BBC
میں جیسے ہی مستونگ کی مدینہ مسجد کے پاس اس مقام پر پہنچی جہاں 29 ستمبر2023 کو خودکش دھماکہ ہوا تھا، تو وہاں ایک لڑکا اپنے کزن کی چپلیں، ٹوپی یا کوئی بھی ایسی نشانی ڈھونڈ رہا تھا جس سے وہ اس کی شناخت کر سکے۔
میرے پوچھنے پر اس شخص نے اپنا نام حبیب اللہ بتایا اور کہا کہ ’میں ہسپتال میں زخمی لوگوں کے لیے مختص وارڈ اور مردہ خانہ تک دیکھ چکا ہوں، میرے کزن کا کچھ پتا نہیں ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ وہ اور ان کے گھر والے سندھکے گرم علاقوں سے ہجرت کرکے مستونگ آتے ہیں تاکہ اگلے چھ ماہ ٹھنڈے موسم میں گزار سکیں۔
’میرے کزن کا نام فدا حسین ہے اور وہ یہاں حجام کا کام کرتا ہے۔ اس نے 12 ربیع الاول کے دن کہا کہ میں کام پر جارہا ہوں لیکن وہ کام پر نہیں گیا اور دوستوں کے ساتھ یہاں آ گیا۔ اس کے دوستوں کی لاشیں مل چکی ہیں۔۔۔لیکن وہ نہیں مل پا رہا اور نا ہی اس کا فون لگ رہا ہے۔‘
جو منظر اس وقت میری نگاہوں کے سامنے ہے یہاں پر دور دور تک سفید مٹی ہے اور اس کے اردگرد گاڑیوں اور زیادہ تر موٹر سائیکل کے آنے جانے سے اڑتی گرد ہے۔
’ہر کوئی حواس باختہ ادھر سے ادھر دیکھ رہا تھا‘BBC
جمعے کے روز یعنی 29 ستمبر کو جس جگہ پر تمام تر گاڑیاں اور لوگوں کا جلوس موجود تھا وہاں دھماکے کے بعداب صرف مٹی کا ڈھیر ہے جس پر ہلاک ہونے والوں کے لواحقین ان کی شناخت کرنے کے لیے ایک تھیلے میں ان کے جسم کے اعضا یا پھر بکھری ہوئی چیزیں جمع کرتے ہوئے نظر آئے۔
یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر حاجی حیدر ایک اور شخص کو اپنے موبائل فون پر واٹس ایپ کے ذریعے موصول ہونے والی تصاویر دکھا رہے تھے۔
’یہ ان لوگوں کی تصاویر ہیں جن کی شناخت نہیں ہوپا رہی ہے کیونکہ یہ لوگ دھماکے کے بعد سے لاپتا ہیں تو ان کے والدین سمجھ رہے ہیں کہ قریبی ہسپتال میں رکھی مسخ شدہ لاشیں ان کے بچوں کی ہیں۔‘
حاجی حیدر اس جلوس میں شامل نہیں ہوئے لیکن دھماکے کی آواز سن کر لوگوں کی مدد کرنے سب سے پہلے پہنچے تھے۔
’یہاں تو ایک کے اوپر ایک لاش پڑی تھی۔ ہر کوئی حواس باختہ ادھر سے ادھر دیکھ رہا تھا کیونکہ ایمبولینس نہیں تھی۔ لوگ اپنی گاڑیوں پر جس جس کو لے جاسکتے تھے لے گئے اور باقی ورثہ ایمبولینس کا انتظار کرتے رہ گئے۔‘
تب سے حاجی حیدر اپنے فون پر دھماکے کے بعد سے لاپتا ہونے والے افراد کی تصاویر جمع کررہے ہیں تاکہ ان کے والدین کو ڈھونڈنے میں آسانی ہو۔
BBCحاجی حیدر اپنے فون پر دھماکے کے بعد سے لاپتہ ہونے والے افراد کی تصاویر جمع کررہے ہیں تاکہ ان کے لواحقین کو ڈھونڈنے میں آسانی ہو
اسی دوران ایک موٹر سائیکل آ کر رکی اور اس پر بیٹھے ایک ضعیف شخص نے بتایا کہ ’میں ابھی ہسپتال سے آرہا ہوں وہاں اب صرف کسی کا ہاتھ یا پاؤں رکھا ہوا ہے۔ انتظامیہ اب مسخ شدہ لاشوں کو دفنانے کا سوچ رہی ہے۔‘
مستونگ دھماکے میں اب تک مرنے والوں کی تعداد 50 سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ پولیس زخمیوں کی تعداد 139 بتارہی ہے۔
ضلع مستونگ میں سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں اپنی اپنی جگہ خاصی اہمیت رکھتی ہیں اور اسی لیے مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے کے باوجود کئی افراد 12 ربیع الاول کا جشن کافی عرصے سے روایت کے طور پر مناتے ہیں۔
’مستونگ میں ایک کے بعد ایک حملوں کا ذمہ دار کون ہے‘BBCمستونگ سے 24 کلومیٹر دور کھڈ کوچہ کے علاقے میں ایک ہی خاندان کے چار افراد بھی اس دھماکے میں ہلاک ہوئے ہیں
لیکن 12 ربیع الاول کو ہونے والے دھماکے نے یہاں کے لوگوں کو چونکا دیا ہے۔ حاجی حیدر نے کہا ’اب تک کتنے واقعات ہوچکے ہیں؟ لیکن تحقیقات کا کوئی نتیجہ ہی نہیں نکلتا۔ پتہ تو چلے کہ یہ سب کون کررہا ہے۔‘
مستونگ سے 24 کلومیٹر دور کھڈ کوچہ کے علاقے میں ایک ہی خاندان کے چار افراد بھی اس دھماکے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ خاندان غلام فاروق کا ہے جومستونگ سٹی کے سابق یو سی ناظم رہ چکے ہیں۔
یہاں پہنچنے پر لوگ بے حد غمزدہ لیکن شدید غصے میں ملے۔ غلام فاروق نے کہا کہ ’ان اہلکاروں سے کون تفتیش کرے گا جنھیں ہماری حفاظت کے لیے رکھا ہے؟ کیوں مستونگ میں ایک کے بعد ایک حملے ہورہے ہیں اور کون ذمہ دار ہے؟‘
پولیس نے ان حملوں کے بارے میں اپنے بیان میں تحریکِ طالبان پاکستان کے ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھا لیکن ٹی ٹی پی کی جانب سے اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کے بعد پولیس بھی کوئی واضح بیان یا ثبوت پیش نہیں کر پا رہی ہے۔
غلام فاروق فاتحہ کرکے باہر نکلے تو کہا کہ ’مستونگ میں پچھلے کچھ ماہ میں ہونے والے حملوں کے بعد کوئی بھی کسی تنظیم کا نام نہیں لینا چاہتا۔ آخر میں یہی ہوگا کہ کہہ دیا جائے گا کہ یہ حملے عوام خود کروارہی ہے۔‘