ولادیمیر پوتن: 24 سال میں مسلسل پانچویں بار صدر بننے والے روسی سربراہ جو مغرب کے لیے ایک چیلنج بن چکے ہیں

بی بی سی اردو  |  May 08, 2024

اگر وہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر بھی چلتے تو یہ راستہ باآسانی طے کر لیتے۔

ولادیمیر پوتن پانچویں مرتبہ کریملن کے عظیم محل سے سینٹ اینڈریو تھرون ہال تک پیدل چلے اور ایک بار پھر چھ سال کی مدت کے لیے روس کے صدر کا حلف اٹھایا۔

پوتن نے وزرا اور معززین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم متحد اور عظیم قوم ہیں۔ ہم مل کر تمام رکاوٹوں پر قابو پالیں گے، اپنے تمام منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں گے اور جیت ہماری ہی ہو گی۔‘

اگرچہ ریڈ کارپٹ پر چل کر جانے والا راستہ ان کے لیے نیا نہیں تھا لیکن مئی 2000 میں صدر پوتن کی پہلی تقریبِ حلف برداری کے بعد سے اب تک بہت کچھ بدل چکا ہے۔

اس وقت صدر پوتن نے ’جمہوریت کے تحفظ، ترقی اور روس کی حفاظت‘ کرنے کا عہد کیا تھا۔

24 سال بعد آج کریملن کا لیڈر یوکرین کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ ایک ایسی جنگ جس میں روس کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اندرون ملک جمہوریت کو فروغ دینے کے بجائے صدر پوتن اسے کمزور کر رہے ہیں۔۔۔ انھوں نے ناقدین کو جیلوں میں ڈالنے سے لے کر اقتدار کے حوالے سے اپنے احتساب کے ہر ممکن طریقے کو ختم کر دیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی سابق قومی سلامتی کی مشیر فیونا ہل کا خیال ہے کہ ’پوتن اب خود کو ولادیمیر عظیم، روسی زار سمجھنے لگے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’پوتن کی پہلی دو صدارتی مدتوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ ان کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہیں۔۔۔ انھوں نے بہت سے مسائل کو حل کیا اور ملک کو سیاسی طور پر مستحکم بنایا۔ ان ادوار میں روسی معیشت اور نظام کسی بھی سابقہ ​​دور سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔‘

’یوکرین کی جنگ نے ڈرامائی طور پر اس رفتار کوسست کر دیا ہے۔ پوتن نے خود کو عملیت پسند کے بجائے سامراجی شخصیت میں ڈھال لیا ہے۔‘

BBCمغرب کی مشکل یہ ہے کہ بڑھتے ہوئے آمرانہ اثر ورسوخ والے جدید دور کے اس روسی زار سے کیسے نمٹا جائے

ہال میں پوتن 5.0 یا ان کے پانچویں دورِ صدارت کے کافی حامی تھے۔

روسی ایم پی پیوتر تالستائی نے مجھے بتایا ’پوتن روس کو فتح کی طرف لے جا رہے ہیں۔‘

میں نے ان سے پوچھا فتح سے ان کی کیا مراد ہے؟

’فتح کا مطلب ہے جب برطانیہ اور مغرب کو یہ احساس ہو جائے کہ روس ایک سپر پاور ہے اور وہ روس کے قومی مفادات کو تسلیم کریں۔‘

’اور اگر مغرب ایسا نہیں کرتا؟‘

ایم پی نے کہا ’تو پھر یہ مغرب کا خاتمہ ہے۔‘

میں کریملن محل کے اندر صدر پوتن کے سب سے بڑے مداحوں میں سے ایک سے ملا۔

روس کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے سپیکر ویاچسلاو ولوڈن اکثر یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ’اگر پوتن ہے تو روس ہے، اگر پوتن نہیں ہے تو روس کا وجود بھی نہیں ہے۔‘

ولوڈن کہتے ہیں کہ ’مغرب ایک ایسے کمزور روس کی خواہش رکھتا ہے جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے مگر پوتن ان کے راستے میں حائل ہیں۔‘

یہاں یہ مت بھولیے کہ جب سے ولادیمیر پوتن پہلی بار اقتدار میں آئے ہیں، تب سے اب تک امریکہ میں پانچ صدر اور برطانیہ کے سات وزرائے اعظم تبدیل ہو چکے ہیں۔

روس میں تقریباً ایک چوتھائی صدی تک اقتدار پر قابض رہنے کے بعد پوتن نے خاصا نام کمایا ہے۔ ماضی میں لوگ شاید ہی ’بریژنیزم‘، ’گورباچوزم‘ یا ’یلسنزم‘ کے بارے میں بات کرتے تھے۔ یعنی ماضی کے حکمرانوں کا شاید ہی ایسا فین کلب ہو جتنے مداح پوتن کے ہیں۔

مگر ’پوتن ازم‘ ایک حقیقیت ہے۔

کارنیگی یوریشیا روس سنٹر کے سینئر فیلو آندرے کولسنیکوف کہتے ہیں ’ہماری تاریخ میں ایک اور سٹالنزم‘ بھی گزرے ہیں۔

ان کا ماننا ہے کہ ’پوتن ازم، سٹالنزم کا دوسرا جنم ہے۔ وہ سابق سوویت آمر سٹالن کی طرح برتاؤ کرتے ہیں۔ اس کی طاقت سٹالن جیسی ہی ہے۔ وہ بہت زیادہ سیاسی جبر استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور سٹالن کی طرح زندگی کے خاتمے تک خود کو اقتدار میں رکھنا چاہتے ہیں۔‘

اور مغرب کی مشکل یہ ہے کہ بڑھتے ہوئے آمرانہ اثر ورسوخ والے جدید دور کے اس روسی زار سے کیسے نمٹا جائے جو روس کو دوبارہ ایک عظمت سلطنت بنانے کے خواب دیکھتا ہے اور جوہری ہتھیاروں کے ساتھ اس کی عظمت بحال کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

ولادیمیر پوتن : سرکاری کوارٹرز میں رہنے والے سابق جاسوس صدر کیسے بنے؟روس میں صدارتی انتخاب: پوتن کی ’یقینی فتح‘ کا تاثر، مگر پھر بھی یہ الیکشن اتنا اہم کیوں؟روس کے انتخابات میں ولادیمیر پوتن کی جیت کیوں یقینی تھی؟

فیونا کا ماننا ہے کہ ’جوہری ہتھیاروں کے معاملے میں ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں۔‘

’جس وقت پوتن نے یوکرین کے خلاف جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی تھی، تب چین، انڈیا، جاپان جیسے چند ممالک غیر معمولی طور پر گھبرا گئے تھے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ہم جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں اس طرح کی دھمکیوں کو ختم کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی فریم ورک بنا کر روس پر پابندیاں نافذ کر سکتے ہیں۔

’شاید یہ ایک مثال ہے کہ ہم ولادیمیر پوتن کے ساتھ کیسے نمٹ سکتے ہیں جو بہت سے معاملات میں ایک من مانی کرنے والے رہنما کی طرح برتاؤ کر رہے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ہمیں ایک ایسا سختی والا ماحول بنانے کرنے کی ضرورت ہے جس میں، پوتن جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، اس قسم کے اقدامات اٹھانے کی انھیں کم سے کم اجازت ہو۔

سرکاری طور پر ولادیمیر پوتن نے مارچ کے صدارتی انتخابات میں 87 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ تاہم ایک ایسا انتخاب جسے بڑے پیمانے پر غیر آزادانه اور غیر منصفانه مانا جاتا ہے، اس میں پوتن کو کسی سنجیدہ اپوزیشن کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

میں نے یہی سوال روس کے مرکزی الیکشن کمیشن کی چیئرپرسن ایلا پامفیلووا کے سامنے رکھا۔

میں نے ان سے کہا ’صدر کے بہت سے مخالفین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں تھی۔‘

پامفیلوفا نے جواب دیا ’جو لوگ ایسی تنقید کرتے ہیں وہ یا تو کبھی روس نہیں گئے یا طویل عرصے تک روس میں رہے نہیں ہیں۔ یہ سب خرافات اور جھوٹ ہے۔‘

BBCویلنٹینا کہتی ہیں کہ ’ہمیں ڈر ہے کہ اگر پوتن چلے جائیں تو اگلا حکمران کون آئے گا‘

کریملن کا عظیم محل وہ واحد جگہ نہیں ہے جہاں آپ کو ولادیمیر پوتن نظر آ سکتے ہیں۔

ماسکو سے 70 میل دور کاشیرا کے قصبے میں پوتن کا ایک بہت بڑا پورٹریٹ لگا ہے جو پوری دیوار پر پھیلا ہوا ہے، اس پورٹریٹ نے اپارٹمنٹ بلاک کے ایک پورے حصے کو ڈھانپ رکھا ہے۔

کاشیرا میں ولادیمیر پوتن آپ کو دیکھ رہے ہیں۔

سڑک کے کنارے پھول بیچ رہی پنشنر ویلنٹینا کہتی ہیں ’مجھے یہ پسند ہیں۔‘

’پوتن کے خیالات اچھے ہیں اور وہ لوگوں کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہماری پنشن زیادہ نہیں ہے لیکن وہ ایک ہی بار میں تو سب کچھ ٹھیک نہیں کر سکتے۔‘

میں نے یاد دلایا کہ وہ تقریباً 25 سال سے حکمران ہیں۔

ویلنٹینا جواب دیتی ہیں کہ ’لیکن ہمیں ڈر ہے کہ اگر پوتن چلے جائیں تو اگلا حکمران کون آئے گا۔‘

دیوار کے پاس سے گزرنے والی وکٹوریہ کہتی ہیں ’روس میں، ہم سب سے اسی طرح سوچنے کی توقع کی جاتی ہے۔‘

’اگر میں پوتن کے خلاف کچھ کہتی ہوں تو میرے شوہر کہتے ہیں: تم نے اگر پھر سے ہوتن پر تنقید کی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔ وہ پوتن کا دیوانہ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر پوتن نہ ہوتے تو یہاں کی زندگی 1990 کی دہائی کی طرح مشکل ہوتی۔‘

جب میں نے ایک اور راہگیر الیگزینڈر سے پوچھا کہ وہ صدر کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، تو اس نے جواب دیا: ’آج کل اپنی رائے کا اظہار کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ میں کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔‘

میں نے جتنے لوگوں سے بات کی ان میں سے زیادہ تر کا کہنا ہے کہ وہ پوتن کی تصویر کے عادی ہیں اور اسے دیکھے بغیر گزر جاتے ہیں۔

بالکل اسی طرح جیسے وہ روس کو چلانے والے اس شخص کے عادی ہو گئے ہیں جس کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔

ولادیمیر پوتن : سرکاری کوارٹرز میں رہنے والے سابق جاسوس صدر کیسے بنے؟روس میں صدارتی انتخاب: پوتن کی ’یقینی فتح‘ کا تاثر، مگر پھر بھی یہ الیکشن اتنا اہم کیوں؟روس کے انتخابات میں ولادیمیر پوتن کی جیت کیوں یقینی تھی؟زہر اور قیدِ تنہائی سے اعصابی حملوں تک: پوتن کے سیاسی مخالفین کو کتنی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More