انڈیا اور کینیڈا کے کشیدہ سفارتی تعلقات کے بیچ دو سال قبل ہوئے قتل کا اعترافِ جرم

بی بی سی اردو  |  Oct 24, 2024

Reutersسکھ تاجر ریپو دمن سنگھ ملِک کو 14 جولائی 2022 کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا

رواں ہفتے کینیڈا کی ایک عدالت میں سنہ 1985 میں ایئر انڈیا کی پرواز پر بم دھماکے کے الزامات سے بری ہونے والے ایک شخص کو گولی مار کر ہلاک کرنے والے دو افراد نے اعترافِ جرم کر لیا ہے۔

ٹینر فاکس اور جوز لوپیز نے سنہ 2022 میں سکھ تاجر ریپو دمن سنگھ ملک کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔

یاد رہے کہ 23 جون 1985 کو کینیڈا سے انڈیا جانے والی ایئر انڈیا کی پرواز 182 کو آئرش ساحل کے قریب دھماکے سے اڑا دیا گیا، جس کے نتیجے میں اس پر سوار تمام 329 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ مرنے والوں میں سے زیادہ تر کینیڈین شہری تھے جو انڈیا میں رشتہ داروں سے ملنے گئے تھے۔ اس دھماکے کا الزام سکھ تاجر ریپودمن سنگھ پر لگا تھا لیکن دو سال تک چلنے والے مقدمے کے بعد رپو دمن سنگھ ملک اور اُن کے شریک ملزم عجائب سنگھ باگری کو سنہ 2005 میں ان بم دھماکوں سے متعلق اجتماعی قتل اور سازش کے الزامات سے بری کر دیا گیا۔

14 جولائی 2022 کی صبح برٹش کولمبیا کے سرے میں ریپودمن سنگھ کو قتل کر دیا گیا تھا۔

ریپودمن سنگھ قتل کیس میں زیر تفتیش ملزمان ٹینر فاکس اور جوز لوپیز نے رواں ہفتے برٹش کولمبیا کی سپریم کورٹ میں یہ تو بتایا کہ اُن سے اِس قتل کے لیے رابطہ کیا گیا تھا لیکن یہ نہیں بتایا کہ کس کے کہنے پر انھوں نے یہ کام کیا تھا۔

مقتول ریپودمن سنگھ کے اہلخانہ نے ایک بیان میں ان دونوں ملزمان پر زور دیا ہے کہ وہ پولیس کے ساتھ تعاون کریں تاکہ جس نے بھی اس قتل کی ہدایت دی تھی اسے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

ریپودمن سنگھ کے خاندان نے کہا کہ ’جب تک اس قتل کی ہدایت دینے والے کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا، یہ کام ادھورا رہے گا۔‘

ریپودمن سنگھ کے قتل کے اعتراف کرنے والے ملزمان کو اب 31 اکتوبر کو سزا سنائی جائے گی۔

اس سے قبل گذشتہ ہفتے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انڈیا نے ان کے ملک کی خودمختاری اور سلامتی میں مداخلت کر کے ایک بڑی غلطی کی ہے۔

کینیڈا نے سکھ علیحدگی پسند رہنماہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں انڈین عہدیداروں کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا جس کے بعد انڈیا اور کینیڈا کے درمیان ایک نیا سفارتی تنازعہ شروع ہو گیا تھا اور گذشتہ دنوں میں اس تنازعے نے شدت اختیار کی ہےے۔

اس تنازعے میں پہلے کینیڈا کی حکومت نے انڈیا کے ہائی کمشنر سمیت پانچ سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا جبکہ بعد میں جوابی کارروائی کرتے ہوئے انڈیا نے بھی کینیڈا کے چھ سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کی ہدایت جاری کی۔

’دہرا معیار تو بہت نرم لفظ ہو گا‘Getty Imagesانڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر

اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی تلخیاں سرکردہ رہنماؤں کے بیانات میں نظر آنے لگیں۔ رواں ہفتے انڈین نیوز چینل این ڈی ٹی وی کے تحت منعقدہ ورلڈ سمٹ کا افتتاح کرتے ہوئے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ انڈیا کے ساتھ تعلقات کو کوئی بھی ملک ’ہلکا مت لے‘ اور یہ کہ اس کے تمام ممالک سے دو طرفہ تعلقات اعتماد اور بھروسے پر قائم ہیں۔

اسی اجلاس میں شریک وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے این ڈی ٹی وی کے ایڈیٹر ان چیف سنجے پوگلیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کینیڈا کو انڈین سفارتکاروں سے یہ پریشانی ہے کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انڈیا کے سلسلے میں وہاں کیا ہو رہا ہے۔

انھوں نے کینیڈا پر مختلف معیار برتنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’دہرا معیار کہنا تو بہت نرم لفظ ہو گا۔‘

’سیاسی مقاصد کے لیے لگائے گئے الزامات‘

دوسری جانب کینیڈا میں انڈیا کے سابق ہائی کمشنر سنجے کمار ورما نے کہا ہے کہ کینیڈا نے ان پر اور انڈین حکومت پر جو بھی الزامات لگائے ہیں وہ سیاست سے متاثر ہیں اور اس کے متعلق کوئی قانونی شواہد پیش نہیں کیے گئے ہیں۔

کینیڈا کی طرف سے انڈیا کے ساتھ شیئر کیے گئے سفارتی مراسلے میں کینیڈا میں انڈیا کے ہائی کمشنر سنجے کمار ورما اور دیگر انڈین سفارت کاروں پر جون 2023 میں انڈیا میں علیحدہ ریاست خالصتان کے حامی سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔

کینیڈا کے سی ٹی وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے سنجے کمار ورما نے متعدد سوالات کا جواب دیتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ کینیڈین حکومت خالصتان کے حامیوں کو فروغ دے رہی ہے۔

سنجے کمار ورما کا کہنا تھا کہ خالصتان حامی افراد کینیڈا کی سکیورٹی انٹیلیجنس سروس (سی ایس آئی ایس) کے لیے ’قیمتی اثاثے‘ کی طرح ہیں۔

انھوں نے کہا ہے کہ ’جس طرح ٹروڈو حکومت نے بغیر شواہد کے انڈیا اور ہم پر الزام لگایا ہے اسی طرح ہمارا یہ الزام ہے اور میں اس کے لیے شواہد پیش نہیں کر رہا ہوں۔‘

انڈیا نے کینیڈا کی خودمختاری میں مداخلت کر کے بڑی غلطی کی: جسٹن ٹروڈوہردیپ سنگھ نجر: ’دہشت گرد‘ قرار دیے گئے خالصتان حامی رہنما کون تھے اور انڈیا کو کن مقدمات میں مطلوب تھے؟خالصتان تحریک: جب ایئر انڈیا کا طیارہ 329 مسافروں سمیت فضا میں تباہ کر دیا گیاکینیڈا سے خفا لیکن امریکہ کو یقین دہانیاں، کیا امریکہ میں سکھ رہنما کے قتل کی سازش کا معاملہ انڈیا کے لیے مصیبت بن سکتا ہے؟

انٹرویو کے دوران سنجے کمار ورما سے پوچھا گیا کہ اگر آپ نے کچھ غلط نہیں کیا تو آپ کینیڈین حکام سے تعاون کیوں نہیں کر رہے؟

اس کے جواب میں سنجے ورما نے کہا کہ ’ہمیں اس کے لیے کچھ شواہد کی ضرورت ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ساتھ شواہد شیئر نہیں کیے گئے۔ جو بھی شواہد ہمارے ساتھ شیئر کیے جائیں انھیں قانون کے مطابق ہونا چاہیے، ہم کینیڈا کی طرح قانون کی حکمرانی پر عمل کرتے ہیں۔‘

انھوں نے پوچھا کہ ’جب تک شواہد فراہم نہیں کیے جاتے میں اپنا دفاع کیسے تیار کروں گا؟‘

کینیڈا میں انڈیا مخالف سرگرمیاں

انٹرویو کے دوران ورما سے پوچھا گیا کہ کیا انھوں نے نجر کے ٹھکانے کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں؟ اس کے علاوہ ان سے کینیڈا میں خالصتان کے حامیوں پر نظر رکھنے کے بارے میں بھی سوال پوچھا گيا؟

ان کے متعلق انھوں نے کہا کہ ’انڈین ہائی کمشنر کی حیثیت سے میں نے ایسا کچھ نہیں کیا، البتہ میرے ساتھیوں نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ خالصتان حامی کینیڈا میں کیا کر رہے ہیں، اور یہ ہمارے قومی مفاد سے وابستہ ہے۔‘

’اگر کینیڈا کے رہنما یہ نہیں جانتے کہ ہمارے دشمن یہاں کیا کر رہے ہیں تو مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہے کہ کینیڈا کے رہنما بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں نہیں جانتے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم اخبارات پڑھتے ہیں، پنجابی سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ اپنی سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے کیا کر رہے ہیں۔ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہتا ہوں کہ انڈیا کسی کے قتل میں ملوث نہیں ہے۔ یہ بات میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں۔ میں نجر یا کسی اور کے قتل کی مذمت کرتا ہوں۔‘

سنجے کمار ورما نے مزید کہا کہ ’ہمیں انڈیا اور کینیڈا کے تنازع کی جڑ تک جانا ہو گا، اس کے لیے کینیڈا کو شواہد ہمارے ساتھ شیئر کرنے چاہییں۔ ہم نے کینیڈا کے ساتھ جو 26 ڈوزیئر شیئر کیے ہیں، ان کا کیا ہوا؟‘

انڈیا سے وابستہ کچھ لوگوں کے خلاف امریکہ میں محکمہ انصاف کی طرف سے دائر کیس کے بارے میں ورما نے کہا ہے کہ مقدمہ چلانے کا مطلب سزا یا جرم کا ثابت ہونا نہیں ہے، اس لیے منطقی طور پر اس کیس کو عدالت میں آگے بڑھنے دینا چاہیے۔

خیال رہے کہ ہردیپ سنگھ نجر کینیڈا کے برٹش کولمیبا علاقے کے ایک سرکردہ سکھ رہنما تھے جو انڈیا کی پنجاب ریاست میں سکھوں کی ایک علیحدہ مملکت کے قیام کے حامی تھے جبکہ انڈیا نے انھیں ایک مفرور دہشت گرد قرار دے رکھا تھا۔

بہرحال اس انٹرویو کے آخر میں انھوں نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ تنازع انڈیا اور کینیڈا کے درمیان تجارت، مواصلات، تعلیم اور ثقافتی تعلقات کو متاثر نہیں کرے گا لیکن گذشتہ دنوں انڈین وزیر خارجہ اور انڈین وزیر اعظم کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آتی دکھائی نہیں دیتی۔

کینیڈا سے خفا لیکن امریکہ کو یقین دہانیاں، کیا امریکہ میں سکھ رہنما کے قتل کی سازش کا معاملہ انڈیا کے لیے مصیبت بن سکتا ہے؟خالصتان تحریک کیا ہے اور سکھوں کے لیے علیحدہ ملک کا مطالبہ پہلی بار کب اٹھایا گیا؟ہردیپ سنگھ نجر: ’دہشت گرد‘ قرار دیے گئے خالصتان حامی رہنما کون تھے اور انڈیا کو کن مقدمات میں مطلوب تھے؟خالصتان تحریک: جب ایئر انڈیا کا طیارہ 329 مسافروں سمیت فضا میں تباہ کر دیا گیاانڈیا نے کینیڈا کی خودمختاری میں مداخلت کر کے بڑی غلطی کی: جسٹن ٹروڈوانٹیلیجنس معلومات کے باوجود امریکہ اور کینیڈا سکھ علیحدگی پسند رہنما کا قتل روکنے میں ناکام کیوں ہوئے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More