وہ اُن دنوں ایک تھیٹر گروپ کے ساتھ بطور طبلہ نواز وابستہ تھا اور ڈراموں میں مختصر کردار بھی ادا کر لیا کرتا مگر یہ اُس کی منزل نہیں تھی۔ وہ تو موسیقار بننا چاہتا تھا۔ اُن دنوں اُس نے اپنے ایک دوست کو اپنے ہی تھیٹر گروپ میں ہارمونیم نواز کے طور پر ملازمت دلوا دی۔ یوں دونوں کی دوستی ایک ایسے پیشہ ورانہ تعلق میں تبدیل ہو گئی کہ آج برسوں گزر جانے کے باوجود اِن دونوں کے ناموں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ناممکن سا ہے۔ یہ کہانی بالی وڈ کے موسیقاروں کی پہلی اور عظیم ترین جوڑی شنکر جے کشن کی ہے۔شنکر کا پورا شنکر سنگھ رام سنگھ رگووانشی تھا اور وہ 15 اکتوبر 1922 کو ریاستِ حیدر آباد دکن میں ایک پنجابی خاندان میں پیدا ہوئے۔ کچھ عرصہ بابا ناصر خان سے طبلہ سیکھا اور پھر عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کے آرکسٹرا سے منسلک ہو گئے۔ اُن دنوں بہت سے موسیقار تھیٹر گروپوں سے وابستہ تھے تو شنکر ایک تھیٹر گروپ سے وابستہ ہو گئے۔ اُن کے معاش کا واحد ذریعہ موسیقی ہی تو تھا۔ کچھ ہی عرصہ بعد پرتھوی تھیٹر کا رُخ کیا جہاں ڈراموں میں چھوٹے موٹے کردار بھی ادا کر لیتے۔
پرتھوی تھیٹر میں شنکر نے طبلے کے علاوہ موسیقی کے دوسرے بہت سے ساز بجانے میں بھی مہارت حاصل کی جن میں ستار، اکارڈین اور پیانو شامل ہیں۔ یہ وہ دن تھے جب شنکر میوزک ڈائریکٹر کے طور پر اپنا کیریئر شروع کرنے کے لیے تگ و دو کر رہے تھے تو اس سلسلے میں اُن کی ایک گجراتی فلم ساز سے بھی ملاقات رہا کرتی جنہوں نے اُن سے اپنی فلم کی موسیقی کمپوز کروانے کا وعدہ کیا تھا۔
یہ تو معلوم نہیں کہ یہ وعدہ وفا ہوا یا نہیں مگر اس فلم ساز کے دفتر میں انہوں نے کئی بار جے کشن کو دیکھا۔اُن دونوں میں ایک روز بات ہو ہی گئی تو شنکر پر یہ انکشاف ہوا کہ یہ نوجوان (جے کشن دیابھائی پانچل) ہارمونیم نواز ہے اور ان کی طرح ہی کام کی تلاش میں اس پروڈیوسر کے دفتر کے چکر کاٹ رہا ہے۔شنکر کو یہ گجراتی نوجوان بھا گیا جو ان سے عمر میں پانچ برس چھوٹا تھا۔ انہوں نے پرتھوی راج کپور سے جے کشن کو ملازمت پر رکھنے کی سفارش کی جنہوں نے شنکر کی بات کا مان رکھا اور جے کشن کو پرتھوی تھیٹر میں ملازمت مل گئی اور یوں وہ دونوں موسیقی کے سازوں پر دھنیں تخلیق کرنے لگے۔یہ وہ دن تھے جب نوجوان راج کپور بطور ہدایت کار اور پروڈیوسر اپنی دوسری فلم ’برسات‘ پر کام کر رہے تھے۔ وہ اکثر پرتھوی تھیٹر آیا کرتے تھے تو یوں موسیقاروں کی یہ جوڑی راج کپور کو نہ صرف جانتی تھی بلکہ ایک طرح سے اُن کی مزاج آشنا بھی تھی۔ہوا یوں کہ راج کپور نے اپنی فلم ’برسات‘ کے لیے شنکر جے کشن کو موسیقار کے طور پر منتخب کر لیا۔ فلم ریلیز ہوئی تو باکس آفس پر تو کامیاب رہی ہی بلکہ اس کی موسیقی کو بھی زبردست پسند کیا گیا۔اس فلم کے گیت ’ہوا میں اُڑتا جائے‘، ’برسات میں ہم سے ملے‘ یا پھر ’جیا بے قرار ہے‘ ایور گرین قرار پائے۔راج کپور نے اپنی فلم ’برسات‘ کے لیے شنکر جے کشن کو موسیقار کے طور پر منتخب کیا تھا۔ (فوٹو: یونیورسٹی آف کیلفورنیا)’برسات‘ کے زیادہ تر گیتوں میں لتا منگیشکر نے آواز دی تھی جبکہ شاعروں میں حسرت جے پوری کے علاوہ شیلندر بھی شامل تھے جبکہ گلوکار مکیش نے بھی ایک دو گیت گائے تھے تو یوں اس فلم کے ذریعے راج کپور کی وہ ڈریم ٹیم بن گئی تھی جس کے باعث ان کی فلموں کی موسیقی ہمیشہ فلم بینوں کو متاثر کیا کرتی۔فلم فیئر میگزین نے شنکر جے کشن کے بارے میں درست ہی تو لکھا تھا کہ ’اگر کبھی کوئی جادوئی چھڑی ہوا کرتی تھی، تو شنکر جے کشن یقیناً اس کے مالک تھے کیوںکہ 50 اور 60 کی دہائیوں کے پُرجوش زمانے میں اُن کا سازوں کو چھونا ہی گیتوں کی کامیابی کی علامت تھا۔کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی فلموں کے صفِ اوّل کے اداکاروں سے بھی زیادہ معاوضہ وصول کیا کرتے تھے۔ فلموں کے خریدار صرف اس وجہ سے فلمیں خرید لیتے کیوںکہ اُن دونوں کے نام ان سے وابستہ ہوتے۔ فلموں کی تشہیر اُنہیں مدِنظر رکھ کر کی جاتی۔ انہوں نے ریکارڈ نو بار بہترین موسیقار کا فلم فیئر ایوارڈ جیتا۔ جدید دور میں صرف اے آر رحمان نے اُن کا یہ ریکارڈ توڑا ہے۔ وہ حقیقت میں عظیم موسیقار تھے جن کا اثر آج بھی بہت گہرا ہے حالاںکہ اُن کی وفات کو بھی ایک عرصہ بیت چکا ہے۔‘دل چسپ بات یہ ہے کہ فلم ’برسات‘ کے لیے شنکر جے کشن راج کپور کا پہلا انتخاب نہیں تھے۔ فلم کی موسیقی تو رام گنگولی ترتیب دے رہے تھے جو اِس سے قبل راج کپور کی بطور پروڈیوسر پہلی فلم ’آگ‘ کی موسیقی ترتیب دے چکے تھے۔کہا جاتا ہے کہ شنکر جے کشن اپنی فلموں کے صفِ اوّل کے اداکاروں سے بھی زیادہ معاوضہ وصول کیا کرتے تھے۔ (فائل فوٹو: دی کوئنٹ)کہا جاتا ہے کہ راج کپور نے رام گنگولی کو اُن کی فلم ’برسات‘ کے لیے بنائی دھن کسی اور پروڈیوسر کو فروخت کرتے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا جس کے بعد گنگولی اس پراجیکٹ سے باہر ہو گئے اور راج کپور نے فلم کی موسیقی کمپوز کرنے کی ذمہ داری نوجوان شنکر کو سونپ دی۔ وہ تو پہلے سے ہی اس موقع کی تلاش میں تھے، مگر ان کی شرط پر جے کشن بھی اس ٹیم کا حصہ بن گئے اور ’برسات‘ کی کامیابی کے بعد تو اس جوڑی نے وہ عروج دیکھا جو اس عہد کے کسی اور موسیقار کو نصیب نہیں ہوا۔فلم فیئر میگزین کے لیے دیویش شرما لکھتے ہیں کہ ’راج کپور نے بلاشبہ شنکر جے کشن کو اُبھرنے میں مدد دی، مگر اُن کی کامیابی کا سہرا صرف راج کپور کو دینا درست نہیں۔ وہ آر کے (راج کپور) پروڈکشن سے ہٹ کر بنائی گئی فلموں میں بھی پوری آب و تاب سے چمکے جیسے ’داغ‘، ’بسنت بہار‘، ’امرپالی‘، ’اصلی نقلی‘، ’آرزو‘، ’دل ایک مندر‘، ’جنگلی‘، ’لو اِن ٹوکیو‘ اور ’این ایوننگ اِن پیرس‘ وغیرہ۔ انہوں نے نہ صرف اپنی موسیقی سے ان فلموں کو یادگار بنایا، بلکہ شمی کپور اور راجندر کمار جیسے اداکاروں کے کیریئر کو بھی چار چاند لگا دیے۔‘شنکر جے کشن نے بالی وڈ میں صرف آرکسٹرا ہی متعارف نہیں کروایا بلکہ انہوں نے بہت سے نئے رجحانات بھی دیے جیسے کہ اپنی پہلی ہی فلم ’برسات‘ میں ایک نئی آواز لتا منگیشکر کو بطور مرکزی گلوکارہ منتخب کر کے جوا کھیلا، اور اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان سے فلم کی دونوں ہیروئنز نرگس اور نِمّی کے لیے گانے گنوائے جبکہ اسی فلم کے ذریعے بالی وڈ میں ’ٹائٹل سانگ‘ کی روایت کا آغاز بھی ہوا جسے آنے والے برسوں میں شیلندر کی شاعری نے بالی وڈ کی ضرورت بنا دیا۔شنکر جے کشن نے اپنی پہلی ہی فلم ’برسات‘ میں ایک نئی آواز لتا منگیشکر کو بطور مرکزی گلوکارہ منتخب کر کے جوا کھیلا۔ (فائل فوٹو: لتا آن لائن)شنکر جے کشن روایت شکن یوں بھی تھے کہ وہ صرف معروف گلوکاروں تک محدود نہیں رہے، بلکہ ہر گیت کے مزاج کے مطابق آواز کا انتخاب کیا کرتے جس کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں جیسا کہ انہوں نے سنہ 1955 میں فلم ’شری 420‘ میں آشا بھوسلے سے گیت ’مڑ مڑ کے نہ دیکھ‘ گنوایا، سنہ 1956 میں ریلیز ہوئی فلم ’چوری چوری‘ کے گیت ’یہ رات بھیگی بھیگی‘ کے لیے مناڈے کا انتخاب کیا۔ سنہ 1960 میں ریلیز ہوئی فلم ’آس کا پنچھی‘ کے گیت ’دل میرا ایک آس کا پنچھی‘ کے لیے ایک نو آموز گلوکار سبیرسین کو منتخب کیا۔ فلم ’دل کے مندر‘ کے گیت ’دل ایک مندر ہے‘ کے لیے سمن کلیان پوری اُن کا انتخاب ٹھہریں۔ یوں انہوں نے ایسے کئی غیرمتوقع فیصلے کیے جو اُن کی تخلیقی صلاحیتوں کا ثبوت ہیں۔شنکر جے کشن نے راج کپور کی 20 فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی جن میں سے 10 فلمیں راج کپور نے خود پروڈیوس کی تھیں جن میں ’آوارہ‘ اور ’میرا نام جوکر‘ جیسی فلمیں بھی شامل ہیں جن میں شنکر جے کشن اپنے فن کے عروج پر نظر آتے ہیں۔ سنہ 1971 میں ریلیز ہوئی فلم’کل آج اور کل‘ کے بعد راج کپور اور شنکر جے کشن کا تخلیقی تعلق جے کشن کی بے وقت موت کی وجہ سے ٹوٹ گیا۔آگے بڑھنے سے قبل اس گیت کا ذکر ہو جائے جس کی موسیقی نے مدن موہن سے لے کر نوشاد اور روشن جیسے موسیقاروں کو حیران کر دیا تھا۔ یہ گیت فلم ’میرا نام جوکر‘ کا ’جینا یہاں مرنا یہاں‘ تھا۔ اخبار ’دکن ہیرلڈ‘ اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ’شنکرجے کشن کی مشہور جوڑی کے جے کشن نے گلوکار منّا دے کو یہ گیت گانے پر آمادہ کیا تھا۔ یوں ایک ایسا گیت تخلیق ہوا جس نے موسیقی کی دنیا کے معتبر ترین ناموں نوشاد، مدن موہن اور روشن کو حیران کر دیا۔ ان عظیم موسیقاروں کو اُس وقت تک اندازہ نہ تھا کہ شنکر جے کشن ہندوستانی کلاسیکی موسیقی پر ایسی گرفت رکھتے ہیں۔ یہ واقعہ صرف ایک گانے کی کامیابی کا نہیں، بلکہ اس جوڑی کے غیر معمولی تخلیقی وژن، روایت اور جدت کے حسین امتزاج، اور موسیقی کے رموز پر ان کی مہارت کا ہے۔‘شنکر جے کشن روایت شکن ہر گیت کے مزاج کے مطابق آواز کا انتخاب کیا کرتے۔ (فائل فوٹو: یوٹیوب)ان دونوں کی مقبولیت کا اندازہ لگانا ہو تو بہت سے گیت مثال کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں مگر سنہ 1980 میں جب سوویت یونین میں اولمپکس کا انعقاد ہوا تو اس کا آغاز اس گیت سے ہوا ’میرا جوتا ہے جاپانی‘ جو موسیقاروں کی اس بے مثل جوڑی کا ایک اور یادگار گیت تھا۔شنکر جے کشن نے راج کپور کے علاوہ دلیپ کمار، دیو آنند، اور راجیش کھنہ جیسے سپرسٹارز کے گیتوں کے لیے بھی موسیقی ترتیب دی جب کہ انہوں نے اپنے عہد کے قریباً تمام نمایاں گلوکاروں اور گلوکاراؤں کے ساتھ کام کیا۔شنکر اور جے کشن بے شک رام لکشمن کی جوڑی سے بھی بڑھ کر تھے مگر تھے تو انسان۔ دونوں میں بھی اختلافات پیدا ہوئے۔ اس حوالے سے بالی وڈ میں مختلف کہانیاں گردش کرتی رہی ہیں۔نیوز پورٹل ’فرسٹ پوسٹ‘ کے لیے معروف صحافی سبھاش کے جھا اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’جب فلم ’میرا نام جوکر‘ کی شوٹنگ کا آغاز ہوا تو اُس وقت راج کپور اور اُن کی پسندیدہ گلوکارہ لتا منگیشکر کے درمیان بات چیت بند تھی۔ یہ واحد ایسی فلم ہے جو راج کپور نے خود ڈائریکٹ کی، مگر اس میں لتا جی کی جادوئی آواز شامل نہیں۔ یہ پوری طرح واضح نہیں کہ اُن کے درمیان ان عارضی اختلافات کی وجہ کیا بنی؟البتہ لتا جی نے مجھے بتایا تھا کہ اُنہیں فلم کے ایک گانے ’انگ لگا جا بالما‘کے بول نامناسب لگے تھے۔ اسی پر دونوں کے درمیان تکرار ہوئی، اور راج کپور اُن کی اس فلم میں غیرموجودگی سے بہت مایوس ہوئے۔‘وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’یہ صرف راج کپور کے لیے ہی نہیں، بلکہ شنکر جے کشن جیسے موسیقاروں کے لیے بھی ایک بڑا دھچکا تھا۔اُس وقت مگر شنکر ایک اور گلوکارہ شاردا کو بھرپور انداز میں پروموٹ کر رہے تھے، اور انہوں نے اس صورتِ حال کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ شاردا کی کامیابی کے لیے راہ ہموار کی جا سکے۔‘جے کشن کی وفات کے بعد راج کپور اور دیگر بڑے بینرز نے شنکر سے فاصلہ اختیار کر لیا۔ (فائل فوٹو: جے کشن شنکر ڈاٹ کوم)دل چسپ بات یہ ہے کہ شنکر نے شاردا سے دو گیت گنوائے بھی اور راج کپور نے ان کو ایسا کرنے سے نہیں روکا جس کی وجہ یہ تھی کہ راج کپور شنکر کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے مگر یہ دونوں گیت فلم میں شامل نہیں کیے گئے۔سبھاش کے جھا کے مطابق ’شنکر اور جے کشن کے درمیان مسائل اُس وقت پیدا ہونا شروع ہوئے جب شنکر نے گلوکارہ شاردا راجن آئر کی آواز کو پروموٹ کرنا شروع کیا۔ شنکر کو اپنی دانست میں یہ یقین تھا کہ شاردا ایک غیرمعمولی گلوکارہ ہیں اور اس قدر باصلاحیت بھی کہ وہ لتا منگیشکر کو ٹکر دے سکتی ہیں۔‘کہا جاتا ہے کہ اس معاملے پر دونوں موسیقاروں میں اختلافات پیدا ہوئے جو رفتہ رفتہ بڑھتے چلے گئے۔ شنکر اور جے کشن میں دوریاں پیدا ہونے کی ایک اور وجہ بھی بیان کی جاتی ہے اور وہ فلم ’سنگم‘ کا ایورگرین گیت ’یہ میرا پریم پتر پڑھ کر‘ ہے۔ڈاکٹر دتاتریا پجاری اور ڈاکٹر ایم دھرماکیرتی اپنی کتاب ’سمفونک جرنی آف شنکر جے کشن‘ میں لکھتے ہیں کہ ’فلم فیئر میگزین میں شائع ہونے والے ایک دستخط شدہ مضمون میں جے کشن نے انجانے میں فلم ’سنگم‘کے گیت ’یہ میرا پریم پتر پڑھ کر‘ کو اپنی کمپوزیشن قرار دے دیا۔ یہ بات شنکر کو ناگوار گزری کیوںکہ ان دونوں کے درمیان ایک غیرتحریری معاہدہ تھا کہ وہ کسی گیت کی تخلیق کا انفرادی طور پر کریڈٹ نہیں لیں گے۔ اس اقدام نے ان کے تعلقات میں تلخی اور بدگمانی پیدا کر دی۔‘فلم فیئر میگزین کے مطابق اس دور میں مقبول ریڈیو پروگرام ’بنا کا گیت مالا‘ کسی گانے کی کامیابی کا سب سے بڑا پیمانہ سمجھا جاتا تھا۔ فلم ’سنگم‘ کا گیت ’یہ میرا پریم پتر پڑھ کر‘ جو جے کشن اور حسرت کی ٹیم نے کمپوز کیا تھا، ’دوست دوست نہ رہا‘ (شنکر اور شیلندر کا تخلیق کردہ گیت) پر سبقت لے گیا تو دونوں کے تعلقات مزید بگڑ گئے۔شنکر اپنے ساتھی جے کشن کی موت کے صدمے سے کبھی اُبھر نہیں پائے۔ (فائل فوٹو: جے کشن شنکر ڈاٹ کوم)میگزین نے لکھا کہ ’شنکر کے حامیوں نے الزام لگایا کہ یہ سب ایک منظم سازش کی وجہ سے ہوا۔ اس کشیدگی میں شنکر کے لتا منگیشکر کی بجائے شاردا کی آواز کو ترجیح دینے نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ یوں یہ صورتِ حال اس نہج پر پہنچ گئی کہ جے کشن نے لتا کے ساتھ الگ سیشنز ریکارڈ کرنا شروع کر دیے، بعض اوقات مختلف سازندوں کی ٹیم کے ساتھ۔ ان حالات میں ان کے دو دیرینہ گیت نگار شیلندر اور حسرت جے پوری ان دونوں کے بیچ ایک مشترکہ کڑی بن کر رہ گئے تھے۔‘وہ دونوں الگ تو ہو گئے مگر نام شنکر جے کشن کا ہی استعمال ہوتا رہا۔ جے کشن 12 ستمبر 1971 کو جگر کی بیماری کے باعث وفات پا گئے۔ شنکر اپنے ساتھی جے کشن کی موت کے صدمے سے کبھی اُبھر نہیں پائے۔ وہ اگرچہ اس کے بعد کئی برس تک گیت کمپوز کرتے رہے اور شنکر جے کشن کا نام بھی استعمال کرتے رہے مگر اب وہ پہلے سی بات نہ رہی تھی۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شنکر اپنی آمدنی کا نصف حصہ جے کشن کے خاندان کو دیتے تھے۔ جے کشن کی وفات کے بعد راج کپور اور دیگر بڑے بینرز نے شنکر سے فاصلہ اختیار کر لیا جس کے اثرات شنکر کی موسیقی پر بھی مرتب ہوئے۔ سنہ 1975 میں فلم ’سنیاسی‘ میں شنکر اور لتا نے ایک بار پھر ایک ساتھ کام کیا اور اس کی موسیقی پر شنکر جے کشن کے دور کی جھلک بھی دکھائی دی مگر شنکر کی یہ واپسی عارضی ثابت ہوئی اور وہ کوئی دیرپا جادو جگانے میں ناکام رہے۔شنکر بالآخر آج ہی کے روز 26 اپریل 1987 کو خاموشی سے دنیا کو الوداع کہہ گئے۔ یہ المیہ ہی ہے کہ شنکر کی موت کا علم فلمی دنیا اور میڈیا کو ان کی آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد ہوا اور یوں ہندوستانی موسیقی کا ایک درخشاں باب خاموشی سے مکمل ہوا۔