بچوں کا سکول سے پک اینڈ ڈراپ ہو، گھر سے کسی خاتون نے آفس پہنچنا ہو، فیملی نے پکنک کے لیے کہیں جانا ہو، دکان سے فریج یا فرنیچر خرید کر گھر لانا ہو، گھر کے سامان کی شفٹنگ ہو یا قربانی کے جانور لانے ہوں۔۔۔ ’کیری ڈبہ‘ کسی نہ کسی صورت میں ہم سب کی زندگیوں کا حصہ رہا ہے۔
ابھی آپ کسی شہر، گاؤں یا پہاڑوں میں بھی سڑک پر نکل جائیں تو دو چار کیری ڈبے ُسڑک پر دوڑے نظر آ جائیں گے۔
پاکستان میں ایدھی اور چھیپا جیسی فلاحی تنظیمیں اسے بطور ایمبولینس بھی استعمال کرتی ہیں۔
1980 کی دہائی میں پاکستانی مارکیٹ میں متعارف کروائے گئی سوزوکی بولان کو ’کیری ڈبہ‘ اس لیے بلاتے ہیں کہ کیونکہ یہ سوزوکی کی ’کیری سریز‘ کی گاڑی ہے جنھیں دنیا بھر میں ’کیری‘ گاڑیوں کے نام سے جانا جاتا ہے مگر جب سوزوکی نے اپنی تیار کردہ مختلف گاڑیوں کو پاکستان میں متعارف کروایا تو انھیں مقامی نام دیے۔۔ جیسے خیبر، بولان، مارگلہ، پوٹھوہار وغیرہ۔
کیری کی ہی سسٹر کار، کیری پک اپ کا نام ’راوی‘ رکھا گیا جس میں گاڑی بالکل کیری ڈبے جیسی ہے بس اس میں پچھلا ڈبے والا حصہ نہیں، یہ زیادہ تر سامان لانے لیجانے کے کام آتی ہے۔ شاید آپ کے گھر کا فریج یا اے سی بھی اسی راوی پر آیا ہو؟
مرتضی منڈی والا ’سٹئیرنگ دا پاکستانی ویل‘ کتاب میں لکھتے ہیں کہ 1988 کے بعد سوزوکی نے ان گاڑیوں کو نئے نام دیے۔ بولان کا نام بلوچستان کے ڈسٹرکٹ بولان سے آیا۔ اس کے پک اپ ورژن کا نام پنجاب میں دریائے انڈس کے نام پر ’راوی‘ رکھا گیا۔
چند سال قبل سوزوکی نے کیری ڈبے میں ’اے سی‘ کی سہولت بھی متعارف کروائی تھی جس پر ان کا خاصا مذاق اڑایا گیا تاہم مقامی مارکیٹ میں یہ فیچر کامیاب ثابت نہیں ہو سکا۔
مگر ہم سب کی یادوں سے جڑے اس کیری ڈبے کی پروڈکشن 40 سال (تین دہائیوں سے زائد عرصے) بعد بند کر دی گئی اور اس کی جگہ ایک نئی گاڑی سوزوکی ’ایوری‘ لانچ کی جا رہی ہے۔
یاد رہے اس سے قبل سوزوکی نے مہران کی پروڈکشن بند کر کے اس کی جگہ بہتر سیفٹی اور جدید فیچرز والی آلٹو لانچ کی تھی۔
پاکستان آٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کے اعداد و شمار کے مطابق مالیاتی سال 2021-22 میں کووڈ کے بحران کے دوران 11528 نئے کیری ڈبے بنائے گئے جبکہ کل 12361 فروخت ہوئے۔ اسی طرح سال 2022-23 جسے آٹو سیکٹر میں تنزلی کا سال مانا جاتا ہے اس دوران 4662 کیری ڈبے بنے اور 4447 فروخت ہوئے جبکہ 2023-24 میں 2689 کیری ڈبے بنے اور 2774 فروخت ہوئے۔
مگر سوال یہ ہے کہ ایک ایسی گاڑی جس کی مانگ یا فروخت میں کوئی کمی نہیں آئی، 40 سال بعد سوزوکی کو اس کی پروڈکشن بند کرنے کی ضرورت کیوں پڑی اور اس کی جگہ لائی گئی گاڑی ’ایوری‘ میں ایسے کون سے فیچرز ہیں جو اسے کیری ڈبے سے منفرد یا بہتر بناتے ہیں؟
وہ ترقی یافتہ ملک جہاں ہر پانچ منٹ میں ایک گاڑی چوری ہوتی ہےجب جناح کی حلف برداری کے لیے سرکار کو گاڑی ادھار لینا پڑی’30 کروڑ کی چوری شدہ کار لندن سے کراچی کیسے پہنچی؟‘کار چوری کے نئے طریقے جن سے بغیر چابی کی گاڑیاں بھی محفوظ نہ رہ سکیں
کیا اس کی وجہ پرانی ٹیکنالوجی یا سیفٹی فیچرز کی کمی ہے؟ یا پھر حکومتی دباؤ یا مارکیٹ میں موجود چائینز گاڑیوں سے مقابلہ ہے، جو بیشتر مارکیٹ شئیر ہڑپ کر رہی ہیں؟
یاد رہے حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان کی آٹو مارکیٹ میں کئی نئے پلئیر داخل ہوئے ہیں جن میں چائینز کمپنی چنگان کی کارروان جیسی گاڑیاں بھی شامل ہیں جو پاکستانی سڑکوں پر چلتی نظر آرہی ہیں اور سوزوکی بولان کا متبادل سمجھی جاتی ہیں۔
اگرچہ بولان، کارروان کے مقابلے میں سستی گاڑی ہے مگر اس میں ائیر بیگز اور اے سی جیسے فیچرز نہیں۔ کئی افراد کا ماننا ہے کہ کیری ڈبہ چلانے میں ’کمفرٹ ایبل‘ نہیں اور نہ اس کی سیٹیں آرام دہ ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نئی چائینز گاڑیاں بولان کا بیشتر مارکیٹ شئیر ضبط کر رہی ہیں۔
’سوزوکی کمپلائنس نہ کرتی تو مارکیٹ سے آوٹ ہو جاتی‘
وزارتِ صنعت و پیداوار کے ماتحت ادارے انجینیئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ (ای ڈی بی) کے ترجمان عاصم ایاز اس کی وجہ ’حکومتی کوششوں (کمپلائنس تو ریگولیشن) کے ساتھ ساتھ سوزوکی کی مارکیٹ سٹریٹیجی‘ کو قرار دیتے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عاصم ایاز نے بتایا کہ سوزوکی کے پاس کمپلائنس آف ڈبلیو پی 29 شارٹ لسٹڈ ریگولیشن (آٹو پالیسی کے حساب سے گاڑیاں بنانے کے عالمی قواعد و ضوابط) پر عمل کے لیے جون 2025 تک کا وقت تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ بولان میں دو ائیر بیگز نہیں لگ سکتے تھے، بریک کے مسائل تھے جن کے لیے ڈیزائن میں تبدیلی کی ضرورت تھی۔
عاصم ایاز کا ماننا ہے کہ بولان ریگولیشن سے کمپلائنٹ نہیں تھا اور اگر سوزوکی کمپلائنس نہ کرتی، ڈیزائن میں تبدیلی نہ لاتی تو مارکیٹ سے آوٹ ہو جاتی۔
’ڈیزائن میں تبدیلی سے قیمت بڑھے گی‘
گاڑیوں کی خرید و فروخت کی ویب سائٹ پاک ویلز کے چیئرمین اور آٹو سیکٹر کے ماہر سنیل منج نے اس کی ایک بڑی وجہ مارکیٹ کمپیٹیشن کو قرار دیا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بولان 40 سال سے بن رہی تھی اور مقامی طور پر اس میں جتنی تبدیلی لائی جا سکتی تھی، وہ لائی جا چکی ہیں، تاہم اب یہ بہت پرانا ماڈل ہو گیا ہے۔
سنیل منج کہتے ہیں کہ چین کی کارروان میں زیادہ فیچرز ہیں اور بولان مارکیٹ میں اس سے بری طرح مار کھا رہی تھی۔
’اسی لیے سوزوکی کو اس کے ڈیزائن میں تبدیلی کرنا پڑی، جس سے قیمت بھی بڑھے گی جو مقابلے کی مارکیٹ میں مزید مشکلات بنائے گا۔‘
سوزوکی بولان مڈل کلاس کی گاڑی سمجھی جاتی تھی جس کی موجودہ قیمت تقریباً 19 لاکھ ہے اور ایوری کے نان اے سی ویرئنٹ کی قیمت 27 لاکھ 49 ہزار جبکہ اے سی ویرئنٹ کی 27 لاکھ 99 ہزار تک بنائی جا رہی ہے۔
عاصم ایاز کہتے ہیں کہ ’مارکیٹ میں مقابلے کے بغیر یہ ممکن نہیں لیکن اہم وجہ کمپلائنس ہی ہے کیونکہ اگر جولائی کے بعد ان کی گاڑی بن ہی نہ رہی ہوتی تو یہ مارکیٹ سے بالکل وائپ آؤٹ ہو جاتے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’دوسری کمپنیوں کی کمپلائٹ گاڑیوں نے سوزوکی بولان کا کافی شئیر لے لیا اور مارکیٹ میں رہنے کے لیے انھیں ڈیزائن میں تبدیلی کرکے نیا ورژن ’ایوری‘ لانا پڑا، جو قواعد و ضوابط پر پورا اترتا ہے۔
آٹو سیکٹر کے ماہر مشہود خان بھی سنیل منج سے اتفاق کرتے ہیں کہ بولان پرانا ماڈل ہے اور وقت کے تقاضوں کے حساب سے مارکیٹ میں کیری پک اپ کے ماڈلز میں بہت ورائٹی آ گئی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ گذشتہ برسوں میں آٹو انڈسٹری میں بہت تبدیلیاں آئی ہیں اور گاڑیوں میں کئی فیچرز شامل ہوئے ہیں، سوزوکی نے سیفٹی اور کنزیومر کی دیگر ضروریات اور آج کے حساب سے ’ایوری‘ میں تمام فیچرز شامل کیے اور یہ بولان سے لاکھ درجے بہتر ہے۔
مشہود خان کا کہنا ہے کہ ایوری بولان کے مقابلے میں ڈیزائن اور شیپ میں بہت مختلف ہے، اس میں انٹیئیر ڈیزائن اور بہترین فیچرز شامل کیے گئے ہیں اور کلر کمبینیشن بھی بہت عمدہ ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ آنے والے وقت میں سوزوکی کے باقی ماڈلز کی طرح ایوری کی لوکلآئزیشن بھی بہت بڑھ جائے گی۔
مشہود خان کا ماننا ہے کہ اگرچہ کمپنی مشکل حالات میں اسے لانچ کر رہی ہے مگر ایوری کا فیملی وین کے ساتھ ساتھ کمرشل استعمال بھی کیا جا سکتا ہے جو اس کی سیلز یقیناً بڑھائے گا۔
Getty Imagesعام لوگوں کی گاڑی ’ایوری‘: ’بڑی فیملیز آلٹو اور کلٹس کی بجائے ایوری کا انتخاب کریں گی‘
سوزوکی کے کارپوریٹ سیلز محمد اسد نے تصدیق کی کہ سوزوکی نے بولان کی پروڈکشن بند کر کے اس کا متبادل ایوری لانچ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ بولان میں کافی فیچرز نہیں تھے۔
بی بی سی بات کرتے ہوئے اسد بتاتے ہیں کہ ای ڈی بی کی گذشتہ میٹینگ میں کہا گیا تھا کہ سیفٹی فیچرز کے حساب سے ہر گاڑی میں ایئر بیگز ہونے چاہیں، لہذا ایوری میں ائیر بیگز کے ساتھ ساتھ اے بی ایس بریک اور اے سی سمیت دیگر فیچرز موجود ہوں گے۔
وہ بتاتے ہیں کہ یہ گاڑی پاکستانی کنڈیشنز کے مطابق بنائی گئی ہے اور اس میں گراؤنڈ کلیئرنس وغیرہ کو بہتر بنایا گیا ہے۔
کیری کے مقابلے میں ایوری کی قیمت میں اضافے کے متعلق محمد اسد کہتے ہیں کہ فیچرز کے اعتبار سے ایوری بالکل مہنگی گاڑی نہیں۔ وہ اسے ’عام لوگوں کی گاڑی‘ کا نام دیتے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ بڑی فیملی والے افراد آلٹو اور کلٹس کو چھوڑ کر ایوری کی جانب راغب ہوں گے کیونکہ اس میں سات سے آٹھ افراد باآسانی بیٹھ سکتے ہیں اور ’پاکستان میں زیادہ لوگوں کی بڑی فیملی ہوتی ہے۔‘
’30 کروڑ کی چوری شدہ کار لندن سے کراچی کیسے پہنچی؟‘کار چوری کے نئے طریقے جن سے بغیر چابی کی گاڑیاں بھی محفوظ نہ رہ سکیںلوکل ہائبرڈ گاڑیوں کی بڑھتی مانگ یا کمپنیوں کا دباؤ، اسمبل کی جانے والی ’مہنگی‘ کاروں کے لیے مراعات کیوں؟آپ اپنی گاڑی کو چوری ہونے سے کیسے بچا سکتے ہیں؟فلم کی شوٹنگ کے دوران چور ٹام کروز کی بی ایم ڈبلیو لے اڑےپاکستان میں آخر گاڑیاں مہنگی کیوں ہیں؟