Getty Images
پاکستان میں آٹھ فروری 2024 کے انتخابات کے بعد وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔ گذشتہ روز اعلان کردہ نئی وفاقی کابینہ میں پرانے چہروں کے ساتھ کچھ نئے چہروں کو بھی شامل کیا گیا ہے جن میں نمایاں نام محمد اورنگزیب کا ہے جنھیں وفاقی وزارت خزانہ کا قلمدان دیا گیا ہے۔
اگرچہ ملک کی نئی وفاقی کابینہ میں اسحاق ڈار بھی شامل ہیں تاہم اس بار انھیں وزارت خزانہ کی ذمہ داری نہیں سونپی گئی بلکہ ان کی بجائے یہ ذمہ داری محمد اورنگزیب کے حوالے کی گئی ہے جو پیشے کے لحاظ سے ایک بینکر ہیں اور گذشتہ پانچ سال سے حبیب بینک لمٹیڈ کے صدر تھے۔
وفاقی کابینہ میں اسحاق ڈار کا وفاقی وزیر خزانہ نہ ہونا جہاں بہت سوں کے لیے حیران کن ہے تو دوسری جانب محمد اورنگزیب کا اس ذمہ داری کے لیے انتخاب بھی ایک نئی پش رفت ہے کیونکہ نواز لیگ کے آخری تین ادوار میں اسحاق ڈار نے ہی وزارت خزانہ کی مشکل ذمہ داری نبھائی ہے۔
محمد اورنگزیب کے لیے جہاں وزارت خزانہ ایک نیا تجربہ ہے تو اس سے بڑھ کر ملک کی موجودہ معاشی حالت سے نمٹنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے، کیونکہ پاکستان اس وقت ایک جانب اندرونی و بیرونی قرضوں کے پہاڑ جیسے بوجھ کے نیچے دبا ہوا ہے جن کی مجموعی مالیت اس وقت 130 ارب ڈالر سے زائد ہے تو دوسری جانب ملک میں مہنگائی کی شرح فروری کے مہینے میں 23.1 فیصد کی بلند سطح پر موجود ہے جس کے باعث عام آدمی کے لیے کھانے پینے کی اشیا سے لے کر بجلی و گیس کے اضافی بل ہیں۔
ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کا حجم بہت کم ہے اور ملکی برآمدات میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو رہا جس کے ذریعے تجارتی اور جاری کھاتوں کے خساروں پر قابو پایا جا سکے، اور یہ سب ملکی روپے کی قدر میں گراوٹ کا سبب بن رہا ہے اور ایک ڈالر کی قیمت 280 روپے ہو گئی ہے اور لامحالہ ملک میں مہنگائی میں اضافے کی بڑی وجہ بن گیا ہے۔
محمد اورنگزیب کون ہیں؟
محمد اورنگزیب پاکستان میں پارلیمان کے رکن نہیں بلکہ وہ پاکستان کے چند بڑے بینکوں میں سے ایک حبیب بینک لمیٹڈ کے صدر رہے ہیں۔
پاکستان میں ماضی میں بھی بینکرز وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کے جانب سے جارہ کردہ تفصیلات کے مطابق محمد اورنگزیب نے 30 اپریل 2018 کو حبیب بینک کے صدر اور چیف ایگزیکٹو کا عہدہ سنبھالا تھا۔
اس سے پہلے وہ جے پی مورگن گلوبل کارپوریٹ بینک ایشیا کے چیف ایگزیکٹو آفیسر بھی رہ چکے ہیں۔ محمد اورنگزیب اے بی این امرو بینک اور آر بی ایس میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر رہنے کا 30 سالہ تجربہ بھی رکھتے ہیں۔
ایسوی ایشن کے مطابق وہ واحد پاکستانی ہیں جن کے پاس ڈبلیو ایس جے اور ڈاوجانز گروپ کے زیر نگرانی گلوبل سی او کونسل کی خصوصی رکنیت ہے۔
محمد اورنگزیب نے بی ایس اور ایم بی اے کی تعلیم وارٹن سکول، یونیورسٹی آف پنسلوانیا امریکہ سے حاصل کی۔
نینشل بینک آف پاکستان کے سابق چیئرمین منیر کمال نے بی بی سی کو بتایا کہ محمد اورنگزیب ایک شاندار بینکاری کیرئیر کے حامل ہیں اور اب تک ان کا اس شعبے میں ٹریک ریکارڈ بہت شاندار رہا ہے۔
Getty Imagesاسحاق ڈار کو وزیر خزانہ نہ بنانے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟
پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومتوں میں وزارت خزانہ پارٹی کے قائد نواز شریف کے قریبی ساتھی اسحاق ڈار کو سونپی گئی۔ اسحاق ڈار پہلی مرتبہ 1998 میں نواز لیگ کے دور میں وفاقی وزیر خزانہ بنے۔ 2013 میں نواز لیگ کی حکومت میں ایک بارپھر وہ وزیر خزانہ بنے تاہم 2017 میں نواز شریف کی سپریم کورٹ سے نا اہلی کے بعد جب شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم بنے تو مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ بنے۔
اپریل 2022 میں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کے پہلے پانچ مہینوں تک مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ رہے تاہم ستمبر 2022 کے آخر میں اسحاق ڈار ایک بار پھر وزیر خزانہ بن گئے۔
تاہم مسلم لیگ ن کی موجودہ نئی مخلوط حکومت میں اسحاق ڈار وفاقی وزیر خزانہ نہ بن سکے۔ ان کے وزیر خزانہ نہ بننے کے بارے میں سینیئر صحافی خرم حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ان کو وزیر خزانہ نہ بنانے کی وجہ تو یہ ہے کہ گذشتہ حکومت کے دور میں بطور وزیر خزانہ ڈیلیور نہیں کر پائے کیونکہ ان کی وجہ سے پاکستان کا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) سے پروگرام جون 2023 میں تقریباً ڈی ٹریک ہو گیا تھا۔‘
اس سلسلے میں پاکستان کے معروف ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا اسحاق ڈار کو نہ لانے کی بڑی وجہ ان کے ماضی میں آئی ایم ایف کے خلاف بیانات ہیں جن کی وجہ سے ایک محاذ آرائی کا تاثر ملا۔
انھوں نے کہا ’اس لیے اسحاق ڈار کے بجائے ایک ایسا شخص لایا گیا ہے جو ان سے بہتر انداز میں بات کر سکے۔‘
واضح رہے کہ گذشتہ دورِ حکومت میں اسحاق ڈار کے کچھ بیانات کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر ہوئی تھی اور اس وقت وزیر اعظم شہباز شریف کو آئی ایم ایف کے اعلیٰ حکام سے براہ راست بات کرنی پڑی۔
ماہر معیشت علی خضر نے اس سلسلے میں بتایا کہ ’اسحاق ڈار کی معیشت کو چلانے کے لیے جو پالیسی رہی اس کی افادیت ختم ہو چکی ہے۔‘
انھوں نے کہا ’اسحاق ڈار کی ڈالر کی قیمت فکس کرنے کی پالیسی اب کارآمد نہیں ہے تو دوسری جانب اکاوئنٹنگ اور اعداد وشمار میں تبدیلی کے ذریعے چلائی جانے والی ان کی پالیسی اپنی لائف پوری کر چکی ہے اس لیے یہی لگتا ہے کہ اب انھیں وزیر خزانہ نہیں بنایا گیا۔‘
’سیاسی مفادات‘ پر مبنی فیصلے یا ناقص حکمت عملی: پاکستانی معیشت اس نہج تک کیسے پہنچی؟معیشت اور جمہوریت: پاکستان کس سمت میں آگے بڑھ رہا ہے؟پاکستان کی غیر یقینی معاشی اور سیاسی صورتحال اور عوام: ’دعا کرتے ہیں کل کے کھانے کا کوئی راستہ مل جائے‘بینکر محمد اورنگزیب کو وزیر خزانہ بنانے کی وجہ کیا ہے؟
پاکستان کے نئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب ایک بینکر ہیں جو اس بار مسلم لیگ ن کی حکومت میں وزارت خزانہ کے لیے ایک نیا چہرہ ہیں۔
پاکستان میں ماضی میںبھی بینکرز وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بینکر شوکت عزیز ملک کے وزیر خزانہ رہے تو پی پی پی اور تحریک انصاف کے دور میں بینکر شوکت ترین نے یہ ذمہ داری نبھائی۔
خرم حسین نے کہا پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ اندرونی و بیرونی قرضوں کی مینجمنٹ ہے اور ایک بینکر مالیاتی مارکیٹ اور اس میں قرضوں کے شعبے کو بہتر انداز میں سمجھتا ہے۔ ان کے خیال میں محمد اورنگزیب کو لانے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ اس مسئلے سے کیسے نمٹتے ہیں۔
ان کے مطابق ’ریاست پاکستان کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ملک کا قرضہ ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے ایک بینکر بہتر آپشن ہو سکتا ہے۔‘
ماہر معیشت علی خضر کا کہنا ہے کہ ’محمد اورنگزیب کا انتخاب ایک اچھا فیصلہ لگتا ہے کیونکہ ان کا بین الاقوامی اور مقامی طور پر مالیات کو چلانے کا وسیع تجربہ ہے جو ملک کے معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بہتر ہے۔‘
ماہر معیشت کی بجائے ایک بینکر کیا معیشت کے مسائل سے نمٹنے کے قابل ہے اس کے بارے میں ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ ’ایک بینکر ہو یا ماہر معشیت وہ اکیلا فیصلہ نہیں کرتا بلکہ پوری کابینہ ملکی معیشت سے متعلق فیصلے کرتی ہے۔ اگر وزیر خزانہ ایک فیصلہ لیتا ہے تو وزیر تجارت بھی معشیت سے متعلق ہی فیصلے لے رہا ہوتا ہے۔ ‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان میں ویسے بھی وزیر خزانہ کا ایک کام رہ گیا ہے کہ پرانے قرضے چکانے کے لیے نیا قرضہ لینا ہے اور نئے وزیر خزانہ کو بھی بس یہی کام کرنا ہے۔‘
Getty Imagesنئے وزیر خزانہ آئی ایم ایف سے کیسے ڈیل کریں گے؟
پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگرام میں شامل ہے جس کے تحت اسے اب تک دو ارب ڈالر مل چکے ہیں۔ اس پروگرام کے خاتمے کے بعد جون میں پاکستان ایک نیا پروگرام بھی چاہتا ہے۔
ماہر معیشت علی خضر کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ ’نئے وزیر خزانہ کو بڑے معاشی چینلجوں کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں سے ایک آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کرنا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب وہ مذاکرات کریں گے تو ایک عمومی تاثر موجودہ حکومت کے مینڈیٹ کے حوالے سے بھی ان کے ساتھ جائے گا کہ جس کے بارے میں الزامات ہیں کہ یہ دھاندلی زدہ ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر پھیل چکا ہے اور جس کی وجہ سے اس تاثر کے ساتھ نئے وزیر خزانہ کے لیے چلنا ایک مشکل کام ہو گا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اس کے ساتھ تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کا آئی ایم ایف کو لکھا جانے والے خط مذاکرات کے دوران ایک بیک گراونڈ کے طور پر سامنے آسکتا ہے جس کی وجہ سے انھیں کافی مشکل پیش آسکتی ہے۔‘
نئے وزیر خزانہ کے لیے کیا معاشی چیلنجز ہوں گے؟
پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام میں رہنے کی وجہ سے گذشتہ ڈیڑھ سال میں بجلی و گیس کی قیمتیں بڑھانے کی وجہ سے مہنگائی کی شرح میں تاریخی اضافہ ہوا تو دوسری جانب روپے کی قدر میں کمی نے عام آدمی کی معاشی حالت کو ابتر بنا دیا ہے۔
نئے وزیر خزانہ ملک کے لیے آئی ایم ایف سے نئے قرضے لیتے ہیں تو انھیں کچھ کڑی شرائط بھی پوری کرنی پڑیں گی۔
علی خضر کا کہنا ہے کہ ’وزیر خزانہ کوئی بھی ہو اگر اسے ملک کے لیے آئی ایم ایف سے فنانسگ چاہیے تو اسے آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنی پڑتی ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’جب تک توانائی کے شعبے میں اصلاحات نہیں ہوتیں صارفین کے لیے اس کے نرخوں میں اضافہ ہوتا رہے گا اسی طرح اگر ٹیکس بیس نہیں بڑھتی تو ٹیکسوں کی شرح بھی بڑھتی رہے گی جس سے ایک عام آدمی پریشانی کا سامنا کرتا رہے گا۔‘
انھوں نے کہا نئے وزیر خزانہ کو پانچ طبقوں سے ڈیل کرنا پڑے گا جس میں بیورو کریسی، سیاسی افراد، اسٹیبلشمنٹ، آئی ایم ایف اور بزنس کمیونٹی شامل ہے کہ وہ کیسے ان سے معاملات کو طے کرتے ہیں۔
علی خصر بتاتے ہیں کہ ’اس کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ عام آدمی ہے کہ جس میں نئے وزیر خزانہ کو اکانومک منیجمنٹ کرتے ہوئے اس کا بھی خیال رکھنا ہے جو پہلے ہی مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہے۔‘
پاکستان میں معاشی بدحالی: کیا پاکستان ان مسائل سے کبھی نکل سکے گا؟52 برس بعد پاکستان اور بنگلہ دیش معیشت کے شعبے میں کس مقام پر کھڑے ہیں؟معاشی بحران: پاکستان کے لیے آئی ایم ایف امداد کتنی اہم ہے؟پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں تاخیر کا ملکی معیشت پر کیا منفی اثر پڑا؟