بلوچستان میں شدت پسندی اور حکومتی حکمتِ عملی پر سوال: ’شورش سے دہشت گردی کے انداز میں نمٹنا بیک فائر کر جاتا ہے‘

بی بی سی اردو  |  Aug 27, 2024

Getty Images

پاکستان کے صوبے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں 25 اگست کی شب شروع ہونے والے حملوں میں 10 فوجی اہلکاروں سمیت چار درجن سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں، جس کے بعد بلوچستان حکومت کا کہنا ہے کہ ’معصوم شہریوں کے قاتلوں سے بدلہ لیا جائے گا۔‘

ان حملوں اور سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’معصوم شہریوں کے قاتلوں سے بدلہ لیا جائے گا اور انھیں قانون کے مطابق قرارواقعی سزا دی جائے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں شدت پسندوں کے حملے میں 38 شہری ہلاک ہوئے۔

خیال رہے بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی جانب سے یہ حملے مقبول سیاسی رہنما نواب اکبر بگٹی کی 18ویں برسی کے موقع پر کیے گئے تھے اور کالعدم علیحدگی پسند تنظیم جانب سے ’آپریشن ھیروف‘ کا نام دیا گیا تھا۔

کالعدم بی ایل اے کے مطابق بلوچستان کے علاقے لسبیلا میں پاکستانی فوج کے ایک کیمپ پر حملے میں دو خود کش بمباروں نے کارروائی کی، جس میں ایک حملہ آور خاتون تھیں۔

صوبائی وزیرِ اعلیٰ سرفراز بُگٹی کا کہنا ہے کہ فوج کے کیمپ پر کیے جانے والا حملہ پسپا ہو گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ان دہشت گردوں نے اپنا حشر لسبیلہ میں دیکھ لیا جہاں سیکورٹی فورسز نے کیمپ کے گیٹ پر شدت پسندوں کو ہلاک کردیا اور ان کے حملے کو ناکام بنا دیا۔‘

اب تک ہونے والے حملوں میں سب سے زیادہ جانی نقصان موسیٰ خیل میں ہوا جہاں مسلح افراد نے پنجاب اور بلوچستان کے درمیان سفر کرنے والی متعدد گاڑیوں کو روک ان سے لوگوں کو اتار کر شناخت کے بعد گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔

صوبہ بلوچستان میں بڑھتیہوئی شدت پسندوں کی کارروائیاں کیا سکیورٹی یا انٹیلی جنس کی ناکامی ہے، پنجاب کے شہریوں کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے، کیا صوبے میں حکومت کی رِٹ باقی ہے؟ یہ کچھ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات بی بی سی نے جاننے کی کوشش کی ہے۔

بلوچستان میں شدت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ

بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں کی کارروائیاں تقریباً دو دہائیوں سے جاری ہیں، تاہم حالیہ برسوں میں ان میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے شہریوں خصوصاً مزدوروں کو شناخت کرنے کے بعد قتل کیا گیا ہو۔

رواں برس اپریل میں بھی بلوچستان کے علاقے نوشکی میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو شہریوں کو بس سے اُتار کر قتل کردیا گیا تھا، جبکہ مئی میں شدت پسندوں نے ضلع گوادر سے ملحقہ ایک علاقے میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات مزدوروں کو ہلاک کر دیا تھا۔

ان تمام کارروائیوں کی باضابطہ ذمہ داری کسی علیحدگی پسند گروہ نے تو قبول نہیں کی تھی، لیکن ماضی میں کالعدم شدت پسند تنظیمیں ایسے حملوں میں ملوث رہی ہیں۔

پاکستانی تھنک ٹینک پاکستان انسٹٹیوٹ فور کنفلکٹ اینڈ پیس سٹڈیز کے مطابق گذشتہ برس بلوچستان میں کم از کم 170 حملے ہوئے تھے، جس میں 151 عام افراد اور 114 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔

بلوچستان میں سکیورٹی صورتحال اور شدت پسندوں کے حملوں کے حوالے سے صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ان حملوں کو سکیورٹی اور انٹیلی جنس کی ناکامی کہنا درست نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان میں ہزاروں کلومیٹر پر محیط سڑکیں ہیں، وہاں کوئی بھی چور اور ڈاکو سڑک پر کھڑا ہو جائے گا تو اسے سکیورٹی کی ناکامی نہیں کہا جا سکتا۔‘

Getty Images

پاکستان کے وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی بھی بلوچستان میں ہونے والے حملوں کو سکیورٹی کی ناکامی ماننے سے انکار کرتے ہیں۔

اسلام آباد میں انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ہمارے کسی بھی ادارے کی اس میں کوئی ناکامی نہیں ہے۔ دہشت گردی ہمارے لیے ایک مسئلہ ضرور ہے مگر اس کے خلاف ہماری حکمتِ عملی جاری ہے۔‘

بلوچستان کے سینیئر وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے موسیٰ خیل میں 22 افراد کی ہلاکت پر تبصرہ کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ بُزدلانہ کارروائیاں ہیں، لوگوں کا شناختی کارڈ چیک کر کے انھیں قتل کرنا۔ کیا نواب اکبر بُگٹی کی موت کا بدلہ یہ غریب مزدوروں کو مار کر لیں گے؟‘

تجزیہ کاروں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پاکستانی حکام کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے۔

ماضی میں پولیس میں بطور انسپیکٹر جنرل، انٹیلی جنس بیورو میں بطور ڈائریکٹر جنرل اور نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی میں بطور کوآرڈینیٹر خدمات سرانجام دینے والے احسان غنی کہتے ہیں کہ حکومتوں کو ’ابھی تک یہی علم نہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے؟‘

’کیا وہاں شناخت کا مسئلہ ہے؟ کیا انھیں یہ خطرہ ہے کہ ان کی شناخت ختم ہو جائے گی؟‘

بلوچستان میں شدت پسندوں کے حملے: جوابی کارروائیوں میں 21 شدت پسند اور 14 سکیورٹی اہلکار ہلاک، آئی ایس پی آرشاری بلوچ کے اہلخانہ کو اب بھی لگتا ہے ’جیسے یہ کوئی بُرا خواب ہے‘کراچی یونیورسٹی: حملہ آور کون تھیں اور پاکستان میں خواتین خودکش حملہ آوروں کی تاریخ کیا ہے؟پنجابی مزدور، پنجابی دانشورمذاکرات یا آپریشن: شدت پسندوں کے خلاف حکومت کی حکمت عملی کیا ہو گی؟

بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ سرفراز بگٹی نے صاف الفاظ میں کسی بڑے آپریشن کا اعلان تو نہیں کیا، لیکن انھوں نے ’معصوم شہریوں کے قاتلوں سے بدلہ لینے‘ کا ضرور اعلان کیا ہے۔

ان ہی کی بلوچستان حکومت میں شامل وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بدقسمتی یہ ہے کہ جب ان دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تو لوگ رونا شروع کر دیتے ہیں کہ آپریشن ہو رہا ہے۔‘

بلوچستان کے صوبائی وزیر دعویٰ کرتے ہیں کہ شدت پسندوں کو کارروائیاں کرنے کے لیے ’غیر ملکی فنڈز‘ مل رہے ہیں۔

’میں سمجھتا ہوں کہ ان کے خلاف ایک منظم آپریشن ہونا چاہیے۔‘

پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے بھی صوبے میں کسی بڑے فوجی آپریشن کرنے کے حوالے سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

وفاقی وزیرِ محسن نقوی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’ہم دہشتگردوں کو ناراض بلوچ نہیں کہیں گے۔ آپ ہم پر حملہ کریں اور ہم آپ کو ناراض بلوچ کہیں ایسا نہیں ہو گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان حملوں میں بیرونی طاقت ملوث ہے، اس بات کے شواہد ملے ہیں اور انھیں بہت جلد بے نقاب کریں گے۔‘

تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں شدت پسندی کے خاتمے کے لیے فوجی آپریشن کرنا درست قدم نہیں ہوگا۔

نیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم اتھارٹی کے سابق کوآرڈینیٹر احسان غنی سمجھتے ہیں کہ ’کسی مسئلے کا حل ڈھونڈنے کے لیے سب سے پہلے آپ کو مسئلے کا علم ہونا چاہیے۔‘

’شورش اور دہشتگردی میں فرق ہے۔ شورش کو اکثر مقامی افراد کی ہمدردی حاصل ہوتی ہے اور لوگ اس کے مقاصد کی بھی اکثر حمایت کرتے ہیں۔‘

Getty Images

احسان غنی کے مطابق شورش سے دہشتگردی کی طرح نمٹنا درست نہیں، ’یہ طریقے اکثر بیک فائر کر جاتے ہیں۔‘

انھوں نے گذشتہ دنوں پنجاب کے علاقے ماچھکہ میں کچّے کے ڈاکوؤں کے حملے میں 12 پولیس اہلکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’کچّے کا علاقہ آپ سے سنبھالا نہیں جا رہا اور آپ پورے صوبے میں آپریشن کی بات کر رہے ہیں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ سندھ اور بلوچستان میں موجود مسلح تنظیموں کے ٹھکانے بھی کچّے کے علاقے میں موجود ہیں۔

لندن سکول آف اکنامکس سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر منسلک ڈاکٹر مہوش احمد بھی احسان غنی سے اتفاق کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ بلوچستان میں شدت پسندی کے مسئلے کا کوئی ’فوجی حل‘ نہیں۔

ان کے مطابق ’ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ لوگ مسلح تنظیموں میں کیوں شامل ہو رہے ہیں؟ جب لوگ جبری طور گمشدہ کیے جائیں گے اور مسخ شدہ لاشیں ملیں گی تو پھر ان تنظیموں کو نئے لوگ بھرتی کرنے کے لیے کسی مہم چلانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔‘

خیال رہے بلوچستان میں مختلف گروہ برسوں سے مبینہ جبری گمشدگیوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کی جانب سے اکثر ریاستی اداروں پر لوگوں کو مبینہ طور پر اغوا کرنے کے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں۔

پاکستانی نے ماضی میں متعدد مرتبہ مسلح تنظیموں کے رہنماؤں سے مذاکرات کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن ہر بار یہ بات چیت ناکام ہوئی ہے۔

احسان غنی کا کہنا ہے کہ ’یہ مسئلہ فوجی آپریشن سے نہیں حل ہو گا بلکہ بات چیت سے ہو گا؟ لیکن یہاں یہ سوال اہم ہے کہ بات کس سے کی جائے؟ پُرانے لوگ سائیڈ ہر ہو گئے ہیں اور اب علیحدگی پسند تنظیموں کی قیادت نئی اور مختلف ہے۔‘

’ان سے پارلیمنٹ کے ذریعے بات کریں تاکہ ان کا بھی اس نظام پر کچھ اعتماد بڑھے۔‘

تاہم بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ سرفراز بگٹی کہتے ہیں کہ اسلحہ پھینکنے والوں سے حکومت بات چیت کرنے کو تیار ہے۔

’لیکن ہم دہشت گردی پر خاموش تماشائی نہیں بنیں گے اور اس کے خلاف جو بھی اقدامات کرنے پڑے وہ ہم کریں گے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ہم مذاکرات کس سے کریں کیونکہ یہ تو صرف بندوق کے منھ سے بات کررہے ہیں اور دہشت گردی کا بازار گرم کررکھا ہے ۔‘

تاہم ڈاکٹر مہوش احمد کہتی ہیں کہ ’اس صورتحال کا مجموعی طور پر سیاسی حل نکالنا ہو گا اور سیاسی حل صرف بات چیت ہی نہیں ہے بلکہ ہمیں بلوچستان میں لوگوں کو جمہوری خودمختاری اور سیاسی خودمختاری دینی ہو گی۔‘

ڈپٹی کمشنر پنجگور کی ہلاکت: ’بندوق اتنی طاقتور تھی کہ گولیاں گاڑی کا شیشہ اور سیٹ چیرتی ہوئی ذاکر بلوچ کو لگیں‘’اگر میرا بھائی بی ایل اے کے کیمپ میں ہوتا تو ہم اس گرمی میں احتجاج کیوں کرتے؟‘گوادر پورٹ اتھارٹی کے دفتر پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والا مجید بریگیڈ کیا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More