پاکستان کی وفاقی و صوبائی حکومت کی جانب سے کالعدم قرار دی جانے والی پشتون تحفظ موومنٹ کی جانب سے خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں منعقد کردہ قومی جرگے میں فوج اور دہشت گردوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ’دو ماہ میں علاقہ خالی کر دیں جس کے بعد جرگہ فیصلہ کرے گا کہ علاقہ کیسے خالی کروانا ہے۔‘
یہ مطالبات اتوار کو جرگے کے انعقاد کے بعد سامنے آئے ہیں جو ہفتے کے دن شروع ہوا تھا اور جہاں باجوڑ، وزیرستان کوئٹہ، ڈی آئی خان، ژوب سمیت خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے بڑی تعداد میں لوگوں کے ساتھ ساتھ قبائلی اور سیاسی رہنماوں اور وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے بھی شرکت کی۔
اگرچہ وفاقی حکومت کی جانب سے اب تک اس جرگے کے مطالبات پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ ’قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے وہ اِن تجاویز پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی بھر پور کوشش کریں گے اور جو مطالبات صوبائی حکومت کے دائرہ کار میں نہیں ہیں اُن کو متعلقہ وفاقی حُکام کے سامنے اُٹھایا جائے گا۔‘
یاد رہے کہ اس جرگے کے انعقاد سے قبل پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) پر وفاقی حکومت کی جانب سے پابندی عائد کرتے ہوئے الزام عائد کیا گیا تھا کہ یہ تنظیم ’ریاست مخالف سرگرمیوں‘ میں ملوث ہے۔
تاہم بعد میں خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کے مطابق اس شرط پر جرگے کی اجازت دی گئی تھی کہ ’پورے اجتماع میں ریاست پاکستان کے خلاف، پاکستان کے آئین اور پاکستانی فوج کے خلاف کوئی نعرے بازی یا کوئی تقریر نہیں ہو گی اور جرگے میں کسی اور تنظیم کا جھنڈا نہیں بلکہ صرف پاکستان کا جھنڈا لانے کی اجازت ہو گی اور امن کے قیام اور پشتونوں کو درپیش مسائل پر بات چیت ہو گی۔‘
اس تحریر میں پشتون قومی جرگے کے بعد سامنے آنے والے مطالبات سمیت خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے ردعمل کا احاطہ کیا گیا ہے۔
پشتون تحفط موومنٹ: حکومت نے کالعدم تنظیم کو کیوں اور کیسے جرگہ منعقد کرنے کی اجازت دی؟پشتون قومی جرگہ یا ’ریاست مخالف سرگرمیاں‘: پی ٹی ایم پر حکومتی پابندی کی وجوہات کیا ہیں؟منظور پشتین کون ہیں؟قبائلی نوجوان کی ہلاکت سے جنم لینے والی پشتون تحفظ موومنٹ کیا اپنی مقبولیت کھو رہی ہے؟BBC’مفت بجلی اور فوج کی بے دخلی‘
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں قومی جرگہ منعقد کرنے کا فیصلہ پی ٹی ایم نے تقریباً تین ماہ قبل کیا تھا اور جرگے کے اختتام پر مختلف تجاویز کو نکات کی شکل دی گئی اور تمام شرکا کے سامنے پیش کرنے کے بعد متفقہ طور پر ان کی منظوری دی گئی۔
ان مطالبات میں سے سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ فوج اور دہشت گرد تنظیموں کو دو مہینوں کا وقت دیا گیا کہ وہ علاقے کو خالی کر دیں۔ اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ علاقہ کون سا ہے۔
تاہم ساتھ ہی ساتھ ان مطالبات میں کہا گیا ہے کہ ’اگر دو مہینے میں ایسا نہ ہوا تو پھر جرگہ فیصلہ کرے گا کہ اب کیا کرنا ہے اور علاقے کو کیسے خالی کروانا ہے۔‘ ان نکات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’موجودہ آئین پاکستان کے تحت فوج سیاست میں حصہ نہیں لے سکتی۔‘
ان مطالبات میں سے ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ ’قبائلی علاقوں کو مفت بجلی فراہم کی جائے جبکہ صوبے کے دیگر علاقوں میں بجلی کی قیمت پانچ روپے فی یونٹ ہو۔‘ یاد رہے کہ سابقہ قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا جا چکا ہے اور انھیں اضلاع کا درجہ دیا گیا ہے۔
جرگے نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ ڈیورنڈ لائن یعنی پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع تمام تجارتی راستوں کو پرانے قوانین کے مطابق بحال کیا جائے۔
جرگے کی جانب سے سامنے آنے والے دیگر نکات میں یہ شامل ہے کہ صوبے میں موجود وسائل کا ڈیٹا اکھٹا کیا جائے گا، قبیلوں کے درمیان تنازعات اور مسائل کے حل کے لیے امن کمیٹی قائم کی جائے گی اور تمام آئی ڈی پیز کی جرگے کے ذریعے اپنے علاقوں میں واپسی کو ممکن بنایا جائے گا۔
جرگے کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ ’بجلی، قدرتی گیس اور پانی صوبہ خیبر پختونخوا کو ترجیحی بنیادوں پر فراہم کیے جائیں، بلاک شدہ شناختی کارڈ بحال کیے جائیں گے اور تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔‘
جرگے میں شامل افراد کی جانب سے صوبائی وزیراعلی سے خصوصی طور پر یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ ان تمام مطالبات کے لیے اسمبلی سے بل پاس کروائیں اور جرگہ کے مقام پر ہونے والے تصادم اور ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے۔
جرگے کے مطابق ’اگر کسی نے اس جرگے کی بنیاد پر کسی کے خلاف کارروائی کی تو جرگے کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آئے گا۔‘
جرگے کے اختتام پر نکات پیش کرنے سے قبل کہا گیا کہ یہ ’تمام پشتون قوم کا جرگہ‘ تھا۔
مطالبات پر خیبر پختونخوا حکومت کا کیا موقف ہے؟
جرگے کے اختتام پر وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی جانب سے کہا گیا کہ ’تمام مشران اور تمام پارٹیوں کے نمائندوں نے جرگے میں مشاورت کی اور میں بحثیت وزیراعلیٰ آئین اور قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اِن تجاویز پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی بھر پور کوشش کرونگا۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’جو مطالبات صوبائی حکومت کے دائرہ کار میں نہیں ہیں اُن کو متعلقہ وفاقی حُکام کے سامنے اُٹھایا جائے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’وفاق اور دیگر حکام کے ساتھ بیٹھ کر اِن مسائل کے حل کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائیگی اور حکومت اور ریاست کا فرض ہے کہ وہ عوامی اُمنگوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، مسائل کو حل کرکے اُن کو مطمئن کریں۔‘
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کا مزید کہنا تھا کہ ’چونکہ پوری اسمبلی کو کمیٹی کادرجہ دے کر مجھے اِس کا سربراہ بنایا گیا ہے، چنانچہ تمام حکومتی اور حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے مشاورت کی جائیگی اور اُن کی تجاویز کو زیرِ غور لایا جائے گا۔‘
پی ٹی ایم کے دو روزہ جرگے میں ہوا کیا؟
پی ٹی ایم کے زیرِ اہتمام سنیچر کے روز شروع ہونے والے اس جرگے میں باجوڑ، وزیرستان کوئٹہ، ڈی آئی خان، ژوب سمیت خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔
جرگے کے مقام پر سکیورٹی انتظامات پی ٹی ایم نے خود سنبھال رکھے تھے تاہم حکومت کی جانب سے بھی سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔
ضلع جمرود کی انتظامیہ کی جانب سے پینے کے لیے پانی فراہم کیا گیا جبکہ پانی کے ٹینکر، ایمبولینس، فائر بریگیڈ کی گاڑیاں بھی موجود تھیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کی جانب سے ہی جرگہ کے مقام پر ایک میڈیکل کیمپ بھی لگایا گیا تھا۔
پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے جرگے کے پہلے روز شرکا سے خطاب کے دوران بتایا کہا کہ یہ ایسا موقع ہے کہ تمام پشتون لیڈر شپ بیٹھ کر ایک ہی فیصلہ کریں۔
جرگے کے مرکزی مقام پر پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے خطاب میں ڈیٹا بھی شیئر کیا اور ایک ویڈیو کے ذریعے متاثرہ افراد کی تکالیف بتائی گئیں۔
اسی بارے میںپشتون تحفط موومنٹ: حکومت نے کالعدم تنظیم کو کیوں اور کیسے جرگہ منعقد کرنے کی اجازت دی؟پشتون قومی جرگہ یا ’ریاست مخالف سرگرمیاں‘: پی ٹی ایم پر حکومتی پابندی کی وجوہات کیا ہیں؟منظور پشتین کون ہیں؟’منظور پشتین نے ہمارا خوف ختم کر دیا ‘’پی ٹی ایم کی وجہ سے کئی گھروں میں خوشیاں لوٹ آئیں‘’اپنا بچہ‘ فوج کی نظر میں دشمن قوتوں کا آلۂ کار کیوں بن گیا؟