Getty Imagesآکسفرڈ یونیورسٹی کی مشاہر کی فہرست میں شامل پانچ پاکستانیوں میں سے ایک عمران خان ہیں
برطانیہ کی مشہور یونیورسٹی آکسفرڈ نے اپنے نئے چانسلر کے لیے 38 امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کر دی ہے اور اس میں پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کا نام شامل نہیں ہے۔
آکسفرڈ کے نئے چانسلر کے انتخاب کا عمل 28 اکتوبر سے شروع ہو گا۔
عمران خان کے مشیر زلفی بخاری نے تحریکِ انصاف کے بانی کو بطور امیدوار منتخب نہ کیے جانے کے حوالے سے بی بی سی اردو کے سوال پر کہا کہ انھیں یونیورسٹی کی جانب سے اس بارے میں مطلع نہیں کیا گیا تاہم انھوں نے اس سلسلے میں وکیل کے ذریعے معلومات کے حصول کے لیے آکسفرڈ یونیورسٹی سے رابطہ کیا ہے۔
تحریکِ انصاف کے بانی کی جانب سے چانسلر کے انتخاب میں شرکت کے لیے بطور امیدوار درخواست مقررہ مدت کے آخری دن 18 اگست 2024 کو جمع کروائی گئی جس کا اعلان عمران خان کے مشیر زلفی بخاری ہی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کیا تھا۔
اس وقت اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کیوں نہ ان انتخابات میں حصہ لیں، یہ ایک انتہائی باوقار منصب ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ (عمران خان) ماضی میں بریڈ فورڈ یونیورسٹی کے چانسلر رہ چکے ہیں اور انھوں نے یہ اہم ذمہ داری بڑی دیانت داری سے نبھائی۔ لہٰذا وہ اس منصب کے لیے سب سے زیادہ اہل شخص ہیں۔ ان کے کیس ختم ہو رہے ہیں اور اگر وہ انتخابات جیت جاتے ہیں تو وہ انشاء اللہ دسمبر تک ذاتی طور پر ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔‘
آکسفرڈ یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق یہ پہلا موقع تھا کہ چانسلر کے انتخاب کے لیے ’اوپن ایپلیکیشن پراسیس‘ استعمال کیا گیا تاکہ مختلف پس منظر والے امیدواران سامنے آ سکیں۔
یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ چانسلر الیکشن کمیٹی نے تمام درخواستوں کو یونیورسٹی کے ضوابط کے تحت طے شدہ معیار پر پرکھا جس کے بعد 16 اکتوبر کو 38 امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کی گئی ہے جن میں سے کم از کم پانچ افراد ایسے ہیں جنھوں نے اپنا تعلق پاکستان سے ظاہر کیا ہے۔
آکسفرڈ کا نیا چانسلر کب اور کیسے منتخب ہو گا؟Getty Imagesپاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان آکسفرڈ یونیورسٹی کے کیبل کالج میں 1972 سے 1975 کے دوران زیر تعلیم رہے ہیں
اس عہدے پر کامیاب امیدوار کی تقرری 10 سال کے لیے ہوگی تاہم یہ ایک ’سیریمونیئل‘ یعنی اعزازی منصب ہے، یعنی تنخواہ اور مراعات نہیں ہوتے لیکن چانسلر پر کسی طرح کی انتظامی ذمہ داری بھی نہیں ہوتی۔
تاہم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرری، اہم تقریبات کی صدارت، فنڈ جمع کرنے اور مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر یونیورسٹی کی نمائندگی میں چانسلر کا کردار اہم ہے۔ وہ ایک طرح سے یونیورسٹی کا سفیر ہوتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ آکسفرڈ چانسلر کے لیے برطانیہ میں رہنا ضروری نہیں البتہ تمام اہم تقریبات میں شرکت لازمی ہے جس کے لیے سفری اخراجات یونیورسٹی ادا کرتی ہے۔
نئے چانسلر کے انتخاب کے لیے یونیورسٹی کی کونسل ’چانسلر الیکشن کمیٹی‘ تشکیل دیتی ہے جس کا کام قواعد و ضوابط کے مطابق انتخابی عمل کا انعقاد اور نگرانی ہوتا ہے اور وہ کسی طرح بھی اس عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کرتی۔
عمران خان کے لیے اس مقابلے میں حصہ لینا ووٹنگ سسٹم میں ایک حالیہ ترمیم کے بعد ممکن ہوا جس کے مطابق یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ اور عملے کے موجودہ اور سابقہ ارکان اب اپنا ووٹ آن لائن دے سکیں گے۔ اس حلقۂ انتخاب کو ’کونووکیشن‘ کہتے ہیں۔ اس سے پہلے امیدواروں اور ووٹروں کے لیے کونووکیشن میں ذاتی طور پر حاضری لازمی ہوا کرتی تھی۔
یونیورسٹی کے مطابق نئے چانسلر کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کا عمل 28اکتوبر سے شروع ہو گا اور دنیا بھر سے ڈھائی لاکھ سے زیادہ اہل ووٹر چانسلر کا انتخابکر سکیں گے۔
10 سے کم امیدواروں کی صورت میں انتخاب کا صرف ایک دور ہوتا ہے تاہم اس مرتبہ امیدواروں کی تعداد زیادہ ہونے کی صورت میں انتخابی عمل کا دوسرا راؤنڈ 18 نومبر کو شروع ہوگا۔
اہم بات یہ ہے کہ اس الیکشن میں موجودہ طالبعلم، یونیورسٹی ملازمین یا کسی سیاسی عہدے کے امیدوار حصہ نہیں لے سکتے۔
یاد رہے کہ چانسلر کرسٹوفر فرانسس پیٹن 2003 سے اس عہدے ہر تعینات تھے جنھوں نے 31 جولائی کو استعفی دیا۔ 80 سالہ لارڈ پیٹن ہانگ کانگ کے آخری گورنر رہے اور اس سے قبل برطانوی کنزرویٹیو پارٹی کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔
آکسفرڈ کے مشہور پاکستانی طالب علم
عمران خان نے 1972 میں آکسفرڈ یونیورسٹی کے کیبل کالج (Keble College) میں داخلہ لیا اور 1975 میں سیاسیات، فلسفے اور معاشیات میں گریجویشن کی سند حاصل کی۔ اس دوران انھوں نے کرکٹ کے میدان میں یونیوسٹی کے لیے کئی اعزاز جیتے۔ اس دوران بینظیر بھٹو بھی آکسفرڈ میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں اور عمران خان کے مطابق ان کے درمیان دوستی بھی تھی۔
71 سالہ عمران خان پاکستان کی ان پانچ شخصیات میں سے ایک ہیں جن کا ذکر برطانیہ کی اس سب سے قدیم اور بین الاقوامی شہرت کی حامل آکسفرڈ یونیورسٹی نے اپنی ’فیمس اوکسونیئنز‘ کی فہرست میں فخر سے کیا ہے۔
دیگر چار شخصیات پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان، سابق وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو، ان کی بیٹی اور سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور سابق صدر فاروق احمد لغاری ہیں۔
نو مئی 2023: احتجاج، جلاؤ گھیراؤ اور کریک ڈاؤن کی پسِ پردہ کہانی’سوری بولو، نہیں پہلے تم سوری بولو‘ حکومتی دستاویزات کے مطابق اڈیالہ جیل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی زندگی کیسی ہے؟نواز شریف اور عمران خان: کرکٹ سے سیاست اور رفاقت سے عداوت تک کا سفر
اس فہرست میں ان مشہور شخصیات کے نام شامل ہیں جنھوں نے یہاں سے گریجویشن کی یا درس دیا، اور کسی نہ کسی شعبے میں بین الاقوامی شہرت حاصل کر کے اپنا نام ہمیشہ کے لیے تاریخ میں ثبت کیا۔
ان میں 28 برطانوی وزرائے اعظم، کم سے کم 30 بین الاقوامی لیڈر، 55 نوبیل انعام یافتگان اور 120 اولمپک میڈل جیتنے والے شامل ہیں۔
عمران خان دسمبر 2005 سے نومبر 2014 تک برطانیہ کی یونیورسٹی آف بریڈفرڈ کے چانسلر رہے ہیں۔
یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق اپنی آٹھ سالہ چانسلر شِپ کے دوران انھوں نے یونیورسٹی میں نئے انسٹی ٹیوٹ آف کینسر تھیراپیوٹِکس کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس کے بعد سے اس انسٹی ٹیوٹ اور عمران خان کے شوکت خانم میموریل ہاسپٹل اینڈ ریسرچ سینٹر کے درمیان قریبی رابطے رہے ہیں۔
عمران خان جب اس عہدے سے مستعفی ہوئے تو اس وقت یونیورسٹی کے وائس چانسلر، پروفیسر برائن کینٹر، نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا تھا: ’وہ یونیورسٹی کے لیے ایک ممتاز سفیر اور ہمارے طلبہ کے لیے زبردست رول ماڈل رہے ہیں۔‘
Getty Imagesآکسفرڈ یونیورسٹی کو برطانیہ کی سب سے پرانی جامعہ ہونے کا اعزاز حاصل ہےعمران خان کے لیے یہ الیکشن کیوں اہم تھا؟
عمران خان کے حامیوں کا خیال ہے کہ سابقہ تجربے، یونیورسٹی آف آکسفرڈ سے دیرینہ تعلق، قومی اور بین الاقوامی سطح پر عوامی فلاح کے کام اور کرکٹ کی دنیا میں شہرت انھیں چانسلرشِپ کا ایک مضبوط امیدوار بناتی تھی۔
پاکستان میں سیاسی تنازع پر لکھی جانےوالی کتاب ’پولٹیکل کنفلیکٹ ان پاکستان‘ کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر محمد وسیم نے بی بی سی کو بتایا کہ آکسفرڈ چانسلر ایک اعزازی قسم کا عہدہ سمجھا جاتا ہے جو ایسے لوگوں کو دیا جاتا ہے جو بہت شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق اس سے قبل عمران خان ایک برطانوی یونیورسٹی کے چانسلر رہ بھی چکے ہیں۔
ڈاکٹر وسیم کے مطابق ’عمران خان کے لیے پہلے بھی دو تین بار اس عہدے کے لیے کوششیں کی جا چکی ہیں۔ ان حالات میں اگر عمران خان کو آکسفرڈ جیسی یونیورسٹی کی چانسلرشپ ملے تو پھر یہ ان کے لیے بہت ہمدردی پیدا ہو گی۔‘
عمران خان کی جانب سے بطور امیدوار درخواست جمع کروائے جانے کے موقع پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اگر منتخب ہو جاتے ہیں تو پھر کسی بھی حکومت کے لیے انھیں روکنا ریاست مخالف اقدام تصور کیا جائے گا۔ ڈاکٹر وسیم کے مطابق عمران خان کے لیے باعزت طور پر یہ ملک سے نکلنے کا بھی ایک اچھا موقع ہوگا۔
پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان کی رائے میں ’اگر پاکستانی حکام نے عمران خان کے منتخب ہونے کے بعد بھی ان کا رستہ روکنے کی کوشش کی اور انھیں باہر نہ جانے دیا تو پھر ایسے میں سفارتی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔‘
تاہم ڈاکٹر وسیم اس رائے سے متفق نہیں ہیں۔ ان کے مطابق ’پاکستان اور برطانیہ کبھی ایک دوسرے کے اندرونی معاملات کو لے کر سفارتی تعلقات پر اثرانداز نہیں ہونے دیں گے۔‘
ان کے مطابق ’اس سے قبل امریکہ اور برطانیہ میں عمران خان کی رہائی سے متعلق قراردادیں بھی منظور ہوئیں مگر ان چیزوں کا سفارتی تعلقات پر اثر نہیں پڑا۔‘ تاہم ڈاکٹر وسیم اس بات سے متفق ہیں کہ برطانیہ میں عمران خان کی اچھی شہرت ہے اور وہ اس عہدے کی دوڑ کے لیے ایک اہم امیدوار ضرور تصور کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط نے بی بی سی کوبتایا کہ ’عمران خان اگر آکفسرڈ کے چانسلر بن جاتے ہیں تو ان کے لیے اس رول میں کام جاری رکھنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ ابھی وہ جیل میں ہیں اور متعدد مقدمات کا انھیں سامنا ہے۔‘
سفارتی تعلقات سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ’برطانیہ کسی سیاسی رہنما کی وجہ سے ریاستی یا سفارتی تعلقات پر حر ف نہیں آنے دیتا البتہ سول سوسائٹی یا عوام کی حد تک عمران خان کے حق میں سامنے آنا اور بات ہے۔‘ عبدالباسط کے مطابق ’امریکہ اور برطانیہ سمیت مغربی ممالک کی حکومتوں نے عمران خان کی گرفتاری اوران کے مقدمات سے متعلق زیادہ توجہ نہیں دی ہے۔‘
ان کی رائے میں ’عمران خان کا بھی بنیادی مقصد بظاہر یہی لگتا ہے کہ وہ اس طریقےسے سیاسی سکورنگ کرنا چاہتے ہیں اورسب کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ جیل میں رہ کر بھی کتنے مقبول ہیں کہ دنیا کی ایک بہترین یورنیورسٹی نے انھیں اپنا چانسلر چنا ہے۔‘
تاہم ان کے مطابق ’ابھی تو یہ بھی دیکھنا ہے کہ آکسفرڈ کے اصول و ضوابط اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ کوئی سزا یافتہ شخص، اس بحث سے ہٹ کر کہ یہ سزا درست انداز سے ہوئی یا نہیں، اس کا چانسلر بن سکے؟‘
عمران خان کی قید کا ایک برس: ’جیل میں ہونے کے باوجود تحریک انصاف کے بانی پاکستانی سیاست پر غالب‘عمر فاروق ہلال امتیاز کے لیے نامزد: عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کے مرکزی کردار کا نام سرکاری فہرست میں کیسے پہنچا؟عمران خان اور نواز شریف: دونوں کی وہ مماثلت جو مٹ نہیں سکتی!عمران خان سے نواز شریف تک: پاکستانی سیاست میں ’لاڈلے‘ کی اصطلاح کیوں مشہور ہوئی؟’سوری بولو، نہیں پہلے تم سوری بولو‘