وہ اداکار جو اپنے عروج پر امیتابھ بچن سے زیادہ فیس لیتے تھے

بی بی سی اردو  |  Aug 24, 2025

یہ سنہ 1992 کی بات ہے۔ جولائی کا آخری ہفتہ تھا۔ تیلگو فلم ’کھرانہ موگوڈو‘ کی نمائش جنوبی انڈیا کے معروف شہر وجے واڑہ کے گاندھی نگر سنیما تھیٹر روڈ پر موجود راج یوراج تھیٹر میں کی گئی۔

شیلجا تھیٹر میں ہندی فلم ’آج کا غنڈہ راج‘ چل رہی تھی جبکہ اروشی کمپلیکس میں ’کوڈما سمہم‘ کے ساتھ انگریزی میں اسی کی ڈبنگ ’دی ہنٹرز آف دی انڈین ٹریژر‘ دکھائی جا رہی تھی۔

یہ ایک ریکارڈ وقت تھا جب ایک ہی ہیرو کی تین فلمیں تیلگو، ہندی اور انگریزی میں بیک وقت ریلیز ہوئیں۔

ان فلموں کے ہیرو کوئی اور نہیں بلکہ چِرنجیوی ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب چرنجیوی اپنے عروج پر تھے۔

چنانچہ، انگریزی میگزین ’دی ویک‘ نے ’بگر دین بچن‘ یعنی امیتابھ بچن سے بھی بڑے کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا جس میں بتایا گیا کہ چرنجیوی کتنی کمائی کرتے ہیں۔

اس وقت تک چرنجیوی کو سنیما میں آئے ہو 14 سال گزر چکے تھے۔

پہلی کامیابی

چِرنجیوی نے سنہ 1978 میں سینیما کی دنیا میں قدم رکھا۔ کیمرے کے سامنے ان کی پہلی فلم ’پونادھیرللو‘ تھی، لیکن ان کی پہلی ریلیز ہونے والی فلم ’پرنام کھریدو‘ تھی۔ بعد میں انھوں نے مزید منفی کردار ادا کیے۔

انھوں نے فلم ’ایدی کتھا کاڈو‘ میں جیاسودھا کے شوہر کا منفی کردار ادا کیا۔ انھوں نے ایک سال میں 10 سے زیادہ فلموں میں کام کیا اور جو بھی کردار انھیں پیش کیا گیا، ان سب کو قبول کیا۔

چِرنجیوی نے کرشن کی اداکاری والی ’کوٹٹا پٹا راؤڈی‘ اور شوبن بابو کی اداکاری والی ’موساگادو‘ جیسی فلموں میں کام کیا تھا، انھیں پہلی کامیابی فلم ’پننامیےناگو‘ سے ملی۔

1980 کی فلم ’پنامی ناگو‘ میں چرنجیوی کی متنوع اداکاری کی نمائش کی گئی۔

اس کے بعد سنہ 1981 میں، انھوں نے آہستہ آہستہ چھوٹی فلموں کے ہیرو کے طور پر کام کرنا شروع کیا اور کرشنا اور شوبن بابو کے ساتھ ’توڈو دنگالو‘ اور ’سندی پریا‘ میں معاون ہیرو کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ انھوں نے ’سندی پریا‘ میں منفی کردار ادا کیا تھا۔

اسی سال انھوں نے این ٹی راما راؤ کی فلم ’راج ناتھ منیش‘ یا نقلی منیش میں بھی اداکاری کی۔

اس سال کے آخر میں ریلیز ہونے والی فلم کی کمائی اس وقت کی ایک حالیہ سپر ہیرو فلم کی کمائی کے برابر تھی۔ نتیجتاً فلم انڈسٹری کی توجہ چرنجیوی کی جانب بڑھنے لگی۔

فلم ’قیدی‘ سے شہرت کی بلندیوں پر

1982 میں رمایا سٹریٹ ہاؤس میں رہتے ہوئے چرنجیوی نے کرشنییا، سبھالیکھا، یاماکنکارڈو، اور پٹنم وچینا پٹیورا تھالو' سے شہرت حاصل کرنے لگے اور سنہ 1983 میں فلم 'قیدی' کی ریلیز کے بعد وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچے۔

1992 تک باکس آفس کی کمائی کے لحاظ سے صرف چھوٹی فلموں کا ہی مقابلہ تھا۔ لیکن، چرنجیوی نے اپنے نئی ڈانس سٹیپس، تیز رفتار رقص، اور حقیقت پسندانہ فائٹ کے مناظر سے پرانے ماڈلز کو مکمل طور پر بدل دیا۔

انھوں نے 1983 سے 1985 تک سپر ہٹ فلموں کی سیریز میں کام کیا۔ انھوں نے 1987 سے 1992 تک تیلگو سنیما کو شاندار کامیابی سے ہمکنار کرایا۔

ان کی فلمیں بہت بڑی تجارتی کامیابیاں تھیں جس کی وجہ سے چِرنجیوی نے تیلگو سینیما کے ہیروز میں ایک منفرد مقام حاصل کیا۔

چونکہ شیو رام کرشنا تیلگو سنیما میں پہلے ہی سپر سٹار کا خطاب حاصل کر چکے تھے، چرنجیوی کو پہلی بار 1988 میں بننے والی فلم ’مورونا مرودنگم‘ میں اداکاری کے لیے ’میگا سٹار‘ کا خطاب دیا گیا۔ اس فلم کو ایس راما راؤ نے پروڈیوس کیا تھا۔

بام عروج پر

ایک عام رائے ہے کہ چرنجیوی کی مقبولیت صرف 1992 تک اپنے عروج پر تھی۔

چِرنجیوی نے مختلف اصناف میں اپنی اداکاری کی مہارت کا مظاہرہ کیا، بالچندر، بھرتی راجا، بابو، کے وشواناتھ جیسے نامور ہدایت کاروں کی فلموں میں متنوع کردار ادا کیے۔ اس کے ساتھ انھوں نے کوتھنڈا راما ریڈی، راگھویندر راؤ، کوڈی رام کرشنا جیسے سٹار ہدایت کاروں کی عوامی مسالہ فلموں میں اداکاری کی۔ اسی طرح انھوں نے ہدایت کار شانلاو کی فلم میں مزاحیہ کردار ادا کیا۔

وہ آہستہ آہستہ بلندیوں کی طرف بڑھے۔ ڈانس، فائٹ، ایکشن، کامیڈی جیسے تمام پہلوؤں میں ایک نیا روپ پیش کیا۔ 1992 میں ریلیز ہونے والی فلم ’گھرانا موگوڈو‘ 10 کروڑ روپے کمانے والی پہلی تیلگو فلم بنی۔

اگر ہم چِرنجیوی کے بالی وڈ کے سفر کی باتکریں تو انھوں نے ڈاکٹر راج شیکھر کی تیلگو فلم انگوسام کو ’پرتیبندھ‘ کے عنوان سے ریمیک کرکے بالی وڈ میں قدم رکھا۔ اس فلم کی زبردست کامیابی کے بعد انھوں نے گینگ لیڈر پر مبنی تیلگو فلم کو ’آج کا غنڈہ راج‘ کے نام سے دوبارہ بنایا۔

Getty Imagesسیاست کے میدان میں اپنی پارٹی بنا کر اترے لیکن ان کی پارٹی نمایاں کارکردگی نہ دکھا سکیکیریئر میں نشیب و فراز

چِرنجیوی کی فلم 'آپڈبنداووڈو' نے ثابت کیا کہ کامیابی کے بعد ناکامی آتی ہے۔

1992 کے دوسرے نصف میں ریلیز ہونے والی اس فلم نے چرنجیوی کو ملک کے پہلے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکار کے طور پر مشہور کر دیا۔

اگرچہ انھوں نے فلم میں اپنی اداکاری کے لیے نندی ایوارڈ جیتا، لیکن یہ کمائی کے معاملے مین ایک ناکام فلم ٹھہری اور شاید اسی وجہ سے اس کو فلم کو بنانے والی کمپنی پوروندیا مووی کریئش نے مزید فلمیں نہ بنائيں۔

اس کمپنی کے نام شنکراپرنم، سپتپاھی، ساگر سنگم، سواتھیموتھیم، اور سویامکروشی جیسی اہم فلمیں بنانے کا سہرا ہے۔

سنہ 1993 میں ریلیز ہونے والی 'موتا مستری' توقعات پر پوری نہیں اتری۔ اس کے بعد کی فلمیں جیسے مکینک الوڈو، موگگرو موناگلو، ایس پی پرشورام، اور اللوڈا ماجکا بھی توقعات پر پوری نہیں اتر سکی۔

بگ باس اور رکشہ وودو بھی ناکام رہی۔

اس کے بعد چرنجیوی نے ایک سال کی چھٹی لی اور 1997 میں فلم 'ہٹلر' کے ساتھ کامیابی سے واپسی کی۔ اس کے بعد وہ 1998 میں ریلیز ہونے والی فلموں 'ماسٹر' اور 'بھاوا گرو بگننیرا' سے اپنے پرانے روپ میں واپس آئے۔

اس تناظر میں 2001 میں ریلیز ہونے والی فلم موروراجو بری طرح ناکام رہی۔

سیاست کے میدان میں انٹری

1992 میں گنٹور کے برہمانند ریڈی سٹیڈیم میں منعقدہ فلم گھرانہ موگوڈو کی کامیابی کی تقریب میں یہ بحث شروع ہوئی کہ اگر چرنجیوی سیاست میں داخل ہوں تو کیا ہوگا۔

لیکن اس کے کوئی 16 سال بعد چرنجیوی نے اگست 2008 میں سیاست میں آنے کا اعلان کیا۔

اسی سال تروپتی میں ایک جلسہ عام میں انھوں نے اپنی پارٹی ’پرجا راجیم‘ کا اعلان کیا۔

اس وقت سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ چرنجیوی کی جانب سے انتخابات سے آٹھ ماہ قبل پارٹی کا اعلان کرنے کا مقصد پارٹی کے قیام کے بعد نو ماہ میں چیف منسٹر بننے کے این ٹی آر کے ریکارڈ کو توڑنا تھا۔

تاہم پرجا راجیم پارٹی اس طرح ہاری جس کی کسی کو توقع نہیں تھی۔

2009 کے عام انتخابات میں پرجا راجیم پارٹی کو صرف 18 سیٹیں ملیں۔ چرنجیوی نے دو حلقوں، بالاکولو اور تروپتی سے انتخاب لڑا تھا، لیکن صرف تروپتی سے ہی انھیں کامیابی مل سکی۔

ایم ایل اے کے طور پر اپنے ابتدائی سالوں میں چرنجیوی نے اعلان کیا کہ وہ اگلے انتخابات تک اپنی پارٹی کو مزید مضبوط کریں گے۔

لیکن پھر وائی ایس ریڈی کی اچانک موت کے بعد سیاسی حالات کی وجہ سے۔ راج شیکھرا ریڈی کی پارٹی کانگریس میں ضم ہوگئی۔

اس کے بعد چرنجیوی کو راجیہ سبھا کا رکن مقرر کیا گیا اور ڈیڑھ سال تک مرکزی وزیر سیاحت کے طور پر خدمات انجام دیں۔

آج بھی پارٹی کو کانگریس میں ضم کرنے کے فیصلے پر چہ می گوئیاں نظر آتی ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ چرنجیوی کو پارٹی کی قیادت کرتے رہنا چاہیے تھا۔

لیکن چرنجیوی کا خیال ان سے مختلف ہے۔

اس وقت پرجا راجیم پارٹی کے ایک سیاسی رہنما نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس وقت کے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے پارٹی کا انضمام درست فیصلہ تھا۔

Getty Imagesاگرچہ چرنجیوی کی پارٹی اب سرگرم عمل نہیں لیکن سیاست میں ان کا عمل دخل ہےچِرنجیوی کی سیاست سے علیحدگی

2014 میں آندھرا پردیش کی تقسیم کے بعد سے چرنجیوی سیاست سے دور ہیں۔

اس وقت ان کے بھائی پون کلیان جن سینا پارٹی کے رہنما اور آندھرا پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ ہیں۔

ایک اور بھائی، ناگیندر بابو، ریاست میں قانون ساز کونسل کے رکن کے طور پر کام کرتے ہیں۔

اس صورتحال میں ڈائریکٹر تھماریڈی بھاردواج نے بی بی سی کے ساتھ بات چیت میں یہ بات کہی کہ اگرچہ چرنجیوی کا دھڑا حکمرانی کی سیاست میں براہ راست شامل نہیں ہے، لیکن وہ سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔

10 فروری سنہ 2009 کو پرجا راجیہ پارٹی کے صدر چرنجیوی گنٹور سے نارکوتور کے راستے دینالی تک سڑک کے سفر پر تھے۔ ایک بڑا ہجوم انھیں دیکھنے کے لیے جمع ہو گیا تھا۔

اس وقت دنالی کے قریب چکرایاپلم گاؤں کے دو نوجوان ان کے استقبال کے لیے بائک پر آتے ہوئے سڑک حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ جب چرنجیوی کو اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے فوراً اپنا سفر روک دیا اور ذاتی طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔

بعد ازاں جب وہ نوجوانوں کے والدین سے ملنے گئے تو ایک نوجوان کی والدہ نے پکار کر کہا کہ آپ کے دو ووٹ ضائع ہوگئے ہیں۔ ان الفاظ نے چرنجیوی کو بھی جذباتی کر دیا۔

مئی سنہ 2012 میں چرنجیوی نے ریاست میں کانگریس صدر کی حیثیت سے اننت پور کا دورہ کیا۔ یہ مئی کا گرم مہینہ تھا۔ اس شدید گرمی میں، چرنجیوی نے بغیر رکے دورہ کیا۔

اننت پور ضلع کے رہنماؤں نے شہر میں ایک کارپوریشن ممبر کے گھر چرنجیوی کے لیے چائے پارٹی کا اہتمام کیا تھا۔ جب پہلے سے تھکے ہوئے چرنجیوی چائے کا انتظار کر رہے تھے کہ ایک کانگریسی نے آکر کہا کہ 'کیا آپ مجھے چائے پلا سکتے ہیں؟' یہ سن کر چرنجیوی غصے میں آگئے اور جواب دیا کہ 'میں یہاں اسی لیے یہاں آیا ہوں۔'

آخر میں، کانگریس کے رہنماؤں کی طرف سے بیچ بچاؤ کے بعد، چرنجیوی چائے پینے کے بعد باہر نکلے۔

یہ واقعات چِرنجیوی کے سیاسی کیریئر میں آنے والے اتار چڑھاؤ کو ظاہر کرتے ہیں۔

غدر 2: دس سال تک فلاپ فلموں کے بعد سنی دیول کی فلمنے نو دن میں 300 کروڑ کیسے کمائے؟سنی لیونی: ’ایکشن میرے لیے بالکل نیا تجربہ، مگر سلمان، شاہ رخ سے بہت کچھ سیکھا‘10 دن میں 250 کروڑ کا بزنس کرنے والی فلم ’سیارہ‘ کیا معروف کورین فلم کا ری میک ہے؟ابتدا میں فلاپ قرار دی گئی فلم ’شعلے‘ جس کے رقص، رومانس اور کہانی کے مداح اسے بھولے نہیں بھول پاتےGetty Imagesچرنجیوی نے کانگریس میں شمولیت اختیار کی ہےچِرنجیوی دوبارہ فلمی کی جانب راغب

چرنجیوی، جنھوں نے پرجا راجیم پارٹی کی بنیاد رکھ کر سیاست میں قدم رکھا، تقریباً دس سال بعد 2017 میں سنیما میں واپس آئے۔

چِرنجیوی ، نے درمیان میں 'مگدھیرا' اور 'بروس لی' جیسی فلموں میں خصوصی کردار ادا کیا تھا۔ انھوں نے فلم 'قیدی نمبر 150' میں دوبارہ ہیرو کا کردار ادا کیا۔

اب 70 سال کی عمر کے قریب پہنچ کر بھی وہ فلموں میں اداکاری جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ان کی فلم 'وشوامبھرا' سنہ 2026 میں ریلیز کے لیے تیار ہے۔ اس کے بعد دو اور فلموں کی شوٹنگ شروع ہونے والی ہے۔

ہدایت کار اور پروڈیوسر تھماریڈی بھاردواج نے بی بی سی کو بتایا: 'جو نوجوان ہیرو چرنجیوی سے متاثر ہو کر سینما میں آئے انھیں ان کی طرح سال میں دو یا تین فلموں میں کام کرنا چاہیے۔ تب ہی سنیما انڈسٹری پھلے پھولے گی۔'

چرنجیوی کو فلم انڈسٹری میں آسانی سے کامیابی نہیں ملی۔

انھوں نے اپنے ابتدائی دنوں میں بہت سی ناکامیوں اور ذلتوں کا سامنا کیا اور کچھ عرصے تک ایک ہی قسم کا کردار ادا کرتے ہوئے ناکامیوں کا سامنا کیا۔

ان کی بنیادی طاقت رقص ہے۔ ان کا منفرد ڈانس سٹائل شائقین کے لیے ایک خاص تجربہ ہے۔

صرف رقص اور ایکشن سین میں اداکاری سے مطمئن نہیں، چرنجیوی نے اپنی پروڈکشن کمپنی 'انجانا پروڈکشن' کے تحت فلم 'رودر نیترا' بنائی لیکن، وہ فلم ناکام ہوگئی۔

بہر حال ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اگر چہ انھیں ایک میگا ہیرو کے طور پر جانا جاتا ہے۔ لیکن، وہ ایسے کردار ادا نہیں کر سکے جو تاریخ میں لکھے جائیں۔

چرنجیوی کے خیر سگالی کے کام

دو اکتوبر سنہ 1998 کو، چرنجیوی نے اپنی فاؤنڈیشن کے آغاز پر ایک بلڈ بینک اور ایک آئی بینک کے آغاز کا اعلان کیا۔

فاؤنڈیشن نے اپنی ویب سائٹ پر کہا کہ اس نے اب تک 9,30,000 یونٹ خون جمع کیا ہے جس میں سے 79 فیصد غریبوں کو مفت عطیہ کیا گیا ہے۔

باقی یونٹ کارپوریٹ ہسپتالوں کو ایک مخصوص فیس کی ادائیگی کے بعد عطیہ کیا گیا ہے۔

اسی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ 4,580 آنکھوں کے جوڑے اکٹھے کیے گئے اور 9,060 معذور افراد نے کارنیا ٹرانسپلانٹ کے ذریعے بینائی حاصل کی ہے۔

کووڈ 19 وبائی امراض سے سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں آکسیجن بینک بھی شروع کیے گئے ہیں۔

ان کی فاؤنڈیشن کی بانی نائب صدر سنکرا ستیش نے بی بی سی سے کہا: 'میں چرنجیوی کے ابتدائی دنوں سے ہی ان کی مداح رہی ہوں۔ جب گنٹور میں انڈی گٹو فلم فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا تو میں ان کی زبردست پرستار بن گئي۔ ان کے خون کے عطیہ اور آنکھوں کے عطیہ کے پروگراموں کو دیکھ کر، ہمیں ان کے مداحوں پر فخر محسوس ہوتا ہے۔ ہمیں ان کے اچھے دل کا احساس ہے جو کبھی کسی کو تکلیف نہیں دیتا۔

فلمی نقاد اور صحافی راجیو ارم نے بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا: 'چرنجیوی کے سروس پروجیکٹس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ بہت سی خدمات ہیں جو وہ بغیر کسی کو بتائے کرتے ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر دیکھا ہے کہ وہ کسی کو کسی بھروسہ مند ہسپتال میں ریفر کرتے ہیں یا اگر انھیں کوئی طبی مسئلہ آتا ہے تو مالی مدد فراہم کرتے ہیں۔'

Getty Imagesچرنجیوی نے قیدی نمبر 150 سے فلموں میں کامیابی کے ساتھ واپسی کیچرنجیوی کے بارے میں ایک ناول

بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ چرنجیوی ایک ناول اور فلم کے ہیرو ہیں۔

اینڈاموری ویریندر ناتھ کے ناولوں پر فلمیں بنائی گئی ہیں جن میں چرنجیوی ہیرو کا کردار ادا کرتے ہیں۔

مصنف ہری گوپال کرشنامورتی نے بی بی سی کو بتایا: 'لیکن 1995 میں، چرنجیوی کے بارے میں ایک ناول شائع ہوا، اس وقت، ناول آندھرا جیوتھی اخبار میں 'ابھیمانی بھیے' کے عنوان سے 28 ہفتوں تک سر فہرست رہا۔'

انھوں نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے یہ ناول چرنجیوی کے مداحوں کے خیالات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے لکھا ہے۔

گوپال کرشنامورتی نے کہا کہ انھوں نے یہ ناول چرنجیوی کی تعریف میں لکھا اور ان کی بہترین خوبیوں کو دیکھ کر فلمیں بنانا شروع کیں۔

اسی طرح آندھرا پردیش کے محکمہ زراعت کے ایک ریٹائرڈ افسر نے بی بی سی کو بتایا: 'میں نے نرسا پورم کالج سے گریجویشن کیا ہے۔ ہم نے تین سال اکٹھے تعلیم حاصل کی۔ اس وقت چرنجیوی کو اداکاری میں دلچسپی تھی۔ وہ ڈراموں میں اچھی اداکاری کرتے تھے۔ چرنجیوی ہمارے گروپ میں کسی کو نہیں بھولے تھے۔ حال ہی میں جب ہمارے دو دوستوں کو دل کی تکلیف ہوئی تو اس نے قریبی ہسپتال میں ان کا آپریشن کرایا۔ جب ایک اور دوست کو جگر کی تکلیف ہوئی تو انھوں نے بڑی مالی مدد کی۔'

تجربہ کار اداکار بھانوچندر نے بھی چرنجیوی کے ساتھ اپنی گہری دوستی کو یاد کیا۔

بھانوچندر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: 'ہم سب چنئی میں اکٹھے گھوا کرتے تھے۔ وہ میرا بہترین دوست تھا۔'

چرنجیوی سے متاثر ہیرو

تیلگو فلم انڈسٹری میں چرنجیوی کی طرف سے فراہم کردہ تحریک کی وجہ سے بہت سے ہیرو ابھرے۔ ان میں سری کانت، جے ڈی چکرورتی، روی تیجا، ترون، کارتیکیہ، ستیہ دیو، اور ابھرتے ہوئے ہیرو سجا تیجا کہتے ہیں کہ وہ چرنجیوی سے متاثر ہوئے ہیں۔

چرنجیوی بہت سے ہدایت کاروں کے پسندیدہ ہیرو رہے جن میں راجامولی، ونائک، بوبی، مہر رمیش، سرینو ویتلا، پرشانت نیل، سندیپ ریڈی وانگا، اور دیگر شامل ہیں۔

دوسری طرف چرنجیوی کے خاندان سے کئی ہیرو آئے ہیں۔ چرنجیوی نے اپنے بھائی ناگیندر بابو کو فلم 'راتساسودو' سے متعارف کرایا۔ 1996 میں ان کے دوسرے بھائی پون کلیان نے فلم 'اکڑا امّی اکڈا اپا' سے اپنے فلمی سفر کی شروعات کی۔

تب سے، ناگابابو کے بیٹے ورون تیج، بیٹی نہاریکا، داماد سائی دھرم تیج اور وشنو تیج، اور بہت سے دوسرے اداکاروں اور پروڈیوسر کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔

Getty Imagesچرنجیوی صدر جمہوریہ عبدالکلام سے گرانقدر شہری ایوراڈ پدم وبھوشن لیتے ہوئےپدم وبھوشن سمیت کئی ایوارڈ

انڈین حکومت نے چرنجیوی کو سنہ 2006 میں گرانقدر شہری اعزاز پدم بھوشن اور 2013 میں پدم وبھوشن سے نوازا۔

یہ فلم انڈسٹری اور سماج کے لیے ان کی خدمات کے لیے دیا جانے والا اعزاز تھا۔

چرنجیوی تیلگو فلم انڈسٹری کے دوسرے اداکار ہیں جنہیں اکینی نی ناگیشورا راؤ کے بعد پدم وبھوشن ایوارڈ ملا۔

اسی طرح چرنجیوی کو چار نندی ایوارڈز ملے ہیں جن میں آندھرا یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ اور کئی باوقار تنظیموں کے ایوارڈز بھی شامل ہیں۔

ابتدا میں فلاپ قرار دی گئی فلم ’شعلے‘ جس کے رقص، رومانس اور کہانی کے مداح اسے بھولے نہیں بھول پاتے10 دن میں 250 کروڑ کا بزنس کرنے والی فلم ’سیارہ‘ کیا معروف کورین فلم کا ری میک ہے؟ماضی کی سہانی یاد والی پرانی ہٹ فلمیں انڈین سنیما پر پھر سے کیسے دھوم مچا رہی ہیں؟پشپا 2 کے ہیرو الو ارجن کی گرفتاری پر ہنگامہ: ’کیا بھگدڑ مچنے پر کبھی کسی وزیر کو گرفتار کیا گیا؟‘بالی وڈ کی ’بے پرواہ‘ لڑکی جس نے انڈین سنیما کا ’سکرپٹ‘ بدل کر رکھ دیابس کنڈکٹر سے سپر سٹار بننے والے رجنی کانت جو 50 سال سے انڈیا میں ’مزدور طبقے کے ہیرو‘ ہیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More