Getty Images
برسوں تک مغربی نقاد برکس کو ایک غیر اہم تنظیم سمجھتے رہے ہیں لیکن گذشتہ ہفتے روس میں برکس کے سالانہ اجلاس نے اس تاثر کو غلط ثابت کیا۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور 36 ممالک کے رہنما تین دن کے اجلاس میں شریک تھے جہاں برکس نے باضابطہ طور پر چار نئے اراکین کو خوش آمدید کہا۔ ان میں مصر، ایتھوپیا، ایران اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔
2006 میں برکس کے قیام کے بعد سے اب تک صرف 2010 میں جنوبی افریقہ کو ہی اس تنظیم کا حصہ بنایا گیا تھا لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ تنظیم کے دروازے دیگر ممالک کے لیے کھلتے جا رہے ہیں۔
ایسے میں برکس، جو خود کو عالمی گورننس کے مغربی ماڈل کے متبادل کے طور پر پیش کرتی ہے، کے حوالے سے بہت بات چیت ہو رہی ہے۔ مغربی پالیسیوں اور مالیاتی نظام سے بڑھتی ہوئی مایوسی کے بیچ برکس اپنا اثر و رسوخ اور اہمیت بڑھا رہی ہے۔
حیران کن طور پر اس تنظیم میں مغرب سے سب سے زیادہ انسیت رکھنے والا ملک انڈیا ہے جو اس کی وسعت سے سب سے زیادہ فائدہ بھی اٹھا رہا ہے۔
انڈیا نئے برکس ارکان سے گہرے تعلقات رکھتا ہے۔ متحدہ عرب امارات انڈیا کا اہم شراکت دار جبکہ ایتھوپیا سے بھی انڈیا کے پرانے اور قریبی تعلقات ہیں۔
دوسری جانب سعودی عرب کو بھی برکس کی رکنیت کی پیشکش کی گئی تھی تاہم اب تک سعودی حکومت نے باضابطہ طور پر شمولیت کا فیصلہ نہیں کیا۔
دوسری جانب برکس کے ابتدائی رکن ممالک بھی انڈیا کے حق میں فائدہ مند ثابت ہو رہے ہیں کیونکہ اپنی رکنیت کی وجہ سے انڈیا اپنے قریبی دوست روس کے ساتھ تعلق برقرار رکھ سکتا ہے اگرچہ مغربی دنیا نے ماسکو کو تنہا کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔
دوسری طرف حریف ملک چین کے ساتھ مل کر کام کرنے سے انڈیا کو بیجنگ سے تناؤ کم کرنے کی محتاط کوششوں میں مدد ملتی ہے خصوصاً ایسے وقت میں جب اجلاس سے پہلے دونوں ممالک سرحد پر پٹرولنگ کا ایک معاہدہ بھی کر چکے ہیں۔
اس معاہدے کے اعلان سے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کو وہ سفارتی اور سیاسی فضا ملی جس میں اجلاس کے دوران ان کی چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات ممکن ہوئی۔
اس کے علاوہ برکس کی مدد سے انڈیا اپنی سفارتی پالیسی کے کلیدی اصول یعنی سٹریٹجک خود مختاری کو بڑھا سکتا ہے جس کے تحت اس کا دعوی ہے کہ وہ مختلف خطوں میں اہم کھلاڑیوں سے ایک جیسے تعلقات قائم رکھنا چاہتا ہے لیکن کسی سے بھی اتحاد کیے بغیر۔
انڈیا کی حکومت مغرب اور مغرب سے باہر اہم شراکت داریاں قائم کر چکی ہے اور ایک فعال برکس میں موجودگی اور رکن ممالک سے اچھے تعلقات کو امریکہ سمیت مغربی ممالک سے مضبوط تعلقات کے ساتھ برقرار رکھنا ایک اہم سفارتی چیلنج ہو گا تاہم غور سے دیکھا جائے تو برکس کی ترجیحات انڈیا کی ترجیحات بھی ہیں۔
Getty Images
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں جن اصولوں اور مقاصد کا اعلان کیا گیا وہ ان اصولوں اور مقاصد سے ملتے جلتے ہیں جنھیں انڈیا اہم گردانتا ہے یعنی گلوبل ساتھ سے تعلقات، اقوام متحدہ میں اصلاحات کیوںکہ انڈیا سکیورٹی کونسل میں مستقل سیٹ کا خواہش مند ہے، اور مغرب کی پابندیاں لگانے کی پالیسی پر تنقید جو انڈیا کی روس اور ایران سے تجارت پر اثر انداز ہوتی ہے۔
پھر بھی چند لوگوں کے خیال میں یہ انڈیا کے لیے ایک مسئلہ بن سکتا ہے کیوںکہ برکس میں نئے اراکین کی شمولیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اب یہ تنظیم اپنے مقاصد کی جانب سفر کا آغاز کرنے والی ہے جن کے پیچھے چین اور روس ہیں جو مغرب کا متبادل بننا چاہتے ہیں۔
انڈیا کا لداخ میں فوجیں پیچھے ہٹانے اور چین کے ساتھ سرحدی کشیدگی کم کرنے کا نیا معاہدہ کتنی اہمیت کا حامل ہے؟انڈیا نے کینیڈا کی خودمختاری میں مداخلت کر کے بڑی غلطی کی: جسٹن ٹروڈوجے شنکر کا دورہ اسلام آباد: ’اس وقت انڈیا کے تعلقات کینیڈا کے مقابلے میں پاکستان سے بہتر ہیں‘وکاش یادو: امریکہ نے ’را کے ایجنٹ‘ کا وارنٹ گرفتاری کیوں جاری کیا؟
برکس کے نئے رکن ممالک میں ایران شامل ہے اور ممکنہ طور پر مستقبل میں بیلاروس اور کیوبا بھی اس تنظیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اس سے خدشہ ہے کہ یہ تنظیم مستقبل میں مکمل طور پر مغرب مخالف روپ دھار لے گی۔
ایک ایسے وقت میں جب انڈیا مغربی دنیا اور غیر مغربی اتحادیوں سے تعلقات کو احتیاط سے برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے، وہ نہیں چاہے گا کہ کسی ایسی کوشش کا حصہ بنے جو واضح طور پر مغرب مخالف ہو۔
لیکن ایسے خدشات شاید حقیقی نہیں ہیں۔ برکس اس وقت تک مغرب مخالف تنظیم نہیں ہے اور ایران کے علاوہ تمام نئے رکن ممالک کے مغرب سے قریبی تعلقات ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جن ممالک کے بارے میں یہ چرچہ کیا جا رہا ہے کہ وہ مستقبل میں اس کا حصہ بن سکتے ہیں، جیسا کہ ترکی، ویتنام، وہ بھی مغرب مخالف نہیں ہیں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر برکس میں زیادہ مغرب مخالف ممالک شامل ہو بھی جائیں تب بھی یہ تنظیم ایسے فیصلے لینے کی اہلیت شاید نہیں رکھتی جو مغرب کے لیے خطرہ بن سکیں۔ حالیہ اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں مختلف منصوبوں کا ذکر ہے جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک بین الاقوامی ادائیگی کا نظام قائم کیا جائے جو امریکی ڈالر پر مبنی نہ ہو اور مغربی پابندیوں سے اثر انداز نہ ہو سکے۔
لیکن امریکی ڈالر پر انحصار ختم کرنے کا منصوبہ شاید اس لیے کامیاب نہ ہو سکے کیوںکہ تنظیم کے زیادہ تر رکن ممالک کی معیشت ڈالر سے علیحدگی برداشت نہیں کر سکتی۔
پھر ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ برکس کے چند رکن ممالک کی ایک دوسرے سے بھی زیادہ نہیں بنتی اور ایسے میں کسی مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق رائے تنظیم میں وسعت کے ساتھ مذید مشکل ہوتا جائے گا۔
Getty Images
ایران کے مصر اور محدہ عرب امارات دونوں سے تعلقات اچھے نہیں ہیں جبکہ مصر اور ایتھوپیا کے تعلقات بھی تناو کا شکار ہیں۔ ایسے میں چین اور انڈیا کے درمیان کشیدگی میں کمی شاید اس تنظیم کے حق میں مفید ثابت ہو۔ لیکن یہ واضح رہے کہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات بھی بہت اچھے نہیں ہیں۔
سرحدی تنازع، چین کا پاکستان سے قریبی تعلق اور بحر ہند سمیت جنوبی ایشیا میں اثرورسوخ کی جنگ میں کسی بڑی پیش رفت کا امکان بھی کم ہے۔
اتفاق سے پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو خبروں کے مطابق برکس میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فی الحال اس کا امکان کم ہے۔ ایک جانب پاکستان کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے تو دوسری جانب ایک اضافہ مسئلہ یہ بھی ہے کہ انڈیا نے اشارہ دیا ہے کہ کسی بھی نئے رکن کی شمولیت اتفاق رائے سے ہونی چاہیے۔
اس کا مطلب ہے کہ روس اور چین کی جانب سے پاکستان کی حمایت کے باوجود دلی یعنی انڈین حکومت برکس میں اپنے مخالف کی شمولیت کی حامی نہیں بھرے گا۔
ایسے میں پاکستان کو برکس میں شامل ہونے کے لیے اپنی معیشت کو مضبوط کرنا ہو گا کیوںکہ برکس میں شمولیت کے لیے انڈیا کی رضامندی حاصل کرنا موجودہ حالات میں بڑا چیلنج ہو گا۔ تاہم کسی بھی وقت میں انڈیا کے ساتھ تعلقات میں بہتری پاکستان کو برکس کا حصہ بنوا سکتی ہے۔
آج برکس میں وہ سب کچھ ہے جو دلی کے فائدے میں ہے یعنی ایک وسعت پاتی ہوئی تنظیم جس میں دوست ممالک سے مل کر ان اصولوں کے تحت کام کرنے کا موقع جو انڈیا پہلے ہی اپنائے ہوئے ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انڈیا کو مغرب اور غیر مغربی دنیا کے بیچ برابری کے تعلقات قائم رکھنے کا موقع ملتا ہے اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب انڈیا کے امریکہ اور مغربی اتحادیوں، کینیڈا کے علاوہ، سے تعلقات نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔
تاہم دوسری جانب برکس کو یہ مشکل درپیش ہے کہ اندرونی طور پر کیسے ٹھوس اقدمات کیے جائیں اور اسی مشکل کی وجہ سے یہ تنظیم مغرب کے لیے بڑا خطرہ نہیں بن سکتی۔ اور انڈیا بھی یہی چاہتا ہے۔
حالیہ اجلاس کے اعلامیے سے عندیہ ملتا ہے کہ برکس غیر متنازع اور آسانی سے حاصل ہونے والے منصوبوں پر شراکت داری میں دلچسپی رکھتی ہے جن میں تعلیم، صحت، سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت ماحولیاتی تبدیلی جیسے معاملات شامل ہیں جن میں رکن ممالک ایک دوسرے کے ساتھ کام کریں گے لیکن مغرب کے خلاف نہیں۔ انڈیا کے لیے یہ بہترین صورت حال ہے۔
اور ایسی کوششوں سے یہ بھی واضح ہو گا کہ مغرب کو برکس سے خطرہ محسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے اگرچہ کہ روس میں اجلاس منعقد ہونے سے مغربی دارالحکومتوں میں بے چینی ضرور دیکھی گئی۔
انڈیا کا لداخ میں فوجیں پیچھے ہٹانے اور چین کے ساتھ سرحدی کشیدگی کم کرنے کا نیا معاہدہ کتنی اہمیت کا حامل ہے؟انڈیا نے کینیڈا کی خودمختاری میں مداخلت کر کے بڑی غلطی کی: جسٹن ٹروڈووکاش یادو: امریکہ نے ’را کے ایجنٹ‘ کا وارنٹ گرفتاری کیوں جاری کیا؟جے شنکر کا دورہ اسلام آباد: ’اس وقت انڈیا کے تعلقات کینیڈا کے مقابلے میں پاکستان سے بہتر ہیں‘