پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان نے افغانستان کی جانب سے سرحدی صوبہ پکتیا میں پاکستانی فوج کی بمباری کے الزام پر باضابطہ ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’پاکستان کو افغان عوام کے ساتھ کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، تاہم اپنے لوگوں کی سلامتی اور تحفظ پاکستان کے لیے سب سے اہم ہے۔‘جمعرات کے روز ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا کہ ’سرحدی علاقوں میں سکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف انٹیلی جنس بنیادوں پر آپریشن کر تی ہیں۔ ان آپریشنز کا مقصد دہشت گرد تنظیموں خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان کے حملوں کو روکنا ہے جو پاکستان کی سرزمین اور عوام کے لیے خطرہ ہیں۔‘گذشتہ روز افغانستان کی حکومت الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان نے افغانستان کی مشرقی سرحد سے متصل صوبے پکتیکا میں ’فضائی حملہ کیا ہے جس میں 46 افراد ہلاک ہوئے۔‘جبکہ اس حوالے سے افغان وزارت خارجہ نے کابل میں پاکستان کے سفارت خانے کے ناظم الامور کو طلب کر کے ’صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل میں ڈیورنڈ لائن کے قریب پاکستانی فوجی طیاروں کی بمباری پر اپنا شدید احتجاجی مراسلہ ان کے حوالے کیا تھا۔‘افغانستان میں پاکستانی فوج کی کارروائی کی خبروں کے حوالے سے ترجمان پاکستانی دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ ’پاکستان افغانستان کی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کرتا ہے اور خطے میں امن و استحکام کے لیے ہمیشہ بات چیت اور سفارتکاری کو ترجیح دیتا ہے۔‘ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا تھا کہ ’افغانستان کے ساتھ تجارت سرحدی انتظامات اور سکیورٹی کے معاملات پر مسلسل رابطے میں ہیں۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کے خصوصی نمائندے برائے افغانستان صادق خان نے کابل کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے افغان وزیر داخلہ وزیر خارجہ نائب وزیر اعظم اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں دونوں ممالک کے درمیان سکیورٹی صورتحال سرحدی مسائل اور تجارت بڑھانے پر بات چیت کی گئی۔‘ترجمان دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ ’پاکستان کو افغان عوام سے کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کی تعمیر و ترقی اور وہاں امن کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ تاہم پاکستان کو اپنے عوام کی سلامتی اور تحفظ عزیز ہے۔‘ترجمان نے سرحد پار دہشت گردوں کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ عناصر دونوں ممالک کے تعلقات میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ ہم نے بارہا افغان حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہونے سے روکے۔‘ ترجمان نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ ’افغانستان میں موجود دہشت گرد نیٹ ورکس کو ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ خطے میں دیرپا امن کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا ہوگا۔‘ترجمان نے امریکہ کے ساتھ تعلقات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان باہمی عزت اور مفادات کی بنیاد پر تعلقات کو مزید مضبوط کرنا چاہتا ہے۔‘افغانستان کی حکومت الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان نے ’فضائی حملہ کیا ہے جس میں 46 افراد ہلاک ہوئے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)انہوں نے نام لیے بغیر کہا کہ ’میڈیا پر چلنے والے بیانات کسی ایک فرد کی رائے ہو سکتی ہیں اور پاکستان ان پر تبصرہ نہیں کرے گا۔ پاکستان نے ہمیشہ امریکہ کے ساتھ تعمیری تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی ہے اور یہ بات چیت مستقبل میں بھی جاری رہے گی۔‘ انہوں نے امریکہ کی جانب سے پاکستان کے میزائل پروگرام پر پابندی کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کا دفاعی پروگرام اپنی سلامتی کے لیے ہے اور کسی بھی دباؤ کو قبول نہیں کیا جائے گا۔‘ترجمان دفتر خارجہ نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے رواں سال چار مرتبہ سعودی عرب کا دورہ کیا جس کے دوران دونوں ممالک نے معیشت توانائی اور سکیورٹی جیسے اہم شعبوں میں تعاون کو فروغ دیا۔ سعودی وفود کی پاکستان آمد نے بھی دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کیا۔‘انہوں نے کہا کہ ’پاکستان نے چین کے ساتھ اپنی شراکت داری کو مزید تقویت دی ہے خاص طور پر سی پیک کے منصوبوں کے ذریعے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے دورۂ چین نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’یورپی یونین کی جانب سے پی آئی اے پر عائد پابندی ہٹانا بھی پاکستان کی سفارتی کامیابیوں میں شامل ہے۔‘ترجمان نے انڈیا کے ساتھ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا ہے۔ انڈیا کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف پاکستان نے ہر بین الاقوامی فورم پر آواز اٹھائی ہے۔ خطے میں امن و استحکام کے لیے تمام ممالک کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔‘ترجمان دفتر خارجہ نے سال 2024 کو پاکستان کی سفارتی کامیابیوں کا سال قرار دیا اور کہا کہ پاکستان دنیا بھر میں اپنے دوستوں اور شراکت داروں کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہے۔