اڈیالہ جیل میں سائفر کیس: ’صحافیوں کو دیکھ کر مقدمے کی دوبارہ سماعت‘

بی بی سی اردو  |  Dec 02, 2023

BBC

سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سنیچر کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں سائفر مقدمے کی سماعت ہوئی تو بہت سے ملکی اور غیر ملکی میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی صبح سویرے ہی اڈیالہ جیل کے باہر پہنچ گئے۔

دو گھنٹوں یعنی نو بجے کے قریب اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین خود گاڑی چلاتے ہوئے پولیس سکواڈ میں اڈیالہ جیل کے گیٹ پر پہنچے اور گیٹ کے باہر موجود صحافیوں کو دیکھ کر اپنی سرکاری گاڑی کا شیشہ نیچے کیا اور چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ دے کر جیل کے اندر روانہ ہوگئے۔

جیل کے گیٹ کے باہر جو صحافی انھیں جانتے تھے وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ صرف انھیں دیکھ کر مزکورہ جج مسکرائے ہیں اور مجھ سمیت دیگر صحافی اس خوش فہمی میںبھی مبتلا ہوگئے کہ آج تو اس مقدمے کی سماعت کو اڈیالہ جیل میں دیکھیں گے اور پھر چار ماہ کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان کو دیکھیں گے اور ان سے گپ شپ بھی کریں گے۔

صحافیوں کو اس بات کا بھی یقین تھا کہ کیونکہ عدالت نے اپنے گذشتہ حکم نامے میں جیل کے اندر قائم کی گئی عدالت کو اوپن کورٹ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ جس کی بھی خواہش ہو تو وہجیل کے اندر آکر اس عدالتی کارروائی کو دیکھ سکتا ہے اس لیے اب انھیں اندر جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

مذکورہ ججکے اندر جانے کے بعد ان کا عملہ اسلام آباد پولیس کی ایک پرانی وین میں پیچھے بیٹھ کر جیل پہنچا جس میں عمومی طور پر ملزمان کو عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔

پھر آہستہ آہستہ یوں ہوا کہ پہلے اس مقدمے کے پراسیکوٹر اور ملزمانعمران خان اور شاہ محمود قریشی کے وکلا اور ان کے اہلخانہ کے کچھافرادکو جیل کے اندر جانے کی اجازت دی گئی اس کے بعد صحافیوں کو بھی یقین ہوچلا تھا کہ اب تو اب تو ان کی باری ہےاور ابھی عدالت گیٹ پر موجود صحافیوں کو اندر بلا لے گی کیونکہ خصوصی عدالت کے جج ان صحافیوں کو خود دیکھکر گئے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صحافیوں میں تشویش بڑھنے لگی کیونکہ اندر سے اطلاعات آرہی تھیں کہ جیل کے اندر سماعت شروع ہوچکی ہے۔

اس صورت حال کو دیکھ کر جب صحافیوں نے جیل کے اندر جانے کی کوشش کی تو وہاں پر موجود سکیورٹی عملے نے انھیں روک لیا او کہا کہ ابھی جج صاحب نے اس بارے میں کوئی حکم نہیں دیا۔

اسی دوران جیل سپرنٹینڈنٹ نے ایک ڈی ایس پی جس کا نام الطاف تھا کو فوکل پرسن مقرر کیا اور وہ صحافیوں کے نام لکھ کر لے گئے جس کے بعد صحافیوں کو کچھ یقین ہوچلا کہ چلیں اب تو اندر جاکر عدالتی کارروائی دیکھیں گے کیونکہ ضابطے کی کارروائی تو پوری کرنا قانونی تقاضا ہے۔

پھر کچھ اور وقت گزار تو فوکل پرسن ایک پرچی پر تین صحافیوں کے نام لکھ کر لے آئے اور کہا کہ ابھی صرف ان تین صحافیوں کو کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت دی گئی ہے جب اس فوکل پرسن سے صحافیوں نے پوچھا کہ ان تین صحافیوں کے نام کس نے فائنل کیے ہیں تو انھوں نے کہا کہ جیل حکام نے ان تین ناموں کی منطوری دی ہے۔

یہ تین صحافی جیل کے اندر چلے گئے۔ وہ کہتے ہیں ناں ’کہ دوست اگر فیل ہو جائے تو دکھ ہو تا ہے لیکن اگر وہ کوئی پوزیشن لے لے تو زیادہ دکھ ہوتا ہے۔‘

صحافیوں کے احتجاجمیں کچھ شدت آئی جس کے بعد فوکل پرسن دوبارہ جیل سے باہر آئے اور گیٹ کے باہر موجود جن صحافیوں کے نام لکھے تھے ان کے اداروں کے نام لکھ کر جیل کے اندر چلے گئے اور یوں وقت گزر گیا پھر نہ تو صحافی عدالتی کارروائی دیکھنے کے لیےاندر گئے اور نہ ہی فوکل پرسن نے جیل کے باہر آنے کی زحمت گنوارہ کی۔

BBCجیل کے اندر عدالتی کارروائی میں کیا ہوا؟

جن تین صحافیوں کو کمرہ عدالت میں لے جایا گیا ان میں مقامی صحافی رضوان قاضی بھی شامل تھے۔ انھوں نے کہا کہ جب وہ دیگر وہ صحافیوں کے ہمراہ کمرہِ عدالت کی طرف جارہے تھے تو اس مقدمے کے پراسیکوٹرز جن میں ذوالفقار نقوی اور راجہ ضوان عبواسی شامل تھے وہ کمرہ عدالت سے باہر آگئے اور انھوں نے ان تین صحافیوں کو بتایا کہ مقدمے کی سماعت چار دسمبر تک ملتوی کردی گئی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ عدالت کے جج بھی اٹھ کر جارہے تھے کہ صحافیوں کو دیکھ کر وہ رک گئے اور انھوں نے ملزمان (عمران خان اور شاہ محمود قریشی) کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ میڈیا کے سامنے کارروائی ہو تو میڈیا والے آگئے ہیں۔

مقامی صحافی رضوان قاضی کا کہنا تھا کہ عدالتی عملے کو بلا کر دوبارہ کارروائی شروع کی گئی لیکن اس عدالتی کارروائی میں اس مقدمے کے پراسیکوٹرز موجود ہی نہیں تھے۔

انھوں نے کہا کہ اسی عدالتی کارروائی میں کوئی عدالتی امور تو سرانجام نہیں دیے گئے البتہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے سائفر سے متعلق سیاسی بیان دے جس کے بعد عدالتی کارروائی ملتوی کردی گئی۔

ان تین صحافیوں میں ایک او مقامی صحافی بابر ملک نے بتایا کہ جب انھیں کمرہ عدالت میں لے جایا گیا تو انھوں نے جج کو بتایا کہ بڑی تعداد میں صحافی باہر موجود ہیں جس پر ان کے بقول سائفر مقدمے کی سماعت کرنے والے جج کا کہنا تھا کہ آئندہ سماعت پر ان کو بھی بلا لیں گے۔

انھوں نے کہا کہ کمرہِ عدالت میں کچھ افراد کو بھی بٹھایا ہوا تھا جنہیں گیٹ کے باہر کھڑے صحافیوں کی موجودگی میں جیل کے اندر جاتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان صحافیوں کے بیانات کی تصدیق ملزمان کے وکلا نے بھی کی جو اس وقت کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

جن صحافیوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی تو انھوں نے پروگرام بنایا کہ مذکورہ جج جب سماعت کے بعد باہر نکلیں گے تو ان کی گاڑی روک کر احتجاج کیا جائے گا۔ اس کی اطلاع ملنے پر پولیس کی اضافی نفری اس گیٹ پر تعینات کردی گئی جس گیٹ سے سائفر مقدمے کی سماعت کرنے والے جج جیل کے اندر گئے تھے۔ وہاں پر موجود سکیورٹی میں اضافہ کردیا بعدازاں سکیورٹی سٹاف کے صحافیوں کو بتایا کہ اس جیل کے پانچ گیٹ ہیں اور جج کسی بھی گیٹ سے باہر جاسکتے ہیں جس کے بعد صحافیوں کا احتجاج کرنے کا پلان ماند پڑ گیا۔

سائفر مقدمے کی سماعت کرنے والے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے سنیچر کو ہونے والی عدالتی کارروائی کے بارے میں جو حکم نامہ جاری کیا ہے اس کی پہلی دو لائنوں میں لکھا ہوا ہے کہ اس عدالتی کارروائی کو دیکھنے کے لیے میڈیا اور عوام موجود تھی جن کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 352 کی تکمیل ہوگئی ہے۔ ضابطہ فوجداری کا قانون کسی بھی مقدمے کے اوپن ٹرائیل سے متعلق ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More