکھا گیا جبکہ دیگر دو نے کہا کہ اسرائیلی فوجیوں نے ان کے پیسے اور ذاتی اشیا چوری کر لیں۔
بی بی سی نے جب ان الزامات کی تفصیل اسرائیلی فوج (آئی ڈی ایف) کو فراہم کی تو فوج نے اسے ’قانون اور اپنی اقدار کے خلاف‘ قرار دیا اور کہا کہ اگر مزید معلومات فراہم کی جائیں تو وہ ان کیسز کی مکمل جانچ کریں گے۔
عبدالکریم مشتہٰی سمیت تمام قیدیوں نے بتایا کہ انھیں اسرائیلی فوجی چھاؤنی ’سدی تیمن‘ لے جایا گیا جہاں ابو طویلہ کا بھی ایک فیلڈ ہسپتال میں علاج کیا گیا۔
ایک قیدی نے حفاظت کے خوف سے اپنا نام نہ ظاہر کرنی کی درخواست کی لہذا ہم نے انھیں ’عمر‘ کا نام دیا ہے۔ عمر کہتے ہیں کہ اس فوجی چھاؤنی میں لے جاتے وقت بھی اسرائیلی فوجیوں نے انھیں بدسلوکی کا نشانہ بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوجیوں نے ان پر اور دیگر قیدیوں پر تھوکا اور ایسی گالیاں دیں ’خنزیروں کی اولاد‘ اور ’سنوار کی اولاد‘ (حماس کے لیڈر یحییٰ سنوار کا حوالہ جن کے متعلق اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ وہ 7 اکتوبر کے حملوں کے مرکزی منصوبہ ساز تھے اور وہ پانچ ماہ قبل اسرائیلی کارروائی میں ہلاک ہوئے)۔
اسرائیل پر ’وارکرائمز‘ کے الزامات: جنگی جرائم کا تعین کیسے کیا جاتا ہے اور عدالت کن بنیادوں پر سزا دیتی ہے؟متنازع نقشے پر سعودی عرب، فلسطین اور عرب لیگ کی مذمت: ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ یا کوئی ٹھوس منصوبہ’وہ ہم پر اپنے کتے چھوڑ دیتے، ہمارے ہاتھ پیر توڑتے‘: رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں کا اسرائیل پر تشدد کا الزاماسرائیلی جیل سے فلسطینی قیدیوں کے فرار اور پھر گرفتاری کی مکمل کہانی
عمر نے مزید بتایا: ’انھوں نے ہمیں ایک آڈیو ریکارڈنگ سُنوائی جس میں کہا گیا تھا: ’جو تم نے ہمارے بچوں کے ساتھ کیا، ہم وہی تمہارے بچوں کے ساتھ کریں گے۔‘
عمر ایک الیکٹریکل کیبل کمپنی میں کام کرتے تھے۔
سدی تیمن چھاؤنی پہلے بھی سخت الزامات کی زد میں آ چکی ہے۔
فروری میں وہاں تعینات کئی اسرائیلی فوجیوں پر ایک قیدی پر تشدد کرنے کا الزام لگا جس کے نتیجے میں قیدی کو ہسپتال لے جانا پڑا۔۔۔ تشدد کے نتیجے میں اس قیدی کے جسم کے نچلے حصے اور پھیپھڑوں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔
ایک اور الگ کیس میں اسی چھاؤنی کے ایک فوجی کو غزہ کے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کرنے کا اعتراف کرنے کے بعد سزا سنائی گئی۔
Getty Imagesہم نے جن قیدیوں سے بات کی ان سب کو ابتدا میں ’سدی تيمان‘ نامی اسرائیلی فوجی بیرک میں قید کیا گیا تھا جو فلسطینیوں کے ساتھ مبینہ بدسلوکی کے سنگین الزامات کا مرکز رہی ہے’سخت ہتھکڑیوں میں باندھ کر ہمارے اوپر کتے چھوڑ دیے جاتے‘
جن تین افراد سے ہم نے بات کی انھوں نے الزام عائد کیا کہ سدی تيمان اور دیگر حراستی مراکز میں قیدیوں کو ڈرانے کے لیے کتوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔
ابو طویلہ جو حراستی بیرک میں قید تھے اور وہیں ان کا علاج بھی کیا جاتا رہا، نے بتایا کہ ’جب ہمیں بیرک سے میڈیکل کلینک یا تفتیشی کمرے میں لے جایا جاتا تو اس دوران بھی ہمیں مارا پیٹا جاتا، سخت ہتھکڑیوں میں باندھ کر ہمارے اوپر کتے چھوڑ دیے جاتے۔‘
بی بی سی نے اسرائیلی فوج (آئی ڈی ایف) سے ان الزامات پر جواب مانگا کہ آیا وہ قیدیوں کو ڈرانے اور ان پر حملہ کرنے کے لیے کتوں کا باقاعدہ استعمال کرتی ہے۔ فوج نے دعویٰ کیا کہ: ’قیدیوں کو نقصان پہنچانے کے لیے کتوں کا استعمال ممنوع ہے۔‘
اسرائیلی فوج کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ’قید کیے گئے افراد میں خطرناک دہشت گرد شامل ہیں اور یہ کہ غیر معمولی صورتوں میں ان قیدیوں کو زیادہ دیر کے لیے باندھا جاتا ہے۔‘
کئی قیدیوں نے بتایا کہ انھیں طویل وقت کے لیے تکلیف دہ حالت (مثلاً ہاتھوں کو گھنٹوں تک سر کے اوپر اٹھا کر رکھنا) میں بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔
ابو طویلہ نے بتایا: ’ہمیں صبح 5 بجے سے رات 10 بجے سونے تک گھٹنوں کے بل بیٹھنا پڑتا تھا۔‘
ایک اور قیدی حماد الدحدوح نے کہا کہ بیرک میں مارپیٹ کے دوران ’ہمارے سروں اور حساس حصوں جیسے آنکھوں اور کانوں کو نشانہ بنایا جاتا تھا۔‘
44 سالہ حماد جو جنگ سے پہلے کسان تھے، نے بتایا کہ اسرائیلی فوجیوں کے تشدد کے نتیجے میں ان کے کان اور کمر کو نقصان پہنچا اور ان کی پسلیاں بھی ٹوٹ گئیں۔
حمد الدحدوحکے الزام پر اسرائیلی فوج نے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
BBC44 سالہ حماد نے بتایا کہ اسرائیلی فوجیوں کے تشدد کے نتیجے میں ان کے کان اور کمر کو نقصان پہنچا اور ان کی پسلیاں بھی ٹوٹ گئیں’تشدد کرنے والی یونٹ کے فوجی کتے، لاٹھیاں اور الیکٹرک گنز لے کر آتے‘
دحدوح اور کچھ دیگر رہائی پانے والے قیدیوں نے بتایا کہ تفتیش کے دوران یا بطورِ سزا انھیں بجلی کے جھٹکے بھی دیے گئے۔
انھوں نے کہا: ’تشدد کرنے والی یونٹ کے فوجی کتے، لاٹھیاں اور الیکٹرک گنز لے کر آتے۔ وہ ہمیں بجلی کے جھٹکے دیتے اور مارتے۔‘
ابو طویلہ نے مزید بتایا کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے دوران بھی ہمیں مارا پیٹا جاتا اور ڈرایا دھمکایا جاتا۔
ان مردوں کا کہنا ہے کہ ان پر تفتیش کے دوران حماس سے تعلق ہونے کا الزام لگایا جاتا رہا۔
مشتہٰی نے کہا: ’ہر قیدی سے کہا جاتا ’تم دہشت گرد ہو‘ وہ ہمیشہ یہی الزام دہراتے کہ ہم نے 7 اکتوبر کے حملے میں حصہ لیا۔ ان سب فوجیوں کے دل میں بغض تھا۔‘
وہ کہتے ہیں ’میں نے ان سے کہا: اگر میں واقعی حماس سے ہوں یا کسی اور تنظیم سے تعلق رکھتا ہوں تو کیا میں آپ کے بتائے ہوئے محفوظ راستے سے سفر کرتا؟ کیا میں آپ کی کال پر علاقہ چھوڑتا؟‘
BBCعبدالکریم مشتہٰی کا کہنا ہے کہ انھیں اس قدر مارا پیٹا گیا کہ ان کے ’بازوؤں اور ٹانگوں سے خون بہہ رہا تھا‘كتسيعوت جیل جہاں ’استقبالیہ تقریب میں قیدیوں سے مار پیٹ اور بدسلوکی کی گئی‘
انھوں نے بتایا کہ تفتیش رات بھر جاری رہتی تھی۔
’تین راتوں تک میں اس لیے سو نہیں سکا کیونکہ وہ مجھے تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے۔ ہمارے ہاتھ باندھ کر سر کے اوپر کئی گھنٹوں تک رکھے جاتے اور اس دوران ہم نے کچھ نہیں پہنا ہوتا تھا۔ جب بھی ہم کہتے ’مجھے سردی لگ رہی ہے‘ وہ ایک بالٹی میں ٹھنڈا پانی بھر کر ہم پر ڈالتے اور پنکھا چلا دیتے۔‘
دحدوح نے بتایا کہ ان کے تفتیش کاروں نے کہا کہ جو بھی غزہ سے ہے ’اس کا تعلق دہشت گرد تنظیموں سے ہے‘ اور جب قیدیوں نے پوچھا کہ کیا وہ عدالت میں اس کے خلاف چیلنج کر سکتے ہیں تو انھیں بتایا گیا کہ اس کے لیے وقت نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ انھیں وکیل تک رسائی نہیں دی گئی۔ اسرائیلی فوج نے بی بی سی کو بتایا: ’اسرائیلی قانون شہری عدالت میں عدالتی جائزے کا حق، وکیل کے ذریعے قانونی نمائندگی اور سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا حق فراہم کرتا ہے۔‘
عمر نے کہا کہ جب وہ سدی تيمان پہنچے تو انھیں تین دن تک تفتیش کے لیے لے جایا جاتا رہا۔
انھوں نے بتایا کہ قیدیوں کو پتلے کپڑے پہنا کر ایک ٹھنڈے کمرے میں رکھا جاتا جہاں بلند آواز میں اسرائیلی موسیقی چلائی جاتی تھی۔
ان قیدیوں نے بتایا کہ تفتیش ختم ہونے پر انھیں آنکھوں پر پٹی باندھ کر بیرکوں میں واپس لے جایا گیا۔
عمر نے بتایا ’ہمیں نہیں پتا ہوتا تھا کہ رات ہے یا صبح ہو چکی ہے۔ ہم سورج نہیں دیکھ سکتے تھے، کچھ نہیں دیکھ سکتے تھے۔‘
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ان کے اپنے ’نگرانی کے طریقہ کار‘ ہیں جن میں بند سرکٹ کیمرے شامل ہیں ’تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ حراستی مراکز کو اسرائیلی فوج کے احکامات اور قانون کے مطابق چلایا جا رہا ہے۔‘
عمر اور مشتہٰی نے کہا کہ بعد میں انھیں كتسيعوت جیل منتقل کر دیا گی جہاں انھوں نے ایک ’استقبالیہ تقریب‘ کا ذکر کیا جس میں قیدیوں سے مار پیٹ اور بدسلوکی کی گئی۔
Getty Imagesعمر اور عبد الکریم مشتہٰی نے بتایا کہ كتسيعوت جیل میں مار پیٹ بہت شدید تھی اور کھانا بہت کم ملتا تھا’انھوں نے کچھ لڑکوں کے کپڑے اُتارے اور شرمناک عمل کیے‘
عمر نے بتایا کہ انھوں نے كتسيعوت جیل میں قیدیوں کا جنسی استحصال ہوتے ہوئے دیکھا۔
’انھوں نے کچھ لڑکوں کے کپڑے اُتارے اور شرمناک عمل کیے۔۔۔ انھوں نے لڑکوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جنسی عمل کرنے پر مجبور کیا۔ میں نے یہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ یہ پینیٹریٹو سیکس نہیں تھا۔ وہ ایک قیدی کو دوسرے قیدی لڑکے کے جنسی اعضا چوسنے کو کہتے، یہ کرنا لازمی ہوتا تھا۔‘
بی بی سی کو اس نوعیت کی کوئی دوسری رپورٹ نہیں ملی لیکن فلسطینی قیدیوں کی تنظیم جو اسرائیلی جیلوں میں فلسطینیوں کی حالت پر نظر رکھتی ہے، نے كتسيعوت جیل میں قیدیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو ایک ’عام بات‘ قرار دیا۔ اس میں ریپ، جنسی ہراسانی اور جنسی اعضا پر مار پیٹ شامل تھی۔
اس گروپ کا کہنا ہے کہ اگرچہ اسے قیدیوں کے درمیان زبردستی جنسی تعلقات کی کوئی گواہی نہیں ملی لیکن اسے بتایا گیا کہ بعض قیدیوں کو ایک دوسرے کو ننگا دیکھنے پر مجبور کیا گیا اور ایک دوسرے پر ننگا کر کے پھینکا گیا۔
بی ٹی سیلم کی ایک رپورٹ میں بھی جنسی تشدد کے الزامات شامل ہیں جن میں ایک قیدی نے بتایا کہ جیل گارڈز نے گاجر کے ذریعے ان کا ریپ کرنے کی کوشش کی۔
بی بی سی نے قیدیوں پر جنسی عمل کرنے کے الزامات اسرائیلی جیل سروس (آئی پی ایس) کے سامنے رکھے۔ انھوں نے جواب دیا کہ انھیں جنسی زیادتی کے الزام یا كتسيعوت اور دیگر جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔
انھوں نے کہا: ’آئی پی ایس ایک قانون نافذ کرنے والا ادارہ ہے جو قانون کی دفعات، ریاستی آڈیٹر اور دیگر سرکاری نگرانی کے تحت کام کرتا ہے۔‘
’تمام قیدیوں کو قانون کے مطابق حراست میں رکھا جاتا ہے۔جیل میں پیشہ ورانہ طور پر تربیت یافتہ گارڈز بنیادی حقوق کا نفاذ یقینی بناتے ہیں۔ ہمیں آپ کے بیان کردہ الزامات کا علم نہیں ہے اور جتنا ہمیں علم ہے اس کی رو سے آئی پی ایس کی ذمہ داری میں ایسا کوئی کام نہیں ہوا۔‘
انھوں نے مزید کہا ’تاہم قیدیوں اور حراست میں رکھے گئے افراد کو شکایت درج کرانے کا حق حاصل ہے جس کی مکمل تفتیش سرکاری حکام کرتے ہیں۔
عمر نے کہا کہ كتسيعوت جیل میں انھیں چھڑیوں یا ڈنڈوں سے بھی مارا گیا۔
عمر نے بتایا کہ ’تشدد کے بعد میں ساری رات کمر سے لے کر ٹانگوں تک درد میں مبتلا رہا۔۔۔ ساتھی لڑکے مجھے میٹرس سے اٹھا کر باتھ روم لے جاتے۔ میرا جسم، میری کمر، میری ٹانگیں۔۔۔۔ سارا جسم مار پیٹ سے نیلا پڑا تھا۔ تقریباً دو مہینے تک میں حرکت نہیں کر سکا۔‘
مشتہٰی نے کہا کہ ان کا سر دروازے سے ٹکرایا گیا اور جنسی اعضا پر مارا گیا۔
وہ بتاتے ہیں ’وہ ہمیں ننگا کر دیتے۔ وہ ہمیں ٹیز کرتے۔ وہ حساس جگہوں پر مار پیٹ کرتے۔ وہ کہتے ’ہم تمہیں خصی کر دیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ مار پیٹ کا مقصد ’ہڈیوں کو توڑنا‘ ہوتا تھا اور کبھی کبھار قیدیوں کو اکٹھا کر کے ان پر گرم پانی ڈالا جاتا۔
انھوں نے کہا کہ بہت زیادہ اور تکلیف دہ تشدد کیا جاتا۔
عمر اور مشتہٰی دونوں نے میڈیکل غفلت کے واقعات بھی بیان کیے۔
مشتہٰی نے کہا ’میرے ہاتھوں پر چھالے اور سوجن تھی۔ اگر کسی نے میرے پاؤں دیکھے ہوتے تو وہ کہتے کہ اتنی سوجن اور حراب حالت ہے کہ انھیں کاٹنا پڑے گا۔۔۔ گارڈز مجھے صرف یہ کہتے کہ اپنے ہاتھ پاؤں پانی اور صابن سے دھو لو۔‘
’لیکن میں یہ کیسے کرتا جب ہمارے پاس صرف ایک گھنٹے کے لیے پانی ہوتا اور صابن کی جگہ ہر ہفتے صرف ایک چمچ شیمپو لایا جاتا تھا۔‘
مشتہٰی نے کہا کہ گارڈز نے انھیں بتایا: جب تک تمہارے جسم میں دھڑکن ہے، تم صحت مند ہو، جب تک تم کھڑے ہو، تم صحت مند ہو۔ جب تمہاری دھڑکن رک جائے گی، ہم آ کر تمھارا علاج کر دیں گے۔‘
BBCعبدالکریم مشتہٰی: 'وہ ہمیں ننگا کر دیتے اور حساس جگہوں پر مار پیٹ کرتے۔ وہ کہتے کہ ہم تمہیں خصی کر دیں گے‘’جب قیدی طبی امداد مانگتے تو انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا‘
ایک وکیل جنھوں نے گذشتہ ستمبر میں كتسيعوت جیل میں عبد الکریم مشتہٰی اور عمر سے ملاقات کی، ان کی رپورٹ میں لکھا گیا کہ: ’یہ قیدی دیگر قیدیوں کی طرح، ہاتھوں، پیروں اور جسم کے نچلے حصوں پر پھوڑوں کے باعث شدید تکلیف میں مبتلا ہے۔ جیل میں صفائی کا کوئی بندوبست نہیں اور نہ ہی کسی قسم کا علاج فراہم کیا جا رہا ہے۔‘
مشتہٰی نے بی بی سی کو غزہ کے ایک ڈاکٹر کی تیار کردہ میڈیکل رپورٹ بھی فراہم کی جس میں تصدیق کی گئی کہ رہائی کے دن بھی وہ خارش جیسے جلدی مرض میں مبتلا تھے۔
عمر نے بتایا کہ جب قیدی طبی امداد مانگتے تو انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔
وکیل نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ جیل کی گندگی اور تشدد کے باعث عمر کے جسم پر دانے اور پھوڑے نکل آئے تھے۔۔۔ خاص طور پر رانوں اور پیٹھ پر جس کی بنیادی وجہ گندا پانی اور صفائی کی سہولیات کی کمی تھی۔
’قیدی کا کہنا ہے کہ جب نہانے کی باری آتی ہے تو وہ خود ہی بچنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ جیل کا پانی نہ صرف آلودہ ہے بلکہ اس سے خارش اور سوجن ہو جاتی ہے۔‘
تمام قیدیوں نے بتایا کہ انھیں دورانِ حراست بہت محدود مقدار میں کھانا اور پانی دیا جاتا تھا اور کئی نے بتایا کہ ان کا وزن تیزی سے کم ہوا۔
عمر کے مطابق ان کا وزن 30 کلوگرام تک کم ہو گیا۔
وکیل کا کہنا ہے کہ عمر نے انھیں بتایا کہ قید کے ابتدائی دنوں میں کھانے کی صورتحال ’انتہائی خراب‘ تھی، بعد میں کچھ معمولی سی بہتری آئی۔
مشتہٰی نے بتایا کہ جیل میں ان کا کھانا اکثر پنجرہ نما احاطے کے باہر رکھا جاتا جہاں پہلے بلیاں اور پرندے کھاتے اور آخر میں وہ۔
بی بی سی کو انٹرویو دینے والےایک اور قیدی احمد ابو سیف نے بتایا کہ انھیں ان کی 17ویں سالگرہ کے دن گرفتار کر کے مچدو جیل منتقل کر دیا گیا جو مقبوضہ مغربی کنارے کے قریب واقع ہے۔
BBCاحمد ابو سیف جو مچدو جیل کے نوعمر قیدیوں کے ونگ میں قید تھے، نے بتایا کہ تفتیش کے دوران ان کے پاؤں کے ناخن تک نوچ لیے گئے’سپاہی جانتے تھے کہ ہمیں جلد رہا کیا جا رہا ہے، اسی لیے تشدد اور بڑھا دیا گیا‘
احمد نے بتایا کہ اسرائیلی حکام بار بار ان کی بیرکوں پر دھاوا بولتے اور آنسو گیس کا سپرے کرتے۔
احمد جو نوجوان قیدیوں کے حصے میں قید تھے، بتاتے ہیں ’ہر بار آنسو گیس سپرے کے بعد ہمیں چار دن تک سانس لینے میں تکلیف ہوتی تھی۔۔ جیسے دم گھٹ رہا ہو۔‘
’ہم بچے تھے لیکن انھوں نے ہمارے ساتھ 7 اکتوبر کے عسکریت پسندوں جیسا سلوک دیا۔‘
تفتیش کے دوران احمد کے ناخن نکالے گئے۔ رہائی کے اگلے دن جب بی بی سی نے ان سے ملاقات کی تو اُنھوں نے اپنے پیروں کے ناخن دکھائے جن میں ابھی تک انفیکشن ہے۔ احمد نے ہمیں اپنے ہاتھوں پر زخم دکھائے جو ہتھکڑیوں اور کتوں کے پنجوں سے لگے تھے۔
اسرائیلی جیل حکام (آئی پی ایس) نے ان الزامات پر کوئی جواب نہیں دیا۔
دو قیدیوں نے بتایا کہ انھوں نے اپنے ساتھی قیدیوں کو مرتے دیکھا۔۔۔ ایک قیدی کتوں کے حملے اور مار پیٹ کے باعث مر گئے اور دوسرے کی موت طبی غفلت کی وجہ سے ہوئی۔
انھوں نے ان اموات کی جو نام اور تاریخیں بتائیں وہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا رپورٹس سے مطابقت رکھتی ہیں۔
فلسطینی قیدیوں کی تنظیم کے مطابق 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اب تک کم از کم 63 فلسطینی قیدی اسرائیلی تحویل میں ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے 40 کا تعلق غزہ سے تھا۔
اسرائیلی جیل حکام نے ان اموات پر کوئی جواب نہیں دیا تاہم اسرائیلی فوج نے کہا کہ وہ قیدیوں کی اموات کے بعض واقعات سے آگاہ ہے جن میں ان قیدیوں کی موت ہوئی جو پہلے ہی کسی بیماری یا جنگ کے دوران لگنے والے زخموں میں مبتلا تھے۔
انھوں نے کہا ’فوجی پولیس کی مجرمانہ تحقیقاتی شاخ ہر قیدی کی موت کے بعد باقاعدہ تفتیش کا آغاز کرتی ہے۔‘
کچھ قیدیوں نے بتایا کہ ان پر تشدد آخری لمحے تک جاری رہا، یہاں تک کہ رہائی کے دن بھی۔
مشتہٰی نے بتایا: ’رہائی کے دن ہمیں بھی وحشیانہ سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ ہماری ہتھکڑیاں بہت سخت کی گئیں اور جب ہمیں ہلانا ہوتا تو ہمارے ہاتھ سر کے اوپر کر کے زور سے کھینچا جاتا۔‘
انھوں نے بتایا ’فوجی کہتے تھے: اگر تم حماس سے تعلق رکھتے ہو یا ان کے لیے کام کرتے ہو تو تمہیں نشانہ بنایا جائے گا۔۔۔ ہم تم پر میزائل برسائیں گے۔‘
احمد جو صرف 17 سال کے ہیں، نے کہا کہ جنوری میں سیزفائر ڈیل کے بعد حالات اور بھی خراب ہو گئے تھے۔
’سپاہی جانتے تھے کہ ہمیں جلد رہا کیا جا رہا ہے، اسی لیے تشدد اور بڑھا دیا گیا۔‘
عمر نے بتایا کہ صرف اُس وقت انھیں سکون کا احساس ہوا جب انھیں ریڈ کراس کی بس کے ذریعے غزہ واپس بھیجا جا رہا تھا۔
ویڈیو میں دیکھا گیا کہ کچھ قیدی ایسی شرٹس پہنے ہوئے تھے جن پر اسرائیلی ستارہ بنا تھا اور عربی میں لکھا تھا: ’ہم نہ بھولتے ہیں، نہ معاف کرتے ہیں۔‘
غزہ میں یورپی ہسپتال جہاں قیدیوں کا معائنہ کیا گیا، کے ایک اہلکارنے بتایا کہ زیادہ تر قیدیوں کو جلد کی بیماریاں (جیسے خارش)، غذائی قلت اور جسمانی تشدد کے نشانات کے ساتھ لایا گیا۔
قانونی ماہر ڈاکٹر لارنس ہِل کورتھورن کے مطابق: ’قیدیوں کو کیمیکل سے جلانا، پانی میں سر ڈبونا، بجلی کے جھٹکے دینا، ناخن نکالنا اور شدید مارپیٹ۔۔گ یہ سب عالمی اداروں کے مطابق ’تشدد‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔‘
انطوں نے مزید کہا کہ قیدیوں کو غیر انسانی پوزیشنز میں بٹھانا اور زور زور سے موسیقی چلانا بھی تشدد میں شامل ہے۔
BBCقانونی ماہر ڈاکٹر لارنس ہِل کورتھورن کے مطابق: ’قیدیوں کو کیمیکل سے جلانا، پانی میں سر ڈبونا، بجلی کے جھٹکے دینا، ناخن نکالنا اور شدید مارپیٹ۔۔گ یہ سب عالمی اداروں کے مطابق 'تشدد' کے زمرے میں آتے ہیں‘
بین الاقوامی کمیٹی برائے ریڈ کراس (آئی سی آر سی) جو واپس آنے والے قیدیوں سے انٹرویوز کرتی ہے، نے کہا کہ وہ رہائی پانے والے افراد کی حالت پر پرائیویسی کے مسائل کی وجہ سے تبصرہ نہیں کر سکتی۔
آئی سی آر سی نے مزید کہا کہ وہ اب بھی ان قیدیوں تک رسائی حاصل کرنے کی خواہش مند ہے جو ابھی تک حراست میں ہیں لیکن 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد انھیں یہ رسائی نہیں دی گئی۔
آئی سی آر سی نے بی بی سی کو بتایا: ’آئی سی آر سی قیدیوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے بہت تشویش کا شکار ہے اور ادارہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ اسے تمام حراستی مراکز میں دوبارہ دورے کرنے کی اجازت دی جائے۔ ہم اس حوالے سے دونوں فریقوں سے مسلسل خفیہ اور دوطرفہ بات چیت کرتے رہتے ہیں۔‘
غزہ میں اب بھی 59 اسرائیلی یرغمالی قید ہیں جن میں سے 24 افراد کو زندہ سمجھا جا رہا ہے۔ آئی سی آر سی کو ان 18 مہینوں میں کبھی ان یرغمالیوں تک رسائی نہیں دی گئی اور ان کے اہل خانہ ان کی حالت کے بارے میں شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔
کئی فلسطینی قیدیوں کے لیےغزہ واپس جانا خوشی کا لمحہ تھا لیکن ساتھ ہی وہ ایک گہری مایوسی کا بھی سامنا کر رہے تھے۔
ابو طویلہ نے کہا کہ ان کے خاندان والے رہائی کے بعد ان کی حالت دیکھ کر ششدر رہ گئے اور انھوں نے یہ بھی بتایا کہ جیل میں گزارے وقت کے باعث وہ ابھی تک تکلیف میں ہیں۔
’میں کچھ نہیں کر پا رہا ہوں کیونکہ میری آنکھ میں تکلیف ہے، آنکھوں سے پانی آتا ہے اور خارش بھی ہوتی ہے اور جسم پر جلی ہوئی جگہوں میں بھی خارش ہے۔ یہ سب مجھے بہت پریشان کر رہا ہے۔‘
نوجوان احمد نے بتایا کہ وہ اب غزہ چھوڑنا چاہتے ہیں۔
’میں غزہ چھوڑ کر کہیں اور جانا چاہتا ہوں کیونکہ حراست کے دوران جو اذیتیں ہم نے جھیلیں اور ہر وقت سروں پر بم گرنے کے خوف نے ہمیں ذہنی اذیت دی۔ ہم ہر روز موت کی دعا کرتے تھے مگر وہ ملی نہیں۔‘
اسرائیلی جیل سے فلسطینی قیدیوں کے فرار اور پھر گرفتاری کی مکمل کہانیمتنازع نقشے پر سعودی عرب، فلسطین اور عرب لیگ کی مذمت: ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ یا کوئی ٹھوس منصوبہاسرائیل پر ’وارکرائمز‘ کے الزامات: جنگی جرائم کا تعین کیسے کیا جاتا ہے اور عدالت کن بنیادوں پر سزا دیتی ہے؟’وہ ہم پر اپنے کتے چھوڑ دیتے، ہمارے ہاتھ پیر توڑتے‘: رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں کا اسرائیل پر تشدد کا الزاممروان البرغوثی: دہائیوں سے جیل میں قید ’فلسطینی نیلسن منڈیلا‘ کی رہائی کی بازگشت اور ’اسرائیلی توقعات‘