Getty Imagesاس سال شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان حکومت کے اجلاس کی میزبانی پاکستان کر رہا ہے
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں گذشتہ چند دنوں سے اہم شاہراہیں اور عمارتیں چمک دمک رہی ہیں، گرین بیلٹس پر درختوں کی کانٹ چھانٹ اور سبز روشنیوں کا اہتمام کیا گیا ہے جبکہ پلوں کے نیچے رنگ برنگی ڈرائینگز بنائی گئی ہیں۔ ریڈ زون میں واقع پارلیمان کے سامنے پھول ہی پھول نظر آتے ہیں اور انھی کے بیچ پھولوں سے ہی بنا ایک مور بھی ہے۔
یہ تزئین و آرائش کسی قومی تہوار کے لیے نہیں، بلکہ ایک بین الاقوامی اجلاس کی تیاریوں کا حصہ ہے۔ رواں ہفتے اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کی کونسل آف ہیڈز آف گورنمنٹ کا 23واں اجلاس ہو رہا ہے، جس کی سربراہی وزیرِاعظم شہباز شریف کریں گے۔
اس اجلاس میں چین، روس، بیلاروس، قازقستان، کرغزستان، اور تاجکستان کے وزرائے اعظم شرکت کریں گے، جبکہ ایران کے نائب صدر اور انڈیا کے وزیر خارجہ بھی شریک ہوں گے۔ منگولیا کے وزیر اعظم بطور مبصر اور ترکمانستان کے وزیر خارجہ خصوصی مہمان ہوں گے۔
دو روزہ اجلاس کے لیے اسلام آباد میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور 17 اکتوبر تک شہر کی سکیورٹی پاکستانی فوج کے حوالے کر دی گئی ہے۔
اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی میں تین روز کے لیے عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ شہر کے کاروباری مراکز اور عدالتیں بند رہیں گی۔
APPشنگھائی تعاون تنظیم کیا ہے اور اس میں کون سے ممالک شامل؟
شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد 2001 میں چین اور روس نے رکھی تھی جس کے اراکین میں اب قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان، پاکستان، انڈیا اور ایران بھی شامل ہیں۔ کیونکہ آبادی کے لحاظ سے دو بڑے ممالک انڈیا اور چین اس تنظیم کے رکن ہیں اس لیے یہ تنظیم دنیا کی کل آبادی کے 40 فیصد کا ایک فورم ہے۔
پاکستان 2005 سے 2017 تک اس تنظیم کا آبزرور رکن رہا اور پھر جولائی 2017 میں اسے باضابطہ طور پر ایس سی او میں شامل کیا گیا۔
اس تنظیم کا آغاز ایک یوریشیائی سکیورٹی تنظیم کے طور پر ہوا، جس کا مقصد روس، چین اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان سکیورٹی اور استحکام کو فروغ دینا تھا۔ 2017 میں، انڈیا اور پاکستان کی مکمل رکنیت اور افغانستان کی مبصر کی حیثیت سے شمولیت کے بعد، تنظیم نے اپنے دائرہ کار کو وسیع کیا۔
گذشتہ برس ایران کو بھی تنظیم کی باقاعدہ رکنیت دے دی گئی۔ اب ایس سی او کی توجہ دہشت گردی، انتہا پسندی، منشیات کی سمگلنگ اور بنیاد پرستی جیسے مشترکہ مسائل پر ہے۔
ایس سی او کی تشکیل اور بعد ازاں پھیلاؤ کے وقت اسے ایک ایسے اتحاد کے طور پر دیکھا گیا ہے جو مغربی اتحاد جیسا کہ نیٹو کو ’کاؤنٹر بیلنس‘ کرنے کے لیے اس کے متبادل اتحاد کے طور پر قائم کیا گیا۔
لیکن کیا شنگھائی تعاون تنظیم واقعی نیٹو جیسا مضبوط اتحاد بن پائی ہے؟
نیٹو بمقابلہ ایس سی او: ’یہ تنظیم طاقت میں توازن کے لیے ہے‘
شنگھائی تعاون تنظیم چین، روس، پاکستان اور انڈیا جیسے ممالک کی وجہ سے آبادی کے لحاظ سے بڑا اتحاد ہے جبکہ یہ دنیا کے 40 فیصد رقبے کو بھی کور کرتا ہے۔
تجزیہ کار عامر ضیا کہتے ہیں کہ اگرچہ اس کا ڈھانچہ نیٹو سے مختلف ہے اور فوجی صلاحیت محدود ہے، لیکن اس تنظیم کا قیام خود ایک مثبت قدم ہے۔
ان کے بقول ’شنگھائی تعاون تنظیم کا مقصد یہ نہیں کہ یہ مغربی اتحادوں سے تصادم کرے، بلکہ یہ ایک متوازن اتحاد بننے کا موقع فراہم کرتی ہے جس سے خطے میں کشیدگی کم ہو سکتی ہے۔‘
واضح رہے کہ دنیا میں اس وقت کئی ایسے اتحاد موجود ہیں جو معیشت یا سکیورٹی اور دفاعی ضروریات کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ان میں بڑے اتحاد جیسا کہ جی سیون، جی ٹوئنٹی، کواڈ، نیٹو اور ایس سی او ہیں۔ جی سیون اور جی ٹوئنٹی تو معیشت اور اقتصادی امور پر بنے الائنس ہیں جن کی توجہ کا مرکز رکن ممالک میں معاشی استحکام، ترقی اور سیاسی ہم آہنگی کا فروغ ہے۔
’400 سیکنڈ میں تل ابیب‘: عالمی پابندیوں کے باوجود ایران نے ’اسرائیل تک پہنچنے والے‘ ہائپرسونک میزائل کیسے بنائے؟نواز شریف اور نریندر مودی کا دوستی اور تلخی کا تعلق: کیا پیغامات کا تبادلہ بات چیت کی جانب پیشرفت ہے؟جے شنکر کا دورہ اسلام آباد: ’جمود توڑنے کا موقع لیکن تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے‘بالاکوٹ فضائی حملہ: وہ سوال جن کے جواب نہیں مل سکے
تاہم نیٹو 32 ممالک کا فوجی اتحاد ہے جس کا مقصد مشترکہ دفاع اور رکن ممالک کی سلامتی ہے۔ اس اتحاد میں ایک ملک پر حملہ، تمام رکن ممالک پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔
ناقدین جیسا کہ ایران سے تعلق رکھنے والی بین الاقوامی امور کی ماہر تجزیہ کار زہرہ زیدی، اس اتحاد کو ’صرف مغربی مفادات کا حامل اتحاد اور مغربی انفلوئینس قائم کرنے کا ایک ہتھیار‘ سمجھتے ہیں۔
دوسری جانب ایس سی او اتحاد کی توجہ کا بنیادی مرکز علاقائی سیکورٹی اور استحکام، معاشی تعاون، دہشت گردی کے خلاف اقدامات ہیں۔ تاہم محدود فوجی صلاحیت اور رکن ممالک کے درمیان داخلی اختلافات اس اتحاد کی بڑی کمزوریاں سمجھی جاتی ہیں۔ تو کیا شنگھائی تعاون تنظیم اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہی ہے؟
Getty Images’اجلاس ملاقات کا موقع فراہم کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں‘
یہ اتحاد اپنے اہداف اور مقاصد حاصل کر پایا یا نہیں، یہ بحث طلب ہے۔ مگر تجزیہ کار عامر ضیا سمجھتے ہیں کہ ’ایسے ایک اتحاد یا تنظیم کا موجود ہونا بھی ایک مثبت بات ہے۔‘
ایران سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار زہرہ زیدی کہتی ہیں کہ شروع میں ’کمزور نظر آنے والی یہ تنظیم اب مضبوط ہو رہی ہے۔‘
ان کے مطابق ’سوویت یونین سے جو ملک بنے وہ بہت سے شعبوں میں کمزور تھے۔ انھیں بھی سہارے کی ضرورت تھی۔ جب یہ تنظیم بنی تو ان ممالک کو احساس ہوا کہ اگر تعاون جاری رہا تو وہ بہتر ہو سکتے ہیں اور بیرونی اثر و رسوخ بھی ختم ہو گا۔‘
ان کی رائے ہے کہ شروعمیں مغربی ممالک کے مقابلے مشرقی ممالک کا یہ اتحاد طاقت کے اعتباد سے کمزور نظر آتا تھا ’لیکن اب کچھ قوت میں اضافہ ہوا ہے۔ ایران کی شمولیت سے یہ تنظیم مزید مضبوط ہوئی ہے۔‘
بی بی سی سے اسی بارے میں بات کرتے ہوئے انڈیا کی سوہاسنی حیدر سمجھتی ہیں کہ ایس سی او بہت سے مسائل پر بات چیت کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم بن گیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ایک اہم علاقائی تنظیم ہے جو یوریشیا میں سکیورٹی اور تعاون کو فروغ دیتی ہے۔ یہ اپنے بہت سے مقاصد حاصل نہیں کر پائی اور اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ مقاصد اور اہداف میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔‘
’اگرچہ یہ دو طرفہ تنازعات کو حل کرنے کا فورم نہیں ہے، لیکن یہ رہنماؤں کے لیے ملاقات اور مشترکہ مسائل پر گفتگو کا موقع فراہم کرتی ہے۔ میرے خیال میں اسلام آباد میں ہونے والا اجلاس بھی ملاقاتوں کا ایک موقع تو ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔‘
خیال رہے کہ پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق اجلاس کی سائیڈلائنز پر وزیراعظم شہباز شریف مہمان وفود کے سربراہان سے ’اہم دو طرفہ ملاقاتیں‘ بھی کریں گے۔
لیکن انڈیا کے وزیرخارجہ جے شنکر نے اس سے پہلے ہی یہ بیان دے دیا ہے کہ ان کا دورہ صرف ایس سی او اجلاس میں شرکت تک محدود ہو گا اور وہ پاکستان کے ساتھ ’دوطرفہ تعلقات پر بات چیت نہیں کریں گے۔‘
عامر ضیا کہتے ہیں کہ عالمی سطح پر بننے والے اتحاد بہت آہستگی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ’اس وقت دنیا میں بہت سے اتحاد موجود ہیں، اور ضروری نہیں کہ ایک ملک ایک ہی اتحاد کا حصہ ہو۔ وہ بیک وقت کئی اور بعض اوقات متضاد ایجنڈے کے حامل اتحادوں کا حصہ ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر انڈیا جو ایس سی او کا رکن ہے مگر اس کے مخالف ممالک کے اتحاد کواڈ کا بھی رکن ہے۔‘
وہ اس طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ رکن ملکوں کے ’آپسی اختلافات بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر ایسے اتحاد کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ رکن ممالک اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھیں اور جن امور پر بات چیت اور تعاون ممکن ہے، ان پر غور کریں۔‘
کیا عالمی تنازعات میں تعاون کا کوئی نیا راستہ کھل سکتا ہے؟
ایس سی او کا یہ اجلاس ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب عالمی سطح پر کئی ممالک تنازعات کی زد میں ہیں۔ ان میں سے بعض بڑے ملک اس تنظیم کا حصہ بھی ہیں جو براہ راست یا باالواسطہ ان عالمی تنازعات میں شامل ہیں جیسا کہ روس اور ایران۔
ایس سی او کے اجلاس کی اسی ’ٹائمنگ‘ کی وجہ سے اسے خاصا اہم سمجھا جا رہا ہے اور اسے ایک ’بڑے سٹیج‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
لیکن کیا واقعی اس اجلاس کے دوران پاکستان اور انڈیا کے دو طرف تعلقات میں کوئی بریک تھرو ہوگا؟ یا ایران کی خواہش پر اس پلیٹ فارم سے اسرائیل کے خلاف کوئی سخت موقف سامنے آئے گا؟ یا روس اور یوکرین تنازعے پر ایس سی او کے رکن ممالک روس کی مکمل حمایت کا اعلان کریں گے؟
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انڈیا میں خارجہ امور کی ماہر سوہاسنی حیدر کہتی ہیں کہ ایک بڑا یا سخت بیان یا سخت پوزیشن سامنے آنا مشکل ہے۔
’میرے خیال میں ان کی گزشتہ ملاقاتوں اور اجلاسوں کے دوران جاری بیانات سے ان کے موقف کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، روس اور یوکرین تنازعے پر انھوں نے پابندیوں کی سخت مذمت کی۔ اسی طرح ایس سی او کے سربراہی اجلاس سے ہم نے فلسطین اور اسرائیل کی جنگ پر بھی بیانات دیکھے۔‘
لیکن یہ فورم جس کا اجلاس پاکستان میں ہو رہا ہے، تنظیم کا اعلیٰ ترین لیول نہیں ہے۔ اس لیے میں نہیں سمجھتی کی کوئی سخت یا بڑا بیان نظر آئے گا‘
لیکن تجزیہ کار زہرہ زیدی سمجھتی ہیں کہ ایس سی او کا رکن ملک ایران یہ توقع رکھے گا کہ اس پلیٹ فارم سے خطے کی موجود صورتحال پر ایک واضح پیغام جاری ہو۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انڈین وزیر خارجہ کا شہباز شریف کو جواب: ’پاکستان کی معاشی بدحالی اس کے کرموں کا پھل ہے‘مودی کی حمایت یافتہ شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ: ’افغانستان میں جو امریکہ کے ساتھ ہوا وہی ڈھاکہ میں انڈیا کے ساتھ ہوا‘
خیال رہے کہ ایران گزشتہ برس ہی اس تنظیم کا باضابطہ رکن بنا ہے۔
زہرہ زیدی کے مطابق ایران اس اجلاس میں انفلوئینشل ثابت ہو سکتا ہے اور خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب روس بھی ایران کے ساتھ کھڑا ہوگا۔
’میرے خیال میں اس اجلاس میں اسرائیل کی جنگوں اور ایران کے ساتھ کشیدگی کے معاملے پر مضبوط بیانات اور پوزیشن نظر آنی چاہیے، کم از کم ایران کو یہ توقع ضرور ہو گی۔‘
’اتحاد میں شامل سبھی ممالک چاہتے ہیں کہ انھیں بیرونی طاقت کے ہاتھوں مشکل معاشی صورتحال کا سامنا نہ ہو۔ مگر معاشی اور عسکری لحاظ سے مضبوط ہونا تو ضروری ہے ہی، یہ بھی ایک اہم بات ہوگی کہ تنظیم اپنے کسی ممبر ملک کو اکیلا نہ چھوڑ دے۔ ایران یہ توقع رکھے گا۔‘
ماہرین کے مطابق مشرق وسطی کی بگڑتی صورتحال اور ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی کی وجہ سے ایران کی خواہش ہو گی اس پلیٹ فارم کو استعمال کیا جائے۔ تاہم تجزیہ کار عامر ضیا سمجھتے ہیں کہ اس اجلاس سے ’جارحانہ بیان‘ آنا مشکل ہے۔
’اس تنظیم کے بڑے ممالک میں سے روس اور ایران کی سفارت کاری سخت اور بعض اوقات اشتعال انگیزی پر مائل ہوتی ہے۔ لیکن چین اپنی سفارتکاری میں بہت متعدل ہے۔ چینی سفارتکاری میں اشتعال انگیزی کا عنصر نہیں اور وہ سفارتی طریقے سے تناؤ کو کم کرتے رہتے ہیں۔‘
’اس لیے چین جیسے ملک کی موجودگی اور پھر انڈیا جس کے مغرب اور اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، ایران کے معاملے پر سخت بیانات نہیں دیں گے۔‘
دنیا میں جاری جنگیں ایک طرف، لیکن کیا یہ اجلاس انڈیا اور پاکستان کے درمیان جمی برف پگھلا سکتا ہے؟
’جب کمرے میں انڈیا، پاکستان ہوں گے تو ماحول میں ہلکا سا تناؤ تو ہو گا‘Getty Images
پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف اجلاس کی سائیڈلائینز پر رکن ممالک کے وفود کے سربراہان سے ’اہم دو دوطرفہ ملاقاتیں‘ کریں گے۔ مگر انڈیا کے وزیر خارجہ نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ وہ دو طرفہ معاملات پر بات چیت کرنے نہیں آ رہے۔
اگرچہ دو طرفہ امور پر بات چیت شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر میں شامل نہیں، تاہم تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ رکن ممالک کے پاس یہ موقع ضرور ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے ملاقاتیں کریں اور بات چیت کا دروازہ کھولیں۔
سوہاسینی حیدر کے مطابق ایک وقت تھا ’جب انڈین اور پاکستانی رہنماؤں کی ملاقاتیں بھی اس فورم پر ہوتی رہی ہیں، اور پھر دو طرفہ بات چیت کے موقع ملتا رہا۔ تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ حالیہ برسوں میں، یہ فورم انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک دوسرے پر تنقید کرنے کا پلیٹ فارم بن گیا ہے۔‘
عامر ضیا کے مطابق پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کی وجہ سے اس اجلاس کے ماحول میں ’ہلکا سا تناؤ‘ رہ سکتا ہے۔
’جب دہشت گردی کی بات ہو گی تو انڈیا پاکستان پر الزام لگائے گا اور پاکستان بلوچستان کے حوالے سے انڈیا پر الزام لگائے گا۔ اور مجھے فی الحال ان دونوں ملکوں میں تجارت اور دیگر شعبوں میں بھی تعاون ہوتا نہیں دکھائی دے رہا۔ جب کمرے میں انڈیا اور پاکستان ہوں گے تو ماحول میں ہلکا سا تناو تو ہو گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ خاص طور پر پاکستان کے لیے اس وقت تعلقات میں بہتری ایک ’رسک‘ ہو سکتی ہے:
’ہو سکتا ہے کہ یہاں طاقت کے ایوانوں میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کی خواہش ہو، مگر کشمیر کے معاملے میں 2019 کے بعد ایسے کسی بھی کمپرومائز کا پاکستان کو نقصان ہوگا اور اس کا فال آؤٹ پاکستان کی سیاست اور فوج کے لیے کافی زیادہ ہوگا۔‘
ان کے مطابق انڈیا کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا سوچنے سے پہلے پاکستان کواپنی معاشی اور سیاسی صورتحال کو بہتر بنانا ہوگا۔
’جب تک پاکستان ایک مضبوط ملک کے طور پر سامنے نہیں آئے گا تب تک وہ برابری کی سطح پر بات نہیں کر سکتا۔‘
اگرچہ شنگھائی تعاون تنظیم اپنی متعدد ناکامیوں اور داخلی کمزوریوں کے باوجود خطے میں تجارت، توانائی، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور فوجی تعاون کا ایک پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے، لیکن تجزیہ کاروں کی یہ رائے بھی ہے کہ رکن ممالک کے آپسی اختلافات اور محدود فوجی تعاون جیسے عواملاسے ایک مضبوط عالمی فورم بننے سے روکتے ہیں۔
عامر ضیا جیسے تجزیہ کار پر امید ہیں اور کہتے ہیں کہ ’بین الاقوامی سفارتکاری ٹی ٹوینٹی میچ نہیں اور یہ تنظیمیں آہستگی کے ساتھ کام کرتی ہیں‘، مگر ایران سے تجزیہ کار زہرہ زیدی اب ’عملی اقدامات‘ ناگزیر سمجھتی ہیں۔
’اگر کھل کر تعاون نہیں کریں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ نہیں کھڑے ہوں گے تو یہ بھی دیگر بے سود تنظیموں کی طرح محض ایک نام کی تنظیم رہ جائے گی۔‘
’400 سیکنڈ میں تل ابیب‘: عالمی پابندیوں کے باوجود ایران نے ’اسرائیل تک پہنچنے والے‘ ہائپرسونک میزائل کیسے بنائے؟حسینہ واجد کا استعفیٰ: پیر کی صبح بنگلہ دیش کے وزیرِاعظم ہاؤس میں کیا ہوا؟ابابیل اور شاہین تھری: کیا امریکی پابندیاں پاکستان کےمیزائل پروگرام کو متاثر کر سکتی ہیں؟اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انڈین وزیر خارجہ کا شہباز شریف کو جواب: ’پاکستان کی معاشی بدحالی اس کے کرموں کا پھل ہے‘ابھینندن: پاکستان کی تحویل میں انڈین پائلٹ کی موجودگی کے دوران پسِ پردہ کیا ہوتا رہا؟ہندو ماں اور مسلمان باپ کا بیٹا کیپٹن حنیف جس کی لاش اُٹھانے کے لیے انڈین فوج کو پاکستان کے خلاف آپریشن کرنا پڑا