وادی کیلاش کے قریب سرحد پر طالبان کا حملہ: ’ہم ہلنے کی کوشش کرتے تو گولیاں کان کے قریب سے گزرتیں‘

بی بی سی اردو  |  Oct 09, 2023

BBCمائیکل تقریبا اڑتالیس گھنٹے تک طالبان اور سکیورٹی فورسز کے درمیان لڑائی کے دوران ایک پتھر کی آڑ میں چھپے رہے تھے

’سب یہی کہہ رہے تھے کہ یہ تو ہمیں یہاں ختم کرنے آئے ہیں۔ یہ ہمیں مار دیں گے کیونکہ ہم مسلمان نہیں ہیں، یا ہم سے زبردستی مذہب تبدیل کروا دیں گے۔ ہم یہی سوچ رہے تھے کہ اگر طالبان آ گئے تو ہمارا کیا بنے گا۔‘

یہ کہنا تھا ایک کیلاشی خاتون شاعرہ کا جو اپنے علاقے میں طالبان کے حملے کے بعد خوف کا شکار ہونے والی کیلاشی کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔

گذشتہ ماہ چھ ستمبر کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر جھڑپیں ہوئیں جن میں پاکستان کے پانچ سکیورٹی اہلکار اور پاکستانی حکام کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کے کم از کم 20 شدت پسند ہلاک ہوئے۔ یہ جھڑپیں اس وقت ہوئیں جب تحریک طالبان پاکستان کے تقریبا 200 کے قریب شدت پسندوں نے چترال کی وادی کیلاش میں نسبتاً غیر محفوظ سرحد پر حملہ کیا۔

حملے کے بعد اس علاقے خصوصاً کیلاش کی وادی میں خوف و ہراس پھیلا اور اب بھی کیلاش کمیونٹی یہ سوال کر رہی ہے کہ ان کا مستقبل اس حملے کے بعد کتنا محفوظ ہے؟

’اصل حملہ کیلاشیوں کے لیے تھا‘ BBCشاعرہ چھ ستمبر کو بیشالی سے باہر نکلیں اور گھر روانہ ہوئیں تو ہر طرف خاموشی چھائی تھی

اس واقعے کے بعد وادی کیلاش میں بنی تینوں ’بیشالی‘ میں بھی سکیورٹی بڑھا دی گئی تھی۔ بیشالی وہ مقامات ہیں جہاں کیلاشی روایات کے مطابق خواتین ماہواری اور زچگی کے دوران رہتی ہیں۔

بمبوریت سے تعلق رکھنے والی ’شاعرہ‘ کو اُس وقت حیرانی ہوئی جب وہ بیشالی پہنچیں اور دیکھا کہ ایک کی بجائے دو اہلکار وقت سے پہلے ہی ڈیوٹی پر آ چکے تھے۔ انھوں نے ایک اہلکار سے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا کہ ’حملے کا خطرہ‘ ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہاں تو اکثر طالبان آتے ہیں، ہمارے مال مویشی چراتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں۔ 2016 میں جب وہ آئے تو انھوں نے ہمارے دو کیلاشی چرواہوں کو قتل بھی کیا تھا۔ اس لیے بیشالی میں موجود لڑکیوں نے یہی سوچا کہ اس بار بھی یہی ہو گا اور پھر ہم نے اس طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔‘

شاعرہ چھ ستمبر کو بیشالی سے باہر نکلیں اور گھر روانہ ہوئیں تو ہر طرف خاموشی چھائی تھی۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’پوری وادی ایسے سنسان تھی جیسے یہاں میرے علاوہ اور کوئی موجود ہی نہیں۔ مکمل خاموشی تھی۔ کورونا وائرس کے دنوں جب لاک ڈاون ہوا، تب بھی اس قدر ویرانی نہیں تھی۔ جنگ کا سا ماحول تھا۔ ہیلی کاپٹر اور ڈرون اڑ رہے تھے۔ سینکڑوں سکیورٹی اہلکار اور فوجی یہاں پہنچ چکے تھے۔ کوئی گھر سے باہر نہیں نکل رہا تھا۔ ہم سب خوفزدہ تھے۔ شام سات بجے کے بعد تمام لائٹس آف کرنے کا کہا گیا تھا۔ بہت عجیب ماحول تھا۔‘

وادی میں شاعرہ سمیت بسنے والے سینکڑوں خاندانوں کی پریشانی کاروبار کا رکنا، سیاحت کا بند ہونا اور طالبان اور فوج کے درمیان لڑائی تک محدود نہیں تھی۔ انھیں بڑا خطرہ تھا جس نے کیلاشی کمیونٹی کی نیندیں اڑا دیں تھیں۔

شاعرہ بتاتی ہیں کہ حملے کے دن مقامی کمیونٹی میں یہی کہا جا رہا تھا کہ طالبان کا حملہ ’ہم کیلاشیوں کے لیے ہے۔‘

وہ رات شاعرہ سمیت کیلاش کے کئی خاندانوں کی یہی سوچتے گزری کہ اگلی صبح یہاں سے نکلا جائے یا نہیں۔ اس دوران وادی کے راستے بند کر دیے گئے تھے اور لوگوں کی آمدو رفت پر پابندی لگ گئی تھی۔ کیلاش کرفیو کی زد میں تھا اور یہاں سے نکلنے کے آپشنز بہت محدود تھے۔

’ہم سوچتے تھے کہ سامان پیک کریں اور یہاں سے چلے جائیں۔ پھر یہ بھی سوچتے کہ کیلاش سے نکل کر ہم کہاں جائیں گے؟ ہمارے پاس وسائل ہیں نہ ہی ایسی کوئی پناہ گاہ جہاں کچھ دن گزار سکیں۔ پھر یہی فیصلہ کرتے کہ بس اب جیئں یا مریں، یہیں رہیں گے۔‘

وادی میں یہ صورتحال اگلے دو دن تک جاری رہی۔ لوگ گھروں میں قید تھے، دکانیں، ہوٹل اور کاروبار بند تھے اور مال مویشی چراگاہوں میں لے جانا ناممکن تھا۔

شاعرہ کہتی ہیں ’ہم کیلاشی خواتین گھروں میں بال نہیں بنا سکتیں کیونکہ یہ ہماری روایات کے خلاف ہے۔ اس لیے ہم ہر روز بال بنانے ندی کے پاس جاتی ہیں۔ مگر وہ تین دن ہم باہر نہیں جا سکے۔ تیسرے دن میں نے سوچا کہ باہر جاتی ہوں۔ جب میں ندی کے پاس گئی تو میں اکیلی تھی۔ پورا گاؤں خاموش تھا جیسے یہاں کوئی رہتا ہی نہیں۔ یہ خوفزدہ کر دینے والی ویرانی تھی۔‘

یہ سب شروع کیسے ہوا؟

جس مقام پر حملہ ہوا وہ مقامی چرواہوں کی وہ گزرگاہ ہے جس کے ذریعے وہ سرحد کے قریب بلندی پر واقع چراگاہوں میں اپنے مویشی چرانے کے لیے لے جاتے ہیں۔ سکیورٹی حکام کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کے شدت پسند اس راستے سے کم از کم چار کلومیٹر تک پاکستان کی سرحد میں داخل ہوئے تھے۔

حملے کے وقت کئی چرواہے وہاں موجود تھے۔ انھوں نے اس حملے سے چند گھنٹے پہلے اس وقت اپنے سفر کا آغاز کیا تھا جب اس علاقے کو ’محفوظ‘ قرار دے دیا گیا تھا۔

بی بی سی نے انہی میں سے ایک مائیکل (فرضی نام) سمیت دیگر افراد سے بات کی اور یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ اس ایک ہفتے میں چترال کے اس سرحدی مقام پر کیا ہوا، طالبان کیسے یہاں داخل ہوئے اور اب وہاں کیا صورتحال ہے؟

مائیکل تقریبا 48 گھنٹے تک طالبان اور سکیورٹی فورسز کے درمیان لڑائی کے دوران ایک محفوظ مقام کی آڑ میں چھپے رہے تھے۔ جبکہ ایف سی سے تعلق رکھنے والے سپیشل آپریشنز کمپنی کے شیرمحمد خان بھی اسی چوکی پر تعینات تھے۔

چھ ستمبر کی صبح کے چار بج چکے تھے اور اپنے مویشیوں کے باڑے سے کچھ فاصلے پر مائیکل (فرضی نام) سونے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ رات بھر اس لیے جاگتے رہے کہ انھیں افغانستان سے طالبان جنگجوؤں کی آمد کا خوف تھا۔

مائیکل کیلاشی ہیں اور وہ تین روز پہلے تین ستمبر کو اس چراگاہ کے قریب پہنچے تھے جہاں ان کے والد اور چچا پہلے ہی موجود تھے۔

ان کے قریب ہی فوجی چوکی تھی اور یہاں سے تقریبا چھ کلومیٹر کے فاصلے پر پاکستان اور افغانستان کی سرحد ہے۔ اس سرحدکی دوسری جانب افغانستان کے تین صوبے نورستان، بدخشاں اور کنڑ پاکستان کی تحصیل چترال سے متصل ہیں۔ دو دن پہلے ہیوہاں بیس کی بجائے فوجی دستوں کی تعداد بڑھا کر چالیس کر دی گئی تھی اور اب ان کے ساتھ ایک میجر رینک کا افسر بھی موجود تھا۔

BBCشیرمحمد خان اس حملے میں مارے گئے تھے’حملے کی انٹیلیجنس اطلاع تھی‘

پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے پاس یہ انٹیلجنس انفارمیشن پہنچ چکی تھی کہ سرحد پر لوگ جمع ہو رہے ہیں۔

ان میں بعض ایسی تصاویر بھی شامل ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مبینہ طور پر ٹی ٹی پی کے متعدد اہلکار افغان سائیڈ پر بنی پوسٹس میں اکٹھے ہو رہے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بعض فوجی افسران نے یہ بھی تصدیق کی ہے کہ پاکستان کم از کم دس روز پہلے ایسی فون کالز انٹرسیپٹ کر چکا تھا جن میں ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے افراد سرحدی علاقوں میں پیش قدمی کی منصوبہ بندی کرتے سنے جا سکتے تھے۔

انٹیلیجنس معلومات ملنے کے بعد پشاور کور سے سپیشل آپریشنز کمپنی یعنی ایس او سی کے اہلکاروں کو کیلاش بھیجا گیا۔

خصوصی تربیت یافتہ ان اہلکاروں نے یہاں سرچ آپریشن کرنا تھا۔ ان اہلکاروں میں ایف سی کے شیر محمد خان بھی شامل تھے۔ وہ اس سے پہلے خیبرپختونخواہ میں سوات اور وزیرستان میں حال ہی میں شدت پسندوں کے خلاف بعض آپریشنز کا حصہ رہے تھے۔

جب وہ کیلاش کے راستے میں تھے تبھی انھوں نے اپنی والدہ کو فون پر اطلاع دی تھی کہ وہ کیلاش کی جانب جا رہے ہیں جہاں ’حالات ٹھیک نہیں ہیں۔‘

کیلاش پہنچتے ہی انھوں نے وادی سے سرچ آپریشن کا آغاز کیا اور غالبا تین ستمبر کو وہ سرحد سے چھ کلومیٹر فاصلے پر واقع ایف سی کی چوکی پر پہنچ چکے تھے۔ ان سے پہلے یہاں چترال سکاؤٹس کے اہلکار تعینات تھے۔

دوسری طرف مائیکل کیلاش میں اپنے گاؤں بمبوریت میں ایسی خبریں سن آئے تھے کہ طالبان کا حملہ ہو سکتا ہے۔ گاؤں کے لوگوں کو وہاں ڈیوٹی پر تعینات افسر نے یہ بھی سمجھا دیا تھا کہ کیسے حملے میں پھنسنے کی صورت میں وہ دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر سکیورٹی فورسز کی طرف آئیں تو ان پر گولی نہیں چلائی جائے گی۔

جب مائیکل سرحد سے چھ کلومیٹر فاصلے پر بنی اسی چیک پوسٹ کے قریب پہنچے جہاں ایف سی کے شیرمحمد خان تعینات تھے، تو ان سمیت بعض دیگر لوگوں سے اہلکاروں نے پوچھا کہ اوپر چراگاہوں میں کیا صورتحال ہے۔ اس طرح مزید تین دن گزر گئے۔

لیکن تیسرے روز سرحد پر بنی ایف سی کی چوکی پر صورتحال مختلف ہو رہی تھی۔ یہاں ڈیوٹی پر تعینات اہلکاروں نے ایک طرف ان چرواہوں سے معلومات حاصل کیں جو چراگاہوں سے واپس آ رہے تھے۔ جبکہ انھیں چراگاہ کی جانب جانے سے روک دیا گیا جو اپنی بھیڑ بکریوں کے ہمراہ وادی سے کئی گھنٹے چلنے کے بعد وہاں پہنچے تھے۔ مائیکل انہی چرواہوں میں شامل تھے۔

وہ بتاتے ہیں ’سکیورٹی اہلکاروں کو ایک چرواہے نے بتایا کہ اس نے کم از کم بیس لوگوں کو اسلحے کے ہمراہ دیکھا ہے جو اس علاقے سے تعلق نہیں رکھتے۔ لیکن باقیوں نے بتایا کہ انھوں نے کوئی شخص نہیں دیکھا۔ اس کے بعد اہلکاروں کے افسر نے کہا کہ وہ خود اب چراگاہ کی طرف جائیں گے۔ مگر انھیں مقامی افراد نے مشورہ دیا کہ وہ نہ جائیں۔ اور وہیں موجود چرواہوں سے معلومات حاصل کریں ہمیں وہیں چیک پوسٹ کے پاس انتظار کرنے کا بولا کہ ابھی آگے حالات ٹھیک نہیں۔ رات وہیں چیک پوسٹ کے قریب گزاری اور ایک چرواہا آگے چلا گیا تاکہ وہاں کی صورتحال دیکھ سکے۔‘

مائیکل اور ان کے دوست اور والد نے وہ رات وہیں چیک پوسٹ کے قریب گزاری تھی۔ اگلے دن صبح چرواہا واپس آیا اور بتایا کہ چراگاہوں میں صورتحال نارمل ہے اور طاہبان موجود نہیں ہیں۔ یوں مائیکل اور ان کے ساتھیوں کو مال مویشی چراگاہ میں لے جانے کی اجازت مل گئی۔

ماہیکل بتاتے ہیں کہ جب انھوں نے اپنا سفر شروع کیا تو ان کے ہمراہ ان کے ایک دوست، والد اور چچا شامل تھے۔ یہ سہ پہر کا وقت تھا اور کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ اس مقام پر پہنچے جہاں ان کی بھیڑ بکریوں کے ایک چھوٹی سی چار دیواری جسے باڑہ کہا جاتا ہے، بنا تھا۔ مائیکل نے وہیں رات گزارنے کا فیصلہ کیا۔

’میرے والد اور چچا مویشیوں کے ہمراہ باڑے کے اندر ہی سو گئے۔ لیکن میں اور میرا دوست باہر تھے۔ اتنے میں مجھے محسوس ہوا کہ پہلے دو لوگ سامنے آئے۔ پھر تین اور آ گئے اور یہ کل سات لوگ تھے۔‘

BBC

مائیکل کے مطابق یہ حلیے سے مقامی افراد نہیں تھے اور یہ اسلحے سے لیس تھا۔ مائیکل نے اپنے ساتھ موجود دوست اور دیگر افراد کو جگایا اور وہیں موجود دیودار کے درختوں کے پیچھے چھپ گئے۔

وہ بتاتے ہیں کہ اتنے میں سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے ایک فائر ہوا۔

’ہر طرف دیودار کے درخت اور بڑے پتھر ہیں۔ اور ہر ایک کے پیچھے طالبان چھپے تھے۔ میرے خیال میں دو سو کے قریب ہوں گے۔ ہم نے ایک پتھر دیکھا اور میں اور میرا دوست اس پتھر کے پیچھے چھپ گئے۔ میرے والد اور چچا ایک اور پتھر کے پیچھے چھپے تھے.‘

وہ بتاتے ہیں کہ اس کے بعد فائرنگ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ ’ہم بہرے ہونے کے قریب تھے۔ ایک دو بار ہم نے ہلنے کی کوشش کی مگر جیسے ہی ہم ہلتے، سکیورٹی اہلکار ہمارے پتھر کی جانب فائر کرتے۔ انھیں تو نہیں پتا تھا کہ اس پتھر کے نیچے طالبان ہیں یا عام شہری۔ دو بار گولیاں ہمارے پاس گزر گئیں اور ہم بچ گئے۔ ہم طالبان اور سکیورٹی فورسز کے درمیان پھنسے ہوئے تھے۔‘

یہ عین اس وقت کی بات ہے جب ایف سی کے شیر محمد خان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ٹی ٹی پی کے شدت پسندوں کے حملے کی براہ راست زد میں آ چکے تھے۔ان کے ساتھی بتاتے ہیں کہ ’انھوں نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔‘

تاہم وہ خود بھی فائرنگ کی زد میں آ گئے۔ ان کے سر پر گولی لگی اور کچھ لمحے ہوش میں رہنے کے بعد وہ کومہ میں چلے گئے۔

’بس ڈرون کے آنے کی دیر تھی طالبان نے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا‘

دوسری طرف شاعرہ کی وادی سے کچھ کلومیٹر کے فاصلے پر فائرنگ میں وقفہ آ گیا تھا۔ لیکن مائیکل اور ان کے ساتھی ابھی تک اسی پتھر کے پیچھے تھے۔

’ہمیں یقین تھا کہ ہم نہیں بچ سکیں گے۔ اگر سکیورٹی فورسز کی گولیوں سے بچ گئے تو طالبان مار دیں گے۔ اور اگر ان دونوں کی گولیوں سے بچ بھی گئے تو تیسرے دن بھوک پیاس مار دے گی۔ جب کچھ گھنٹے فائرنگ نہ ہوئی تو میں نے ایک بار کوشش کی کہ پتھر کے نیچے سے نکلتا ہوں، مگر جیسے ہی میں نے حرکت کی، دوبارہ گولیاں لگیں۔ وہ گولیاں ہمارے سر پر موجود پتھر سے ٹکرائیں اور ہم بچ گئے۔ اس کا مطلب تھا کہ ہم فورسز کے نشانے پر تھے اور وہ ہمیں بھی طالبان سمجھ رہے تھے۔‘

لیکن ان کی خوش قسمتی تھی کہ تیسرا دن آنے سے پہلے ہی ان کی مشکل ختم ہو گئی۔ ’رات بارہ بجے کے بعد مجھے ہیلی کاپٹر کی آواز آئی۔ کچھ ہی دیر میں احساس ہوا کہ یہ ڈرون ہے۔ بس ڈرون کے آنے کی دیر تھی طالبان نے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔ جب وہ بھاگ رہے تھے تب بھی فائرنگ ہوئی۔ ہم نے صبح چھے بجے تک انتظارکیا اور جب تسلی ہو گئی کہ تمام طالبان چلے گئے ہیں اور سکیورٹی فورسز کی طرف سے بھی فائرنگ نہیں ہو رہی تو ہم پتھر کے نیچے سے باہر نکلے۔‘

مائیکل بتاتے ہیں کہ وہ دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر پتھر سے باہر نکلے اور چیک پوسٹ کی جانب چلنا شروع کیا۔

’ہم نے ہاتھ اٹھائےہوئے تھے جیسے اپنی گرفتاری دینے جا رہے ہوں۔ میرے ایک پاؤں میں جوتا تھا اور دوسرے میں نہیں تھا۔ دو دن مسلسل پتھر کے نیچے بیٹھے رہنے کی وجہ سے میرے بازو اور ٹانگیں کام نہیں کر رہی تھیں۔ میں دو بار لڑکھڑایا اور گر گیا۔ دوبارہ اٹھا اور فوجی چوکی کی طرف چلنا شروع کر دیا۔ شاید ایک کلومیٹر چلا تو مجھے احساس ہو گیا کہ اب میں محفوظ ہوں۔ اس کے بعد میرا ساتھی بھی باہر نکل آیا۔ ہم جب چوکی پر پہنچے تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ ہمیں بہت حیرت ہوئی کہ سکیورٹی اہلکار کہاں چلے گئے ہیں۔ مگر یہ چوکی تباہ ہو چکی تھی۔ جگہ جگہ خون بھی پڑا ہوا تھا۔‘

مائیکل نے وادی کی جانب بڑھنا شروع کیا اور کچھ فاصلے پر واقع دوسری ایف سی کی چیک پوسٹ پر پہنچے جو وادی کیلاش کی آبادی کی آخری حد پر ہے۔ یہاں انھیں تمام سکیورٹی اہلکار ملے۔

وہ کہتے ہیں ’ہم نے انھیں تمام صورتحال اور اپنی کہانی سنائی۔ میں نے انھیں کہا کہ ہم دو دن سے بھوکے پیاسے ہیں، تو اہلکاروں نے بتایا کہ انھوں نے بھی دو دن سے کچھ نہیں کھایا۔ ان میں سے کسی کے جوتے خون سے بھرے تھے اور کسی کے کپڑوں پر خون ہی خون تھا۔ وہاں پتا چلا کہ کچھ فوجی بھی مارے گئے ہیں۔‘

مائیکل نے اصرار کیا کہ انھیں واپس جانے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ اپنے والد اور چچا کی خبر لے سکیں جو ابھی تک کسی پتھر کے نیچے چھپے تھے مگر انھیں اجازت نہیں دی گئی۔ تاہم مائیکل کے والد اور چچا اگلے چند گھنٹوں میں زندہ سلامت وادی میں پہنچ چکے تھے۔

لیکن شیر محمد خان، مائیکل کی طرح خوش قسمت نہیں تھے۔ وہ چند دن پشاور کے فوجی ہسپتال میں زیر علاج رہے مگر ان کے سر کے زخم اتنے گہرے تھے کہ ان کی جان نہیں بچائی جا سکی۔ اور یوں وہ اس حملے میں ہلاک ہونے والے پانچویں سیکیورٹی اہلکار تھے۔

BBC کوہ ہندوکش کے دامن میں بسی اس کمیونٹی کی پہچان ایک الگ مذہب منفرد رسم و رواج اور طرزِ زندگی ہےکیلاش کمیونٹی کے لوگ کون ہیں ؟

واضح رہے کہ کیلاش چترال کی افغانستان کے سرحد پر واقع وادی ہے۔ یہاں کی خاص بات یہاں کیلاشی کمیونٹی کا آباد ہونا ہے۔ کوہ ہندوکش کے دامن میں بسی اس کمیونٹی کی پہچان ایک الگ مذہب منفرد رسم و رواج اور طرزِ زندگی ہے۔ کیلاش کے فیسٹیولز دنیا بھر میں مشہور ہیں۔

یہ اسلام سے تعلق نہیں رکھتے اور درجنوں روایات کا پابند اپنا مذہب رکھتے ہیں۔ کیلاشی ایک پرامن قوم کے طور پر جانے جاتے ہیں اور ان کا رقص اور لباس سیاحوں میں مشہور ہے۔

موسیقی اور روایتی رقص ان کی پہچان ہے۔ یہاں پیدائش کا موقع ہو یا کسی کیلاشی کی موت کا، یہ کمینوٹی جشن مناتی ہے۔

کیلاش کمیونٹی کی آبادی تقریبا چار ہزار ہے اور وہ یہاں تین دیہاتوں یعنی، بریر، رمبور اور بمبوریت میں مقیم ہیں۔ ان کے چیلنجز میں پہلے ہی زبردستی مذہب کی تبدیلی اور رسومات پر تنقید شامل ہے، طالبان حملے کے بعد خطرہ بڑھ گیا ہے۔

BBCوادی کیلاش میں سرحد پار سے یہ پہلا حملہ نہیں تھا

یہ وادی کیلاش میں افغان سرحد کے اندر سے پہلا حملہ نہیں ہے۔ اس سے قبل 2012 میں طالبان کے ایک بڑے حملے میں 30 سے زائد چترال سکاؤٹس اور ایف سی کے اہلکار جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

اسی طرح 2016 میں ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے چراگاہ پر حملہ کیا اور وہاں موجود دو کیلاشی نوجوانوں کو ہلاک کر دیا۔ وہ سینکڑوں بھیڑ بکریاں بھی ساتھ لے گئے۔

سرحد پار سے اکثر ایسے واقعات ہوتے ہیں جب کیلاشی اور دیگر کمیونٹیز کے چرواہوں کے مال مویشی چرائے جاتے ہیں۔ چوری کرنے والے یہ افراد اسلحے سے لیس ہوتے ہیں اور ان کا زیادہ تر نشانہ کیلاشی افراد ہی بنتے ہیں۔ تاہم یہ تصدیق نہیں ہو سکی کہ یہ مال مویشی چرانے والے افراد کا تعلق بھی ٹی ٹی پی یا کسی شدت پسند تنظیم سے ہے یا یہ نورستان کے مقامی جرائم پیشہ افراد ہیں۔

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں واقع چترال ڈسٹرکٹ افغانستان کی سرحد پر واقع ہے۔ اس کے علاوہ چترال کی سرحد واخان کوریڈور کے نام سے پہچانی جانے والی ایک انتہائی چھوٹی پٹی سے تاجکستان سے الگ ہے، جبکہ چین کا صوبہ شنکیانگ بھی قریب ہی واقع ہے۔ یہ سٹریٹجک پوزیشن چترال کی سرحد کو شدت پسند تنظیموں کے لیے ایک آئیڈل علاقہ بنا دیتی ہے۔

یہ علاقہ سیاحوں اور کوہ پیماؤں میں بھی خاصا مشہور ہے۔ چترال میں چالیس کے قریب چھ ہزار میٹر سے زیادہ بلندی کی چوٹیاں موجود ہیں جبکہ کیلاش سمیت کئی سیاحتی مراکز بھی ہیں۔

دورا پاس افغانستان کے صوبے بدخشاں کو چترال سے ملاتا ہے جو تقریبا چودہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس سرحد کی تقریبا تمام پٹی ہی بلندی پر واقع وادیوں اور انتہائی دشوار گزار راستوں پر مشتمل ہے۔ لوئر چترال کے ڈپٹی کمشنر محمد علی خان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ یہ سرحد سال کے آٹھ سے نو ماہ تک مکمل طور پر بند رہتی ہے اور یہاں کسی قسم کی کوئی سرگرمی نہیں رہتی۔

خیال رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دیگر علاقوں میں سرحد کے برعکس چترال کے ساتھ سرحدی علاقے میں باڑ نصب نہیں کی گئی ہے اور یہاں فوجی اہلکار بھی تعینات نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ موسم بہتر ہوتے ہی یہ علاقہ ایک ایسی سرحد میں تبدیل ہو جاتا ہے جہاں سے آمد و رفت بغیر چیکنگ کے ممکن ہے اور انتظامیہ کے مطابق یہی وجہ ہے کہ طالبان کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں داخل ہو پائی۔

BBCلوئر چترال کے ڈپٹی کمشنر محمد علی خان کا کہنا ہے کہ اس سرحد پر بھی باڑ لگانے کی اشد ضرورت ہے

تاہم محمد علی خان کہتے ہیں کہ اس واقعے سے ’سبق سیکھا گیا ہے۔‘

ان کے مطابق اب سرحد پر چوکیاں بڑھائی جا رہی ہیں اور سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد بھی بڑھائی جا رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں ’ہم نے سب سیکھا ہے کہ چترال کی سرحد کو یوں نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ہم استعداد بڑھا رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہاں مزید اہلکاروں کی تعیناتی اور بارڈر مانیٹرنگ بھی کریں گے۔ اس سرحد پر بھی باڑ لگانے کی اشد ضرورت ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ اس قدر مشکل علاقہ ہے کہ باڑ لگانا ایک پیچیدہ اور مہنگا عمل لگتا ہے۔‘

وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ کیلاشی عوام میں اس واقعے کے بعد خوف و ہراس پھیلا ہے، اور ان کے خیال میں یہ خوف ختم ہونے میں مزید وقت لگے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کیلاشی کمیونٹی، ان کی زندگی، جان و مال، مذہب اور روایات کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور ہم پوری طرح چوکس ہیں۔‘

مگر تسلی کے یہ تمام الفاظ شاید شاعرہ اور مائیکل سمیت اس وادی کے چار ہزار نفوس کے لیے کافی نہیں ہیں۔

شاعرہ نے اپنی دو سالہ بیٹی کو گود میں بٹھاتے ہوئے مجھے بتایا کہ انھیں اپنی اولاد کی فکر ہے کہ اگر طالبان نے دوبارہ حملہ کیا تو ان کا کیا بنے گا۔

’جب جنگ شروع ہو جائے تو پھر وہ پھیل جاتی ہے اور ختم نہیں ہوتی۔ ہمیں نہیں پتا کہ وہ کون سے طالبان تھے، افغانستان سے آئے تھے یا پاکستان سے۔ وہ جو بھی تھے، نقصان تو ہمارا کرنے آئے تھے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More