Getty Images
انسان کسی بھی شعبے میں قابلیت، محنت اور لگن سے ایک خاص مقام حاصل کرتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص مختلف شعبوں میں ہاتھ ڈالے اور ان سب میں خاص مقام حاصل کرے تو ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک شخص انڈین سینیما کے نغمہ نگار اور فلم ساز گلزار ہیں۔
اگر آپ گلزار کے کام کے دائرے پر نظر ڈالیں تو یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کوئی ایک شخص اتنی متنوع چیزوں پر مسلسل کیسے کام کر سکتا ہے۔
وہ بغیر تھکے اور خود کو دہرائے کام کرتے رہے اور کام بھی ایسا کہ کہیں کوئی کمی نہیں۔ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے، لیکن گلزار نے بخوبی انھیں انجام دیا ہے۔
18 اگست کو گلزار نے اپنی 89ویں سالگرہ منائی۔ وہ اس عمر میں بھی فعال ہیں اور تقریباً چھ دہائیوں کے طویل وقفے میں گلزار بدلتے وقت اور نوجوان نسل کے جوش و خروش دونوں کے ساتھ ہم آہنگ رہے ہیں۔
Getty Images’ہم سب کے پیارے‘
جس بالی وڈ میں ہر جمعے کو سٹار بنتے اور بکھرتے ہیں وہاں چھ دہائیوں تک اپنا تسلط قائم رکھنا کوئی معمولی بات نہیں۔ ان کے اپنے ہی الفاظ میں وہ ایک 89 سالہ محبوب ہیں۔
مگر گلزار ایک دن میں سب کے محبوب نہیں بنے۔ پاکستان کے شہر جہلم میں دینہ میں پیدا ہونے والے سمپورن سنگھ کالرا میں زندگی کی مشکلات نے سنجیدگی پیدا کی اور اس نے انھیں ایک ایسے فنکار میں تبدیل کر دیا جو منطق اور تخیل کی کسوٹی پر الفاظ اور آواز کا ایسا جادو بُنتا ہے جس میں آپ ڈوب جانا چاہتے ہیں۔
نغمہ نگار، سکرپٹ رائٹر اور فلم ڈائریکٹر گلزار
جب وہ گیت لکھنے پر آئے تو پہلا ہی گیت ’مورا گورا انگ لئی لے، موہے شام رنگ دیئی دے‘ لکھ ڈالا جس نے اپنا گہرا رنگ مرتب کیا۔
اگر آپ سکرین پلے پر نظر ڈالین تو ’آنند‘ جیسی فلم نظر آتی ہے جس کا ہیرو ہر لمحہ ہنستے ہوئے موت کے لیے تیار نظر آتا ہے۔ جب فلمیں بنتی ہیں تو وہ ’آندھی‘ اور ’موسم‘ کی شکل میں نظر آتی ہیں، جہاں جذبات کی لہر اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔
ٹی وی سیریلز کی بات کی جائے تو ’مرزا غالب‘ کا شاہکار سامنے آتا ہے۔
مرزا غالب ٹی وی سیریل کی حیثیت بڑے پردے پر فلم ’مغل اعظم‘ جیسی ہے۔ بچوں کے لیے لکھا گيا گیت ’جنگل جنگل بات چلی ہے، پتا چلا ہے‘ امر ہے۔
چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں۔۔۔
اس سب کے درمیان گلزار وقت نکال کر شعرو شاعری اور کہانی نویسی میں اپنی روشنی بکھیرتے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں کسی اعجاز سے کم نہیں کہ گلزار اپنی تمام تخلیقی صلاحیتوں کو ایک میڈیم سے دوسرے میڈیم میں استعمال کر سکتے ہیں۔
ان سب کے درمیان اگر آپ انھیں کہیں بھی کسی بھی موضوع پر بولنے کے لیے کہیں تو وہ بغیر کسی تیاری کے گھنٹوں بول سکتے ہیں۔ وہ بھی اس طرح کہ ہزاروں نشستوں والے تھیٹر ہال میں خاموشی چھائی رہے۔
ان کی زبان اور ان کے حوالہ جات ہندی اور اردو کے شربت میں شیرو شکر ہو جاتے ہیں اور وقفے وقفے سے تالیاں گونجتی رہتی ہیں۔
گلزار کا یہ سفر اس وقت شروع ہوا جب 1947 میں تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان انڈیا چلا آیا اور ان کے والد نے گھر چلانے کے لیے چھوٹے موٹے کاروبار کرنا شروع کر دیے۔ گلزار تقسیم کے دور کے تشدد کو برسوں تک نہیں بھول سکے۔ اس وقت ان کی عمر 11-12 سال تھی۔
انھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے سینکڑوں لوگوں کو قتل ہوتے دیکھا تھا۔ راتوں رات لاکھوں لوگ برباد ہو گئے۔ نوجوانی کے زخم زندگی بھر نہیں بھرتے۔ گلزار کے اندر بھی یہ سارا واقعہ ایک خطرناک منظر کی طرح اُبلتا رہا، سلگتا رہا ہے۔
اسی لیے گلزار لکھتے ہیں ’آنکھوں کو ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی، خوابوں کی سرحدیں نہیں ہوتیں۔ میں بند آنکھوں کے ساتھ روز سرحد پار کرتا ہوں۔‘
اسے لیے جب وہ فلم ماچس بناتے ہیں تو ان کا درد اس طرح چھلکتا ہے: ’چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں، جہاں تیرے پیروں کے کنول گرا کرتے تھے۔۔۔‘
BBCگاڑیوں کو پینٹ کرنے والے گلزار کا فلمی دنیا میں قدم
لیکن گلزار اس درد تک محدود نہ رہ سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وقت کے ساتھ یہ سمجھ آگئی کہ کم کہنے کا مطلب زیادہ ہوتا ہے۔ بہت زیادہ کہنا معنی کو کمزور کر دیتا ہے۔‘
اسی لیے یہی گلزار جب موج مستی کے موڈ میں ہوتے ہیں تو لکھتے ہیں ’گولی مارو بھیجے میں، بھیجہ شور کرتا ہے۔۔۔‘
جب گلزار محبت کا گیت لکھتے ہیں تو یہ ’میں نے تیرے دکھ کی ڈلی اٹھا کر، زباں پر رکھ لی ہے۔۔۔۔ دیکھو میں نے۔۔۔ یہ قطرہ قطرہ پگھل رہی ہے۔۔۔ میں قطرہ قطرہ جی رہا ہوں۔۔۔‘
گلزار کو بچپن سے ہی شعر و سخن سے شغف تھا۔ گلزار کے والد کا ماننا تھا کہ شاعری یا کہانیاں لکھ کر معاش نہیں کمایا جا سکتا۔
اسی لیے وہ گلزار کے لیے اپنے رشتہ داروں سے کہتے تھے کہ ’وہ اپنے بھائیوں سے قرض مانگے گا اور گرودوارے کے لنگر میں کھانا کھائے گا۔‘
1950 میں گلزار اپنے بھائی کی مدد کے لیے ممبئی آئے۔ انھوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن وہ فلمی دنیا میں کام کریں گے۔
شروع میں انھوں نے موٹر گیراج میں کام کیا جہاں وہ حادثات کا شکار گاڑیوں کو پینٹ کرتے تھے۔ لیکن وہ آہستہ آہستہ فلمی دنیا کی طرف مائل ہوتے گئے۔
AFP
گلزار ان دنوں کے فلمی نغمہ نگاروں میں سے ایک راجندر کرشن کے گھر کرایہ دار کے طور پر رہا کرتے تھے۔ بائیں بازو کے رجحانات کی وجہ سے گلزار شیلندر جیسے گیت کاروں سے رابطے میں آئے۔ بعد میں وہ بمل رائے کے معاون کے طور پر کام کرنے لگے۔ لیکن لکھنا شروع نہ کیا۔
شیلندر نے سب سے پہلے انھیں بمل رائے کی فلم کے لیے گانے لکھنے کی ترغیب دی اور بمل رائے کے ساتھی دیبو سین نے گلزار نام کی تجویز پیش کی۔ اس طرح 1963 میں فلم ’بندنی‘ کے گیت ’مورا گورا انگ لئی لے، موہے شیام رنگ دئی دے‘ نے بتایا کہ گلزار فلم انڈسٹری میں طویل عرصے تک رہنے والے ہیں۔
بمل رائے کی موت کے بعد گلزار رشی کیش مکھرجی کے معاون بن گئے۔ رشی کیش مکھرجی کی فلموں کے سکرین پلے اور گانوں نے گلزار کو بے حد کامیاب بنایا۔ اس میں آشیرواد، آنند اور گڈی جیسی بہترین فلمیں شامل ہیں۔
گلزار کو آنند کے لیے پہلی بار فلم فیئر ایوارڈ ملا، لیکن وہ اتنے نروس تھے کہ اسے وصول کرنے کے لیے سٹیج تک نہیں جا سکے۔
تاہم بعد میں انھیں یہ ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے 19 مرتبہ سٹیج پر چڑھنا پڑا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ گلزار کو اپنے پہلے اعزاز کے بعد ایوارڈز لینے کی عادت پڑ گئی۔
BBCکامیاب تجربات کا دور
رشی کیش مکھرجی کی معاونت کے بعد گلزار بھی بطور ہدایت کار کافی کامیاب ہوئے۔ ان کی فلموں میں ’میرے اپنے‘، ’پریچے‘، ’کوشش‘، ’اچانک‘، ’ماچس‘، اور ’آندھی‘ جیسی فلمیں شامل ہیں۔
ماچس کے بعد گلزار نے فلم ڈائریکشن کو خیرباد کہہ دیا اور گانے لکھنے لگے۔ چنانچہ چند ہی سالوں میں انھوں نے ’سلم ڈاگ ملینیئر‘ کے لیے آسکر جیت لیا۔ ’بیڑی جلئی لے‘ سے لے کر ’دل تو بچہ ہے جی‘ تک گلزار کو زیادہ تجربات کرتے ہوئے دیکھا گیا اور وہ اس میں خاصے کامیاب رہے۔
گلزار عمر کے آخری مرحلے میں ہیں، اس لیے ان دنوں وہ اپنی صحت پر کام کر رہے ہیں۔ نظمیں لکھنا، رابندر ناتھ ٹیگور کی نظموں کا ترجمہ کرنا۔ چار دہائی قبل اپنی بیٹی بوسکی یعنی میگھنا کے لیے بوسکی کا پنچتنتر لکھا گیا تھا اور اس کے بعد انھوں نے اپنے نواسے کے لیے پنچتنتر نئے سرے سے لکھا تھا۔
یہ بات گلزار کی پوری زندگی میں صاف نظر آتی ہے کہ وہ وقت کے ساتھ خود کو بدلتے رہے۔ اس کی توجہ عصری تبدیلیوں سے کبھی نہیں ہٹی، وہ بھی جب ان کی اپنی زندگی میں ’طوفان‘ آیا۔
دراصل آج سے 50 سال قبل 18 اپریل سنہ 1973 کو گلزار اور راکھی کی محبت کی شادی ہوئی تھی۔ اس شادی میں اس وقت کے انڈین سنیما کی دنیا کی تمام بڑی شخصیت موجود تھیں۔
شادی اور علیحدگی
گلزار کی بیٹی اور فلمساز میگھنا گلزار نے اپنے والد کی زندگی پر ایک کتاب ’بیکاز ہی اِز‘ لکھی ہے۔ اس میں میگھنا نے بتایا ہے کہ سنیل دت راکھی کے بھائی کیسے بنے اور شادی ایس ڈی برمن اور جی پی سپی فیملی کی نگرانی میں ہوئی۔ میگھنا نے ماں راکھی اور والد گلزار دونوں کی 1968 میں پہلی ملاقات سے لے کر ان کی علیحدگی تک کی تفصیلات لکھی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پانچ سال کی صحبت کے بعد یہ شادی صرف ایک سال تک چل سکی اور 1974 میں راکھی اور گلزار دونوں الگ ہو گئے۔ لیکن اس کے بعد کے 49 سالوں میں دونوں نے ایک دوسرے کا اس طرح ساتھ دیا کہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ دونوں علیحدہ رہ رہے ہیں۔
45 سال کی علیحدگی کے بعد اگست 2020 میں سٹارڈسٹ میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں راکھی نے کہا: ’ہم دونوں کو الگ الگ رہنے والے بہترین جوڑے کا ایوارڈ ملنا چاہیے۔ ہم زیادہ تر شادی شدہ جوڑوں سے زیادہ ہم آہنگی سے رہ رہے ہیں۔ گلزار اور میں ہمیشہ ایک دوسرے کے لیے موجود ہیں۔‘
’وہ اب بھی مجھے اپنی بیوی سمجھتا ہے۔ جیسے ہی اس کا فون آتا ہے کہ میں نے دوستوں کو رات کے کھانے پر بلایا ہے اور کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ مجھے جلدی سے جھینگے کا سالن بھیج دو۔ اور میں جلدی سے ایسا کرتی ہوں۔ میں ان کی پسند کی کھیر بناتی ہوں اور بھیج دیتی ہوں۔ مجھے یہ سب پسند ہے۔‘
Getty Images
دوسری جانب بیٹی کی کتاب کی رونمائی کے موقع پر گلزار نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’جب ہمارا پیار شروع ہوا تو میں اسے ساڑھیاں تحفے میں دیا کرتا تھا، ایسا کرتے ہوئے میں ساڑھیوں سے مانوس ہو گیا، بہترین ساڑھیاں تحفے میں دیتا تھا اور آج بھی تحفے دیتا ہوں۔‘
ایسے میں میگھنا کی پیدائش کے ایک سال بعد دونوں کیوں الگ ہوگئے؟ میگھنا نے تفصیلات نہیں لکھی ہیں تاہم بتایا گیا ہے کہ راکھی فلموں میں کام کرنا چاہتی تھیں اور گلزار کو لگا کہ ماں بننے کے بعد فلموں میں کام کرنا درست نہیں ہوگا۔
فلم آندھی کی شوٹنگ کے دوران اس بات کو لے کر دونوں کے درمیان کافی لڑائی ہوئی۔ وہ بھی اس وقت جب یش چوپڑا نے راکھی کو ’کبھی کبھی‘ میں کام کرنے کی پیشکش کی۔ گلزار کے انکار کے بعد بھی راکھی نے جب فلم سائن کی تو دونوں نے راستے جدا کر لیے۔
لیکن محبت برقرار رہی اور میگھنا بتاتی ہیں کہ میری ماں راکھی نے پنویل میں اسی جگہ ایک فارم ہاؤس خریدا جہاں وہ پہلی بار گلزار سے ملی تھیں۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ الگ رہنے کے بعد بھی گلزار اور راکھی دونوں نے اپنی بیٹی پر اس کا اثر نہیں ہونے دیا اور نہ ہی اپنے پیشہ ورانہ کام میں کوئی کمی محسوس کی۔
کرکٹ سے محبت
اس مرحلے پر آج بھی گلزار کے لیے کچھ چیزیں نہیں بدلی ہیں۔ ممبئی میں رہنے کے بعد بھی گلزار صبح پانچ بجے اٹھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ سورج کو جگانا چاہتے ہیں اس سے پہلے کہ سورج انھیں جگائے۔
گلزار کا دن ہر روز بیدار ہونے کے بعد باندرہ کے جم خانہ کلب میں ٹینس کھیلے بغیر شروع نہیں ہوتا۔ ٹی وی پر جب ٹینس اور کرکٹ کے میچ آتے ہیں تو گلزار کوئی اور کام نہیں کرتے۔
وہ راجر فیڈرر، آندرے اگاسی اور جان میکنرو جیسے سٹارز کے مداح رہے ہیں۔ ساتھ ہی کرکٹ کے میدان میں وہ سنیل گواسکر اور وسیم اکرم کے مداح رہے ہیں۔ گلزار کا کرکٹ سے لگاؤ اتنا گہرا ہے کہ وہ خوابوں میں کئی بار خود کو کرکٹ کھیلتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
ان خصوصیات کے علاوہ عوامی زندگی میں گلزار کی شخصیت کے دو اور اہم پہلو ہیں۔ وہ ہمیشہ سفید کپڑوں میں ہی نظر آتے ہیں۔
ایسا کیوں ہے اس کے جواب میں گلزار نے نسرین مُنّی کبیر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جب وہ دوسرے رنگ کے کپڑے پہنتے ہیں تو ’ایسا لگتا ہے کہ کوئی اجنبی آ کر کندھے پر بیٹھ گیا ہے۔‘
BBCرفتار سے بے حد لگاؤ
اس کے علاوہ وہ ہمیشہ اردو میں لکھتے ہیں۔ اردو میں لکھنے کی وجہ سے ان کے گانے اور سکرپٹ کم ہی لوگوں کو پڑھنے کو ملتے ہیں اور کوئی ان کے خیالات چُرا نہیں پاتا۔
تاہم یہ الگ بات ہے کہ خود گلزار پر دوسروں کی نقل کرنے کا الزام لگا ہے۔ چاہے وہ گانا ’ابن بطوطہ، پہن کے جوتا‘ ہو یا ’سسرال گیندا پھول‘۔
گلزار نے غالب کے شعروں کا اس قدر استعمال کیا ہے کہ وہ خود کہتے ہیں کہ انھیں ’غالب کے نام پر پنشن مل رہی ہے جو غالب کو خود نہیں مل سکی۔‘
گلزار نے لکھا ہے کہ ’غالب کا قرض لینا اور قرض ادا نہ کرنے کے بہانے ڈھونڈنا، پھر اپنی خفت کا اظہار مجھے جذباتی طور پر غالب کے قریب لے جاتا ہے۔‘
تاہم انھوں نے بار بار ثابت کیا ہے کہ وہ نقل کرنے میں بھی بہت کامیاب رہے۔
گلزار کی شخصیت میں ایک اور خاص بات ہے۔ پرسکون اور شریف نظر آنے والے گلزار کو تیز رفتاری سے گاڑی چلانے کی عادت ہے اور اس شوق کو پورا کرنے کے لیے وہ گاڑی لیتے ہیں اور لانگ ڈرائیوز پر نکل جاتے ہیں۔
ان تمام کامیابیوں میں گلزار کے سفر نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ وہ فلمی دنیا کے ان چند لوگوں میں سے ایک ہوں گے جنھوں نے گاڑی سے انڈیا کے کونے کونے کا سفر کیا ہے۔ برسوں تک انھیں انگریزی نہیں بولنی آتی تھی، اس لیے وہ بیرون ملک جانے سے گریز کرتے رہے لیکن جب انھوں نے اس دنیا کو دیکھنا اور سمجھنا چاہا تو انھوں نے اپنے پاجامے اور کُرتے میں دوسرے ممالک دیکھے۔
لیکن ہم سب گلزار کو ان کے نغموں اور ان کی فلموں کے لیے پسند کرتے ہیں۔ ان کی شاعری اور نظموں کے لیے۔ ان کی کہانیوں کے لیے۔ ان کی زندگی کے لیے۔ گلزار پہلے ہی دادا صاحب پھالکے ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں جو ان کی فلمی دنیا میں خدمات کا اعتراف ہے۔