اقوام متحدہ کی غزہ میں جنگ بندی کے لیے آرٹیکل 99 کے تحت ووٹنگ کی قرارداد امریکہ نے ویٹو کر دی

بی بی سی اردو  |  Dec 09, 2023

Getty Images

امریکہ نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں انسانی بنیادوں پر غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی قرارداد ایک بار پھر ویٹو کردی ہے۔

اقوام متحدہ کی کونسل کے 15 میں سے 13 ارکان نے جنگ بندی کی تحریک کی حمایت کی تاہم برطانیہ اس میں شامل نہیں ہوا۔

واضح رہے کہ امریکہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے ایک کے طور پر کسی بھی قرارداد کو ویٹو کر سکتا ہے۔

امریکہ کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات کی طرف سے پیش کردہ تجویز غیر متوازن اور غیر حقیقت پسندانہ ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے سلامتی کونسل میں آرٹیکل 99 کے تحت غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے ووٹنگ کے آغاز پر کہا کہ مغربی کنارے، لبنان، شام، عراق اور یمن میں بڑھتا تنازع بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔

جمعے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں غزہ میں جنگ بندی کے لیے آرٹیکل 99 کے تحت ووٹنگ کا معاملہ اٹھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک انتہائی ضروری معاملہ ہے جسے کونسل کی توجہ میں لایا جانا چاہیے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے اس خدشے کا اظہار بھی کیا گیا کہ جنگی جنون بڑھ جانے سے یہ امکان بھی خارج از بعید نہیں کہ غزہ کی صورت حال اس قدر بگڑ جائے کہ وہاں سے بڑے پیمانے پر فلسطینی سرحد پار سے مصر کی طرف نقل مکانی کر جائیں اور اسی اندیشے کا اظہار مصر کی حکومت کی جانب سے بھی کیا جا چکا ہے۔

انتونیو گوتیرس نے کہا کہ ’غزہ میں انسانی امداد کے نظام کے مکمل طور پر تباہ ہونے کا ایک بہت بڑا خطرہ درپیش ہے جبکہ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ تمام فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کر دے۔‘

Getty Images’اسرائیل کے قول اور فعل میں واضح فرق‘

بی بی سی کے نامہ نگار جیریمی بوون نے اس ساری صورت حال پر مفصل تجزیہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت اقوام متحدہ کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتی اور سیکریٹری جنرل سے شدید اختلاف رکھتی ہے۔

جیرمی بوون کے مطابق ’اسرائیل نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ انتونیو گوتیرس درحقیقت عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں کیونکہ وہ حماس کوبچانے کے لیے اس مرحلے پر جنگ بندی کا مطالبے اس لیے کر رہے ہیں کہ کہیں اسرائیل کا حماس کو تباہ کرنے کا مشن مکمل نہ ہو جائے۔‘

’اقوام متحدہ میں جنگ بندی کے مطالبے کے لیے پیش کی گئی اس قرارداد کو امریکہ نے ویٹو کر دیا ہے۔ ان لوگوں کے لیے جو انسانی جانوں کے نقصان کے بارے میں فکر مندی ظاہر کرتے ہیں ان کا یہ عمل تھوڑا سا کھوکھلا لگتا ہے۔‘

امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ اسرائیلی جنگ کے اصولوں پر قائم رہیں گے اور شہریوں کی غیر ضروری ہلاکتوں سے بچیں گےتاہم اسرائیل کے قول اور فعل میں واضح فرق ہے۔

’اسرائیل نے غزہ میں صحافیوں کے داخلہ ممنوع قرار دیا ہوا ہے اس لیے میں خود وہاں سے رپورٹ نہیں کر سکتا، لیکن سیکرٹری جنرل جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ ان تصاویر اور ویڈیوز سے بالکل درست لگتا ہے جو ہم دیکھ سکتے ہیں اور جن لوگوں سے ہم بات کرتے ہیں ان سے بھی اسی بات کی تصدیق ہوتی ہے۔‘

ان تمام اقدامات سے وہاں عام شہریوں کے لیے صورتحال بالکل تباہ کن ہے، کیونکہ وہ ایک فوجی مہم کا نشانہ بن رہے ہیں۔

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ شہریوں کی جان بچانے کے لیے اقدامات بروئے کار لا رہا ہے تاہم اسرائیل کا یہ بھی الزام ہے کہ حماس فلسطین کے عام شہریوں کو بطور انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

’میرے خیال میں اقوام متحدہ کےسیکرٹری جنرل کو یہ علم تھا کہ ان کی قرارداد کو شاید ویٹو کر دیا جائے تاہم جنگ بندی کی قرار داد کے لیے ووٹنگ کے فیصلے کے پیچھےموجود ان کی حکمت عملی اس ناگزیر لمحے میں عجلت کرنا تھا جب امریکہ اسرائیل سے کہے کہ ،’بس اب کافی ہو گیا، آپ کے پاس لوگوں کو مارنے کے لیے کافی مہلت تھی اور اب جنگ بندی کا وقت ہے۔‘

’میں نے اس سلسلے میں کچھ سفارت کاروں سے بھی بات کی جن کا کہنا تھا کہ وہ اسرائیلیوں کو ایک اور مہینہ دے سکتے ہیں۔ میرے خیال میں انتونیو گوتیرس کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ اس مہلت کو مختصر کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے وہ نہ صرف بین الاقوامی دباؤ بڑھا رہے ہیں بلکہ جزوی طور پر امریکیوں کو یہ سوچنے پر آمادہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے موقف پر بہت دیر تک قائم نہیں رہ سکتے۔‘

یہ دباؤ آج غزہ میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے زیر حراست قیدیوں کی اس ویڈیو کے سامنے آنے پر اور بھی بڑھ گیا ہے جس میں فلسطینی قیدیوں کو برہنہ کر کے بھگایا جا رہا ہے۔ قیدی مردوں کی یہ حالت جنگ کی ایک ظالمانہ تصویر کشی ہے۔ سوشل میڈیا پر موجود مقامی رپورٹس کے مطابق ان کی تعداد 700 تک ہو سکتی ہے۔

ان وڈیوز میں دکھائے جانے والے قیدی مردوں کے اہل خانہ سمیت متعدد زرائع کا کہنا ہے کہ ان پناہ گزینوں کو اقوام متحدہ کے ایک سکول سے لے جایا گیا تھا اور اس دوران جن افراد نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی اور انھیں مار دیا گیا۔

Getty Imagesاقوام متحدہ میں جنگ بندی کے مطالبے کے لیے پیش کی گئی اس قرارداد کو امریکہ نے ویٹو کر دیا ہے

واضح رہے کہ گزشتہ روز ایک ایسی دلخراش ویڈیو سوشل میڈیا پر زیر گردش تھی جس میں چھ افراد کو گلی میں مردہ حالت میں پڑے دکھایا گیا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ مرنے والے اسی علاقے میں تھے جہاں سکول کی عمارت میں بنایا گیا پناہ گزینوں کا کیمپ واقع ہے۔

مرنے والوں میں سے ایک شخص کی خون آلود لاش ایک سفید جھنڈے کے اوپر پڑی تھی جسے وہ بظاہر اٹھائے ہوئے تھا۔

’یہاں موسم اب بے انتہا سرد ہے ایسے میں آنھوں پر پٹی باندھ کر اور ہاتھ کمر پر باندھ کر زیر جامے میں گلیوں میں گھومنے پر مجبور کرنا بلاشبہ ناخوشگوار ہے۔‘

اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ ’ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کون مشتبہ ہے اور سات اکتوبر کو ہونے والے ان خوفناک حملوں کا ذمہ دار کون ہے اس دورانہم جنگ کے تمام بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کر رہے ہیں۔‘

اقوام متحدہ کے چارٹر کا طاقتور آرٹیکل 99 جس کا تذکرہ مشرقی پاکستان کی جنگ میں بھی ہوا

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے غزہ میں ’انسانی بحران کے سنگین خطرے‘ سے خبردار کرتے ہوئے فوری طور پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا۔

انھوں نے اس ضمن میں بدھ کو ایک غیر معمولی اقدام اٹھاتے ہوئے اپنے پاس موجود صوابدیدی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99 کا نفاذ کیا ہے۔

انھوں نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99 کے نفاذ کا جواز پیش کرتے ہوئے سلامتی کونسل کے صدر کو لکھےخط میں کہا تھا کہ ’غزہ میں صورتحال تیزی سے ایک انسانی تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے، جس کے ممکنہ طور پر فلسطینیوں اور خطے میں امن و سلامتی کے لیے ناقابل واپسی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس نتیجے سے ہر قیمت پر گریز کیا جانا چاہیے۔‘

Getty Imagesآرٹیکل 99 کیا ہے؟

اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب 15 کے آرٹیکل 99 میں کہا گیا ہے کہ ’سیکریٹری جنرل سلامتی کونسل کی توجہ کسی بھی ایسے معاملے پر لا سکتے ہیں جس سے ان کی رائے میں بین الاقوامی امن و سلامتی کو خطرہ ہو۔‘

اقوام متحدہ کی وضاحت کے مطابق، یہ آرٹیکل سلامتی کونسل کی توجہ کسی بھی ایسے معاملے پر لانے کا مطالبہ کرتاہے ’جو سیکریٹری جنرل کی رائے میں بین الاقوامی امن اور سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔‘

محققین البرچٹ شنابیل اور ڈیوڈ کارمیٹ لکھتے ہیں کہ ’آرٹیکل 99 کا اقوام متحدہ کے چارٹر میں شمولیت ایک اہم قدم تھا جو سلامتی کونسل کو امن کو درپیش موجودہ یا ممکنہ خطرات کے بارے میں انتباہات کا فائدہ دینے کے لیے بنایا گیا تھا تاکہ یہ ادارہ مناسب یا ممکنہ طور پر احتیاطی کارروائی کر سکے۔‘

ان کے مطابق آرٹیکل 99 کا اطلاق صرف ’نئے معاملات‘ پر ہوتا ہے، یعنی ایسے معاملات جن پر سلامتی کونسل پہلے سے بحث نہیں کر رہی ہو۔

وہ مزید لکھتے ہیں ’تاہم اصل میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے آرٹیکل 99 کی بہت زیادہ وسیع پیمانے پر تشریح کی ہے، جس کی وجہ سے انھوں نے حقائق کی کھوج کی آزادانہ تحقیقات انجام دینے اور کسی بھی بحران کی روک تھام کے لیے معلومات اکٹھی کرنے کا اختیار فراہم کیا ہے۔‘

اسرائیل کا ردعمل

انتونیو گوتیرس کی جانب سے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99 کے نفاذ پر اسرائیل نے فوری ردعمل دیا۔ اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے کہا کہ گوتیرس انتظامیہ عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔

انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا تھاکہ ’آرٹیکل 99 کو فعال کرنے کی آپ کی درخواست اور غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ دہشت گرد تنظیم حماس کی حمایت اور بزرگوں کے قتل، بچوں کے اغوا اور خواتین کے ریپ کی توثیق ہے۔‘

اسرائیلی وزیر نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’جو بھی عالمی امن کی حمایت کرتا ہے اسے حماس سے غزہ کی آزادی کی حمایت کرنی چاہیے۔‘

گوتیرس کی جانب سے آرٹیکل 99 کا پہلی مرتبہ استعمال

اپنے خط میں سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے بین الاقوامی سلامتی کو یقینی بنانے کے انچارج ادارے پر زور دیا کہ وہ جنگ بندی کی درخواست کے ذریعے انسانی تباہی کے بحران سے بچنے کے لیے مداخلت کرے جو امداد کی فراہمی میں سہولت فراہم کرتا ہے اور شہری آبادی کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

سیکریٹری جنرل نے اپنے خط میں فلسطینیوں کی 15,000سے زیادہ اور اسرائیل کی 1,200 ہلاکتوں، لاکھوں افراد کی جبری نقل مکانی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگ کے نتیجے میں غزہ میں صحت کے نظام کی مخدوش صورتحال کے متعلق بتایا ہے۔

سنہ 2017 میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب گوتیرس نے آرٹیکل 99 کا اطلاق کیا ہے۔

سلامتی کونسل کے صدر کو لکھے گئے خط میں انھوں نے کہا کہ غزہ کی صورتحال تیزی سے خراب ہو رہی ہے جس کے فلسطینیوں اور پورے خطے کی سلامتی کے لیے ممکنہ طور پر ناقابل واپسی مضمرات ہیں۔

آرٹیکل 99 کے اطلاق کا مطلب کیا ہے؟

یہ دباؤ ڈالنے کے حربے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

اقوام متحدہ دو اہم اداروں پر مشتمل ہے: جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل۔

جنرل اسمبلی میں تمام رکن ممالک کی نمائندگی ہوتی ہے لیکن اس کے حکام پابند نہیں ہوتے۔ کونسل، دریں اثنا، فیصلہ ساز ادارہ ہے جس کی قراردادیں، نظریاتی طور پر تمام ممالک کے لیے لازمی ہیں۔

تاہم، اسرائیل اور حماس کے درمیان یا روس اور یوکرین کے درمیان جیسے اہم اور بڑے تنازعات پر کونسل کے پانچ مستقل اراکین (امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین اور روس) میں سے ہر ایک کو کسی بھی قرارداد کو ویٹو کرنے کا حق حاصل ہے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازعے میں اب تک امریکہ کا موقف یہ ہے کہ جنگ بندی کے اقدامات کو روکا جائے کیونکہ اس سے خیال میں یہ حماس کو فائدہ پہنچے گا۔

آرٹیکل 99 سیکریٹری جنرل کو معاملات سلامتی کونسل کو بھیجنے کے علاوہ کوئی اختیار نہیں دیتا۔ اس صورت میں اس کا استعمال سلامتی کونسل کو متنبہ کرنے کا کام کرتا ہے کہ غزہ کی صورت حال ایک انسانی تباہی کے دہانے پر ہے۔

اس کا مقصد ارکان پر فوری طور پر مذاکرات، مسودہ تیار کرنے اور جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قرارداد منظور کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا ہے۔

یا یہ کہ کم از کم مستقل اراکین ویٹو کا اپنا حق استعمال نہیں کرتے ہیں اگر دوسرے اراکین اس معنی میں کوئی تجویز پیش کریں۔

نیویارک میں بی بی سی کی نامہ نگار نادا توقیف کے مطابق ’انتونیو گوتیرس اس آرٹیکل کے اطلاق کے ذریعے سلامتی کونسل پر انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی درخواست کرنے اور اس ہفتے اجلاس بلانے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں۔‘

لیکن اگر ایسا ہوتا ہے اور سکیورٹی کونسل فوری طور پر جنگ بندی کے مطالبے کی ایک قرارداد منظور کرتی ہے تو اس تنازعے میں شامل فریق اسرائیل اور حماس ادارے کے اختیار کو نظر انداز کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے پر حملے جاری رکھ سکتے ہیں۔

نادا توقیف کا کہنا ہے کہ ’اقوام متحدہ کے سربراہ کا یہ سخت اقدام سلامتی کونسل سے ان کی مایوسی کا ایک طاقتور اظہار اور ان کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی بھی ہے۔‘

Getty Imagesماضی کی مثالیں

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کے ’سخت اور غیر معمولی اقدام‘ کی وضاحت اس بات سے ملتی ہے کہ ماضی میں اس آرٹیکل کے اطلاق کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔

ماضی میں اقوام متحدہ کے صرف تین سیکریٹری جنرلز نے چارٹر کے آرٹیکل 99 کو باضابطہ طور پر استعمال کیا ہے۔

پہلی مرتبہ اس اختیار کا استعمال 1960 میں کیا گیا تھا جب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ڈاگ ہیمر شولڈ انھوں نے کانگو کے بحران پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔

13 جولائی 1960 کو ہیمرشولڈ نے اس وقت لکھے گئے خط میں کہا تھا کہ ’مجھے سلامتی کونسل کی توجہ ایک ایسے معاملے کی طرف مبذول کرانی ہے جو میرے خیال میں بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔‘

ان کے خط کے بعد سلامتی کونسل نے فوری ردعمل دیا تھا اور اور اس کے اگلے دن کانگو کی حکومت کی حمایت میں اقوام متحدہ کے فوجی دستوں کی تعیناتی کی اجازت دی گئی تھی۔

ہیمرشولڈ جو 1953 اور 1961 کے درمیان اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے عہدے پر فائز رہے اس حد تک آگے بڑھ گئے تھے کہ ان کے بارے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 99 نے سیکریٹری جنرل کو ’انتظامی عہدیدار سے واضح سیاسی ذمہ داری والے شخص میں تبدیل کر دیا ہے۔‘

اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99 کا باضابطہ طور پر دو بار اور استعمال کیا گیا۔ ایک سنہ 1979 میں ایران میں امریکی یرغمالی بحران اور دوسری مرتبہ سنہ 1989 میں لبنان میں تشدد میں اضافہ۔

سنہ 1960 میں اس کے استعمال کی مثال کے برعکس ان دونوں مرتبہ میں سے کسی بھی ہنگامی صورتحال میں سلامتی کونسل نے فوجی مداخلت کی اجازت نہیں دی۔

دیگر مواقع پر اقوام متحدہ کے مختلف رہنماؤں نے آرٹیکل 99 کو استعمال کیے بغیر، کونسل پر اسی آرٹیکل کی روشنی میں زور دیا ہے کہ وہ سنگین حالات کی روک تھام کے حوالے سے کام کرے۔

گذشتہ دہائی میں اقوام متحدہ کی داخلی رپورٹوں میں باضابطہ اور موثر ابتدائی انتباہ کی کمی کو اجاگر کیا گیا، اور کئی مواقع پر ادارے نے سیکریٹری جنرل کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ سلامتی کونسل کو متنبہ کرنے کے لیے آرٹیکل 99 کے اختیار کا استعمال کریں۔

اقوام متحدہ کے ترجمان ستیفان دوجاریک نے کہا ہے کہ سیکریٹری جنرل کی جانب سے آرٹیکل 99 کا استعمال ’ڈرامائی اقدام ہے‘۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس سے قبل آرٹیکل 99 کا ذکر دسمبر 1971 میں اس وقت کے سیکریٹری جنرل یو تھانٹ نے کیا تھا جب انھوں نے کونسل کو مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) اور برصغیر کی صورتحال کے بارے میں بتایا جس سے عالمی امن و سلامتی کو خطرہ درپیش تھا۔‘

یہ غیر واضح ہے کہ مشرقی پاکستان کی صورتحال پر اس وقت کے سیکریٹری جنرل نے آرٹیکل 99 کا استعمال کیا تھا، مگر انھوں نے اسی آرٹیکل کی روشنی میں سکیورٹی کونسل کو اپنی طرف سے کیے گئے اقدامات کے حوالے سے آگاہ کیا تھا۔

اقوام متحدہ کی دستاویزات کے مطابق 3 دسمبر 1971 کو ’مشرقی پاکستان میں سرحدی کشیدگی پر سیکریٹری جنرل نے اپنی کوششوں کے بارے میں آرٹیکل 99 کے تحت سکیورٹی کونسل کے صدر کو آگاہ کیا تھا۔‘

اس کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ’سکیورٹی کونسل میں اس حوالے سے کوئی اقدامات فریقین یا کونسل کے رکن خود لے سکتے ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More