’ہم کھیلنے گئے تھے، اس میں کچھ غلط نہیں تھا‘: سوات میں لڑکیوں کا کرکٹ میچ کیوں روک دیا گیا؟

بی بی سی اردو  |  Oct 02, 2023

’ہم تو بہت خوش تھے۔ ایک ہفتے سے گھروں میں پریکٹس کر رہے تھے کہ میچ کھیلنے جائیں گے لیکن میدان میں بڑی تعداد میں پولیس اور علاقے کے دیگر لوگ جمع ہو گئے اور کہا گیا کہ یہاں لڑکیوں کا کرکٹ میچ نہیں ہو سکتا۔‘

یہ الفاظ ہیں سوات سے تعلق رکھنے والی کرکٹ کھیلنے کی شوقین شیما غفار کے۔ شیما کی طرح دیگر لڑکیوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھیں بہت افسوس ہوا جب ’تمام لوگوں نے مل کر ہمارا میچ نہیں ہونے دیا۔ ہم کرکٹ کھیلنے گئے تھے اور اس میں کچھ غلط نہیں تھا۔ بہت اچھا انتظام کیا گیا تھا لیکن ہماری اُمیدوں پر پانی پھیر دیا گیا ہے۔‘

یہ معاملہ سوات کے علاقے چار باغ کا ہے جہاں لڑکیوں کی دو کرکٹ ٹیمیں بنا کر ان کے درمیان ایک میچ کا اہتمام کیا گیا تھا تاکہ سوات سے لڑکیوں کی ایک کرکٹ ٹیم بنائی جا سکے۔ اس میچ کے لیے سوات کے مختلف علاقوں سے لڑکیوں کا انتخاب کیا گیا تھا۔

میچ کے منتظم ایاز نائیک نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ خود کرکٹ کھیلتے رہے ہیں اور ’اس علاقے میں لڑکیوں کو کرکٹ کھیلنے کا بہت شوق بھی ہے اور ٹیلنٹ بھی ہے۔ سوات کی ایک کرکٹ ٹیم بنانے کے لیے بڑی تعداد میں لڑکیوں نے دلچسپی ظاہر کی تو ان کی سلیکیشن کے لیے یہ میچ رکھا گیا تھا۔‘

تاہم اس میچ کے انعقاد سے قبل ہی اسے رکوا دیا گیا۔ لیکن ایسا کیوں ہوا؟ اس بارے میں متضاد موقف سامنے آ رہے ہیں۔

’غلط تاثر پیدا ہوا‘

ایاز نائیک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایک روز پہلے مقامی ریڈیو پر اس میچ کا اعلان کیا گیا تھا اور پھر مقامی سوشل میڈیا کے ایک چینل پر یہ خبر دی گئی کہ چار باغ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ میدان میں لڑکیوں کا کرکٹ میچ ہو رہا ہے۔‘

’اس خبر پر لوگوں کا رد عمل سامنے آیا جس سے غلط تاثر پیدا ہو گیا حالانکہ سوات اور اس علاقے میں سکول کالجز میں لڑکیوں کی سپورٹس کی سرگرمیاں منعقد ہوتی رہتی ہیں وہاں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوا تو یہاں ایسا کیوں ہوا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ضلع انتظامیہ کے عہدیداروں سے جب بات ہوئی اور انھوں نے میچ کے انتطامات دیکھے تو ایسا کچھ نہیں تھا کہ جس پر اعتراض ہوتا لیکن پھر بھی میچ نہیں ہونے دیا گیا۔‘

انھوں نے انتظامیہ سے کہا ہے کہ ’اب یہ میچ سرکاری طور پر منعقد کیا جائے تاکہ اس علاقے کا یہ ٹیلنٹ سامنے آئے۔‘

بی بی سی نے ڈپٹی کمشنر سوات سے حکومت کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تاہم ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہو سکا۔

سوات کے ضلعی سپورٹس افسر عبیداللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بنیادی طور پر یہ میچ نجی سطح پر اور نجی گراؤنڈ میں منعقد کیا جا رہا تھا جس کی نہ تو مقامی انتظامیہ سے کوئی اجازت لی گئی تھی اور ناہی انتظامیہ اور سپورٹس افسر کو اطلاع دی گئی تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ان کی اطلاع کے مطابق خواتین کا اس طرح نجی سطح پر گراؤنڈ میں میچ کا انعقاد کروانا حساس مسئلہ ہو سکتا تھا جس کی وجہ سے مقامی لوگ، جن میں ایک امام مسجد اور دیگر افراد شامل تھے، پہنچ گئے اور میچ نہیں ہو سکا تھا۔ اس بارے میں اب ضلعی انتظامیہ کو فیصلہ کرنا ہے کہ اب کیا ہو سکتا ہے۔‘

’ایسا موقع کم ہی ملتا ہے‘

اروا عالم بھی اس میچ میں شرکت کے لیے پہنچی تھیں۔

انھوں بی بی سی کو بتایا کہ ’میدان میں سکیورٹی بھی تھی لیکن اس دوران چند علما اور تحصیل چیئرمین آئے اور میچ نہیں ہونے دیا گیا۔‘

اروا کہتی ہیں کہ ’ہم یہ چاہتے تھے کہ جیسے لڑکوں کو میچ کھیلنے کی سہولت اور اجازت دی جاتی ہے بلکُل ویسے ہی ہمیں بھی یہ حق ملنا چاہیے تھا۔‘

شیما غفارپری میڈیکل کی طالبہ ہیں اور انھیں کرکٹ کھیلنے کا جنون کی حد تک شوق ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہاں اس طرح کی مواقع میسر نہیں‘ اور وہ اس میچ کی وجہ سے کافی خوش تھیں کہ اب ان کو اپنا شوق پورا کرنے کا موقع ملے گا۔

سوات کی رہائشی حمیرہ نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے اپنی سہیلیوں اور رشتہ داروں کو بتایا تھا کہ ’ہم میچ کھیلنے جائیں گے۔‘

’رات کو گھر میں بھائیوں کے ساتھ پریکٹس کرتی رہی کہ صبح میچ کھیلنا ہے۔ میں بیٹنگ بہت اچھی کر لیتی ہوں۔ یہ ایک ایسا موقع تھا جو ہمیں اس علاقے میں کم ہی ملتا ہے۔‘

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب ہم وہاں پہنچے تو وہاں صورتحال ایسی نہیں تھی کہ ہم میچ کھیل سکتے۔ وہاں تو لوگ جمع تھے جنھوں نے ہمارا کرکٹ میچ ہی نہیں ہونے دیا اور ہم نا اُمید ہو کر اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے۔‘

حمیرہ نے بتایا کہ ’ہمیں اُس وقت بہت تکلیف ہوئی اور بہت بُرا لگا جب اس سب کے بعد ہم پر ہمارے رشتہ دار ہنس رہے تھے اور ہمارا مزاق اُڑایا جا رہا تھا۔‘

ایاز نائیک کہتے ہیں کہ ’ہم نے اس میچ کے لیے بہت تیاری کی تھی۔ اپنی جیب سے کرکٹ کا سامان خریدا تھا اور کچھ سامان دوستوں سے مانگ کر لائے تھے تاکہ یہ میچ ہو سکے اور پھر ہمارا یہ پروگرام تھا کہ یہ کرکٹ ٹیم بنا کر ہم پشاور اور ایبٹ آباد کی ٹیموں کے ساتھ میچ کھیل سکیں گے۔‘

ایاز نائیک نے بتایا کہ انھیں ’ذرا بھر بھی یہ گمان نہیں تھا کہ یہ میچ نہیں ہو سکے گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں لڑکیوں میں آگے بڑھنے کا جزبہ اور بے انتہا جنون ہے۔ آپ نے ملالہ یوسفزئی کو دیکھا ہے؟ کیسے انھوں نے سخت حالات کا مقابلہ کیا۔ لڑکوں میں احسان اللہ اور نسیم شاہ کا تعلق بھی اسی خطے سے ہے اور انھوں نے اپنا نام پیدا کیا ہے۔‘

’خواتین کرکٹ کے خلاف نہیں‘Getty Images

اس کرکٹ میچ کو رکوانے میں چار باغ کے تحصیل چیئرمین احسان اللہ کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔

بی بی سی نے احسان اللہ سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ اس وقت مصروف ہیں اور بعد میں موقف دیں گے۔

تاہم مقامی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بیان دیا ہے کہ وہ ’خواتین کرکٹ کے خلاف نہیں، بلکہ علاقے میں امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے یہ میچ روک دیا گیا۔‘

مقامی صحافی عدنان باچا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انتظامیہ کے موقف کی تائید کی اور کہا کہ ’یہ کرکٹ میچنجی سپورٹس کمپلیکس میں منعقد کیا جا رہا تھا اور اس کی انتظامیہ سے اجازت نہیں لی گئی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’گراؤنڈ میں موجود انتظامیہ نے کہا کہ نہ تو اس میچ کے بارے میں انھیں آگاہ کیا گیا ہے اور ناں ہی اس کے لیے کوئی این او سی یا اجازت نامہ حاصل کیا گیا ہے۔‘

سوات سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی فیاض ظفر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سوات میں لڑکیوں کے میچ کو روک کر جو پیغام دنیا کے سامنے گیا، وہ درست اور علاقے کے لیے مناسب نہیں تھا۔‘

واضح رہے کہ مینگورہ سے تقریبا 20 کلومیٹر دور واقع چار باغ ماضی میں کالعدم شدت پسند طالبان کا گڑھ رہا ہے جن کیخلاف سنہ 2009 میں اسی علاقے میں ایک بڑا فوجی آپریشن کیا گیا تھا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More