لاہور کی مصروف شاہراہ پر دن دہاڑے ہونے والا قتل جس کے تانے بانے انڈر ورلڈ کی نسل در نسل دشمنی سے ملتے ہیں

بی بی سی اردو  |  Sep 03, 2024

Getty Images

65 سالہ محمد جاوید سوموار کی دوپہر جب اپنے بیٹے کے بچوں کو سکول سے لینے گھر سے نکلے تو یہ عام سا دن تھا۔

تقریبا آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد ان کی گاڑی لاہور کی مصروف کینال روڈ پر شاہ جمال کے قریب اشارے پر رکی تو شاید وہ نہیں جانتے تھے کہ اگلے چند لمحات میں کیا ہونے والا ہے۔

ابھی وہ اشارہ کھلنے کے منتظر ہی تھے کہ ان کی گاڑی کے دائیں جانب دو موٹر سائیکل رکے۔ ان دونوں موٹر سائیکلوں پر سوار افراد کے ہاتھوں میں اسلحہ تھا جس کا رخ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے محمد جاوید کی گاڑی کی جانب ہوا۔

فائرنگ کی زد میں آنے والے محمد جاوید موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ گاڑی میں سوار ان کی اہلیہ شدید زخمی ہو گئیں۔

اس واردات کی ایف آئی آر اور لاہور پولیس کے بیان کے مطابق لاہور جیسے شہر میں دن دہاڑے پیش آنے والا قتل کا یہ واقعہ کوئی عام جرم نہیں تھا بلکہ اس کے تانے بانے شہر کی انڈر ورلڈ کی دہائیوں پرانی دشمنی سے جا ملتے ہیں جس میں اب تک کئی افراد قتل ہو چکے ہیں۔

اس دشمنی میں ایک جانب ٹیپو ٹرکاں والا کا خاندان ہے تو دوسری جانب طیفی اور گوگی بٹ نامی کردار اور حالیہ چند دنوں کے دوران یہ دوسرا ایسا واقعہ ہے جس کے بعد لاہور میں یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ ان افراد سے جڑے تنازع میں ایک نیا اور جان لیوا موڑ آ چکا ہے جس کے اثرات لاہور کی سڑکوں پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

محمد جاوید کون تھے، ان کا اس انڈر ورلڈ سے کیا تعلق تھا اور پولیس کا کیا موقف ہے؟ اس سے قبل یہ جانتے ہیں کہ مقدمہ کی ایف آئی آر میں کیا کہا گیا ہے؟

’والدہ نے ملزمان کو خود دیکھا‘

اس واقعے کی ایف آئی آر مقتول کے بیٹے حمزہ جاوید کی مدیت میں لاہور کے اچھرہ تھانہ میں درج کی جا چکی ہے جس کے مطابق محمد جاوید اپنی 60 سالہ اہلیہ کے ساتھ اپنی انٹرکولر گاڑی پر دن ڈیڑھ بجے بچوں کو سکول سے لینے نکلے تھے۔

ایف آئی آر کے مطابق ’دو بجے کے قریب جب گاڑی شاہ جمال کے اشارے پر رکی تو اسی وقت دو موٹر سائیکلوں پر سوار مسلح افراد نے گاڑی کے دائیں جانب سے سیدھی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں محمد جاوید کے جسم پر دائیں جانب گولیاں لگنے سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ ان کی والدہ کو بھی دائیں کندھے پر بازو کے پاس اور دائیں ٹانگ پر پنڈلی کے قریب گولیاں لگیں۔‘

اس واقعے کے بعد منظر عام پر آنے والی فوٹیج میں ایک باریش شخص گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر خون میں لت پت دیکھے جا سکتے ہیں جن کا ایک ہاتھ سٹیئرنگ وہیل پر ہی موجود ہے۔ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق محمد جاوید کو پانچ گولیاں لگیں۔

ایف آئی آر کے مدعی نے کہا ہے کہ ان کی والدہ کو سروسز ہسپتال لے جایا گیا لیکن ’وہ ہوش میں تھیں اورانھوں نے ملزمان کو دیکھا بھی اور پہچان لیا۔‘

ایف آئی آر میں جن دو ملزمان کا نام دیا گیا ہے، پولیس ذرائع کے مطابق ان میں سے ایک امیر بالاج کے بھائی اور دوسرے ان کے دوست ہیں۔

واضح رہے کہ اندرون لاہور کے سرکلر روڈ کے باسی ’ٹرکاں والا‘ خاندان سے تعلق رکھنے والے امیر بالاج ٹیپو کو فروری میں اس وقت گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا جب وہ اپنے روایتی حفاظتی حصار کے ساتھ لاہور کے ایک پوش علاقے کی نجی ہاوسنگ سوسائٹی میں اپنے ایک دوست کی شادی کی تقریب میں شریک تھے۔

اس واردات کے بعد بالاج کے بھائی امیر مصعب نے قتل کا الزام خواجہ تعریف عرف طیفی بٹ اور خواجہ عقیل عرف گوگی بٹ پر عائد کیا تھا۔

محمد جاوید کون تھے؟

اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر مقتول کا تعلق انڈر ورلڈ سے جوڑا گیا۔ جب بی بی سی نے لاہور پولیس کے سی سی پی او بلال کمیانہ سے اس بارے میں رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ ’مقتول جاوید بٹ طیفی اور گوگی بٹ کے بہنوئی تھے۔‘

سی سی پی او لاہور بلال کمیانہ کا کہنا تھا کہ ان کی ابتدائی معلومات کے مطابق اس واقعے میں ’جاوید بٹ کو ذاتی دشمی کی بنیاد پر قتل کیا گیا ہے اور ابھی تک تو یہی لگ رہا ہے کہ یہ معاملہ اس قتل سے جا مل رہا ہے جس میں امیر بالاج ہلاک ہوئے تھے۔‘

سی سی پی او لاہور بلال کمیانہ کے مطابق ’جاوید بٹ طیفی اور گوگی بٹ کے بہنوئی ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے تمام مالی معاملات بھی دیکھتے تھے۔‘

تاہم انھوں نے واضح کیا کہ ’محمد جاوید بٹ کا کسی گینگ وار سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ بظاہر یہ شخص شریف تھا تاہم دشمنی میں رشتہ داری کی وجہ سے مارا گیا۔‘

بلال کمیانہ نے کہا کہ ابھی اس کیس میں مزید تحقیق کی جا رہی ہے جس کے بعد ہی اصل ملزمان کی نشاندہی کی جا سکے گی۔

انھوں نے بتایا کہ ’پولیس اس وقت شوٹرز کی تلاش میں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس واقعے کے بعد یہ کہنا کہ لاہور میں کوئی گینگ وار شروع ہو گئی ہے، غلط ہوگا۔‘

تاہم انھوں نے کہا کہ ’ابھی تک اس کیس سے جڑے جتنے قتل ہوئے ہیں، وہ سب بدلے اور دشمنی کی آڑ میں ہو رہے ہیں۔‘

واضح رہے کہ گزشتہ چند دنوں کے دوران اسی دشمنی سے جڑا یہ دوسرا قتل ہے۔

رواں ماہ ہی لاہور پولیس کے آرگنائزڈ کرائم یونٹ (سی آئی اے) کے ڈی آئی جی عمران کشور نے دعویٰ کیا تھا کہ امیر بالاج ٹیپو کے قتل کے ملزم احسن شاہ اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے ہیں۔ تاہم ان کے اہل خانہ نے اسے مسترد کیا ہے اور اس واقعے کو ایک 'ناجائز قتل' قرار دیا ہے۔

پولیس کا دعویٰ تھا کہ وہ ’ملزم کو برائے نشان دہی اور ساتھی ملزمان کی گرفتاری کے لیے تھانہ شاد باغ لے جا رہی تھی‘ جس کے دوران احسن شاہ کے ساتھیوں نے انھیں 'چھڑانے کے لیے پولیس پارٹی پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔

ان تمام وارداتوں کے تانے بانے اندرون شہر سے شروع ہونے والی دشمنی سے ملتے ہیں۔ گوگی بٹ اور طیفی بٹ ہیں کون اور ان کی ٹرکاں والا سے کیا دشمنی ہے ؟

بالاج ٹیپو ٹرکاں والا: اندرون لاہور میں انڈر ورلڈ اور نسل در نسل دشمنی کی داستانعاطی لاہوریا: وہ گینگسٹر جس کا تعاقب گوجرانوالہ پولیس کو سربیا کے جنگلوں تک لے گیاابراہیم بھولو: کراچی انڈر ورلڈ کا وہ ’قصاب‘ جس کا نیٹ ورک افریقہ اور مشرق وسطی تک پھیلاشعیب خان: کراچی انڈر ورلڈ کا وہ کردار جس کے دبئی تک پھیلے ’جوئے کے نیٹ ورک‘ پر ہاتھ ڈالنے کے لیے گورنر کو آرمی چیف تک جانا پڑادشمنی اور ٹیپو ٹرکاں والا کا ’عروج‘

بی بی سی نمائندہ عمر دراز کی فروری 2024 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ٹرکاں والا خاندان کے لیے اندرون لاہور کے مبینہ ’انڈر ورلڈ‘ کے چند بڑے کرداروں سے دشمنی کی بنیاد بِلا ٹرکاں والا کے قتل کے بعد پڑی۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافی اور تجزیہ نگار ماجد نظامی بتاتے ہیں کہ ٹرکاں والا کے نام سے مشہور خاندان بنیادی طور کشمیری ہیں اور ان میں کئی نامی گرامی پہلوان گزرے ہیں۔ ’یہ لاہور کے شاہ عالم گیٹ کے باہر کے علاقے جسے عرف عام میں شاہ عالمی کہا جاتا ہے وہاں آباد ہے۔‘

ان کا گڈز ٹرانسپورٹ کا بھی ایک وسیع کاروبار ہے اور یہیں سے غالباً ان کے ناموں کے ساتھ 'ٹرکاں والا' کا اضافہ ہوا۔

ماجد نظامی کہتے ہیں کہ امیر بالاج ٹیپو کے دادا بِلا ٹرکاں والا کی شادی جس خاندان میں ہوئی ان میں پاکستان کے نامی گرامی پہلوان نبی بخش گزرے ہیں۔

صحافی ماجد نظامی کے مطابق بِلا ٹرکاں والا کی آشنائی اُس دور کے اندرون لاہور کے 'انڈر ورلڈ' سے اس طرح ہوئی کہ ان کے ڈیرے پر اشتہاری پناہ لیتے تھے اور پھر ان اشتہاریوں کو وہ اپنے کاموں کے لیے استعمال کرتے تھے۔'

لیکن زیادہ تر یہ کام معمولی نوعیت کے جرائم تھے جن میں بیشتر دکانوں پر قبضہ کرنے جیسے معاملات ہوتے تھے۔ یا پھر 'بدمعاشی اور لڑائی جھگڑے' وغیرہ کے واقعات ہوتے تھے۔ تاہم بڑھتے ہوئے یہ کام یہاں تک پہنچا کہ ان کے آدمیوں کے ہاتھوں ایک قتل ہو گیا۔

اس واقعے میں بِلا ٹرکاں والا کے جوان بیٹے ٹیپو ٹرکاں والا کا نام آ رہا تھا۔ اس قتل اور اس سے جڑے بعد کے واقعات نے ٹرکاں والا خاندان کے لیے زندگی کا رخ ہمیشہ کے لیے بدل دیا لیکن اس کے چند حقائق کے حوالے سے مخلتف آرا پائی جاتی ہیں۔

صحافی ماجد نظامی کے مطابق یہ ایک قتل کا واقعہ تھا اور اس کے مقدمے میں بِلا ٹرکاں والا کے بیٹے عارف امیر عرف ٹیپو ٹرکاں والا کا نام آ رہا تھا۔ بلا ٹرکاں والا کے دو بااعتماد ملازم تھے جن کا نام حنیف بابا اور شفیق بابا بتائے جاتے ہیں۔

بِلا ٹرکاں والا نے قتل کے مقدمے میں سے اپنے بیٹے کا نام نکلوا کر حنیف کا نام دے دیا ،اس وعدے پر کہ وہ بعد میں اس کو رہا کروا لیں گے۔ لیکن حنیف سزا پا کر جیل چلا گیا۔

جنگ اور جیو گروپ سے منسلک لاہور کے صحافی میاں عابد کہتے ہیں کہ 'وہ جب سزا پوری کر کے جیل سے واپس آیا تو اس نے اور شفیق بابا نے مل کر بِلا ٹرکاں والا کو مارنے کا منصوبہ بنایا۔ انھیں اس بات کا غصہ تھا کہ بلا نے اپنے بیٹے کو بچانے کے لیے ان کو پھنسا دیا اور رہا بھی نہیں کروایا۔'

صحافی میاں عابد کہتے ہیں کہ حنیف بابا اور شفیق بابا کا باپ عید محمد، بِلا ٹرکاں والا کا پرانا ملازم اور ساتھی تھا جس کے ریٹائر ہونے پر یہ دونوں بھائی اس کی جگہ ان کے پاس ملازم ہوئے تھے اور ان کے گن مین ہوتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ 'انھوں نے پہلے بِلا کو مارنے کی ایک دو کوششیں کیں جو ناکام ہو گئیں اور بالآخر ایک دن اس کے ڈیرے پر ہی وہ اس کو مارنے میں کامیاب ہو گئے۔' بِلا کا قتل کر کے وہ دونوں فرار ہو گئے۔

بلا کے قاتلوں حنیف اور شفیق نے بِلا کو قتل کرنے کے بعد لاہور کے علاقے گوالمنڈی کے 'کاروباری' طیفی بٹ اور گوگی بٹ کے پاس جا کر پناہ لے لی۔

طیفی بٹ اور گوگی بٹ

صحافی ماجد نظامی کہتے ہیں کہ خواجہ تعریف عرف طیفی بٹ اور خواجہ عقیل عرفی گوگی بٹ اس زمانے میں اندرون لاہور کے انڈر ورلڈ کے بڑے نام تھے۔

'وہ خود کو کاروباری کہلاتے تھے جبکہ زیادہ تر ان کا تعلق زمینوں اور جائیدادوں پر قبضے اور بدمعاشی سے جوڑا جاتا تھا۔'

وہ کہتے ہیں یہ دونوں بھی اپنے ڈیروں پر اشتہاریوں اور جرائم پیشہ افراد کو پناہ دیتے تھے اور پھر انھیں ہی اپنے کاموں کے لیے استعمال بھی کرتے تھے۔ صحافی میاں عابد کہتے ہیں کہ طیفی بٹ اور گوگی بٹ دونوں پھوپھی زاد بھائی ہیں۔

'یہ دونوں پولیس کو زیادہ تر زمینوں پر ناجائز قبضوں اور بھتّہ وغیرہ کے مقدمات میں مطلوب رہتے تھے۔ یہ اشتہاری مجرموں کو پناہ بھی دیتے تھے اور مجرم بھی ان کے لیے کام کرتے تھے۔ انڈرورلڈ میں ان لڑائیوں میں بھی ان اشتہاریوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔'

صحافی ماجد نظامی کہتے ہیں کہ جب سنہ 1994 میں بِلا ٹرکاں والا کو مارنے کے بعد حنیف اور شفیق نے ان کے پاس پناہ لی تو وہاں سے ٹیپو ٹرکاں والا کی ان سے خاندانی دشمنی کی بنیاد پڑی۔

'ٹیپو اس معاملے میں ہوشیار تھا وہ خود سامنے نہیں آیا لیکن اس نے ان دونوں (حنیف اور شفیق) کو مروا دیا۔ ان دونوں گینگ کے لوگ پولیس کو ایک دوسرے کے خلاف مخبریاں بھی دیتے تھے۔'

ماجد نظامی سمجھتے ہیں کہ ٹیپو ٹرکاں والا نے 'مل ملا کر پولیس مقابلے میں ان دونوں کو مروایا۔'

صحافی میاں عابد کہتے ہیں کہ یہ ایک تاثر ضرور موجود ہے کہ 'پولیس مقابلے' میں مارے جانے کے پیچھے ٹیپو ٹرکاں والا کا ہاتھ تھا تاہم 'کیونکہ اس واقعے کو ایک پولیس مقابلہ قرار دیا گیا تھا تو کہا تو یہی جائے گا کہ ان کو پولیس نے مارا۔'

اس کے بعد ٹیپو ٹرکاں والا پر کئی قاتلانہ حملے ہوئے جن میں وہ بچتے رہے۔ ان حملوں میں بھی مختلف اشتہاری اور 'کرائے کے شوٹر' استعمال ہوتے تھے تاہم تحقیقات کا تانہ بانہ طیفی اور گوگی بٹ کے گینگ سے جا ملتا۔

سنہ 2003 میں ٹیپو ٹرکاں والا پر بڑا حملہ لاہور کچہری کے علاقے میں ہوا۔ اس حملے میں ان کے پانچ محافظ مارے گئے۔ وہ خود شدید زخمی ہو گئے اور انھیں ہسپتال منتقل کیا گیا۔

ماجد نظامی کہتے ہیں کہ اس واقعے کا الزام بھی ٹیپو ٹرکاں والا نے طیفی اور گوگی بٹ پر عائد کیا۔

وہ کہتے ہیں 'اس واقعے کے بعد ٹیپو نے اپنے خاندان کو دبئی منتقل کر دیا اور خود بھی کچھ عرصے کے لیے ملک سے باہر چلے گئے۔'

ایک مرتبہ جب وہ دبئی سے لاہور واپس پہنچے تو ایئرپورٹ کے باہر ایک مسلح شخص نے ان پر فائرنگ کر دی۔

انھیں ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن ان کی موت ہو گئی۔ ان کی موت کا سن کر ان کا خاندان بھی دبئی سے واپس لاہور پہنچ گیا۔ ان میں ان کے سب سے بڑے بیٹے امیر بالاج ٹیپو، ان کے دو چھوٹے بھائی اور ایک بہن شامل تھیں۔

انڈر ورلڈ اور کرائے کے قاتل: لاہور میں جرم کی دنیا کیسے چلتی ہے؟مختار انصاری کی موت: انڈیا میں انڈر ورلڈ کا بڑا نام جنھیں جیل میں ’زہر دیے جانے‘ کا ڈر تھاحاجی مستان سے لے کر کریم لالہ تک ممبئی میں انڈرورلڈ کا اثرو رسوخ کیسے قائم ہوا؟انسپکٹر ذیشان کاظمی: کراچی آپریشن کے ’انکاؤنٹر سپیشلسٹ‘ اور ’خوف کی علامت‘ کو کیسے قتل کیا گیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More