سربیا میں ہزاروں ملازمتیں، مگر پاکستانی ورکرز کی عدم دلچسپی کی وجہ کیا ہے؟

اردو نیوز  |  Jul 29, 2025

یورپی ملک سربیا نے سنہ 2024 میں اپنے دروازے جنوبی ایشیائی ممالک کے ورکرز کے لیے کھولے، تو پاکستانیوں کے لیے بھی بیرونِ ملک روزگار کے نئے مواقع کی ایک روشن راہ ہموار ہوئی۔ سنہ 2027 میں سربیا میں ہونے والی ایکسپو کی تیاریوں کے سلسلے میں سربیا کو تعمیراتی، زرعی اور آئی ٹی کے شعبوں میں ہزاروں ورکرز درکار تھے۔ اس مقصد کے لیے سات ممالک کے سفارت خانوں سے رابطہ کیا گیا جن میں پاکستان بھی شامل تھا۔ سربیا کی وزارتِ محنت نے واضح طور پر اعلان کیا کہ انہیں پاکستان سے 27 ہزار ہُنرمند، نیم ہُنرمند اور غیر ہُنرمند ورکرز درکار ہیں۔

اس سلسلے میں سفارت خانے نے پاکستان کی حکومت کو آگاہ کیا۔ وزارتِ اوورسیز پاکستانیز کی تجویز پر اس پیش کش سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایس او پیز کے تحت پاکستان میں اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کو موقع دیا گیا کہ وہ سربین حکومت اور کمپنیوں سے بات چیت کے بعد ملازمتوں کی تفصیل حاصل کریں۔حکام اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ ہر ملازمت کے عوض حکومت سے اجازت نامہ حاصل کریں اور پھر اِس کی تشہیر کر کے ورکرز بھرتی کریں تاکہ انہیں سربیا بھجوایا جا سکے۔تاہم سرکاری اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ ’2024 کے دوران پاکستان سے صرف 38 ورکرز ہی سربیا جا سکے۔ ان میں سے 25 ایک سال کام کرنے اور اپنا کنٹریکٹ پورا ہونے کے بعد واپس آچکے ہیں۔‘’اعدادوشمار کے مطابق صرف 13 پاکستانی ورکرز ایسے تھے جن کے کام سے مطمئن ہو کر سربیا کی کمپنیوں نے اُن کے کنٹریکٹ میں توسیع کی یا انہیں دوبارہ ملازمت پر رکھ لیا۔‘بیرونِ ملک ملازمتوں میں پاکستانیوں کی دلچسپی کے عالم کو سامنے رکھتے ہوئے یہ اعدادوشمار حیرت انگیز ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب پاکستان میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور لاکھوں نوجوان بیرونِ ملک روزگار کے لیے سرگرداں ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسی کیا رکاوٹیں ہیں جن کی وجہ سے پاکستانی افرادی قوت سربیا جیسے ملک میں جانے سے گریزاں ہے، جب کہ فلپائن، انڈیا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کی لیبر فورس وہاں جا کر پہلے ہی جگہ بنا رہی ہے۔دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ سربیا کی جانب سے پاکستانی سفارت خانے سے باضابطہ طور پر رابطہ کیا گیا اور ورکرز کی بھرتی کے لیے طریقہ کار پر مشاورت بھی ہوئی۔

 فلپائن، انڈیا اور بنگلہ دیش کی لیبر فورس سربیا میں جگہ بنا رہی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

 پاکستانی مشن نے کمپنیوں کی جانچ پڑتال کے لیے تین مراحل پر مشتمل طریقہ کار اپنایا۔ پہلے مرحلے میں کمپنی کے مالکان سے براہ راست رابطہ کیا گیا تاکہ مانگ کی صداقت، دائرہ کار اور مقاصد کا تعین کیا جا سکے۔ دوسرے مرحلے میں سربین چیمبر آف کامرس سے کمپنی کی کاروباری درجہ بندی، مالی استحکام، شکایات کی عدم موجودگی اور عملی تجربے کی تصدیق کی گئی۔تیسرے مرحلے میں پاکستانی بیورو آف امیگریشن اور اوورسیز ایمپلائمنٹ سے منظوری لی گئی تاکہ تمام قانونی تقاضے مکمل ہوں۔حکام کے مطابق اگرچہ کاغذی کارروائیاں مکمل ہوئیں اور پاکستانی سفارت خانے نے اپنا کردار بھی ادا کیا، مگر اصل مسئلہ ویزوں کے اجرا کے قانونی دائرہ اختیار سے جُڑا ہے۔سربیا کے قانون کے مطابق پاکستانی ورکرزکے لیے ورک ویزہ ایمپلائمنٹ پروموٹرز نہیں لگوا کر دے سکتے بلکہ براہِ راست سربین آجر یعنی کمپنی ہی حاصل کر سکتی ہے۔اس فرق کو زیادہ تر ورکرز یا ریکروٹمنٹ ایجنسیاں سمجھ نہیں پائیں جس کی وجہ سے اُلجھن اور بداعتمادی پیدا ہوئی اور پاکستانی کمپنیوں نے اس میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی۔ جب کمپنیوں نے دلچسپی نہیں دکھائی تو انہوں نے ورکرز بھی تلاش نہیں کیے۔ اس وجہ سے سربیا میں پاکستانی ورکرز کو بھجوایا ہی نہیں جا سکا۔

 پاکستان اور سربیا کے درمیان ورکرز کی بھرتی کے لیے مفاہمت کی ایک یادداشت پر مذاکرات جاری ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سال 2024 میں کچھ ریکروٹمنٹ ایجنسیوں نے ہُنرمند اور نیم ہُنر مند افراد کی بھرتی کے لیے اشتہارات بھی دیے۔ ان بھرتیوں کے لیے بیورو آف امیگریشن سے باضابطہ اجازت نامے بھی لیے گئے جو بیورو کی ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہیں لیکن وہ کمپنیاں بھی ورکرز کو اس جانب متوجہ کرنے میں ناکام رہیں۔اس حوالے سے ریکروٹمنٹ ایجنٹ سید اظہر اقبال نے بتایا کہ پاکستان میں ورک ویزہ پر بیرون ملک ملازمت حاصل کرنے کا زیادہ رجحان خلیجی ممالک کے لیے ہے۔’یورپی ملک کے ورک ویزہ کی بات کریں تو پہلے تو لوگ اِسے دُرست نہیں مانتے اور فراڈ سمجھتے ہیں۔ سربیا چونکہ پاکستانیوں کے لیے ایک غیر معروف نام ہے اس لیے یورپ میں ہونے کے باوجود لوگوں نے اس میں دلچسپی نہیں لی۔‘انہوں نے کہا کہ ’عام طور پر اٹلی، سپین، یونان، جرمنی، فرانس اور پرتگال جیسے یورپی ممالک میں جانے کے لیے نوجوان لاکھوں روپے دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ یہاں پہنچنے کے لیے وہ یورپی ممالک جن میں رومانیہ، ہنگری اور کچھ دیگر ممالک شام ہیں وہاں کا ورک ویزہ لیتے ہیں اور پھر وہاں سے چوری چُھپے آگے نکل جاتے ہیں۔‘سید اظہر اقبال کے مطابق ’سربیا کے محلِ وقوع کی وجہ سے نوجوانوں کو یہ مواقع بھی نظر نہیں آتے، اس لیے بھی بڑی تعداد میں ورکرز نہیں بھجوائے جا سکے۔‘

سبربیا میں سربین زبان بولی جاتی ہے اور یہ بھی پاکستانی ورکرز کی عدم دلچسپی کی ایک وجہ ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’سربیا میں سربین زبان بولی جاتی ہے جبکہ پاکستانی ورکرز کی اکثریت انگریزی یا عربی سے آگاہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ سرد موسم، خوراک اور رہائش کے مختلف معیارات پاکستانی ورکرز کے لیے چیلنج بنتے ہیں۔‘ان کا مزید کہنا ہے کہ ’مشرق وسطیٰ میں موجود مذہبی، ثقافتی اور لسانی ہم آہنگی کے برعکس، سربیا میں مسلمانوں کی تعداد محدود ہے جس کی وجہ سے وہاں رہنا پاکستانیوں کے لیے اجنبی تجربہ محسوس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر ورکرز عرب ممالک کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔‘اس حوالے سے بیورو آف امیگریشن کا کہنا ہے کہ گذشتہ کچھ برسوں کے دوران سربیا کے ویزوں کے حوالے سے کئی پاکستانی ریکروٹمنٹ ایجنسیوں نے جعلی اعلانات کیے، لوگوں سے رقم بٹوری اور بعد میں یا تو ویزے جاری نہ ہو سکے یا پھر ورکرز وہاں پھنس گئے۔’ان تلخ تجربات نے سربین مارکیٹ کی ساکھ کو متاثر کیا۔ اب بہت سے ورکرز یا تو ڈرتے ہیں یا قانونی پیچیدگیوں کو سمجھ نہیں پاتے، جس کی وجہ سے وہ اِن نئے مواقع پر اعتماد کرنے کے بجائے پُرانے اور آزمودہ راستوں کو ترجیح دیتے ہیں۔‘اگرچہ پاکستانی سفارت خانے نے کمپنیوں سے براہِ راست رابطہ، چیمبر آف کامرس سے تصدیق اور بیورو آف امیگریشن سے منظوری جیسے اقدامات کیے، لیکن ملک میں عام سطح پر اس پروگرام کی تشہیر محدود رہی۔ اس وجہ سے حکومتی سطح پر تشہیر نہ ہونے کی وجہ سے بھی عوامی اعتماد کے حصول میں کمی رہی۔

حکام کے مطابق پاکستانی ورکرز کی ترجیح خلیجی ممالک میں ملازمت حاصل کرنا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی ورکرز کسی بھی ملک میں جانے سے پہلے یہ ضرور دیکھتے ہیں کہ وہاں پاکستانی برادری موجود ہے یا نہیں۔ ’مشرق وسطیٰ میں لاکھوں پاکستانی پہلے سے موجود ہیں جن سے ملازمت، رہائش، سفری مشورے، حتیٰ کہ زبان سیکھنے تک میں مدد ملتی ہے۔‘حکام کے مطابق ’سربیا میں پاکستانی کمیونٹی انتہائی کم ہے، جس کی وجہ سے نئے ورکرز کے لیے وہ سہولت اور سکیورٹی میسر نہیں جو وہ دیگر ممالک میں محسوس کرتے ہیں۔‘دوسری جانب بیورو آف امیگریشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’پاکستانی حکومت نے اِس خلا کو پُر کرنے کے لیے کچھ اقدامات ضرور کیے ہیں۔‘نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن (نیوٹیک) کو اس منصوبے میں شامل کیا گیا ہے تاکہ تربیت یافتہ ورکرز سربیا بھیجے جا سکیں۔ جنوری 2025 میں سربیا کے سفیر نے پاکستان میں نیوٹیک کا دورہ بھی کیا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان افرادی قوت کی برآمد کو بہتر بنانے کے امکانات پر بات ہو سکے۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی حکومت اور سربیا کے درمیان مفاہمت کی ایک یادداشت پر مذاکرات جاری ہیں تاکہ ورکرز کی بھرتی کے لیے ایک واضح فریم ورک تیار کیا جا سکے۔حکام نے مزید بتایا کہ ’وزارت خارجہ نے آگاہ کیا ہے کہ دو نئی سربین کمپنیاں 2025 کے دوران پاکستان سے ورکرز لینے میں دلچسپی ظاہر کر چکی ہیں اور ویزہ پروسیسنگ کے مراحل جاری ہیں۔ پاکستانی سفارت خانے کے مطابق یہ ویزے جلد جاری ہونے کی توقع ہے۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More