امریکہ کا صدارتی الیکشن: ایلون مسک ووٹرز میں لاکھوں ڈالر کیوں تقسیم کر رہے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Oct 23, 2024

Getty Images

امریکی ٹیک کمپنی ٹیسلا کے بانی اور ٹیکنالوجی کی صنعت کی ارب پتی شخصیت ایلون مسک کی جانب سے امریکی انتخابات سے قبل ان کی پٹیشن پر دستخط کرنے والوں کو 10 لاکھ ڈالرز کی پیشکش کی قانونی حیثیت کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں ایلون مسک کا یہ اعلان سامنے آیا کہ وہ امریکی آئین میں پہلی اور دوسری ترمیم کی حمایت میں آن لائن پٹیشن پر دستخط کرنے والوں میں سے روزانہ کسی بھی ایک شخص کو ایک ملین ڈالر کی رقم انعام میں دیں گے۔

یہ دونوں ترامیم آزادی اظہار اور ہتھیار اٹھانے کے حق کا تحفظ کرتی ہیں۔

یہ آن لائن پٹیشن ایلون مسک کی امریکہ پولیٹیکل ایکشن کمیٹی کی جانب سے تیار کی گئی، جس کا مقصد امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت اور ان کے حامیوں کو متحرک کرنا ہے۔

11 سابق ریپبلکن عہدیداروں نے نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل ایلون مسک کی جانب سے ووٹرز کو دیے جانے والی نقد مراعات کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھائے ہیں۔

ایلون مسک کے امریکی الیکشن کی انتخامی مہم کے گروہ امریکہ پیک نے سات سوئنگ ریاستوں میں سے چھ کے ووٹرز سے مطالبہ کیا کہ وہ اس درخواست پر دستخط کریں۔ امریکی ریاست پنسلوانیا میں ووٹروں کو صرف پٹیشن پر دستخط کرنے کے لیے نقد رقم دی جا رہی ہے جبکہ دستخط کرنے والوں میں سے کسی بھی ایک شخص کو روزانہ ایک ملین ڈالر کا انعام دیے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

تاہم قانونی ماہرین کو خدشہ ہے کہ ایسی کوئی بھی پیشکش، جس میں کسی ووٹر کو کہیں دستخط کرنے کے عمل کے لیے رقم کی پیشکش کی جائے، امریکی قانون کی خلاف ورزی میں شمار کی جا سکتی ہے۔

تاہم امریکہ میں بی بی سی کے پارٹنر ادارے سی بی ایس کو امریکہ محکمہ انصاف نے تصدیق کی ہے کہ انھیں سابق ریپبلیکن حکام کی جانب سے ایلون مسک کی ووٹرز کو مالی فائدے دینے کے معاملے کی چھان بین کرنے کی درخواست موصول ہوئی ہے۔

تاہم ایلون مسک نے اس معاملے پر تمام تر تنقید کو مسترد کرتے کہا ہے کہ اس پٹیشن پر دستخط کرنے کے لیے ’آپ چاہے کسی بھی سیاسی جماعت کے حامی ہوں یا آپ کا کسی سیاسی جماعت سے بھلے تعلق نہ ہو اور چاہے آپ انتخابات میں ووٹ بھی نہ ڈالیں۔‘

Reutersایلون مسک کی پیشکش میں کیا ہے؟

اس درخواست میں ان چھ ریاستوں کے ووٹرز جہاں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے، پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اظہار رائے کی آزادی اور اسلحہ رکھنے کے حق کے لیے درخواست پر دستخط کریں۔

ان ریاستوں میں جارجیا، نیواڈا، ایریزونا، مشیگن، وسکونسن اور شمالی کیرولائنا شامل ہیں۔

اسی طرح وہ ووٹرز جنھوں نے خود اس درخواست پر دستخط کیے اور کسی اور کو بھی اس پر دستخط کرنے کا کہا انھیں بھی 47 ڈالر کی رقم دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔

امریکی ریاست پینسلوانیا جس کے بارے میں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ یہاں ٹرمپ اور کمالا ہیرس کے درمیان کا مقابلہ نہ صرف کانٹے کا ہو گا بلکہ یہاں کے نتائج فیصلہ کن بھی ہوں گے وہاں ووٹرز کو اس پٹیشن پر دستخط کرنے کے 100 ڈالرز دیے جا رہے ہیں۔

امریکہ پیک کا کہنا ہے کہ جنھوں نے ان کی پٹیشن پر دستخط کیے ہیں وہ امریکی آئین کی پہلی اور دوسری ترمیم کی حمایت کر رہے ہیں۔

گروپ کا کہنا ہے کہ ’پانچ نومبر تک ان سات سوئنگ ریاستوں میں روزانہ کی بنیاد پر کسی ایک خوش قسمت ووٹر کو دس لاکھ ڈالر کا انعام دیا جائے گا۔‘

19 اکتوبر کو اس سلسلے میں لاٹری کی طرز پر ایک بڑا سا چیک پینسلوانیا کے ٹاؤن ہال میں منعقدہ ایک اجتماع میں شریک ایک ووٹر کو دیا گیا تھا۔

کیا اس طرح کی انعامی رقم دینا قانونی ہے؟

جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر پال شیف برمن کا کہنا ہے کہ ’میرا خیال ہے کہ ایلون مسک کی یہ پیشکش ممکنہ طور پر غیر قانونی ہے۔‘

انھوں نے امریکی انتخابات کے قانون کا حوالہ دیا جس کے مطابق ’کوئی بھی شخص جو ووٹ کے اندراج یا ووٹ ڈالنے کے لیے رقم لے یا رقم کی پیشکش کرے اسے 10 ہزار ڈالر جرمانہ یا پانچ سال جیل کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔‘

پروفیسر برمن نے بی بی سی کو بتایا کے ’کیونکہ ان (ایلون مسک) کی پیشکش صرف رجسٹرز ووٹرز کے لیے ہے تو میرا خیال ہے کہ یہ ان قواعد کی خلاف ورزی ہے۔‘

امریکی محکمہ انصاف نے اس بارے میں کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا جبکہ وفاقی الیکشن کمیشن سے بھی اس بارے میں موقف دینے کے لیے رابطہ کیا گیا۔

تاہم وفاقی الیکشن کمیشن کے سابق چیئرمین کا کہنا ہے کہ ایلون مسک کی یہ حکمت عملی ایک قانونی سقم کا فائدہ اٹھا رہی ہے کیونکہ کسی کو بھی ووٹ دینے یا ووٹ کا اندراج کرنے کے لیے پیسے نہیں دیے جا رہے۔

براڈ سمتھ نے امریکی ادارے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ ’یہ انعامی سکیم یقیناً ایک ابہام پیدا کرتی ہے لیکن یہ اس انتخابی قواعد کے تحت نہیں آتی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ایلون مسک ووٹرز کو ووٹ کا اندراج کروانے کے لیے رقم نہیں دے رہے۔ وہ انھیں ایک پٹیشن پر دستخط کرنے کے لیے پیسے دے رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ صرف وہ لوگ اس پر دستخط کریں جو ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ لہذا میرا خیال ہے کہ وہ کسی بھی غیر قانونی زمرے میں آنے سے بچ جائیں گے۔‘

لیکن نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں الیکشن قانون کے ایک پروفیسر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا اسے صدارتی انتخاب کے تناظر میں دیکھنا اہم ہے۔

Getty Images

پروفیسر مائیکل کانگ کا کہنا ہے کہ ’کچھ تجزیوں میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ غیرقانونی نہیں لیکن میرا خیال ہے کہ اس عمل کو صدارتی انتخابات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے کیونکہ اس میں لوگوں کو واضح طور پر ووٹ کا اندراج کروانے کی ترغیب دی گئی یعنی قانونی طور پر یہ ایک مسئلہ بن سکتا ہے۔‘

غیرجانبدار مہم کے قانونی مرکز کے ایڈو نوٹی کا کہنا ہے کہ مسک کی سکیم ’وفاقی قانون کی خلاف ورزی کرتی ہے اور یہ محکمہ انصاف کی طرف سے دیوانی یا فوجداری قانون کے تحت آتی ہے۔‘

نوٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس شرط پر رقم دینا غیر قانونی ہے کہ وصول کنندگان خود کو بطور ووٹر رجسٹر کریں۔‘

نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی سکول آف لا کے آئینی قانون کے پروفیسر جیریمی پال نے بی بی سی کو ایک ای میل میں کہا کہ ایلون مسک قانونی سقم کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اگرچہ اس بات کی دلیل ہے کہ پیشکش غیر قانونی ہو سکتی ہے لیکن اسے ’ہدف بنایا گیا اور اسے قانون سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ اور ان کا خیال ہے کہ عدالت میں اس پر کیس بنانا مشکل ہو گا۔

سات ریاستیں جو امریکی صدر کے انتخاب میں اہم ترین کردار رکھتی ہیںکملا ہیرس: امریکہ کے صدارتی الیکشن میں پہلی سیاہ فام خاتون امیدوار، جو اپنے آپ کو محض ’امریکی‘ کہنا پسند کرتی ہیں’سیکرٹ سروس کا ایک ہی کام تھا اور وہ اس میں بھی ناکام رہی‘، امریکی صدور کی حفاظت کی ذمہ دار سیکرٹ سروس کیسے کام کرتی ہے؟دنیا کے امیر ترین شخص کی کامیابی کے چھ رازڈیموکریٹس کا کیا کہنا ہے؟

پنسلوانیا کے گورنر جوش شاپیرو جو ڈیموکریٹ ہیں، نے اس اقدام کو ’انتہائی تشویشناک‘ قرار دیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

اس کے جواب میں ایلون مسک نے کہا کہ ’ان (گورنر) کا ایسا کہنا تشویشناک ہے۔‘

ارب پتی سرمایہ کار مارک کیوبن جنھوں نے حالیہ ہفتوں میں کمالا ہیرس کے لیے مہم چلائی ہے، کا کہنا تھا کہ ’یہ پیشکش منفرد اور شدید نوعیت کی ہے۔‘

انھوں نے سی این بی سی کو بتایا کہ ’آپ ایسا صرف اس لیے کرتے ہیں کہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو کرنا ہے لیکن لاٹری کا استعمال کرنا برا خیال نہیں۔ یہ کام کرے گا یا نہیں یہ اور بات ہے۔ یہ اتنی ہی آسانی سے بیک فائر کر سکتا ہے۔‘

کیا پہلے ایسی کسی سکیم کی کوئی مثال ہے؟

مسک نے تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ڈیموکریٹس اور ان کی مہم چلانے والے ایسی ہی سکیموں کو متعارف کرواتے رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر انھوں نے ایک پوسٹ شیئر کی جس میں کہا گیا کہ میٹا کے سربراہ مارک زکربرگ نے ’سنہ 2020 میں ایسا ہی کیا تھا۔‘

زکربرگ نے 2020 کے انتخابات میں 400 ملین ڈالر کا عطیہ دیا تھا لیکن یہ پوسٹل بیلٹ کے لیے لاجسٹکس میں مدد کے لیے دو غیر جانبدار تنظیموں کو دیا گیا۔ یہ براہ راست ووٹرز کو نہیں دیا گیا تھا۔

ڈیموکریٹک نے حامیوں کو متحرک کرنے کے لیے گذشتہ انتخابات میں ایسے اقدامات میں سرمایہ کاری کی تھی جیسے کہ 2022 کے امریکی وسط مدتی انتخابات میں 25 ملین ڈالر کی ووٹر رجسٹریشن مہم۔

تاہم یہ رقم بھی براہ راست ووٹرز کو نہیں دی گئی تھی۔ یہ فنڈنگ ایسے منصوبوں پر لگائی گئی تو جو ووٹرز کو ووٹ کا اندراج کروانے کے لیے متحرک کرتے تھے اور اس کے لیے کچھ لوگوں کو گھر گھر جا کر ایسا کرنے کے لیے رکھا گیا تھا اور ٹی وی اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ پر خرچ کیا گیا تھا۔

پروفیسر کانگ کہتے ہیں کہ ’لوگوں کو رجسٹر ووٹرز کے پاس جا کر متحرک کرنے کے لیے پیسہ ادا کرنا قانونی ہے مگر آپ لوگوں کو براہ راست پیسے ادا نہیں کر سکتے۔‘

Getty Imagesایلون مسک نے اور کیا کیا؟

ایلون مسک کے ٹرمپ سے تعلقات اس وقت خراب تھے جب وہ صدر تھے لیکن حالیہ برسوں میں انھوں نے ڈیموکریٹس کے اقدامات کے بارے میں بھی آواز اٹھائی۔

سنہ 2022 کے مڈ ٹرم الیکشنز سے قبل انھوں نے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کو چھوڑ دیا اور انھوں نے اپنے فالورز سے کہا تھا کہ وہ ریپبلیکن کو ووٹ دیں۔

رواں برس انھوں نے امریکی سیاست میں حصہ لیا اور متعدد ریپبلیکنز کے حق میں حمایتی سوشل میڈیا پوسٹس کی اور عطیات دیے۔

پچھلے ہفتے تبصروں میں انھوں نے امریکہ اور میکسیکو کی سرحد کے مسئلہ کو فلم ’ورلڈ وار زی‘ کے مترادف قرار دیا۔

ایلون مسک نے امریکی پیک کو جولائی میں لانچ کیا تھا جس کا مقصد ٹرمپ کی صدارتی مہم کی حمایت کرنا تھا۔ انھوں نے ابھی تک اس میں تقریبا 75 ملین ڈالر عطیہ کیے ہیں۔

امریکن پیک کی ویب سائٹ کے مطابق اس گروپ کا کہنا ہے کہ ’وہ محفوظ سرحدیں، محفوط شہر اور اظہار رائے کی آزادی، شفاف نظام انصاف، اپنی حفاظتکا نظام اور سمجھداری سے حکومتی اخراجات چاہتے ہیں۔‘

ٹرمپ نے اتوار کو کہا کہ وہ مسک کے رقم دینے کے منصوبے کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تاہم انھوں نے ایلون مسک کو اپنے دوست کے طور پر بیان کیا۔

حالیہ ہفتوں کے دوران مسک ٹرمپ کی صدارتی مہم میں نظر آئے ہیں۔ پہلی مرتبہ ٹرمپ کے ساتھ اور دوسری مرتبہ پینسلوانیا کے ٹاؤن ہال میں جہاں ایک ووٹر کو دس لاکھ ڈالر کے انعام کا چیک دیا گیا۔

Getty Imagesایلون مسک ٹرمپ کی حمایت سے کیا چاہتے ہیں؟

ایلون مسک جنھوں نے اپنی پہلی شناخت ایک ہونہار اور قابل ٹیک جینئس کے طور پر قائم کی اور جو سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے تھے اب مکمل طور پر ٹرمپ کی حمایت میں سیاست میں کود چکے ہیں۔

امریکی عوام کی نظر میں 53 سالہ ٹیک جائنٹ نے اپنا وقت، اپنی سمجھ بوجھ اور اپنا پیسہ ریپبلیکنز کو جیت دلانے کی کوشش پر خرچ کر رہے ہیں۔ یہ ایک انہونی بات ہے کیونکہ امریکی اشرافیہ اکثر پس پردہ رہ کر سیاست پر اثر انداز ہوتی ہے۔

یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جو عموماً روایتی سی ای اوز سے بہت مختلف ہے کیونکہ روایتی طور پر ایسی بڑی کمپنیوں کے سربراہان کو ہاپٹنز میں اپنے شاندار گھروں میں مہنگے ڈنرز اور فنڈ ریزنگ پروگرام منعقد کرتے ہی دیکھا گیا۔

اور اسی بات نے مبصرین کو یہ سوال اٹھانے پر مجبور کیا کہ آخر ایلون مسک ٹرمپ کی حمایت کر کے حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟

دوسری طرف پینسلوانیا سے سینیٹر جان فیٹرمین جیسے ڈیموکریٹس مسلسل اپنی جماعت کو یہ تنبیہ کر رہے ہیں کہ الیکشن سے قبل مسک کے خطرے کو ہلکا نہ لیا جائے۔

ان کا ماننا ہے کہ ایلون مسک ان لوگوں کو متاثر کر رہے ہیں جو انھیں ’بلا شبہ نہایت ذہین‘ سمجھتے ہیں اور جن کے ساتھ روایتی ڈیموکریٹک رابطہ مہم کی کوششیں مشکل ثابت ہوئی ہیں۔

فلاڈلفیا میں کانگریس کی ایک خاتون رکن الیگزینڈرا کورتز نے کہا کہ ’ایلون مسک بہت سے ایسے افراد پر لاکھوں لٹا رہے ہیں جن کا ماہانہ گزارا مشکل سے ہوتا ہے۔‘

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کا اتنی رقم، وقت اور اپنی کوششیں صرف کرنا بے مقصد نہیں اور وہ ٹرمپ اور اپنے تعلق کا فائدہ اٹھائیں گے۔

ان خیالات کا اظہار کرنے والوں میں الیکٹرک گاڑیوں کی چارجنگ پلیٹ فارم بنانے والی کمپنی چارج وے کے سربراہ میٹ ٹیسکے بھی شامل ہیں۔

ان کے مطابق ایلون مسک کی سیاسی وابستگی میں تبدیلی الیکٹرک گاڑیوں کی صنعت سے وابستہ لوگوں کے لیے سمجھنا کچھ مشکل ضرور ہے لیکن اس میں کوئی حیرانی نہیں کیونکہ گذشتہ چند برسوں کے دوران سے وہ سیاست میں کافی متحرک رہے ہیں۔

میٹ ٹیسکے کا کہنا ہے کہ ’میرا خیال ہے کہ مسک کے مفادات بہت واضح ہیں اور ممکنہ طور پر چیزوں سے منسلک ہیں جو ان کے اور ان کے کاروبار کے لیے اہم ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے کووڈ پابندیوں کے دوران کیلیفورنیا میں ان پابندیوں پر عمل کرنے میں بہت مزاحمت کی تھی۔‘

مشی گن یونیورسٹی کے پروفیسر گورڈن اس سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسک اپنے آپ کو ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھتے ہیں جسے ریگولیٹرز نے روک رکھا ہے اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ حکومتی مداخلت نے ان کی ٹیکنالوجیز کی ترقی کو روک دیا ہے جن پر ان کی توجہ مرکوز ہے، جیسے کہ خود مختار ڈرائیونگ۔

پروفیسر گورڈن کا کہنا ہے کہ ’وہ ایک ایسا کاروباری شخص بننا چاہتے ہیں جو روایات کو توڑ کر نئی راہیں بنا سکتا ہے اور قواعد و ضوابط میں نہیں پھنستا، جو ٹیکنالوجی میں ترقی سے پانچ، 10، 20 سال آگے رہنا چاہتا ہے۔‘

پروفیسر گورڈن کہتے ہیں کہ ’وہ مریخ پر جانا چاہتے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ نے تجویز دی کہ اگر وہ نومبر کا صدارتی انتخاب جیت جاتے ہیں تووہ ایلون مسک کو امریکی حکومت کے اخراجات میں کمی کے معاملات کی ذمہ داری سونپ سکتے ہیں۔‘

پروفیسر گورڈن کے مطابق اگر ٹرمپ ایسا نہیں بھی کرتے تو بھی ایلون مسک نے ان کی انتخابی مہم کے لیے جو کچھ کیا، ٹرمپ ان کی بات ضرور سنیں گے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کا امریکہ کی انتظامیہ کی فیصلہ سازی پر گہرا اثر ہو گا۔

جبکہ مسک کا کہنا ہے کہ وہ ’حکومتی کارکردگی کے محکمے‘ کی ذمہ داری سنبھالنے کو تیار ہیں اور وہ ایسے تمام قواعد و ضوابط کو ختم کریں گے ’جو امریکہ کا گلا گھوٹتے ہیں۔‘

ڈیوکریٹس کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو مفادات کے ٹکراؤ کی ایک پیچیدہ صورت سامنے آئے گی کیونکہ مسک نے سپیس ایکس اور ٹیسلا کے لیے اربوں کے حکومتی معاہدے حاصل کیے ہیں۔

کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزوم کی سابق چیف اکنامک اینڈ بزنس ایڈوائزر لینی مینڈونکا کہتی ہیں کہ ’یہ انتہائی غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے۔‘

مینڈونکا کا خیال ہے کہ وہ لوگ جن کے ’حکومت اور ریگولیٹری محکموں کے ساتھ معاملات‘ ہوں ’اثر رکھ سکتے ہیں۔‘ اور ان لوگوں کو اختیار کی پوزیشن میں نہیں ہونا چاہیے۔

ایلون مسک جو روائتی طریقوں اور نظام سے منحرف ہونے کو پسند کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال ہے کہ کیا امریکی حکومت کے ساتھ ان کے منافع بخش تعلقات برقرار رہیں گے چاہے نومبر کے انتخابات کا نتیجہ کچھ بھی ہو لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کا برانڈ اور ان کی ساکھ اب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ جڑی ہے۔

دنیا کے امیر ترین شخص کی کامیابی کے چھ رازسات ریاستیں جو امریکی صدر کے انتخاب میں اہم ترین کردار رکھتی ہیں’سیکرٹ سروس کا ایک ہی کام تھا اور وہ اس میں بھی ناکام رہی‘، امریکی صدور کی حفاظت کی ذمہ دار سیکرٹ سروس کیسے کام کرتی ہے؟امریکہ کے صدارتی انتخاب کی دوڑ میں ڈونلڈ ٹرمپ آگے ہیں یا کملا ہیرس؟ڈونلڈ ٹرمپ: امریکہ کا ’رنگین ارب پتی‘ ملکی تاریخ کی متنازع سیاسی شخصیت کیسے بنا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More