Getty Images
ڈاکٹر بیلا ڈی پاؤلو کا کہنا ہے کہ جب وہ 20 سال کی تھیں تو وہ غیر شادی شدہ یا سنگل ہونے پر خوش تھیں۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے ہمیشہ یہ سوچا تھا کہ یہ احساس وقت کے ساتھ شاید بدل جائے گا اور وہ یہ سوچنے والی اکیلی نہیں تھیں بلکہ اُن کے آس پاس کے لوگوں کا بھی یہی خیال تھا۔
ڈاکٹر ڈی پاؤلو اب 71 سال کی ہو چکی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ احساس کبھی تبدیل نہیں ہوتا جبکہ ان کے آس پاس کے لوگ اب بھی اسی بات پر یقین رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ تنہائی کے احساس نے انھیں مکمل زندگی گزارنے کی اجازت دی ہے۔
’وقت کے ساتھ ساتھ مجھے احساس ہوا کہ تنہا رہنا میرے لیے ٹھیک ہے۔ جب آپ اسے قبول کر لیتے ہیں تو آپ ایک واحد شخص کی حیثیت سے اپنی زندگی کے ساتھ مکمل انصاف کرسکتے ہیں، ایک گھر خرید سکتے ہیں، جو آپ چاہتے ہیں وہ آپ آزادی کے ساتھ کر سکتے ہیں اور بس یہی نہیں بلکہ آپ اپنی زندگی کو بھر پور انداز میں گزار سکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر ڈی پاؤلو ہارورڈ یونیورسٹی میں سوشل سائکالوجسٹ ہیں اور ’نیچلری سنگل‘ نامی کتاب کی مصنف بھی ہیں۔
ایک طویل عرصے سے انھوں نے تنہا یا غیر شادی شدہ لوگوں کی زندگی اور ان کی خوشیوں کا مطالعہ کیا ہے۔ انھوں نے اس دوران یہ بھی جاننے کی کوشش کی ہے کہ معاشرے میں ان افراد کا کردار کس طرح سے بدل رہا ہے۔
ڈی پاؤلو کا کہنا ہے کہ معاشرے میں اکیلے رہنے والے لوگوں کے تجربات سے متعلق بہت سی باتیں ہوتی ہیں اور مختلف قسم کی آرا سامنے آتی ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ان میں سے بہت سے خیالات یا آرا کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اور یہ وہ باتیں ہیں کہ جنھیں انھوں نے ایک سماجی محقق کے طور پر دیکھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنی زندگی اکیلے رہنے والے لوگوں کی حقیقی کہانیوں کو تلاش کرنے کے لیے وقف کی۔‘
ڈی پاؤلو نے سنہ 2017 کے ٹیڈ ٹاک میں کہا تھا کہ ’ایسی بہت سی کہانیاں ہیں جن کے بارے میں کوئی ہمیں نہیں بتاتا۔‘
ٹیڈ ٹاک کی اس ویڈیو کو اب تک 17 لاکھ سے زیادہ بار دیکھا جا چکا ہے۔
Getty Imagesڈاکٹر بیلا ڈی پاؤلو کہتی ہیں کہ تنہا رہنے والے لوگ زیادہ خوش رہتے ہیںجوڑوں یا کسی رشتے میں جڑے افراد کو زیادہ عزت و احترام اور توجہ ملتی ہے
اس ٹیلاٹ ٹاک میں وہ کتہی ہیں کہ ’میں آپ کے ساتھ اپنی بات کا آغاز ایک سوال سے کرتی ہوں جو کہ میرے ذاتی تجربے سے میرے سامنے آیا ہے۔ میری عمر 38 سال ہے، میں اکیلی ہوں اور کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ دنیا ان لوگوں کے ساتھ ہے جو کسی نہ کسی کے ساتھ کسی رشتے میں جُڑے ہوئے ہیں یعنی وہ تنہا نہیں ہیں۔‘
ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے؟
ڈی پاؤلو نے جواب دیا ’یہ سچ ہے کہ لوگ جوڑوں یا شادی شُدہ افراد پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، انھیں تحفے، احترام، یہاں تک کہ فلموں اور سیریز میں مرکزی کردار بھی ملتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ ان لوگوں کے ارد گرد گھومتا ہے جو کسی نہ کسی کے ساتھ کسی تعلق یا رشتے میں ہیں۔‘
Doug Ellis Photographyڈاکٹر ڈی پاؤلو ہارورڈ یونیورسٹی میں سوشل سائکالوجسٹ ہیں اور 'نیچلری سنگل' نامی کتاب کی مصنف بھی ہیں۔کیا شادی شدہ افراد بڑھاپے میں زیادہ خوش رہتے ہیں؟
تاہم اب یہ سب تبدیل ہو رہا ہے کیونکہ دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ لوگ اکیلے رہنے کا انتخاب کر رہے ہیں۔ اب اس دُنیا میں ہمارے جیسے اور بھی لوگ ہیں۔ ہم ’اکیلے رہنے کے مطلب اور اس بیانیے کو تبدیل کرسکتے ہیں‘ جس کے بعد یقین کریں کہ ہم سب اس کے بارے میں اچھا محسوس کریں گے۔
وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ’بعض اوقات اکیلے رہنے پر فخر کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور وہ تب کہ جب آپ اُس سائنسی تحقیق کا مطالعہ کرتے ہیں کہ جس میں بڑے واضح انداز میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ شادی شدہ افراد بڑھاپے میں زیادہ خوش رہتے ہیں۔‘
مسئلہ یہ ہے کہ یہ مطالعات اب فرسودہ ہو چکے ہیں۔
اکیلے رہنے والے افراد پر ہونے والی حالیہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جب اکیلا رہنے والا فرد درمیانی عمر یعنی 40 سال کی عمر تک پہنچتا ہے تو وہ پہلے سے بھی زیادہ خوش دکھائی دیتا ہے۔
یہ مطالعہ اس دقیانوسی تصور کو توڑنے اور ختم کرنے کا کام کرتا ہے کہ ایک غیر شادی شدہ انسان اپنے گھر میں تنہا ہوتے ہوئے بھی خوش رہنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اصل میں حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اکیلے رہتے ہیں وہ پہلے سے ہی خوش ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ اُن کے اندر موجود یہ خوشی کا احساس کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھ جاتا ہے۔
Getty Imagesمطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ شادی کرنے کے بعد اور بھی زیادہ تنہائی محسوس کرسکتے ہیں۔ وہ اپنے دوستوں سے دور ہو جاتے ہیں، اپنے والدین کے ساتھ کم وقت گزارتے ہیں اور اندر ہی اندر اپنی ایک نئی دُنیا بنا لیتے ہیں۔تنہا رہنے والے لوگ خوش کیوں ہوتے ہیں؟
تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ شادی کرنے کے بعد اور بھی زیادہ تنہائی محسوس کرسکتے ہیں۔ وہ اپنے دوستوں سے دور ہو جاتے ہیں، اپنے والدین کے ساتھ کم وقت گزارتے ہیں اور اندر ہی اندر اپنی ایک نئی دُنیا بنا لیتے ہیں۔
دوسری جانب اکیلے رہنے والے یا غیر شادی شُدہ لوگ اپنے دوستوں، خاندان اور اپنی زندگی کے دیگر اہم لوگوں کے ساتھ میل جول جاری رکھتے ہیں۔
یہ ایک اہم وجہ ہے کہ جو لوگ اکیلے رہتے ہیں وہ وقت کے ساتھ اپنی زندگی میں خوش رہتے ہیں۔
اس کے علاوہ وہ اکیلے رہنا جانتے ہیں، وہ اپنے گھر بناتے ہیں، اپنے دوستانہ تعلقات کو برقرار رکھتے ہیں اور انھیں اپنی زندگی اپنے طریقے سے گزارنے کی آزادی ہوتی ہے۔
میں انھیں ’تنہا روحیں‘ کہتی ہوں۔ وہ اپنی تنہائی کے باوجود پھلتے پھولتے ہیں اور خوش رہتے ہیں۔
’تنہائی کے شکار‘ لوگوں کی شناخت کیسے کریں
اب ان لوگوں کے بارے میں بات کرتے ہیں جو’تنہائی کے شکار ہیں‘ ہیں، لیکن کوئی تنہا شخص کی شناخت کیسے کر سکتا ہے؟
وہ لوگ جو تنہائی کا شکار ہیں وہ اپنی آزادی سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور وہ تنہا اپنے وقت کو غور و فکر کرنے، آرام کرنے، تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھانے اور روحانیت کی جانب مائل ہونے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
وہ اکیلے رہنے سے نہیں ڈرتے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جو ان میں سے تنہائی کے احساس کو ختم کرنے یا محسوس کرنے سے روکتی ہے۔
یہ سب وہ باتیں ہیں کہ جو اس دقیانوسی تصور کے خلاف جاتی ہیں کہ جس میں یہ کہا جاتا ہے کہ تنہا یا غیر شادی شدہ لوگ تنہائی کا شکار ہوتے ہیں۔ یقیناً کچھ اکیلے لوگ تنہائی محسوس کرتے ہیں جیسا کہ بہت سے شادی شدہ لوگ بھی کرتے ہیں لیکن جو لوگ خود چاہتے ہوئے اکیلے رہنے کا انتخاب کرتے ہیں وہ تنہائی کو ایک مثبت انداز میں دیکھتے ہیں۔
انگریزی میں اکیلے یا تنہائی کے لیے دو الگ الگ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں اور ان دونوں کی مدد سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ کچھ اکیلے یا تنہا لوگ خوشی کیوں محسوس کرتے ہیں اور شادی شدہ لوگ تنہائی کیوں محسوس کرتے ہیں؟
تنہائی اس وقت ہوتی ہے جب آپ کو سماجی طور پر وہ توجہ نہیں ملتی جو آپ چاہتے ہیں اور آپ اس کے بارے میں ناخوش اور بُرا محسوس کرتے ہیں۔
دوسری طرف تنہائی کو اکثر ایک انتخاب سمجھا جاتا ہے جو بہت فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ بہت سے لوگ خاص طور پر وہ لوگ جو اکیلے رہتے ہیں اس وقت کی قدر کرتے ہیں، اس کا استعمال خود کو تلاش کرنے اور ان چیزوں کو کرنے کے لیے صرف کرتے ہیں جن سے وہ لطف اندوز ہوتے ہیں اس سب کے دوران انھیں کسی اور کی پروا نہیں ہوتی اور نہ ہی اپنے سے زیادہ کسی اور کی فکر۔
Getty Imagesاصل میں بات یہ ہوتی ہے کہ عام طور پر یہ لوگ کم روایتی تعلقات کو ترجیح دیتے ہیں شاید الگ الگ گھروں میں یا ایک ہی گھر کے اندر آزاد یا اپنے آپ میں رہنا پسند کرتے ہیں۔
یہاں میں ان لوگوں کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں کہ جو کسی نہ کسی کہ ساتھ ایک رومانوی تعلق میں ہونے کے باوجود اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔ تو یہ سب کیسے اور کیوں ہوتا ہے؟
اصل میں بات یہ ہوتی ہے کہ عام طور پر یہ لوگ کم روایتی تعلقات کو ترجیح دیتے ہیں شاید الگ الگ گھروں میں یا ایک ہی گھر کے اندر آزاد یا اپنے آپ میں رہنا پسند کرتے ہیں۔
وہ اخراجات کو زیادہ شیئر نہیں کرتے اور ایک جوڑے کے طور پر وقت اور اپنے دوستوں یا خود کے لیے وقت کے درمیان توازن برقرار رکھتے ہیں۔
اس طرح وہ سنگل کے طور پر اپنی شناخت کو چھوڑے بغیر رومانوی تعلقات سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
ڈاکٹر بیلا ڈی پاؤلو سے پوچھا گیا کہ ’آپ نے ذکر کیا کہ آپ اپنی پوری زندگی اکیلی رہی ہیں کیا آپ اپنے تجربے کے بارے میں کچھ بتا سکتی ہیں؟‘
ڈاکٹر بیلا ڈی پاؤلو کہتی ہیں کہ ’میری عمر 71 سال ہے اور میں ہمیشہ اکیلی ہی رہی ہوں۔ جب میں 20 سال کی تھی تو میں نے تنہائی کی زندگی کا لطف اٹھایا۔‘
’میں نے سوچا تھا کہ میں بعد میں اپنا ارادہ بدل لوں گی کیونکہ باقی لوگوں کی طرح مُجھ سے بھی یہی توقع کی جا رہی تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ مجھے احساس ہوا کہ میں اکیلی رہنا چاہتی ہوں اور میرا یہ فیصلہ درست ہے۔‘
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’ایک بار جب آپ اپنے اس فیصلے کو دل سے قبول کر لیتے ہیں تو آپ اپنیزندگی بھر پور انداز میں جی سکتے ہیں، ایک گھر خرید سکتے ہیں، اپنی خواہشات کو پورا کرسکتے ہیں۔‘
Getty Imagesیہ بھی یاد رکھیں کہ جیسے جیسے غیر شادی شُدا اور تنہا لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا معاشرے کی اس بارے میں سوچ بھی تبدیل ہوگی۔
ایسے معاشرے میں جہاں لوگوں پر شادی کرنے کے لیے بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے، آپ وہںا رہنے والے کیلے مردوں اور خواتین کو کیا مشورہ دیں گی جو یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرہ ان کے خلاف ہے؟
ڈاکٹر بیلا ڈی پاؤلو کا کہنا تھا کہ ’میرا مشورہ یہ ہے کہ اپنے آپ پر فخر کریں۔ اگر آپ اکیلے ہیں اور ایک ساتھی چاہتے ہیں لیکن آپ کسی کے لیے سمجھوتہ نہیں کرتے تو آپ کو اپنے معیار اور فیصلے پر فخر ہونا چاہیے۔‘
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’دوسری طرف اگر آپ اکیلے رہنے سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور آپ نے شادی کرنے کے دباؤ کی مخالفت کی ہے تو اپنے آپ کے ساتھ سچے ہونے پر فخر محسوس کریں۔‘
یہ بھی یاد رکھیں کہ جیسے جیسے غیر شادی شُدہ اور تنہا لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا معاشرے کی اس بارے میں سوچ بھی تبدیل ہو گی۔