’ٓآپ کا پاکستان زندہ باد ہے، اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن ہمارا ہندوستان زندہ باد تھا، زندہ باد ہے اور زندہ باد رہے گا، ہندوستان زندہ باد۔ اس ملک (پاکستان) سے زیادہ ہندوستان میں مسلمان ہیں، اُن کے دل کی دھڑکن کہتی ہے کہ ہندوستان زندہ باد ہے۔ تو کیا وہ مسلمان نہیں؟‘
سنہ 2001 میں جب فلم ’غدر‘ ریلیز ہوئی تو سنی دیول کے اس ڈائیلاگ کو تھیٹر میں خوب سراہا گیا۔
فلم کا یہ منظر 1947 کے چند سال بعد کا ہے جب ہندوستان دو ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا اور پاکستان اور انڈیا وجود میں آئے۔ سرحد کے دونوں طرف نفرت ہے۔
اس سین میں ایک انڈین سنی دیول (تارا سنگھ) اپنی پاکستانی بیوی امیشا پٹیل (سکینہ) کی تلاش میں پاکستان آتا ہے، جہاں ان کے سامنے شرط یہ ہوتی ہے کہ اگر تارا سنگھ اپنی بیوی چاہتے ہیں تو انھیں اپنا مذہب اور وطن چھوڑنا پڑے گا۔
’غدر‘ جہاں اپنے دور کی سب سے بڑی ہٹ فلموں میں سے ایک ہے، وہیں بہت سے لوگوں نے اس پر پاکستان مخالف اور مسلم مخالف ہونے کا الزام بھی لگایا۔
غدر پارٹ ٹو
اب جب ’غدر‘ کا پارٹ ٹو ریلیز ہو رہا ہے تو ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ جب تارا سنگھ ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگاتا ہے تو کیا اسے آج کے ماحول میں ملک دشمن کہا جائے گا؟ یا جب سنی دیول انڈیا کے خلاف ایک لفظ بھی برداشت کرنے سے انکار کر دیں گے تو کیا وہ قوم پرست کہلائیں گے؟
سینیئر فلم نقاد رام چندرن سری نواسن کا کہنا ہے کہ ’آج اپنی فلم میں ’پاکستان زندہ باد‘ کہنے والا یقیناً ملک دشمن کہلائے گا، خاص طور پر اگر کوئی ڈائیلاگ سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھا جائے۔‘
ایرا بھاسکر جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں سنیما سٹڈیز کی پروفیسر ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’آج کی تاریخ میں اگر فلم میں ’پاکستان زندہ باد‘ کا ڈائیلاگ ہے تو اسے ملک دشمن کہا جائے گا لیکن یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ آپ نے فلم کیسے بنائی ہے۔‘
’فلم پٹھان کو لے لیجیے جہاں ہیروئن کا تعلق آئی ایس آئی اور پاکستان سے ہے اور وہ تشدد کے خلاف ہے۔ یہ فلم ہٹ ہو گئی۔ پیغام دینے کے لیے کئی طریقے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ غدر میں جو ڈائیلاگ ہیں، آج ٹرول کرنے والے انھیں قبول نہیں کریں گے۔‘
کیا ’غدر‘ تقسیم کی پیچیدگی کو دکھا سکی؟
’غدر 1‘ اور ’غدر 2‘ کے درمیان 22 سال کا وقفہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان 22 سال میں انڈیا اور سینما کتنا بدلا ہے؟
2001 میں جب فلم ’غدر‘ ریلیز ہوئی تو کچھ مناظر کی وجہ سے بھوپال، احمد آباد جیسے شہروں میں تشدد ہوا تھا۔
اس وقت بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شبانہ اعظمی نے کہا تھا کہ ’فلم قوم پرستی، مذہب اور شناخت کے مسائل کو الجھاتی ہے اور تقسیم کے درد کی پیچیدگی کو دکھانے میں ناکام رہتی ہے۔ یہ اشتعال انگیز ہے، جو مسلمانوں کو غیر ملکی دکھاتا ہے۔‘
ایرا بھاسکر اور رام چندرن سری نواسن دونوں کی اس پر مختلف رائے ہے۔
رام چندرن سری نواسن کہتے ہیں کہ ’میں اس سے پوری طرح متفق نہیں۔ تقسیم کے وقت جو سیاسی ماحول تھا، خوفناک حالات تھے، لوگوں کے جذبات کو مصنف شکتیمان نے فلم ’غدر‘ میں دکھایا تھا۔‘
’جس طرح تقسیم ہوئی، پاکستان کو ایک اسلامی ملک اور انڈیا کو ہندو ملک سمجھا جاتا تھا۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان نفرت کا دور تھا، دونوں طرف کے لوگ اپنے گھر اور پیارے کھو چکے تھے، جسے انھوں نے دکھانے کی کوشش کی اس فلم میں۔ میں اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ کسی کے درد کو کم کیا گیا تھا۔‘
ایرا بھاسکر کا کہنا ہے کہ فلم ’غدر‘ میں متوازن اداکاری کرنے کی کوشش کی گئی۔ ’پاکستان کو منفی انداز میں دکھایا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تمام تشدد مسلم کمیونٹی کی طرف سے شروع کیا گیا تھا۔ آخر میں یہ فلم کٹر قوم پرست ہو جاتی ہے۔ غدر فلم ’ویر زارا‘ کی طرح نہیں۔ ویر زارا انڈیا اور پاکستان سے متعلق ایک محبت کی کہانی کو خوبصورتی سے پیش کرتی ہے۔‘
’دراصل یش چوپڑا نے انڈیا پاکستان اور مذہب کے بارے میں بہت سی حساس فلمیں بنائی ہیں۔ جیسا کہ دھول کا پھول‘ اور دھرم پترا۔‘
(دھرم پترا ایک ہندو نوجوان کی کہانی ہے جو تقسیم سے پہلے ان لوگوں کے ساتھ کام کرتا تھا جو چاہتے تھے کہ مسلمان ہندوستان چھوڑ دیں، بعد میں پتا چلا کہ ہندو خاندان میں پلے بڑھے اس بچے کے اصل ماں، باپ مسلمان ہیں۔)
’سنسر بورڈ کو فلم دھرم پترا پر شک تھا، جب بی آر چوپڑا اور یش چوپڑا نے پنڈت نہرو کو یہ فلم دکھائی تو انھوں نے کہا کہ اسے ہر کالج میں دکھایا جانا چاہیے۔ آج کی حکومت میں ایسا نہیں ہوتا۔‘
آمنہ حیدر پاکستان میں سمتھنگ ہاٹ کے نام سے ایک یوٹیوب چینل چلاتی ہیں اور سینما پر نظر رکھتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’سیاسی پولرائزیشن کی وجہ سے، دونوں ممالک کے فلمسازوں کے لیے پاک انڈیا تھیم پر فلمیں بنانا مشکل ہو گیا ہے، ایک فلم میں ایک دوسرے کے کردار کو لینا مشکل ہے اور اگر ایسا کرتے ہیں تو بداعتمادی پیدا ہوتی ہے اور شک کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔‘
’سکھ، ہندو، مسلمان لاشیں‘
’غدر‘ کی بات کریں تو جہاں اس پر تنقید کی جاتی ہے، وہیں کئی جگہ یہ فلم ہر اس شخص کا درد بیان کرتی نظر آتی ہے جو تشدد کا شکار ہے، جس کی زندگی تقسیم کی وجہ سے تباہ ہو گئی۔
مثال کے طور پر، تقسیم کے وقت سکینہ (امیشا پٹیل) اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جانے والی ٹرین میں سوار نہیں ہو پاتی اور کچھ لوگ اس پر حملہ کر دیتے ہیں لیکن فسادیوں کے ہجوم میں موجود تارا سنگھ (سنی دیول) سکینہ کو دیکھ کر جم جاتا ہے۔
بعد ازاں خودکشی کی کوشش کرتے ہوئے سکینہ سنی دیول سے پوچھتی ہے کہ تم بھی مسلمانوں کو مار رہے تھے تو مجھے کیوں چھوڑ دیا؟
جہاں سنی (تارا سنگھ) گرجتے، دہاڑتے، ہینڈ پمپ کو اکھاڑتے پیسہ وصول ڈائیلاگز بولتے نظر آتے ہیں، سکینہ کا سوال تارا سنگھ کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ (تقسیم) کی کہانی صرف آپ کی اور میری نہیں، یہ ہزاروں سکھوں، ہندوؤں اور مسلمانوں کی کہانی ہے جو لاشوں کی صورت چل رہے ہیں، ان کے دل کی دھڑکن نہیں اور نہ ہی اُن میں جینے کی خواہش ہے۔‘
وہ فسادات میں اپنے سکھ خاندان کے قتل کے غم سے بھی نبرد آزما ہیں۔
سکینہ (امیشا پٹیل) شاید اس فلم کا واحد کردار ہے جو دو طرح کے بیانیے کے درمیان جھولتا ہے، جس میں مذہب کے نام پر ہونے والے تشدد پر سوال اٹھانے کی ہمت ہے۔
وہ پوچھتی ہیں ’کسی کو ہندوستان چاہیے اور کسی کو پاکستان، انسانوں کو انسانوں کی بالکل ضرورت نہیں۔ سیاسی لوگ خلا پیدا کرتے ہیں اور لوگوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ ہم یہ کبھی برداشت نہیں کریں گے۔‘
مذہبی جنون اور دیوانگی کے درمیان فلم غدر میں دیوانے کا کردار (ولی) بھی یہاں یاد آتا ہے۔ ولی تقسیم کے بعد پاکستان کا شہری بن گیا لیکن ذہنی طور پر وہ اب بھی گاندھی کے ہندوستان میں ہے۔
اسی لیے جب لاہور ایئر پورٹ کے قریب موسیقی کے ساتھ جلوس ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے، ’کیا نہرو جی آ رہے ہیں، انگریزوں واپس جاؤ، یہ ملک ہے، زمین کا ٹکڑا نہیں جو کبھیبھی تقسیم ہو جائے گا؟‘
’غدر‘ کارگل جنگ کے بعد آئی
ولی کا یہ کردار سعادت حسن منٹو کی کہانی کے کردار بشن سنگھ کی یاد دلاتا ہے۔ اگر آپ کو معلوم نہیں تو تقسیم کے بعد بشن سنگھ کو لاہور پاگل خانے سے انڈین پاگل خانے میں بھیجنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن وہ یہ ماننے سے انکاری ہیں کہ اب اس کا قصبہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان میں ہے اور انھیں ایک نئے ملک انڈیا بھیجا جا رہا ہے۔
آج بھی ’غدر‘ کے بارے میں رائے منقسم ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے اس دور میں کمائی کے کئی ریکارڈ توڑ دیے تھے۔
فلم کے تناظر میں دیکھا جائے تو ’غدر‘ کارگل جنگ کے دو سال بعد اس وقت ریلیز ہوئی تھی جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان شدید کشیدگی تھی۔ ایسے ماحول میں جب ’غدر‘ آئی تو شائقین پہلے سے ہی ایک انڈین کو سرحد پار سے لڑتے ہوئے دیکھنے کے لیے تیار تھے۔
فلمیں ’غدر‘ اور ’لگان‘ ایک ہی دن ریلیز ہوئیں۔ مجھے بھوپال کے وہ دن یاد ہیں جب لوگ ’غدر‘ کے شو سے نکل کر ’لگان‘ دیکھنے جاتے تھے اور ’لگان‘ دیکھنے والے ’غدر‘۔
دونوں فلمیں حب الوطنی کے جذبے سے جڑی تھیں لیکن بہت مختلف تھیں۔
’لگان‘ کی حب الوطنی یکجہتی کے جذبات میں ڈوبی ہوئی تھی جہاں کرکٹ کو تشدد نہیں بلکہ ہتھیار بنایا گیا تھا جبکہ ’غدر‘ کی حب الوطنی بلند اور جارحانہ انداز کی تھی جس کے مرکز میں محبت کی کہانی تھی۔
غدر کی کامیابی کا راز
خامیوں کے باوجود ’غدر‘ کو لوگوں نے کُھلے دل سے قبول کیا۔
ایرا بھاسکر کہتی ہیں کہ فلم کی شاندار کامیابی کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ’غدر تقسیم کی کہانی ہے اور اس میں بہت پیاری محبت کی کہانی دکھائی گئی۔ تشدد اور نفرت کے درمیان مختلف مذاہب کے دو لوگوں کی ایک نازک محبت کی کہانی سامنے آئی۔‘
’تقسیم کی بہت سی فلموں کی طرح یہ ایک خوش کن اختتامی فلم نہیں تھی، غدر میں قوم پرستی کا پیغام تھا جس میں انڈیا کو پاکستان پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے دکھایا گیا، ان تمام وجوہات نے فلم کو ہٹ بنانے میں مدد کی۔‘
’سنی دیول کے ڈھائی کلو کے ہاتھ سے ایک ہینڈ پمپ کو اکھاڑنا، انھیں اکیلے پاکستانی فوج کا سامنا کرتے دیکھنا اور اس میں محبت کی کہانی اور اس میں انتہائی قوم پرستی کے رنگ نے غد‘ کو کامیاب بنایا۔ آنند بخشی کے گانے اور اتم سنگھ کی موسیقی بھی فلم کے ہٹ ہونے کی وجہ بنی۔‘
’آخر ہیں تو سب اسی مٹی سے‘
فلم کے ڈائیلاگ پر تھیٹر میں سیٹیاں اور تالیاں زور سے بجتی تھیں۔ مثال کے طور پر، جب تارا سنگھ کا ساتھی درمیان سنگھ (وویک شوق) پاکستان جاتا ہے اور طعنہ دیتا ہے کہ ’بیٹا بیٹا ہوتا ہے اور باپ باپ ہوتا ہے۔‘
اگرچہ درمیان سنگھ سائیڈ رول میں ہیں لیکن یہ نام ایک طرح سے فلم ’غدر‘ کی اصل روح کی عکاسی کرتا ہے یعنی دو ملکوں کے درمیان خلیج میں پھنسے لوگوں کی کہانی۔
سوال وہی ہے کہ آج کا تارا سنگھ کیسا ہو گا؟ ملک کی عزت کے لیے کچھ بھی کرنے والا، مذہبی تشدد میں قتل کرنے والا، انڈیا اور پاکستان دونوں کی بات کرنے والا، یہاں تک کہ محبت کے لیے اپنا مذہب چھوڑنے والا؟ یا ان سب کے درمیان کہیں؟
’غدر 2‘ کی ریلیز سے قبل تارا سنگھ یعنی اداکار اور بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ سنی دیول کے تازہ بیان پر یقین کیا جائے تو ’یہ ساری بات انسانیت کی ہے، سرحد کے دونوں طرف اتنی ہی محبت ہے، یہ ایک سیاسی کھیل ہے جو نفرت تخلیق کرتا ہے۔ عوام نہیں چاہتی کہ لوگ آپس میں جھگڑیں یا لڑیں، آخر ہیں تو سب اسی مٹی سے۔‘
فلم کے لیے تو نہیں لیکن اس بیان کی وجہ سے اُن کی ٹرولنگ ضرور شروع ہو گئی ہے۔