’شکر کریں آپ کا پالا ایک غیرذہین ریاست سے پڑا ہے‘

بی بی سی اردو  |  Oct 14, 2024

BBC

اتوار (13 اکتوبر)کو کراچی پریس کلب کے باہر سول سوسائٹی کے احتجاج پر مظاہرین سے بھی دو گنا پولیس جس طرح ٹوٹی اور اس واردات کے جو مناظر سوشل میڈیاکے پانی پر ایک پھولی ہوئی لاش کی طرح ٹہل رہے ہیں، اس سے یقیناً پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہو گی، جو یہ ریاست ہرگز ہرگز نہیں چاہتی۔

جو کچھ بھی ہوا اس میں ریاستی اداروں کا اتنا قصور نہیں جتنا خود مظاہرین کا ہے۔

ایسے وقت میں جب ریاست کی پوری توجہ اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیمکے ’چوٹی‘ اجلاس پر ہے، اسلام آباد سے 1400 کلومیٹر پرے کراچی میں کسی بھی مسئلے پر احتجاج کے لیے نکل کر پاکستان کو بدنام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا اس کام کے لیے سال کے باقی 360 دن کافی نہیں؟

دوسرا قصور یہ ہے کہ سول سوسائٹی کے اس مارچ کو جان بوجھ کر ’رواداری مارچ‘ کا نام کیوں دیا گیا؟ حالانکہ ریاستی بیانیہ عدم رواداری کا فروغ ہے۔ لہٰذا رواداری مارچ ریاستی بیانیے کی روح سے براہِ راست ٹکرا کر اسے نیچا کیسے دِکھا سکتا ہے؟

اگر ریلی نکال ہی لی تھی تو مظاہرین دھیمے دھیمے لہجے میں ’ڈاکٹر شاہنواز کے قاتلوں کو گرفتار کرو‘ کے نعرے کیوں لگا رہے تھے؟ اُن کے ہاتھوں میں پتھر، ڈنڈے اور منھ پر جھاگ نکلتی وحشت کیوں طاری نہیں تھی، نہ ٹائر جلے نہ پتھراؤ ہوا۔ کسی اہم شاہراہ پر دھرنا تک نہیں دیا گیا؟

اگر یہ تماشا ہوتا تب انتظامیہ بھی ٹوٹ پڑنے کے بجائے ٹھوڑی کو ہاتھ لگاتے ہوئے مشتعل مظاہرین کے مطالبات دھیان سے سُنتی اور اُن کی مانگوں کو حکامِ بالا تک پہنچانے کی یقین دہانی بھی کرواتی۔ ہو سکتا ہے کوئی تحریری معاہدہ بھی ہو جاتا جس میں زخمیوں کے علاج معالجے اور مالی ازالے کا وعدہ ہوتا۔ یوں سول سوسائٹی کا مجمع فاتحانہ انداز میں منتشر ہو جاتا۔

یہ وہ کان نہیں جو لکھاریوں، شاعروں، ادیبوں، فلسفیوں، اداکاروں، گلوکاروں، قلم بردار صحافیوں، انسانی حقوق کے لیے نعرہ زن کارکنوں کو سُن سکیں۔ یہ وہ دماغ نہیں جسے یہ ’معصوم پرندے‘ اپنے دل کا درد دلیل سے سمجھا سکیں۔

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ فرقہ وارانہ گروہ کس طرح احتجاج، دھرنے اور الٹی میٹمکے حربوں سے ریاستی اداروں حتیٰ کہ عدلیہ اور پارلیمنٹ سے بھی اپنی بات منوا لیتے ہیں؟

اگر ریاست کو اپنے سکیورٹی بیانیے سے مختلف بات سننے یا پُرامن احتجاج کو درگزر کرنے یا رواداری و مروت کا مثالیہ بننے کا اتنا ہی حوصلہ ہوتا تو اسلام آباد پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کے ورثا کے ساتھ متعدد بار وہ نہ ہوتا جو اب تاریخ کا حصہ ہے۔

BBC

گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے (بلوچ راجی مچی) کو تب تک برداشت کیا جاتا جب تک دھرنا دینے والے قانون ہاتھ میں نہ لیتے۔ مگر دھرنے سے پہلے ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے قانون اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ دھرنا پھر بھی ہوا لیکن تشدد آمیز بدمزگی کے ساتھ۔

پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے بارے میں بیسیوں سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں مگر یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ وہ کوئی ہتھیار بند تنظیم ہے، ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے یا اس کا کوئی مسلح بازو ہے۔ پھر بھی جمرود میں اُن کا جرگہ روکنے کی بزورِ طاقت کوشش ہوئی۔

جب چار لاشیں گِر گئیں، بات تیزی سے ہاتھ سے نکلنے لگی تو وہی حکومتمیزبان بن گئی جس نے جرگے سے صرف تین دن پہلے پی ٹی ایم کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ بیان کر کے کالعدم قرار دے دیا اور چینلوں کو منع کر دیا کہ کوریج تو دور کی بات اس تنظیم کا نام تک نشر نہ کیا جائے۔

اور پھر اسی کالعدم تنظیم کے جرگے کو صوبائی مشینری وسائل فراہم کرتی ہوئی نظر آئی۔ گورنر صاحب نے اس جرگے میں بطور مہمان شرکت کی مگر تنظیم اس لمحے تک کالعدم ہی ہے۔

یہ ایک مسلمہ عالمگیر اصول ہے کہ طاقت کا استعمال صرف ریاست کا اختیار ہے۔ تاہم یہ اختیار جہاں لازماً استعمال ہونا ہو وہاں سے بااختیار پتلی گلی سے نکل لے اور جہاں استعمال کی ضرورت نہ ہو وہاں پوری قوت سے ٹوٹ پڑے تو پھر طاقت استعمال کرنے کا حق بھی غریب کی جورو سب کی بھابھی میں بدل جاتا ہے۔

BBC

جب میں نے پہلی بار اسلام آباد میں فقیر ایپی روڈ کا بورڈ پڑھا تو آنکھوں کو کئی بار جھپکا کہ کیا واقعی اس سڑک کا نام وہی ہے جو میں پڑھ رہا ہوں؟ جس نے بھی اس روڈ کا نام رکھا یا تو وہ بہت دبنگ افسر تھا یا پھر تاریخ سے بالکل نابلد۔

کیا یہ وہی فقیر ایپی نہیں جو قبائلی مزاحمت کا ہیرو تھا۔ اس کی گرفتاری پر انگریز سرکار نے انعام مقرر کر رکھا تھا اور جو پاکستان بننے کے بعد ملکی سالمیت کے لیے خطرہ بننے والے ناموں کی پہلی فہرست میں شامل تھا؟

شکر کریں ریاست کے غیر ذہین انتظام کے سبب سول سوسائٹی اور عدم تشدد کی سیاستکے تھوڑے بہت حامی اب تک بچے ہوئے ہیں۔ اگر یہ ریاست ذرا سی بھی ذہین ہوتی تو آپ کو کوریج تو کیا ٹھکانہ بھی نہ ملتا۔

اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ ریاست ملک کو کسی بھی شکل میں بدنام کرنے کی کسی اور کو اجازت نہ دینے کے اصول پر سختی سے کاربند ہے۔

پی ٹی ایم کا ’قومی جرگہ‘ اور ’فوج کی بے دخلی‘ کے ساتھ ساتھ ’مفت بجلی‘ کا مطالبہپشتون قومی جرگہ یا ’ریاست مخالف سرگرمیاں‘: پی ٹی ایم پر حکومتی پابندی کی وجوہات کیا ہیں؟بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکا پر پولیس کا کریک ڈاؤن: ’ہمیں اسلام آباد سے کوئی توقع نہیں، اداروں پر بھروسہ نہیں‘ماہ رنگ کے سر پر ’بلوچی پاگ‘: کیا بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں صوبے میں اپنی ساکھ کھو رہی ہیں؟وسعت اللہ خان کا کالم: ہماری با اختیاری کس نے اغوا کر لی؟ اب اسلام آباد کہاں اٹھا کے لے جانا ہے؟ وسعت اللہ خان کا کالم’لاش کو عزت دو‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More