پشتون معاشرے میں ہر حجرے کا لازمی جزو سمجھا جانے والا قدیم موسیقی کا آلہ رباب عالمی طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ تعلیمی، علمی اور ثقافتی تنظیم (یونیسکو) نے رباب بنانے اور اسے بجانے کے فن کو ثقافتی ورثے کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔یہ منظوری 4 دسمبر 2024 کو جنوبی امریکہ کے ملک پیراگوئے میں منعقدہ ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے یونیسکو کی بین الحکومتی کمیٹی کے 19ویں اجلاس کے دوران دی گئی۔اعلامیے کے مطابق یونیسکو نے ایران، افغانستان، تاجکستان اور ازبکستان کے لیے اس قدیم موسیقی کے آلے کی ثقافتی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، رباب بنانے اور بجانے کے فن کو غیر محسوس ثقافتی ورثے کے طور پر تسلیم کیا۔اس حوالے سے پشتون ایکٹیوسٹ پاکستان سے حیات روغانی نے یونیسکو کو خطوط لکھے تھے جس کی تحریک مالاکنڈ یونیورسٹی کے طالب علم موسیٰ خان کی موت سے جا ملتی ہے۔مالاکنڈ یونیورسٹی میں طالب علم کی موترواں برس 25 مئی کو مالاکنڈ یونیورسٹی میں صحافت کے طالب علم موسیٰ خان اپنے ساتھیوں اشرف علی اور وقاص خان کے ہمراہ رباب ہاتھ میں تھامے ہاسٹل میں داخل ہوئے۔ ہاسٹل میں یہ رباب بجا کر موسیقی کی محفل جما رہے تھے اور ان کے ارد گرد دیگر طلبا بھی جمع ہوئے، تاہم ہاسٹل وارڈن نے انہیں رباب سکیورٹی روم میں رکھنے اور محفل ختم کرنے کا حکم دیا جس کے بعد تلخ کلامی ہوئی۔29 مئی کو مالاکنڈ یونیورسٹی کے چیف پراکٹر نے تینوں طلبا کو شوکاز کرتے ہوئے تین دنوں کے اندر جواب جمع کرانے کی ہدایت کی۔ شوکاز نوٹس میں بتایا گیا کہ تینوں طلباء کے رباب لانے اور بجانے پر ہاسٹل وارڈن سے تلخ کلامی ہوئی اور رباب کو ہاتھ لگانے پر سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی۔ تینوں طلباء کو جب یہ شوکاز نوٹس جاری ہوا تو اسی روز پرووسٹ آفس نے ان کی الاٹمنٹ منسوخ کرتے ہوئے انہیں ہاسٹل سے بے دخل کیا۔یونیورسٹی کی جانب سے ان اقدامات کے بعد موسیٰ خان اپنے دو دوستوں کے ہمراہ موٹر سائیکل پر چکدرہ چوک کے قریب حادثے کا شکار ہوئے۔ انہیں زخمی حالت میں پشاور منتقل کیا گیا، تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئے۔اس حادثے کے بعد صوبے بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور یونیورسٹی انتظامیہ کو طالب علم کو ذہنی تناؤ میں مبتلا کرنے پر مورد الزام ٹھہرایا گیا۔سوشل میڈیا پر جب اس واقعے سے متعلق شور بڑھنے لگا تو سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی بابر سلیم سواتی نے رولنگ دی کہ پرووسٹ اور چیف پراکٹر کو انکوائری مکمل ہونے تک معطل کیا جائے۔اسمبلی سیشن کے دوران حکومتی رکن شفیع اللہ خان نے کہا کہ موسیٰ خان کو ہاسٹل میں موسیقی پر پرووسٹ نے رات کو نکالا جو باہر کمرہ ڈھونڈنے کے دوران سڑک حادثے کا شکار ہوا۔ اس حوالے سے گورنر خیبرپختونخوا نے بھی نوٹس لیا اور رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی۔ یونیورسٹی میں طلباء کی جانب سے مسلسل احتجاجی مظاہروں کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے یونیورسٹی کو 3 روز کے لیے بند رکھا۔رباب وسطی، جنوبی اور جنوب مغربی ایشیا میں موسیقی کے قدیم ترین آلات میں سے ایک ہے (فوٹو: وکی میڈیا)موسیٰ کی موت کے بعد یونیسکو کو خطرباب وسطی، جنوبی اور جنوب مغربی ایشیا میں موسیقی کے قدیم ترین آلات میں سے ایک ہے جو ان ممالک کی ثقافتی روایات میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔مالاکنڈ یونیورسٹی کے طالب علم موسیٰ خان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بعد حیات روغانی نے یونیسکو کو ایک خط لکھا۔ حیات روغانی مفکورہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر کے صدر ہیں۔ مفکورہ میں آرٹ، مکالمہ، موسیقی اور ثقافت سے متعلق کام کیا جاتا ہے۔حیات روغانی کے بقول اس خطے کے لوگ متشدد نہیں ہیں اور ان میں برداشت کا مادہ زیادہ ہے۔ انہوں نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس خطے کے لوگوں میں قبولیت کا مادہ ہے۔ یہاں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں اور یہ خطہ مختلف ثقافتوں کا مرکز ہے۔ اگر ان لوگوں میں برداشت نہ ہوتی تو یہ ثقافت اور زبانیں معدوم ہوچکے ہوتیں۔‘اسی مقصد کے پیش نظر حیات روغانی نے یونیسکو کو خطوط لکھے۔ خط کی کاپی اردو نیوز کے پاس دستیاب ہے جس میں حیات روغانی نے ابتدائیہ میں ہی مالاکنڈ یونیورسٹی کے طالب علم موسیٰ خان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے خط میں مطالبہ کیا کہ 31 مئی کو رباب کے لیے بھی مخصوص کیا جائے۔ 31 مئی کو موسیٰ خان حادثے کا شکار ہوئے تھے۔ اس خط سے متعلق حیات روغانی مزید بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کے لیے اسے عالمی سطح پر رجسٹر کیا جاتا ہے۔ ان کے بقول ’ہمارے ہاں چارسدہ کے چپل، مردان کے بدایونی پیڑے، سوات سلام پور کی شالیں، ایسی کئی مثالیں ہیں، اس طرح کے ثقافتی ورثے کو رجسٹر کرنے کی روایت دنیا بھر میں موجود ہے لیکن ہمارے ہاں یہ روش نہیں پائی جاتی۔‘’اسی لیے ہم نے رباب کو عالمی سطح پر تسلیم کروانے کے لیے یہ تحریک شروع کی اور آج یہ کسی حد تک ہماری کامیابی ہی ہے کہ رباب کو عالمی سطح پر یونیسکو نے غیر مادی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ ان کے مطابق یونیسکو کو ای میل کرنے کے بعد انہیں فوری جواب نہیں ملا تو انہوں نے کئی بار ای میلز بھیجی جس کے بعد انہیں ایک فون کال پر بتایا گیا کہ ان کے مطالبے پر کام جاری ہے جسے مکمل ہونے میں وقت لگ سکتا ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ ’آج موسیٰ خان کی روح خوش ہوگی کیونکہ اب تو رباب کو عالمی شناخت مل گئی ہے۔‘پشتون معاشرے میں رباب عام طور پر اہم تقریبات، شادی بیاہ، سماجی اجتماعات، اور رسمی ملاقاتوں میں بجایا جاتا ہے (فوٹو: اردو نیوز)رباب کیا ہے؟رباب موسیقی کا ایک ایسا آلہ ہے جو نہ صرف گائیکی کے ساتھ بجایا جاتا ہے بلکہ طبلے اور پشتون روایتی ’منگی‘ کے ساتھ بھی بجایا جاتا ہے۔خشک شہتوت کی لکڑی سے تیار کردہ اور تاروں سے مزین رباب کئی طرح کے سازوں کا موجد ہے۔ رباب کا ڈھانچہ تو لکڑی سے تیار کیا جاتا ہے لیکن اس میں ساز بھرنے کے لیے کھوکھلے حصے پر خول چڑھانے کے لیے جانوروں کے چمڑے اور تاروں کی جگہ آنتوں کا استعمال بھی کیا جاتا ہے، تاہم جدید دور کے تقاضوں کے پیش نظر آج کل نائلون کی تاریں استعمال کی جا رہی ہیں۔ یہ ایک ایسا آلہ ہے جسے برقی آلات کے بغیر انگلیوں کے ذریعے بجایا جاتا ہے۔ پشتون معاشرے میں رباب عام طور پر اہم تقریبات، شادی بیاہ، سماجی اجتماعات، اور رسمی ملاقاتوں میں بجایا جاتا ہے۔ پشتو زبان کے اکثر لوک موسیقار رباب اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور اسے موسیقی کے ساتھ ساتھ بجاتے ہیں۔یونیسکو نے رباب بنانے اور بجانے کے فن کی تعریف کرتے ہوئے اسے سرحدوں کے پار ثقافتی اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے والا آلہ قرار دیا۔یونیسکو نے اپنے اعلامیے میں کہا کہ ’رباب ثقافتی تبادلوں اور یکجہتی کے لیے ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے جو سرحدوں کے آر پار روایات کو جوڑنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔‘رباب سے متعلق حیات روغانی پشتو زبان کے نامور شاعر غنی خان کا ایک شعر مستعار لیتے ہوئے کہتے ہیں:رباب څه دې مړ ګدورې او د توت وچه تنه دهخو چې سوز د ادم راشی هله هنګ وکړی ربابترجمہرباب کیا ہے؟ یہ تو فقط ایک مردہ بھیڑ اور خشک شہتوت کا تنا ہے۔ انسان کا سوز شامل ہونے کے بعد ہی اس میں ساز و آہنگ پیدا ہوتا ہے۔حیات روغانی مزید بتاتے ہیں کہ ’رباب انسانی جمالیات، احساسات، اور جذبات کے اظہار کا موسیقی پر مبنی وسیلہ ہے۔‘حیات روغانی سمجھتے ہیں کہ رباب بنانے اور بجانے کا آغاز پشتونوں کے خطے سے ہوا ہے (فوٹو: اردو نیوز)رباب بنانے کے لیے مختلف طرح کی لکڑیوں پر دستکاری اور نقاشی بھی کی جاتی ہے۔ رباب سے متعلق کئی اشعار بھی لکھے جا چکے ہیں جو اس کے سازوں پر خوبصورتی سے گائے جاتے ہیں۔رباب کا ساز پہلے کہاں گونجا؟4 دسمبر 2024 کو یونیسکو نے رباب بنانے اور اسے بجانے کو ثقافتی ورثہ تسلیم تو کر لیا لیکن یہ درخواست ایران، افغانستان، تاجکستان اور ازبکستان کی جانب سے کی گئی تھی، تاہم حیات روغانی سمجھتے ہیں کہ رباب بنانے اور بجانے کا آغاز پشتونوں کے خطے سے ہوا ہے۔اس حوالے سے ڈاکٹر راشد احمد راشد، حیات روغانی کے اس مؤقف سے متفق ہیں۔ ڈاکٹر راشد احمد راشد نے پشتو موسیقی پر پی ایچ ڈی کی ہے جس میں انہوں نے رباب پر بھی ایک تحقیقی مقالہ لکھا ہے۔انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ تاریخی حوالوں سے رباب اور اس کے ساز خیبرپختونخوا کے خطے سے پوری دنیا میں پھیلے ہیں۔ ان کے بقول ’یونیسکو کی جانب سے رباب کو ورثے کے طور پر تسلیم کرنا خوش آئند ہے لیکن انہوں نے اسے افغانستان اور ہمسائے خطوں کا قرار دیا ہے، جبکہ اب تک اس پر تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خیبرپختونخوا کے خطے سے پوری دنیا میں پھیلا ہے۔‘ ان کے مطابق 2000 سال قبل رباب کو ’وینا‘ کہا جاتا تھا جبکہ اس کا ذکر کئی تاریخی کتبوں میں تو موجود ہے لیکن اس کی مجسم شکل کی تصویر کہیں پائی نہیں جاتی۔انہوں نے کہا کہ ’سوات، پشاور اور ٹیکسلا میوزیم میں اس کے کئی حوالے موجود ہیں۔ اس کی مجسم شکل ہمیں گندھارا آرٹ سے ملتی ہے۔ اسی رباب سے کئی ساز انڈیا، چائنہ، تاجکستان اور دیگر ممالک میں بنے لیکن یہ یہاں کی ایجاد ہے اور اس کا بنیادی ساز خیبرپختونخوا کے پہاڑوں میں گونجا تھا۔‘وہ بتاتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں رباب سے متعلق تحقیق نہیں ہو رہی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اب چونکہ یونیسکو نے رباب بنانے اور اسے بجانے کو ثقافتی ورثے کے طور پر تسلیم کر لیا ہے تو ہم چاہتے ہیں وہ بھی اس پر مزید تحقیق کرے اور پوری دنیا میں اس پر کام ہو تاکہ امن و شانتی کا ساز ہر جگہ پھیلتا رہے۔‘وہ سمجھتے ہیں کہ یونیسکو کی جانب سے رباب کو غیر مادی ثقافتی ورثے کے طور پر تسلیم کرنا نہ صرف اس کی بھرپور موسیقی کی وراثت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ ثقافتی شناخت کو برقرار رکھنے اور وسطی ایشیا اور دیگر خطوں میں اتحاد کو فروغ دینے میں اس کے کردار کو بھی اجاگر کرتا ہے۔