’چمپارن مٹن‘: یونیورسٹی طلبا کی فلم میں ایسا کیا ہے جو یہ آسکر کے سیمی فائنل تک پہنچ گئی

بی بی سی اردو  |  Aug 07, 2023

'چمپارن مٹن' بیروزگاری کے اس دور میں ایک غریب خاندان کی جدوجہد پر مبنی فلم ہے جس میں اپنی بیوی کے مطالبے کو پورا کرنے کے لیے ایک شوہر آٹھ سو روپے کا ایک کلو مٹن (بکرے کا گوشت) خریدتا ہے۔

مہنگائی کے اس دور میں گھر میں مٹن تیار ہو رہا ہو اور اچانک مہمان آ دھمکیں تو کیا ہو گا؟ اور کیا ہو کہ جب محلے کے لوگ بھی مٹن کی خوشبو سے اسے چکھنے کے لیے ان کے گھر پہنچ جائیں۔

چمپارن مٹن اسی معاشی اور سماجی تناؤ کے درمیان بنائی گئی فلم ہے۔ اس فلم کو رنجن اوما کرشن کمار نے پروڈیوس کیا ہے جو پونے کے فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹیٹیوٹ میں ہدایتکاری کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

اپنے آخری سمسٹر کی پڑھائی کے پروجیکٹ کے طور پر، انھوں نے یہ 24 منٹ کی فلم شمالی ریاست بہار کی ’بجّیکا‘ زبان میں بنائی ہے۔

بجّیکا مظفر پور اور آس پاس کے اضلاع کی بولی ہے جو بہار کے دارالحکومت پٹنہ کے قریب واقع ہے۔

’آسکر‘ میں سیمی فائنل تک کا سفر

بہت سے لوگوں نے اس فلم کو سراہا ہے۔ یہ فلم ’نیریٹو کیٹیگری‘ میں آسکر کے سٹوڈنٹ اکیڈمی ایوارڈ کے سیمی فائنل میں پہنچ گئی ہے۔ سٹوڈنٹ اکیڈمی ایوارڈ چار مختلف زمروں میں دیا جاتا ہے۔

رواں سال ایف ٹی آئی آئی کی کل تین فلمیں آسکر کے لیے بھیجی گئی تھیں لیکن ان میں سے صرف چمپارن مٹن کو اس مقابلے میں شامل کیا گیا۔

سٹوڈنٹ اکیڈمی ایوارڈ فلم ٹریننگ انسٹیٹیوٹ سے فلم میکنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کی فلموں کو دیا جاتا ہے۔ یہ ایوارڈ سنہ 1972 سے دیا جا رہا ہے۔

اس کیٹیگری کے لیے دنیا بھر سے 2400 سے زائد فلمیں پہنچی تھیں۔ 'چمپارن مٹن' سیمی فائنل تک ٹاپ 17 فلموں میں پہنچ چکی ہے۔ توقع ہے کہ اکتوبر تک اس کے ایوارڈ کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔

’چمپارن مٹن‘ ایک عام خاندان کے رشتوں اور جدوجہد کی کہانی ہے۔ اس فلم کی شوٹنگ مہاراشٹر کے بارامتی میں کی گئی ہے۔ فلم کی شوٹنگ ایک ماہ میں مکمل کی گئی ہے۔

رنجن کمار بتاتے ہیں کہ وہ اس فلم میں بہار کی مٹی کی خوشبو چاہتے تھے۔ یہ فلم پانچ طلبہ کی ڈپلومہ فلم ہے۔ ایف ٹی آئی آئی کی جانب سے ایسی فلموں کے لیے زیادہ پیسے نہیں دیے جاتے۔

رنجن کے مطابق فلم بنانے کے لیے ان پر ایک لاکھ روپے کا قرض ہو چکا ہے۔

’سسٹم پر ایک طنز ہے یہ فلم‘

’چمپارن مٹن‘ بہار کے چمپارن علاقے میں ایک خاص طریقے سے پکائے جانے والے مٹن کے لیے مشہور ہے۔ اسے مٹی کے برتن میں ہلکی آنچ پر پکایا جاتا ہے۔

اس مٹن کے بہت سے ہوٹل اور ریستوراں نہ صرف بہار بلکہ انڈیا کے مختلف علاقوں میں نظر آتے ہیں۔ مٹن سے محبت کرنے والے اس فلم کو نان ویجیٹیرین ڈش سے جوڑ سکتے ہیں۔

اس فلم کے ہدایتکار رنجن کمار خود بہار کے علاقے حاجی پور سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنی فلم کے ذریعے انھوں نے ملک کے سماجی اور سیاسی نظام پر طنز کیا ہے۔

رنجن کمار بتاتے ہیں: ’اگر میں ایک لفظ میں کہوں تو اس فلم کا موضوع بیروزگاری ہے۔ یہ کووِڈ کے بعد کی کہانی ہے جہاں لاک ڈاؤن کی وجہ سے کسی کی نوکری ختم ہو جاتی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

بٹوارے پر مبنی بالی وڈ کی یہ پانچ فلمیں آپ نے دیکھی ہیں؟

بالی وڈ میں ذات پات: ہندی فلموں میں دلت ہیرو کیوں نہیں ہوتے؟

رنجن کے مطابق فلم کے ہیرو نے محبت کی شادی کی ہے۔ ان کی بیوی چمپارن علاقے سے ہیں۔ وہ حاملہ ہیں اور مٹن کھانے کی خواہش کا اظہار کرتی ہیں۔

رنجن کے مطابق انھیں اس فلم کی ترغیب ایک سچے واقعے سے ملی ہے۔ ایک بار وہ اچانک پٹنہ کے قریب دانا پور میں ایک رشتہ دار کے گھر پہنچ گئے، جہاں مٹن پک رہا تھا۔

اسی وقت ایک سناشا ڈاکٹر بھی وہاں پہنچ گئے اور پھر مٹن کی خوشبو نے پڑوسیوں کو بھی دعوت دے دی۔ یہ فلم بتاتی ہے کہ ایسی صورتحال میں ایک خاندان کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے جس نے مشکل سے مہنگا مٹن خریدا ہو۔

اس فلم کے مرکزی اداکار چندن رائے اور فلک خان ہیں۔ اس فلم میں بہار کے تقریباً 10 فنکاروں کو شامل کیا گیا ہے تاکہ فلم میں بہار کی حقیقی جھلک پیدا ہو سکے۔

مرکزی فنکاروں نے پیسے نہیں لیے

چندن رائے خود بھی بہار کے علاقے حاجی پور سے ہیں اور مشہور ویب سیریز ’پنچایت‘ میں ان کی اداکاری کو کافی سراہا گیا ہے۔ چندن نے ’پنچایت‘ میں وکاس کا کردار ادا کیا ہے۔

چندن رائے نے بی بی سی کو بتایا: ’یہ طالب علموں کی فلمیں ہیں، جن کے لیے ایف ٹی آئی آئی زیادہ معاوضہ نہیں دیتا۔ میں نے اس کے لیے پیسے نہیں لیے۔ یہ فلم بجیکا میں ہے جو میری اپنی زبان ہے اور ڈائریکٹر رنجن بھی حاجی پور سے ہیں۔ بس یہ جان کر میں نے اداکاری کے لیے ہاں کر دی۔‘

چندن کے مطابق انھوں نے ایک طالب علم کی حمایت کے لیے حامی بھری۔ اس فلم کی کہانی بہت اچھی تھی لیکن کبھی نہیں سوچا تھا کہ ’چمپارن مٹن‘ آسکر میں اتنا آگے جائے گی۔

’چمپارن مٹن‘ کی مرکزی ہیروئن فلک خان کہتی ہیں: ’رنجن سر انجینئرنگ میں ہمارے سینیئر تھے۔ جب مجھے ان کا فون آیا تو مجھے بطور فنکار کہانی بہت پسند آئی۔ اس کا نام بھی منفرد اور پرکشش ہے۔ اس کی کہانی میں پرفارم کرنے کے لیے بہت کچھ نظر آیا۔‘

فلک خان کا کہنا ہے کہ ہیروئن کے طور پر گلیمرس کردار زیادہ ملتے ہیں لیکن اس فلم میں انھیں مختلف کردار ملا۔ فلم میں ان کا لُک بھی بہت مختلف ہے۔

فلک اس سے پہلے بھی کئی فلموں میں کام کر چکی ہیں لیکن ان کے مطابق ’چمپارن مٹن‘ کی کہانی بالکل سچی لگتی ہے۔ اس فلم میں ان کی اداکاری کو بہت سراہا گیا ہے۔

فلک کہتی ہیں: ’ایک منظر ہے جس میں میں غصے میں ہوں اور میرے شوہر چندن میرے پاؤں دباتے ہوئے مجھے مناتے ہیں۔ میں انھیں جھٹک دیتی ہوںاور کہتیہوں، ’چھوڑ دیجیے نہیں تو مار دیں گے ایک لات۔ یہ منظر بہت ہی پُرلطف ہے اور بہت سے لوگوں نے اسے سراہا ہے۔‘

’بہت سی باتیں منظر عام پر نہیں لائی جا سکتیں‘

رنجن کمار کہتے ہیں: ’میری ماں خود چمپارن سے ہیں اور میں دیکھتا تھا کہ گھر میں مٹن پکانا کتنا مشکل ہوتا تھا۔ یہ یہاں بہت مہنگا ہے۔ یہاں سے مجھے خیال آيا کہ اس پر فلم بننی چاہیے۔‘

یہ فلم اس وقت آسکر کے پاس ہے اور آسکر کے قوانین کے مطابق اس سے متعلق بہت سی باتیں منظر عام پر نہیں لائی جا سکتیں۔ لیکن رنجن کو طالب علم کے طور پر بنائی گئی اس فلم سے بہت امیدیں ہیں۔

رنجن کے مطابق انھوں نے اس فلم کو بنیادی اصولوں پر بہتر طریقے سے بنانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے ہر سطح پر اچھا کام کیا ہے اور انھیں امید ہے کہ فلم کو کوئی نہ کوئی ایوارڈ ضرور ملنا چاہیے۔

اس فلم نے دربھنگہ کی تجربہ کار فنکارہ میرا جھا نے بھی سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ میرا جھا ایک طویل عرصے سے آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہیں اور کئی مقامی فلموں میں بھی کام کر چکی ہیں۔

شروع میں وہ اس کے لیے تیار نہیں تھیں لیکن بجیکا کی کہانی سننے کے بعد وہ بغیر کنفرم ٹکٹ کے پونے چلی گئیں۔ میرا جھا نے فلم میں ہیرو کی دادی کا کردار ادا کیا ہے۔

میرا جھا نے اس کہانی کو پسند کیا کہ لوگ کس طرح بے روزگاری اور غربت میں زندگی کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔

بہار کے کئی لوگوں نے نہ صرف کیمرے کے سامنے بلکہ فلم کے پیچھے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے۔

اس فلم کو ایوارڈ ملے گا یا نہیں اس کا فیصلہ تو اگلے چند ہفتوں میں ہو گا لیکن فی الحال یہ فلم تعریفیں اور سرخیاں ضرور حاصل کر رہی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More