Getty Imagesامیتابھ بچن نے اب تک اس رپورٹ پر بات نہیں کی ہے جبکہ تمل فلم انڈسٹری کے سٹار رجنی کانت نے کہا ہے کہ وہ اس رپورٹ کے بارے میں لاعلم ہیں
انڈیا میں کیرالہ کی ملیالم فلم انڈسٹری میں اداکاراؤں کے جنسی استحصال اور ان کے ساتھ غیرمنصفانہ رویے کو منظرِ عام پر لانے والی ہیما رپورٹ، جس نے کاسٹنگ کاؤچ سکینڈل کو سامنے لایا ہے، جاری ہونے کے بعد سے ملک کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں تاحال ہلچل مچی ہوئی ہے۔
لیکن جنسی استحصال اور غیرمنصفانہ رویے کا سامنا کرنے والی اداکاراؤں کے لیے یکجہتی اور حمایت کے پیغامات زیادہ تر خواتین کی جانب سے ہی آئے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ انڈین انڈسٹری میں کروڑوں پرستار رکھنے والے طاقتور مرد اداکار اس معاملے پر خاموش ہیں۔
ہیما کمیٹی رپورٹ میں ملیالم فلم انڈسٹری کے 51 افراد کے بیانات موجود ہیں اور اس میں دہائیوں پرمحیط جنسی استحصال کی تفصیلات موجود ہیں کہ’خواتین کو سیکس کے لیے خود کو دستیاب رکھنے کو کہا جاتا تھا‘ اور انھیں کام کے حصول کے لیے مسلسل ’سمجھوتا اور ایڈجسٹ‘ کرنے کو کہا جاتا تھا۔
واضح رہے کہ سنہ 2017 میں مبینہ طور پر ایک مرد اداکار کی ایما پر ایک چلتی گاڑی میں ایک معروف اداکارہ کے اغوا اور ریپ کے بعد کیرالہ کی ریاستی حکومت نے تین رکنی ہیما کمیٹی تشکیل دی تھی۔
290 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ گذشتہ مہینے ریلیز کی گئی تھی اور رپورٹ کے کچھ حصوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بننے والوں اور مبینہ طور پرانھیں ہراساں کرنے والوں کی شناخت چھپانے کے لیے حذف کردیا گیا ہے۔
لیکن 19 اگست کے بعد، جب یہ رپورٹ جاری ہوئی، متعدد خواتین نے عوامی سطح پر آواز بُلند کی ہے اور پولیس کے پاس مرد اداکاروں، فلمسازوں، ہدایتکاروں اور دیگر بااثر مردوں کے خلاف تقریباً ایک درجن سے زیادہ شکایات درج کروائی گئی ہیں۔
کیرالہ کی ریاستی حکومت نے ان الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک سپیشل انوسٹیگیشن ٹیم تشکیل دے دی ہے، جبکہ کیرالہ ہائی کورٹ نے بھی ہیما رپورٹ میں درج واقعات کی تحقیقات کا حکم جاری کردیا ہے۔ اس کے بعد یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ انھیں انصاف ملے گا۔
انڈیا کی فلم انڈسٹری میں مقبول اور بڑی اداکاراؤں سمیت متعد خواتین نے ’کاسٹنگ کاؤچ‘ (کام کے بدلے سیکس کا مطالبہ کرنا) جیسی سرگرمیوں کے خلاف آواز اُٹھائی ہے۔
Getty Images2017 میں مبینہ طور پر ایک مرد اداکار کی ایما پر ایک چلتی گاڑی میں ایک معروف اداکارہ کے اغوا اور ریپ کے بعد کیرالہ کی ریاستی حکومت نے تین رکنی ہیما کمیٹی تشکیل دی تھی
فلم ناقد اور لکھاری شبھرا گپتا کہتی ہیں کہ ’انڈیا کی تمام فلم انڈسٹریوں میں یہ بُرائی سمندر سے بھی زیادہ گہری ہے۔‘
’پورے ملک میں کوئی بھی خاتون پرفارمر ایسی نہیں ہے جس نے اس کا سامنا نہ کیا ہو۔ اگر تمام لوگ اپنی شکایات لے کر منظرِ عام پر آ جائیں تو ان سے نمٹنے میں دہائیاں لگ جائیں گی۔‘
ملیالم فلم انڈسٹری کے حوالے سے انکشافات نہ صرف خبروں کی زینت بنے بلکہ انڈیا کے ٹی وی چینلز پر اس پر بحث و مباحثے بھی ہوتے رہے۔
ویمن اِن سنیما کلیکٹو (ڈبلیو سی سی) کی رُکن دیدی دمودرن نے اس حوالے سے بی بی سی کو بتایا کہ رپورٹ کے ریلیز ہونے کے بعد ’زبردست‘ ردِعمل سامنے آیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ خواتین نے اب بات کی ہے کیسے انھیں اپنے ساتھ ہونے والی بھیانک چیزوں کی وجہ سے انڈسٹری چھوڑنی پڑی۔ ان کے پاس ثبوت موجود نہیں لیکن انھیں اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کے حوالے سے بات کرکے کچھ سکون میسر آیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے بہت سی خواتین کو سوشل میڈیا پر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا لیکن انھوں نے پھر بھی اپنی آوازوں کو دبنے نہیں دیا۔
اس رپورٹ کی گونج اب تمل ناڈو، آندھرا پردیش، کرناٹک اور تلنگانہ کی فلم انڈسٹریوں میں بھی سُنائی دے رہی ہے۔
تلنگانہ میں ریاستی حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ تیلگو فلم انڈسٹری سے متعلق ایک رپورٹ ریلیز کریں جو کہ تقریباً دو برسوں سے منظرِعام پر نہیں لائی گئی ہے۔
تلنگانہ میں ایک تحقیقات کے احکامات اس وقت جاری ہوئے تھے جب 2018 میں سری ریڈی نامی اداکارہ نے احتجاجاً ’انڈسٹری میں خواتین کے جنسی استحصال‘ کی طرف لوگوں کی توجہ دلانے کے لیے سرِعام اپنے کپڑے اُتار دیے تھے۔
’سیکس کے لیے خود کو دستیاب رکھیں‘: انڈیا کی وہ فلم انڈسٹری جہاں اداکاروں کو کام کے لیے ’سمجھوتہ‘ کرنا پڑتا ہےکیا پنجابی سنیما میں بھی لڑکیوں سے کام کے بدلے ’جنسی تعلقات‘ قائم کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے؟ کرسن داس مولجی: وہ شخص جس نے خواتین بھکتوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے والے ’مہاراج‘ سے ٹکر لیبرہنہ احتجاج کرنے والی اداکارہ گرفتار
اداکارہ رِتابھری چکرابورتی کا کہنا ہے کہ مغربی بنگال کی حکومت نے بنگالی فلم انڈسٹری میں جنسی استحصال کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کے سبب ’انڈسٹری شکاریوں سے پاک ہو جائے گی۔‘
تمل اور کنڑ فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی خواتین نے بھی اپنی ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انڈسٹری میں ان کے کام کرنے کے لیے حالات کو بہتر کریں۔
تمل سنیما سے تعلق رکھنے والی اداکارہ رادھیکا سرتھ کمار کا کہنا ہے کہ ہیما کمیٹی کی رپورٹ کے سبب لوگوں میں آگاہی پھیلی ہے اور ’ اب مرد ڈریں گے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’وقت آ گیا ہے کہ سنیما میں کام کرنے والی خواتین اب متحد ہو جائیں، اپنی آواز بلند کریں اور اس بکواس کو روکیں۔‘
تاہم دیدی دمودرن کا کہنا ہے کہ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے مردوں کی اس معاملے پر خاموشی مایوس کُن ہے۔
ملیالم سنیما کے بڑے اداکاروں موہن لعل اور مموٹی نے اس رپورٹ کو خوش آئند قرار دیا ہے لیکن یہ بھی کہا ہے کہ اس سے انڈسٹری کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔
دمودرن نے اس متعلق بی بی سی کو بتایا کہ ’ان اداکاروں کی پوجا کی جاتی ہے لیکن ہم اب بھی انتظار کر رہے ہیں کہ وہ اس معاملے پر کوئی ہیرو والا مؤقف اختیار کریں۔‘
تمل ناڈو میں اس رپورٹ پر اداکار اور سیاستدان کمل حسن اور وِجے کی خاموشی کو نوٹ کیا گیا ہے اور رپورٹ پر اظہارِ لاعلمی کرنے پر رجنی کانت پر بھی تنقید کی جا رہی ہے۔
سرتھ کمار اس حوالے سے کہتی ہیں کہ ’ہم سب کے ساتھ ہراسانی کے واقعات ہوتے ہیں۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ مردوں کو یہ نہ پتا ہو؟‘
’یہ کافی درد ناک بات ہے کہ خواتین کی حفاظت کی ذمہ داری خود خواتین کو اُٹھانی پڑتی ہے۔‘
Getty Images2018 میں بالی وڈ اداکارہ تنوشری دتہ کی درخواست پر ممبئی کی پولیس نے مشہور اداکار نانا پاٹیکر سمیت بالی وڈ کی چار شخصیات کے خلاف جنسی ہراس کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بالی وڈ کے بڑے اداکار امیتابھ بچن، شاہ رخ خان، سلمان خان، عامر خان اور اکشے کمار بھی اس معاملے پر خاموش ہیں۔
شبھرا گپتا کہتی ہیں کہ ان اداکاروں کی خاموش غیرمتوقع نہیں ہے۔ ’میں اس وقت حیران ہوتی جب ان کا کوئی ردِ عمل سامنے آتا۔ ہم نے دیکھا تھا کہ 2018 میں کیا ہوا تھا جب اداکارہ تنوشری دتہ نے 2008 میں فلم سیٹ پر ایک اداکار پر نامناسب رویہ اختیار کرنے کا الزام عائد کر کے بالی وڈ میں می ٹو موومنٹ شروع کی تھی۔‘
’کچھ وقت کے لیے ہمیں سپورٹ نظر آئی تھی اور ایسا لگا تھا کہ پورا بالی وڈ اُٹھ کھڑا ہوگا اور اس معاملے پر کچھ ہوگا۔ لیکن چیزوں کو سنبھال لیا گیا، کسی بھی مرد کو کوئی نتائج نہیں بھگتنے پڑے، سب لوگ واپس اپنے کام پر چلے گئے۔‘
’جن خواتین نے شکایات کی تھیں بعد میں انھیں کام ہی نہیں ملا۔‘
بالی وڈ پر اکثر یہ تنقید بھی کی جاتی ہے کہ اس میں کام کرنے والی بڑی خواتین اداکارائیں کبھی جنسی معاملات پر بات نہیں کرتیں۔
تنوشری دتہ کا کہنا ہے کہ اداکار کے رویے کی شکایت کرنے کے بعد انھیں کام نہیں دیا جا رہا تھا۔ انھوں نے ہیما کمیٹی کی رپورٹ کو ’ناکارہ‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے قبل بھی رپورٹس منظرِعام پر آئی ہیں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔
شبھرا گُپتا کہتی ہیں کہ فلم ستارے اس لیے خاموشی اختیار کرتے ہیں کیونکہ وہ پریشانیوں سے بچنا چاہتے ہیں۔
Getty Imagesکچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بالی وڈ کے بڑے اداکار امیتابھ بچن، شاہ رخ خان، سلمان خان، عامر خان اور اکشے کمار بھی اس معاملے پر خاموش ہیں
’میرے خیال میں ان کی خاموش کی وجہ یہ ڈر ہے کہ انھیں انڈسٹری میں کام نہیں ملے گا۔ آپ کو یاد ہے جب عامر خان یا شاہ رخ خان نے عدم برداشت کے حوالے سے بات کی تھی؟ ان پر شدید تنقید ہوئی تھی اور ان کے کام پر بھی اس کا اثر پڑا تھا۔‘
تاہم دمودرن کہتی ہیں کہ ہیما کمیٹی کی رپورٹ منظرِعام پر آنے کے بعد انھیں مثبت احساس ہوا ہے۔
’انڈین فلم انڈسٹریوں میں پدرشاہی اور زن بیزاری عام ہے۔ لیکن ہم خواتین سے نفرت اور جنسی تعصب کو مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ تبدیلی آنے والی ہے اور آنی چاہیے۔‘
’میرا کام ایکشن ڈائریکٹر کی طرح ہے مگر سیکس سینز کے لیے‘’کپڑوں کے ساتھ شرم اتار پھینکو‘: زمانہ قدیم میں سیکس کے بارے میں خواتین کی سوچ کیا تھیوہ دور جب کراچی کے ہر کونے میں ایک سینما تھاماضی کی سہانی یاد والی پرانی ہٹ فلمیں انڈین سنیما پر پھر سے کیسے دھوم مچا رہی ہیں؟بالی وڈ فلموں کے ’بے رحم اور شیطان صفت‘ ولن جو اصل زندگی میں نرم مزاج اور ہنس مکھ ہیںکیا پنجابی سنیما میں بھی لڑکیوں سے کام کے بدلے ’جنسی تعلقات‘ قائم کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے؟