پاکستان میں کھیلوں کے میدان سے وابستہ کھلاڑیوں کی مشکلات کوئی نئی بات نہیں، لیکن جب ایک ایسا کھلاڑی جس نے بین الاقوامی سطح پر ملک کی نمائندگی کی ہو، روزگار کے لیے جلیبیاں بیچنے پر مجبور ہو جائے، تو یہ ایک افسوسناک اور تشویشناک حقیقت بن جاتی ہے۔
محمد ریاض: ایک خواب جو بکھر گیا
محمد ریاض، جنہوں نے 2018 میں انڈونیشیا میں ہونے والے ایشین گیمز میں پاکستان کی نمائندگی کی، آج ایک مشکل زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ وہ محکمہ جاتی کھیلوں کی بندش کے بعد بے روزگار ہو گئے، اور کئی سال تک امید باندھے بیٹھے رہے کہ شاید دوبارہ موقع ملے گا، لیکن جب کچھ نہ بدلا تو انہوں نے گزر بسر کے لیے جلیبیاں بیچنے کا فیصلہ کیا۔
"میں نے برسوں انتظار کیا کہ محکمہ جاتی کھیل بحال ہوں گے، لیکن کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ روزگار کے لیے مجبور ہوکر یہ راستہ اختیار کرنا پڑا۔" – محمد ریاض
ریاض کا شمار ملک کے باصلاحیت فٹبالرز میں ہوتا ہے۔ وہ کے الیکٹرک کی ٹیم کا حصہ رہ چکے ہیں اور پاکستان فٹبال کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں فٹبال کو وہ مقام نہیں ملا جو دنیا کے دیگر ممالک میں اسے حاصل ہے۔ جب حکومت نے محکمہ جاتی کھیلوں پر پابندی لگائی، تو کئی کھلاڑیوں کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ محمد ریاض بھی انہی بدقسمت کھلاڑیوں میں شامل ہیں جو اپنی صلاحیتوں کے باوجود بے یار و مددگار رہ گئے۔
پاکستان میں کھیلوں کا مستقبل ہمیشہ غیر یقینی کا شکار رہا ہے، لیکن محکمہ جاتی کھیلوں کی بندش نے خاص طور پر فٹبالرز اور دیگر غیر کرکٹ کھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں کو شدید مشکلات میں مبتلا کر دیا۔ مختلف محکمے جیسے پی آئی اے، واپڈا، کے الیکٹرک، ریلوے اور دیگر ادارے، جو کھلاڑیوں کو روزگار فراہم کرتے تھے، انہیں اچانک ختم کر دیا گیا، اور ان کھلاڑیوں کے لیے روزگار کے دروازے بند ہو گئے۔
"محکمہ جاتی کھیلوں کی بحالی کا اعلان تو ہوا تھا، لیکن تاحال عملی اقدامات کہیں نظر نہیں آ رہے۔ ہم نے اپنا خون پسینہ بہایا، لیکن ہمیں صلہ نہیں ملا۔" – محمد ریاض
کیا حکومت اور فٹبال فیڈریشن جاگے گی؟
محمد ریاض کی کہانی محض ایک فرد کی نہیں بلکہ ان تمام پاکستانی کھلاڑیوں کی ہے جو اپنی زندگی کے بہترین سال کھیل کو دیتے ہیں، لیکن جب بدلے میں کچھ نہیں ملتا تو مایوس ہو کر دوسروں کے رحم و کرم پر آ جاتے ہیں۔ ان کی محنت، لگن اور خواب سب بکھر جاتے ہیں، اور انہیں ایسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں جن کی کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں توقع نہیں کی جا سکتی۔
یہ وقت ہے کہ حکومت، پاکستان فٹبال فیڈریشن اور کھیلوں سے وابستہ ادارے جاگیں اور اپنے ان قومی ہیروز کی مدد کریں۔ اگر آج ان کی داد رسی نہ کی گئی تو آنے والی نسلیں کھیلوں میں اپنا مستقبل دیکھنا چھوڑ دیں گی۔ محمد ریاض کی کہانی ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے، اور اگر ہم نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں، تو شاید کل کوئی اور قومی ہیرو بھی زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لیے جلیبیاں بیچنے پر مجبور ہو جائے۔