Getty Imagesحکومت اور اس کے اتحادی اس آئینی ترمیم کو رواں ہفتے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے فوراً بعد پارلیمان میں پیش کرنے کے خواہاں ہیں
پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے حالیہ دنوں میں 26ویں آئینی ترمیمکے مجوزہ مسودے عوامی سطح پر شیئر کیے گئے ہیں تاہم حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کی جانب سے ابھی تک باضابطہ طور پر اس ترمیم سے متعلق مجوزہ مسودہ سامنے نہیں آیا ہے۔
گذشتہ رات جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کیا کہ ان کی جماعت کا آئینی ترمیم کے مسودے پر پاکستان پیپلز پارٹی سے اتفاق ہو گیا ہے اور ’اب ہماری کوشش ہو گی کہ حکومتی جماعت سمیت دیگر جماعتیں بھی ہم سے متفق ہو جائیں۔‘
متعدد سینیئر حکومتی ممبران کا کہنا ہے کہ اس ترمیم سے متعلق مسلم لیگ ن کا مجوزہ مسودہ زیادہ تر ان سفارشات پر مبنی ہے جس کے چند نکاتگذشتہ ماہ منظر عام پر آئے تھے۔ اُن کے مطابق حکومت کی جانب سے اس مجوزہ مسودے کی تیاری کی ذمہ داری وفاقی وزارتِ قانون کو سونپی گئی ہے تاہم اس میں وزارتِ پارلیمانی اُمور سے بھی مدد لی گئی ہے۔
پی پی پی اور جے یو آئی (ف) کی جانب سے سامنے آنے والے مجوزہ مسودوں اور سینیئر لیگی ممبران سے ہونے والی بات چیت یہ واضح کرتی ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم زیادہ تر عدلیہ اور اس کے اختیارات سے ہی متعلق ہے جس میں نئی آئینی عدالت کی تشکیلسے لے کر اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتیاور سپریم کورٹ کے اختیارات سے متعلق سفارشات شامل ہیں۔
حکومت اور اس کے اتحادی اس آئینی ترمیم کو رواں ہفتے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے فوراً بعد پارلیمان میں پیش کرنے کے خواہاں ہیں اور اس ضمنمیں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس رواں ہفتے 17 اکتوبر کو طلب کیے جانے سے متعلق سمری منظوری کے لیے ایوانِ صدر بھیجی گئی ہے۔ دریں اثنا اس مجوزہ آئینی ترمیم کے حوالے سے بنائی گئی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس سینیئر پی پی پی رہنما خورشید شاہ کی سربراہی میں 16 اکتوبر (آج) کی شام چار بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں طلب کیا گیا ہے۔
آئینی عدالت سے متعلق مجوزہ ترامیم میں کیا کہا گیا ہے؟
پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن ایک نئی آئینی عدالت کی تشکیل کے حق میں ہیں اور اس ضمن میں دونوں جماعتوں کا یہ مؤقف ہے کہ سنہ 2006 میں ہونے والے میثاق جمہوریت معاہدے میں یہ درج تھا کہ ملک میں آئینی عدالت قائم ہونی چاہیے، جبکہ جمیعت علمائے اسلام ف ایک نئی آئینی عدالت تشکیل دینے کی بجائے سپریم کورٹ کے پانچ سینیئر ججز پر مشتمل آئینی بینچ تشکیل دینے کی بات کرتی ہے۔
اگر پاکستان پیپلز پارٹی کے مجوزہ مسودے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پی پی پی وفاق کے علاوہ چاروں صوبوں میں بھی آئینی عدالتوں کے قیام کے حق میں ہے اور انھوں نے اس ضمن میں تجویز بھی دی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے مطابق وفاق کی سطح پر قائم ہونے والی اس آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی تعیناتی کا اختیار وزیر اعظم کو دینے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ یہ کہا گیا ہے کہ اس عدالت کے دیگر ججز کی تعیناتی آئینی عدالتکے چیف جسٹس کی مشاورت سے عمل میں لائی جائے۔
Getty Imagesپاکستان پیپلز پارٹی وفاق کے علاوہ چاروں صوبوں میں بھی آئینی عدالتوں کے قیام کے حق میں ہے
پاکستان مسلم لیگ نواز کی جانب سے آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور دیگر ججز کی عمروں کی بالائی حد 65 سال سے بڑھا کر 68 سال کرنے کی تجویز ہے، تاہم پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام ف اس رائے کی حامی ہیں کہ ججز کی عمر میں اضافہ نہ کیا جائے۔
پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے مطابقآئینی ترمیم میں اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو یکجا کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔ فی الوقت اعلیٰ عدالتوں میں ججز کے ناموں کی سفارش کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس ہے جبکہ پارلیمانی کمیٹی صرف ربر سٹیمپ کے طور پر کام کرتی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گذشتہ دنوں الزام عائد کیا تھا کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پارلیمان کو دباؤ میں لا کر 19ویں آئینی ترمیم کروائی تھی جس میں اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کا اختیار سپریم جوڈیشل کمیشن کو دیا گیا اور اس میں پارلیمانی کمیٹی کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔
سینیئر لیگی رہنماؤں کے مطابق ن لیگ کے مسودے میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے تین سینیئر ترین ججوں کے نام وزیر اعظم کو بھیجے جائیں گے جن میں سے ایک کو چیف جسٹس تعینات کیا جائے گا۔
اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی نے کُھل کر اس موقف کی حمایت نہیں کی تاہم اُن کا کہنا ہے کہ اگر جسٹس منصور علی شاہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بن جائیں تو بھی انھیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا تاہم جمیعت علمائے اسلام ف سنیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس کی تعیناتی کے حق میں ہے۔
حکومت کی جانب سے 26 ویں آئینی ترمیم کے مسودے میںہائی کورٹس سے ازخود نوٹس لینے کا اختیار واپس لینے کی بھی تجویز دی گئی ہے جبکہ ہائی کورٹ کے ججز کی ایک ہائی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ تبادلے کی تجویز بھی شامل ہیں تاہم جمعت علمائے اسلام اس تجویز کے حق میں نہیں ہے۔
پاکستان کے آئین میں مجوزہ ترامیم ’آئینی پیکج‘ میں کیا ہے اور اس پر مخالفت کیوں؟آئینی معاملات پر حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان بڑھتی خلیج کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟منحرف رُکن اسمبلی کا ووٹ شمار ہو گا: ’آرٹیکل 63 اے کی تشریح کالعدم قرار دینے سے بظاہر حکومت کے ہاتھ کُھل گئے ہیں‘مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے سے کیا تحریک انصاف کے بیانیے کو تقویت ملے گی؟
جمعت علمائے اسلام نے 26 ویں آئینی ترمیم کے لیے جو تجاویز دی ہیں اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہآرٹیکل 243 میں شقپانچ کا اضافہ کیا جائے اور مجوزہ ترمیم کے تحتسروسز چیفس کی تعیناتی، دوبارہ تقرری، سروس میں توسیع اور برطرفی مسلح افواج سے متعلقہ قوانین کے مطابق ہونی چاہیے۔ جے یو آئی کے مسودے کے مطابقایک بار تعیناتی، دوبارہ تقرری یا سروس میں توسیع کے بعد تبدیل نہیں کیا جا سکے گا جب تکمعاملہ خصوصی کمیٹی میں نہ جائے اور وہاں ڈسکس نہ ہو۔
جے یو آئی ف کی تجاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سروسز چیفس کی تقرری یا تعیناتی کے بعد تبدیلی سے متعلق معاملے پر دونوں ایوانوں پر مشتمل خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی برابری کی بنیاد پر نمائندگی ہو۔ یہ کمیٹی چیئرمین سینیٹ اورسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے تشکیل دی جائے گی اور کمیٹیاپنی سفارشات صدر مملکت کو ارسال کرے۔
تاہم پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے اپنے مجوزہ مسودوں میں مسلح افواج کے سربراہان کی تعیناتی کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔
جے یو آئی کی تجاویز میںیکم جنوری 2028 سے تمام اقسام کے سود کے خاتمے کی تجویز بھی دی گئی ہے اور اس ضمن میں چاروں صوبائی اور دونوں ایوانوں میں متعارف ہونے والی کسی بھی قانون سازی کی اسلامی نظریاتی کونسل سے منظوری لازمی قرار دی گئی ہے۔ جے یو آئی نے تجویز دی ہے کہ ملک میں اسلامی مانیٹری پالیسی سسٹم متعارف کرایاجائے، ساتھ ہی 19ویں ترمیم کے مکمل خاتمے اور 18ویں ترمیم کی مکمل بحالی کی تجویز بھی دی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے آئینی عدالت کے ججز کو ہٹانے سے متعلق آئین کے آرٹیکل 209 میں تبدیلی کرنے کی تجویز دی ہے اور پارٹی کے مطابق وفاقی اور صوبائی آئینی عدالتوں کے ججوں کو ہٹانے کے لیے سپریم آئینی کونسل کے قیام کی تجویز بھی شامل ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے آرٹیکل 184 ختم کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں ترمیم سے چیف جسٹس کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار ختم ہو جائے گا اور ازخود نوٹس لینے کا اختیار پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے پاس ہی رہے گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی ان تجاویز کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ حتمی ہو گا اور کسی بھی فورم پر اس کے فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کی جا سکے گی۔
’حکومت ترمیم پر اتفاق رائے سے آگے چلنا چاہتی ہے‘
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما بیرسٹر ظفر اللہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس وقت آئینی اصلاحات کے لیے پارلیمانی کمیٹی میں پرنسلز (رہنما أصول) مرتب کیے جا رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ آئینی ترمیم کے لیے حکومت نے پہلے ہی اپنے مجوزہ پوائنٹس تمام پارلیمانی جماعتوں کے سامنے رکھے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس دوران یہ بالکل مدنظر رکھا گیا ہے کہ دیگر سیاسی جماعتیں اس پر اپنی سفارشات اور تحفظات پیش کریں گی مگر آئینی روح کے مطابق یہی طریقہ کار ہر آئینی ترمیم کے موقع پر اپنایا جاتا ہے۔
Getty Imagesسہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس آئینی ترمیم میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے تھا
بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ حکومت اس ترمیم پر اتفاق رائے سے آگے چلنا چاہتی ہے اور اس کے لیے تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں کو دعوت دی تھی۔انھوں نے کہا کہ ڈرافٹ یا مسودہ لا ڈویژن بناتا ہے جس میں وقت بھی درکار ہوتا ہے اور اس کو بنانا اور سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات بھی نہیں ہوتی۔
اس معاملے پر سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ پارلیمان کے پاس قانوں سازی کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ بھی پارلیمان کو قانون سازی کرنے سے نہیں روک سکتی۔ انھوں نے کہا کہ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں آئینی عدالت کی تشکیل کے حق میں ہیں تاکہ آئینی نوعیت کے معاملات کو اسی عدالت میں ہی سُنا جا سکے۔
انھوں نے کہا کہ سنیارٹی کا معاملہ چیف جسٹس کی تعیناتی میں حائل نہیں ہونا چاہیے۔ عرفان قادر کا کہنا تھا کہ جس طرح دیگر ہائی کورٹس میں چیف جسٹس کی تعیناتی میں سنیارٹی کو مدنظر نہیں رکھا جاتا اسی طرح سپریم کورٹ میں بھی اس عمل کو دہرانے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر 26 ویں آئینی ترمیم منظور کر لی گئی تو پھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے لیے سنیارٹی کا نقطہ بےوقعت ہو جائے گا۔
’حکومت کے پاس آئینی ترمیم لانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا‘
صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ جس طرح کے چیلنجز موجوہ حکمراں اتحاد کو اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے مل رہے تھے، اُن حالات میں حکومت کے پاس آئینی ترمیم لانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’جس طرح کچھ عرصے سے سپریم کورٹ اور اسلام آبادہائی کورٹ سیاسینوعیت کے فیصلے دے رہی ہیں اس سے ناصرف حکومت بلکہ جو یہ نظام لے کر آئے ہیں انھیں بھی چیلنجز کا سامنا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ جس طرح مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے اور اگر الیکشن کمیشن اس پر عمل درآمد کر دیتا تو شاید آج ملک کے حالات مختلف ہوتے۔
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس آئینی ترمیم میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے تھا اور حکومت کو بھی پی ٹی آئی کی تجاویز پر بھی غور کرنا چاہیے تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف ملک کی مقبول جماعت ہے لیکن اس جماعت کی قیادت کی طرف سے حالیہ کچھ فیصلوں سے ان کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے اور سابق وزیر اعظم عمران خان، جن کی جیل میں موجودگی اس جماعت کی مضبوطی سمجھی جاتی تھی، اب اس کی کمزوری بن گئی ہے۔‘
Getty Imagesپاکستان مسلم لیگ نواز کی جانب سے آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور دیگر ججز کی عمروں کی بالائی حد 65 سال سے بڑھا کر 68 سال کرنے کی تجویز ہے
انھوں نے کہا کہ ’بظاہر اعلیٰ عدلیہ میں ہمدردی کے باوجود تحریک انصاف عدالتی فیصلوں سے استفادہ حاصل نہیں کر سکی۔‘ پی ٹی آئی کی اس معاملے سے دوری سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کو اگر سیاست میں رہنا ہے تو اسے اس نوعیت کے اہم آئینی معاملات سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہی مل بیٹھنا ہو گا۔‘
دوسری جانب پاکستان میں وکلا برادری کے ایک دھڑے نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ وہ کسی صورت میں بھی اس آئینی ترمیم کو پاس نہیں ہونے دیں گے۔
وکلا کے اس دھڑے کی قیادت پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما حامد خان کر رہے ہیں جبکہ ان کے ساتھ ان کے ہم خیال وکلا بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب وکلا کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل کے وائس چییرمین فاروق ایچ نائیک کا کہنا ہے کہ وزارت قانون کی طرف سے 26 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ پاکستان بار کونسل کو بھیجا گیا تھا اور اس ضمن میں ان کی نتظیم نے اس مسودے کا تفصیلی جائزہ لے کر اس میں کچھ تبدیلیاں بھی تجویز کی ہیں۔
آئینی ترامیم: کیا حکومت کی کنپٹی پر کسی نے سائلنسر گن تانی ہوئی تھی؟سپریم کورٹ نے نیب ترامیم بحال کر دیں: ’موجودہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ سابق وزیراعظم عمران خان کو بھی فائدہ ہو گا‘کیا عمران خان کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے؟الیکشن ایکٹ میں ترامیم قومی اسمبلی سے منظور: پاکستان تحریک انصاف مخصوص نشستوں سے ہاتھ دھو سکتی ہے؟اڈیالہ جیل سے آرمی چیف کو ’نیوٹرل‘ رہنے کا پیغام: کیا عمران خان کے لہجے میں تبدیلی ایک نئی حکمت عملی ہے؟پاکستان کے غدار محبِ وطن