BBC
’کوئی بھی چیز بے کار نہیں ہوتی۔ آپ پرانی چیزوں کو بھی نیا بنا سکتے ہیں۔‘
پاکستان کے صوبہ سندھ کے صوبائی دارالحکومت کراچی سے تعلق رکھنے والی زنیرہ اور ان کی دو بہنوں نے ایک ایسے کام کو کاروبار بنایا ہے جو شاید ہر گھر میں ہی ہوتا ہے۔
یہ بہنیں پھٹے پرانے کپڑوں سے ایسے فن پارے تخلیق دیتی ہیں جن کی مانگ اب پاکستان سے باہر سے بھی ہونے لگی ہے۔ نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی سے لے کر کوک سٹوڈیو پاکستان کے آرٹسٹ تک ان کے خریداروں میں شامل ہیں۔
زنیرہ، انوشے اور حرا انصاری کے ہاتھوں سے تخلیق کردہ مصنوعات دیکھ کر کوئی یہ اندازہ ہی نہیں لگا سکتا کہ ان میں استعمال ہونے والا بنیادی سامان ایسی اشیا اور کپڑوں پر مشتمل ہے جو لوگ کچرے کے ساتھ کوڑے میں پھینک دیا کرتے ہیں یا پھر کباڑیے کو بیچ دیتے ہیں۔
حقیقت میں یہ بہنیں پھٹے پرانے کپڑوں اور ایسی ہی استعمال شدہ اشیا کی مدد سے خوبصورت اور دلفریب کپڑے اور جوتے ڈیزائن کرتی ہیں جو ان کے لیے ذریعہ آمدن تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کا استعمال کردہ طریقہ ماحولیاتی اعتبار سے بھی فائدہ مند ہے۔
لیکن یہ طریقہ کیا ہے اور ان بہنوں کو یہ خیال کیسے آیا؟ ساتھ ہی ساتھ ان کے کاروبار سے ماحول کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟
جب دو بہنوں کو کورونا وبا کے دوران ماسک بنانے کا خیال آیا
آج زنیرہ اور اُن کی دو بہنوں انوشے اور حرا، اور ان کی والدہ عظمی جاوید کا یہ کام ایک برانڈ کی شکل اختیار کر چکا ہے جو سوشل میڈیا پر بھی صارفین میں کافی مقبول ہے اور انھیں بیرون ملک سے بھی آرڈر وصول ہوتے ہیں۔
لیکن سکریپ فیشن یعنی ٹکڑوں سے کام کا آغاز ایک چھوٹی سے چیز سے ہوا تھا۔ عظمیٰ جاوید بتاتی ہیں کہ انھوں نے کورونا وبا کے دوران اپنی بیٹیوں کے لیے کپڑے سے ماسک بنائے جن کے بعد انھوں نے جوتوں پر بھی اسے طریقے سے ڈیزائن بنایا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے معلوم نہیں تھا یہ چھوٹا سا کام اس قد بڑا بن جائے گا۔ میں نے پرانے جوتے ڈیزائن کیے تھے جو میری بیٹی کی دوستوں کو اتنے پسند آئے تھے کہ اُن سب نے مجھے اپنی پرانی چیزیں دیے کر اُن پر نئی طرح کی ڈیزائنگ کرنے کی فرمائش کی۔‘
BBC
بنیادی طور پر یہ عظمی کا تخیل تھا جس میں ان کی مہارت نے مدد کی اور بے قدر سمجھی جانے والی اشیا کو انھوں نے نئی شکل اور رنگ دیا۔ لیکن انھوں نے یہ کام کیسے سیکھا اور یہ خیال انھیں کیسے آیا؟
عظمی کا کہنا کہ اُنھیں یہ کام کسی نے نہیں سکھایا بلکہ وہ اس ہنر کے ساتھ ہی پیدا ہوئی تھیں۔ اب وہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ مل کر ایک کاروبار چلاتی ہیں اور آہستہ آہستہ انھیں ملنے والے آرڈر کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
زنیرہ بتاتی ہیں کہ ماہانہ انھیں 50 سے 100 کے قریب آرڈر ملتے ہیں۔ زنیرہ کو خود بھی پینٹنگ کا شوق تھا اور اب وہ اسی شوق کی مدد سے ٹی شرٹس، جیکٹس، بیگز، سوٹ کیسز اور جوتوں پر ڈیزائن بناتی اور بیچتی ہیں۔ بہت سے لوگ ان سے فرمائش کر کے اپنے لیے ڈیزائن بنواتے ہیں۔
’میں اتنی خوش تھی کہ ملالہ کے لیے جوتے تیار کروں گی‘
ان بہنوں کے کاروبار کو اس وقت شہرت ملی جب انھیں ایک نامور شخصیت کا آرڈر ملا۔
ہوا کچھ یوں کہ ملالہ یوسفزئی کے شوہر عصر ملک نے زنیرہ سے رابطہ کیا اور اپنی اہلیہ کے لیے جوتے بنانے کا آرڈر دیا۔ بعد میں ملالہ نے ایک تصویر اپنے انسٹاگرام اکاوئنٹ پر شیئر کی جس کے بعد سے زنیرہ اور ان کی ڈیزائن کردہ مصنوعات کو شہرت ملی۔
زنیرہ نے بتایا کہ ’جب مجھ سے رابطہ کیا گیا تو میں نے اپنی بہنوں کو بتایا۔ مجھے اتنی خوشی تھی کہ میں ملالہ کے لیے جوتے ڈیزائن کروں گی۔ اور وہ پہنیں گی۔‘
رتن ٹاٹا: نمائش سے دور سادہ زندگی گزارنے والے انڈین بزنس مین جنھوں نے اپنے کاروبار کو چھ براعظموں کے 100 سے زیادہ ممالک تک پھیلایاسنیل فارمنگ: پودوں پر رینگنے والے گھونگھے آپ کو کروڑوں روپے کیسے کما کر دے سکتے ہیں؟پاکستان کی سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی ماڈل جن کے کھانوں کی ترکیبیں کینیڈا کے ریستورانوں میں استعمال ہوتی ہیںہیروں سے مالامال قصبہ جہاں زندگی راتوں رات بدل سکتی ہے
زنیرہ نے بتایا کہ ملالہ کے شوہر نے اُن سے ٹوئٹر پر رابطہ کیا تھا۔ ’وہ چاہتے تھے کہ جوتوں پر پاکستانی کلچر اور ٹرک آرٹ دکھایا جائے۔‘
صرف ملالہ ہی نہیں بلکہ کوک سٹوڈیو پاکستان میں پرفارم کرنے والے کئی گلوکاروں کے لیے بھی زنیرہ اور ان کی بہنوں نے جیکٹس اور جوتے بنائے ہیں جن میں ذیشان علی بھی شامل ہیں۔
’لوگوں کو لگتا ہے یہ کام بہت آسان ہے‘
زنیرہ کا گھر بھی کسی آرٹ گیلری سے کم نہیں۔ اُن کے گھر میں داخل ہوتے ہی مختلف دیواروں پر خوب صورت شیشے، ڈیکوریشن پیس، پرانے کپڑوں کے بنے ہوئے قالین نظر آتے ہیں۔
مختلف اور خوب صورت رنگوں کے امتیاز سے بنائی گئی یہ چیزیں دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ان میں کوئی چیز بھی نئی نہیں۔
BBCعظمی کا کہنا کہ اُنھیں یہ کام کسی نے نہیں سکھایا بلکہ وہ اس ہنر کے ساتھ ہی پیدا ہوئی تھیں
زنیرہ بتاتی ہیں کہ ’لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ کام بہت آسان ہے۔ بس چیزیں اُٹھاؤ اور بنا دو۔ مگر ایسا نہیں۔‘
’ہمیں پہلے ڈیزائن سوچنا پڑتا ہے، پھر ہم اُس کا کاپی پر سکیچ بناتے ہیں اُس میں جو رنگ استعمال کرنے ہیں، جو تھیم رکھنا ہے، وہ سوچتے ہیں اور یہ سب کام کرنے کے بعد ہی کوئی چیز تیار کرتے ہیں۔‘
زنیرہ کی بہن انوشے انصاری بتاتی ہیں کہ مہینے میں ایک دن وہ مختلف کارخانوں، درزیوں، لیس فروخت کرنے والوں کے پاس جا کر بچا کھچا سامان اُٹھا لیتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’کبھی کراچی، کبھی لاہور اور کبھی کسی دوسرے شہر سے جا کر چیزیں جمع کرتے ہیں۔‘
جیسے جیسے ان کے کام کی شہرت بڑھتی گئی، لوگ اپنے پرانے کپڑے بھی ان کو دینے لگے۔
زنیرہ کہتی ہیں کہ ’لوگ ہمارے پاس پرانے کپڑے لاتے ہیں اور بولتے ہیں کہ اس کو نیا بنا دیں، وہ اپنی بچی ہوئی لیس اور بٹن وغیرہ بھی ہمیں لا کر دیتے ہیں کہ یہ ہمارے تو کسی کام کے نہیں، کیا پتا آپ کے کام آجائیں۔‘
BBCماحول کو کیسے فائدہ ہوتا ہے؟
ایک تحقیق کے مطابق ایک ٹی شرٹ بنانے میں 2700 لیٹر پانی استعمال کیا جاتا ہے، جو کہ 70 بار نہانے کے برابر ہے۔ ایسے میں اگر ایک پُرانی اور بوسیدہ شرٹ کو دوبارہ پہننے کے قابل بنایا جا سکتا ہے تو اس سے پانی بھی بچایا جا سکتا ہے۔
انوشے انصاری نے بتایا کہ اُنھوں نے جب کام شروع کیا تھا تو اُن کو نہیں معلوم تھا کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی میں بھی کردار ادا کر رہی ہیں۔
’ہم نے جب اس بارے میں پڑھنا شروع کیا تو ہمیں اندازہ ہوا کہ پرانے چیزوں کو استعمال میں لا کر ہم اپنا چھوٹا ہی صحیح مگر اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔‘
انوشے اور زنیرہ کا کہنا ہے کہ اب اپنے کام سے وہ دوسروں کو اس بارے میں آگاہی بھی دے رہی ہیں کہ وہ کس طرح ماحول کو بہتر بنا سکتی ہیں۔
رتن ٹاٹا: نمائش سے دور سادہ زندگی گزارنے والے انڈین بزنس مین جنھوں نے اپنے کاروبار کو چھ براعظموں کے 100 سے زیادہ ممالک تک پھیلایاکوفیہ: فلسطینی مزاحمت کی شناخت بننے والا رومال کیا ہے اور یہ اتنا مشہور کیسے ہوا؟امریکی اشرافیہ اور خاندانی رئیسوں کا لباس بن جانے والا ’مدراس چیک‘ ایک سٹائل کیسے بناپاکستان کی سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی ماڈل جن کے کھانوں کی ترکیبیں کینیڈا کے ریستورانوں میں استعمال ہوتی ہیںملالہ کا ووگ میں آرٹیکل: ’شادی کا جوڑا امی نے خریدا جبکہ زیور عصر کی والدہ نے دیے‘مس یونیورس مقابلے میں حصہ لینے والی 81 سالہ دادی: ’لوگ میری طرح جینا چاہتے ہیں‘