Leire Ventasکلارا فراگاسو 18 سال سے ٹرک ڈرائیونگ کا کام کر رہی ہیں
دنیا میں صرف تین فیصد ٹرک ڈرائیورز خواتین ہیں، اس کے باوجود کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ٹرک چلانے میں کم خطرہ ہوتا ہے۔
لیکن میکسیکو میں صنفی بنیاد پر تشدد اور مسلح ڈکیتیاں عام ہیں جس کی وجہ سے خواتین اس قسم کی ملازمت سے دور رہتی ہیں۔ بی بی سی 100 ویمن نے ٹرک چلانے والی چند خواتین کے ساتھ ملک کی کچھ سب سے زیادہ خطرناک سڑکوں پر سفر کیا۔
ایک مصروف شاہراہ سے تھوڑی ہی دوری پر جھاڑیوں میں لیٹی کلارا فراگوسو یہ سوچ رہی تھیں کہ ’اب وہ تین گولیاں چلائیں گے اور مجھے اس کمبل میں لپیٹ کر چھوڑ دیں گے اور کوئی مجھے ڈھونڈ نہیں سکے گا۔‘
آدھی رات کا وقت تھا۔ اس وقت تک انھیں اپنی منزل تک پہنچ جانا چاہیے تھا۔ وہ چند گھنٹے قبل تک خلیج میکسیکو کے ساحل پر واقع تکس پن شہر جا رہی تھیں۔ اب وہ مجبوراً اپنے ٹرک سے باہر تھیں اور ایک شخص ان پر بندوق تانے ہوئے تھا۔
ایک گاڑی ان کے پیچھے آئی اور اس نے ہیڈ لائٹس کی مدد سے انھیں ٹرک روکنے کا اشارہ کیا۔ کلارا نے ایسا ہی کیا کیونکہ وہ گاڑی پولیس کی لگ رہی تھی۔ لیکن حقیقت میں یہ پولیس نہیں تھی۔
منھ چھپائے مرد گاڑی سے نکلے اور ٹرک کی تلاشی کرتے ہوئے انھوں نے کلارا کو ایک کمبل میں لپٹ کر جھاڑیوں میں جانے کا حکم دیا۔
57 سال کی کلارا فراگوسو کہتی ہیں کہ ’میں پہلے ہی دنیا کو الوداع کہہ چکی تھی۔‘
Álvaro Álvarezکلارا تکس پن شہر جا رہی تھیں جب انھیں بندوق کی نوک پر گاڑی سے اتار لیا گیا تھا
لیکن اس کے بعد کی گفتگو نے پوری صورتحال کا رُخ تبدیل کر دیا۔
انھوں نے بتایا کہ ’بندوق اٹھائے شخص نے مجھ سے میری عمر پوچھی، میری اور اس کی ماں کی عمر ایک جتنی تھی۔ اس نے پوچھا تم نے ٹرک چلانا کیسے شروع کیا؟‘
کلارا نے اس شخص کو بتایا کہ 17 سال کی عمر میں ان کی ایسے شخص سے شادی ہوئی جو ان پر تشدد کرتا تھا۔ انھیں اپنے خاوند کو چھوڑنے میں 15 سال لگ گئے۔ پھر وہ اپنے بچوں سمیت امریکہ-میکسیکو سرحد کے قریب ایک شہر میں منتقل ہو گئیں۔ ان کی بہن بھی اس شہر میں رہتی تھیں۔
لیکن از سر نو زندگی شروع کرنا آسان نہیں تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ویٹر کا کام کرتی تھیں اور ہفتے میں 50 ڈالر سے بھی کم پیسے کماتی تھیں اور ان پیسوں سے بچوں کا کھانا پینا ہمیشہ پورا نہیں ہوتا تھا۔ ایک دن جب انھوں نے گاہگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ ٹرک چلا کر بہت پیسے کما لیتے ہیں، ان کی باتیں سن کر کلارا نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی یہ کام کر کے دیکھیں گی۔
18 سال پہلے وہ ’ٹریلیرا‘ بنی، میکسیکو میں ٹرک چلانے والی خواتین کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ یہ ان کے لیے ایک بہتر زندگی کا ٹکٹ تھا۔
ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ اس کام میں خطرات بھی ہیں، انھی میں سے ایک کی وجہ سے وہ اس وقت بندوق کی نوک پر زمین پر لیٹی ہوئی ہیں۔
Álvaro Álvarez
بندوق اٹھائے نوجوان بے رحم نہیں تھا۔
وہ بتاتی ہیں ’اس نے مجھے بتایا کہ اس کا باپ اس کی ماں پر تشدد کرتا تھا اور اُس نے اپنے گھر والوں کو چھوڑ دیا اور وہ یہ اپنی والدہ کی مدد کرنے کے لیے کر رہا تھا۔ کسی طرح ہم ایک دوسرے کو سمجھ نے لگے۔۔۔ ہم نے کئی گھنٹے گفتگو کی، میں اسے رضامند کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ وہ جرم چھوڑ دے اور اپنے آپ کو سنبھالے۔‘
آخر کار اس نوجوان نے انھیں چھوڑ دیا لیکن اس کے گینگ نے ٹرک اور اس کا سامان چوری کر لیا۔
وہ کہتی ہیں ’ہم ٹرک ڈرائیور ہمیشہ یہ کہتے ہیں، جن ’چوہوں‘ کا ہم سامنا کرتے ہیں ان میں سے کچھ اچھے ہوتے اور کچھ برے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ میرا سامنا ہمیشہ اچھے چوہوں سے ہوا ہے۔‘
BBC
میکسیکو کے پانچ لاکھ ٹرک ڈرائیوروں میں سے صرف دو فیصد خواتین ڈرائیورز ہیں۔ بہت سے دیگر ممالک میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ انٹرنیشنل روڈ ٹرانسپورٹ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ ’تمام خطوں میں تین فیصد سے کم ٹرک ڈرائیورز خواتین ہیں‘ لیکن چین اور امریکہ وہ واحد ملک ہیں جہاں بالترتیب پانچ اور آٹھ فیصد ٹرک ڈرائیورز خواتین ہیں۔
جبکہ اس صنعت میں ملازمین کی کمی ہے۔
اس وجہ سے کلارا اور ان کی ساتھیوں کا ماننا ہے کہ وہ خواتین کی جگہ بنا کر اس میں تبدیلی لا سکتی ہیں۔
لِزٹ ہائیڈ گونزالیز کو ان کے دوست لیٹزی بلاتے ہیں۔ شاید ان کے درمیان اس موضوع پر لیٹزی کی سب سے بلند آواز ہے۔
Leire Ventasلوگ اکثر لیٹزی کو کہتے تھے یہ خاتون کا کام نہیں ہے
اس شعبے میں بہت ساری دیگر خواتین کی طرح وہ بھی گھریلو تشدد کی متاثرہ ہیں اور ہمیشہ سے ڈرائیور نہیں بننا چاہتی تھیں۔
45 سالہ لیٹزی اپنے سرخ ٹرک میں جاتے ہوئے ہنستے بتاتی ہیں ’ٹرک ڈرائیور بننا میرا خواب نہیں تھا۔ مجھے یہ اپنے مالی مشکلات کے حل کے طور پر نظر آیا۔ میرا خواب تو یہ تھا کہ میں روڈ پر سرخ کنورٹیبل چلاؤں گی اور ہوا میرے بالوں کو اڑا رہے ہوں گے۔ کم از کم میں اب سرخ ٹرک چلاتی ہوں۔‘
اگر وہ رات ہونے سے پہلے اپنے شہر کوارتارو سے نوئوو لاریدو پہنچنا چاہتی ہیں تو انھیں ابھی اپنا سفر شروع کرنا ہو گا۔
یہ مرکزی لینڈ پورٹ ہے جہاں سے مال میکسیکوں سے امریکہ جاتا ہے۔ اس مال میں گاڑی کے پارٹس سے لے کر کپڑے اور ایواکاڈو سمیت مختلف مصنوعات ہوتی ہیں۔ ہر روز یہاں 800 ملین ڈالر کا کاروبار ہوتا ہے۔
وہاں تک پہنچنے کے لیے انھیں ایک ہزار کلومیٹر کا سفر کرنا ہوگا اور سفر کے ایک حصے میں انھیں بغیر رکے تین گھنٹوں کے لیے ٹرک چلاتے رہنا ہو گا۔مونترئی شہر سے شمال کی طرف جاتے ہوئے اس حصے کو ’موت کی شاہراہ‘ یا ’برمودا ٹرائی اینگل‘ کہا جاتا ہے۔ یہ میکسیکو کی سب سے خطرناک شاہراؤں میں سے ایک ہے جسے ملک کے طاقتور ڈرگ کارٹیل کنٹرول کرتے ہیں۔
Leire Ventasلیٹزی طلوع آفتاب سے اپنا کام شروع کرتی ہیں
لیٹزی کہتی ہیں ’انھیں معلوم ہوتا ہے میں کون ہوں اور کہاں ہوں اور کیا لے کر جا رہی ہوں۔ ان کے پاس کسی بھی ریاست سے بہتر آلات ہیں۔‘
ڈرائیوروں اور سکیورٹی کے ماہرین نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس کی چوکیاں اور گشت کرتے ہوئے دستے ہیں لیکن یہ کوئی گیرنٹی نہیں ہے کہ آپ محفوظ رہیں گے۔
کلارا کی طری الیٹزی کو بھی منہ چھپائے مردوں نے روک کر ٹرک سے اتارا اور اس کی تلاشی لی۔ لیکن انھوں نے کچھ نہیں لیا۔
وہ کہتی ہیں ’مجھے کبھی یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کیا ڈھونڈ رہے تھے۔‘
’مجھے چھوڑنے سے پہلے وہ میرے اوپر چلاتے ہوئے بولے ’ڈرائیو کرتے ہوئے نکل جاؤں، سڑک پر پہنچنے سے پہلے لائٹس مت چلانا اور آگے آنے والے پولیس اہلکار کو متنبہ نہ کرنا۔ اس نے پہلے سے پیسے لیے ہوئے ہیں۔‘
Leire Ventasلیٹزی کی بیٹی لوئزہ اپنی والدہ کی تعریف کرتی ہیں لیکن وہ ان کے نقش قدم پر نہیں چلنا چاہتیںBBCبڑی شاہراہوں پر ڈکیتیاں جنوری اور ستمبر 2023 کے درمیا میکسیکو میں 7028 ٹرکوں کی چوریاں ہوئیں، جو کہ سال 2022 کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ ہیںنیشنل پبلک سکیورٹی سسٹم کے ایگزیکیٹیو سکریٹیریٹ کے مطابق ان میں سے 6030 ڈکیتیاں پرتشدد تھیں۔ریاست میکسیکو، پوئبلا، میشواکان، سان لوئیس پوتوسی اور جالیسکو وہ پانچ ریاستیں ہیں جہاں کارگو کے سامان کی سب سے زیادہ ڈکیتیاں ہوتی ہیں۔BBC
میکسیکو کی نیشنل اسوسی ایشن کے مطابق ہر سال کارگو کی چوری کی وجہ سے 137 ملین ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے جبکہ کاروباری مالکان کا تخمینہ اس سے کئی زیادہ ہے۔
کلارا سوپر ٹرانسپورٹ انٹرنیشنل کے لیے کام کرتی ہیں جن کے مطابق ہر سال ان کے ٹرکوں میں سے 12 فیصد کو ڈکیت نشانہ بناتے ہیں۔
Leire Ventasلیٹزی کہتی ہیں بطور ٹرک ڈرائیور ’پدرشیاہی ماحول میں آپ کو شارکس کے درمیان تیرنا سیکھنا پڑتا ہے۔‘
ان واقعات سے جانی نقصان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
لیٹزی کے باس برنابی ورگاس 30 سال سے یہ کاروبار کر رہے ہیں وہ کہتے ہیں ’ہر روز ہم پرتشدد اور بے ایمان حملہ آوروں کو سامنا کرنے کی دہشت میں مبتلا ہوتے ہیں، جنھوں نے ماضی میں ڈرائیوروں کو غائب کیا ہے۔‘
’اور یہ بہت بڑا خوف ہے کیونکہ ٹرکوں کی انشورنس ہوتی ہے لیکن اسے چلانے والے۔۔۔ وہ گھر والوں جیسے ہوتے ہیں۔‘
Leire Ventasمیکسیکو کی نیشنل اسوسی ایشن کے مطابق ہر سال کارگو کی چوری کی وجہ سے 137 ملین ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے
کچھ چوری کیے جانے والا مال بلیک مارکیٹ میں بچا جاتا ہے۔ دیگر جرائم پیشہ گروہ ٹرکوں کو روک کر ان کا فیول چوری کر لیتے ہیں یا پھر راستے میں مزید ’مشکلات‘ سے بچنے کے لیے رشوت مانگتے ہیں۔
یونیورسٹی آف كواہويلا میں پبلک ہیلتھ اور آرگنائزڈ کرائم پر تحقیق کرنے والے وکرٹر سانچیز کہتے ہیں کہ ’کچھ خطوں میں علاقے کو کنٹرول کرنے والی جرائم کی تنظیم کو پیسے دینے ہوتے ہیں۔‘
ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے اپنے ٹرکوں میں ٹریکر لگائے ہوتے ہیں اور وٹس ایپ گروپس بھی بنائے ہوتے ہیں جہاں اگر کوئی واقعے ہوتا ہے تو فوراً اطلاع دے دی جاتی ہے۔
لیکن ان کا کہنا ہے کہ سرکوں کی مانیٹیرنگ اور ان کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری نیشنل گارڈ کی ہے۔
موجودہ حکومت نے سال 2019 میں نیشنل گاڑڈ کی تشکیل کی جنھوں نے وقاقی پولیس سے یہ ذمہ داری لی۔ مئی 2022 میں صدر اینڈریس مینوئل لوپیز اوبراڈور نے بتایا کہ اس میں ایک لاک سے زیادہ اہلکار ہیں۔
انھوں نے اعلان کیا ’نیشنل گارڈ تمام سڑکوں پر ہے تاکہ کوئی جرم نہ ہو۔‘
Leire Ventasاس کے باوجود کہ خطرہ زیادہ ہوتا ہے خواتین ڈرائیورز اکٹر رات کو سفر کرتی ہیں
ستمبر میں نیشنل گارڈز نے ریاست پوئبلا اور ویراکروز کو جوڑنے والی شاہراہ پر ڈرونز کی مدد سے آپریشن کیا۔ اس جگہ پر بہت زیادہ ڈکیتیاں ہوتی ہیں۔
کلارا کہتی ہیں ’شرم کی بات ہے جو کچھ وہاں ہوتا ہے۔‘
BBC
کلارا اور اور ان کی ساتھیوں کو اس کے علاوہ بھی مسائل ہیں۔
مثال کے طور پر بہت وسائل والے علاقوں میں نہانے کی عدم سہولیات۔ لیٹزی کو اپنے کیبن میں ہی تیار ہونے کی عادت ہو گئی ہے۔
وہ بالٹی اور کپ کا استعمال کر کے اپنے بال دھو لیتی ہیں۔ وہ انتہائی محتاط طریقے سے ڈرائیور سیٹ کے پیچھےفولڈنگ بیڈ والی چھوٹی سی جگہ پر یہ کام کرتی ہیں تاکہ پانی وہاں گر نہ جائے۔
Leire Ventasلیٹزی کو کیبن میں تیار ہونے کی عادت ہو گئی ہے
اس کے علاوہ ہر وقت ہراسانی کا ڈر رہتا ہے۔
کلارا ایک طریقہ بتاتی ہیں جو وہ اور ان کی ساتھی ڈرائیورز سفر کے دوران استعمال کرتی ہیں ’ایسے وقت بھی آئے ہیں جب میں ساتھ والے مسافر کے دروازے سے ٹرک سے نکلتی تھی تاکہ ایسا لگے کہ میں ٹرک ڈرائیور کی بیوی ہوں اور وہ کیبن میں ہے۔‘
لیٹزی کہتی ہیں ’پدرشاہی ماحول میں آپ کو شارکس کے درمیان تیرنا سیکھنا پڑتا ہے۔‘
’ان کا احترام کریں تاکہ وہ بھی آپ کا احترام کریں لیکن بہادر بھی بنیں اور کہہ دیں ’یہ میری ریڈ لائن ہے۔ اسے عبور کرنے کا سوچنا بھی مت۔‘
Leire Ventasلیٹزی ہمیشہ کومیڈور لوپیتا پر کھانا کھانے اور اس کے مالک کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے رکتی ہیں
انھیں ایسے ساتھیوں کا پتا ہے جنھیں ریپ کیا گیا۔ انھوں نے بتایا ایک دفعہ یونین لیڈر کے ساتھ سونے سے انکار کرنے پر انھیں نوکری سے نکال دیا گیا۔ یہ واحد واقعہ نہیں ہے جب مردوں نے ان کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے پر دباؤ ڈالا۔
دونوں خواتین سوشل میڈیا کا بہت استعمال کرتی ہیں اور وہ ایک خاتوں ٹرک ڈرائیور کی روزمرہ زندگی کے متعلق پوسٹس شیئر کرتی رہتی ہیں۔ وہ کاروبار میں خواتین کے متعلق دقیانوسی خیالات کا مقابلہ کرتی ہیں۔ لیٹزی کے فیس بک پیچ ’ٹرکرز لیڈیز‘ کے 65000 فالورز ہیں جبکہ کلارا کے فیس بک، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر کل ملا کر 162000 فالورز ہیں۔
وہ اس وجہ سے بھی کثرت سے پوسٹ کرتی ہیں تاکہ ان کے اہل خانہ کو ان کی خیریت کے بارے میں معلوم ہوتا رہے۔ اور ٹرک ڈرائیونگ میں دلچسپی رکھنے والی خواتین بھی ان سے رابطہ کرتی ہیں۔
نئے لوگوں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرنے کو کلارا نے اپنا مشن بنا لیا ہے۔ وہ فخر سے بتاتی ہیں کہ کیسے وہ گذشتہ آٹھ سالوں میں خواتین ٹرک ڈرائیوروں کی نئی نسل کی ٹریننگ کر رہی ہیں۔
Álvaro Álvarezمارتھا پیٹریسیا ٹریجو نے حال ہی میں ٹرک ڈرائیونگ کی ملازمت کا آغاز کیا ہے
وہ انھیں متنبہ کرتی ہیں کہ بہت زیادہ ڈرائیورز یہ مشورہ دیتے ہیں کہ لمبے دنوں کے لیے منشیات لینی چاہیے لیکن وہ ایسا نہ کریں۔
کلارا کہتی ہیں ٹرانسپورٹ کی صنعت میں ’بہت سے مسائل ہیں جن پر بات نہیں کی جاتی۔‘
’اور جب تک ہم بری عادتوں پر بات نہیں کریں گے وہ کبھی تبدیل نہیں ہوں گی۔‘
ان کو اس بات کا یقین ہے کہ زیادہ خواتین کا اس پیشے میں آنے سے موجودہ لیبر کی کمی کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے اور اس سے صنعت میں اندر سے تبدیلی آنے میں مدد ہو سکتی ہے۔
لیٹزی بھی چاہتی ہیں کہ وہ اپنے تجربات سے سیکھے گئے سبق اپنے سے جونیئر ساتھیوں کو بتائیں لیکن ان کی چھوٹی کمپنی میں ایسے مواقع موجود نہیں ہیں۔ ابھی وہ سوشل میڈیا کے ذریعے خواتین کو مشورے دے رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’مجھے کوچ کرنا اچھا لگے گا۔‘
’میں ایک بیوی رہ چکی ہوں، میں نے اپنے بچے پالے ہیں، میں نے بہت کچھ کیا ہے۔ اب میں خواب بنا رہی ہوں۔‘
وہ اپنے کیبن میں بیٹھتی ہیں اور اپنے سرخ ٹرک کو پارکنگ سے نکال کر ’موت کی شاہراہ‘ سے امریکی بارڈر تک جانے کی تیاری کر رہی ہیں۔ یہ ایک ’ٹریلیرا‘ کی روز مرہ کی زندگی کا ایک اور دن ہے۔