یونان: سمندر میں ڈوبنے سے قبل پناہ گزینوں کی کشتی 7 گھنٹوں تک ایک ہی جگہ کھڑی رہی

بی بی سی اردو  |  Jun 19, 2023

Getty Images

بی بی سی نے یونان میں تارکین وطن کی کشتیڈوبنے کے واقعےکے بارے میں چند اہم شواہد حاصل کیے ہیں جو یونانی کوسٹ گارڈ (ساحل پر تعینات محافظ) کی جانب سے دیے گئے بیانات پر شکوک و شبہات کو جنم دیتے ہیں۔

بی بی سی کو اس علاقے میںموجود دیگر بحری جہازوں کی نقل و حرکت کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہگنجائش سے زیادہ مسافروں سے بھری کشتی سمندر میں ڈوبنے سے قبل کم از کم سات گھنٹے تک حرکت کرنے کے بجائے ایک ہی جگہپر کھڑی رہی تھی۔

بی بی سی نےمیری ٹائم اینالیٹکس کے پلیٹ فارم ’میرین ٹریفک‘ کی طرف سے ٹریکنگ ڈیٹا کی ایک کمپیوٹر اینیمیشن حاصل کی ہےجس کےاعداد و شمار کشتی ڈوبنے سے قبلسمندر کے اس مخصوص علاقےکی سرگرمیوں کیمکمل نشاندہی کرتے ہیںجہاں تارکین وطن کی کشتی ڈوبی تھی۔

اس ڈیٹا نے یونان کےسرکاری دعوؤں کو مشکوک کر دیا ہےجن میں کہا گیا ہے کہ کشتی کو نیویگیشن میں کوئی مسئلہدرپیش نہیں تھا اور یہ کہ انھوں نے مدد قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔

تارکین وطن کو لے جانے والی ماہی گیری کی اس کشتی میں کوئی ٹریکر موجودنہیں تھا اس لیے وہ نقشے پر نہیں دکھائی دی۔

ان شواہد کے برعکس کوسٹ گارڈ اب بھیاپنے دعوے پر قائم ہیں کہ اس دورانیے میںکشتی اٹلی کے راستے پر گامزن رہیتھی اور اسےکسی مدد کی ضرورت نہیں تھی۔

بی بی سی کے ان شواہد سے متعلق یونانی حکام نے ابھی تک اپنا ردعمل نہیں دیا ہے۔

یاد رہے کہ یونانی حکامکا دعویٰ ہے کہ کشتی میںسوار افراد نے کہا تھا کہ ان کو مدد کی ضرورت نہیں اور کشتی ڈوبنے سے پہلے تک بظاہر کوئی ایسا خطرہ نہیں تھا جس کی بنیاد پر ان کی مدد کی جاتی۔

واضح رہے بدھ کے روزتارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے اس واقعے میں سینکڑوں افراد کی ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

گذشتہ بدھ کو تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے میں اب تک کم از کم 78 افراد کیہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے تاہم اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ابھی تک کم از کم 500متاثرین لاپتہ ہیں۔

اقوام متحدہ نےمطالبہ کیا ہے کہ اس سانحہ سے نمٹنے کے لیے یونان کے کئے جانے والے اقدامات پر تحقیقات کی جائیں اور یہبھی جانا جائےکہ کشتی ڈوبنے سے قبل ہی بروقتبچاؤ کی کوششیں اور ضروری اقدامات کیوں نہیں کیے گئے۔

یاد رہے کہ اس کشتی پر سوار بچائے گئے 104 افراد میں سے 12 پاکستانی شہری ہیں اور ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ درجنوں کی تعداد میں پاکستانی فی الحال لاپتہ ہیں۔ یونان میں حکام نے اب سمندر سے 70 لاشیں نکالی ہیں جن کی تاحال شناخت نہیں ہو سکی ہے۔

دوسری جانب پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے میں پاکستانیوں کی شناخت کے لیے ڈی این اے نمونوں سے مدد لی جائے گی۔

ترجمان ممتاز زہرہ نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پاکستانیوں کی شناخت کے لیے متاثرہ خاندانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ڈی این اے نمونے بھجوائیں تاکہ شناخت کا عمل مکمل کیا جا سکے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت متاثرین کی حتمی تعداد کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔‘

ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ نے مزید کہا ہے کہ ’حکومت پاکستان یونان کی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔لیکن کشتی حادثے میں کتنے پاکستانی تھے، شناخت سے قبل اس بارے میں فی الوقت کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔‘

دفتر خارجہ کے مطابق ابھی تک زندہ بچ جانے والے 12 پاکستانیوں کی شناخت کی تصدیق ہی کی جا سکی ہے۔

’سمگلروں نے میرے بیٹے کا برین واش کیا‘BBC پاکستانی شہری شہریار سلطان کے والد کا کہنا ہے کہ انسانی سمگلروں نے ان کے بیٹے کو جھانسے سے اس کشتی میں بٹھایا جو یونان کے قریب الٹ گئی

’سمگلروں نے میرے بیٹے کا برین واش کیا۔۔۔‘

یونان کشتی حادثے میں لاپتہ ہونے والے پاکستانی شہریار سلطان کے والد شاہد محمود نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایجنٹ نے ایسا اس کا برین واش کیا ہوا تھا کہ ہم اس طرح دو دن میں (یورپ) پہنچ جاتے ہیں۔ تین دن میں پہنچ جاتے ہیں۔‘

مندرہ سے تعلق رکھنے والے شاہد محمود کہتے ہیں کہ ’بس یہ ناسمجھ تھا، اس نے یہ کام کر دیا۔ اس نے جاتے ہوئے پیغام ایسے بھیجا کہ میں جا رہا ہوں۔ پانچ، چھ دن میں پہنچ جاؤں گا۔‘

انھوں نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ’ایسے ایجنٹس کے خلاف کریک ڈاؤن‘ ہونا چاہیے۔ دوسری جانب پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے یونان میں تارکین وطن کی کشتی الٹنے کے واقعے کی تحقیقات کی ہدایات جاری کرتے ہوئے ’انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف گھیرا تنگ کرنے‘ کا وعدہ کیا ہے۔

وزیرِ اعظم کے دفتر سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’انسانی سمگلنگ جیسے گھناؤنے جرم میں ملوث ایجنٹس کے خلاف فوری کریک ڈاؤن اور انھیں قرار واقعی سزا دی جائے۔‘

گذشتہ روز پاکستان کی وزارت خارجہنے اپنے بیان میں تصدیق کی تھی کہ حادثے میں 78 بچنے والوں میں 12 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں جن کا تعلق گجرانوالہ، گجرات، شیخوپورہ، منڈی بہاؤالدین، سیالکوٹ، گجرات اور ضلع کوٹلی سے ہے۔

دفتر خارجہ کے مطابق اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ لاپتہ افراد میں سے کتنے پاکستانی ہیں۔ تاہم اخبار گارڈین کے مطابق بعض اندازوں کے مطابق ’کشتی پر سوار پاکستانیوں کی تعداد قریب 400 تک ہوسکتی ہے۔‘

’انسانی سمگلنگ میں ملوث ایجنٹ گرفتار‘

گارڈین نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بچنے والے تارکین وطن نے کوسٹ گارڈز کو دیے بیان میں کہا ہے کہ پاکستانیوں کو کشتی کے نچلے حصے میں سوار کروایا جا رہا ہے جبکہ دوسری شہریت کے لوگ اوپر والے حصے میں سوار تھے لہذا کسی حادثے کی صورت میں پاکستانیوں کے بچنے کے امکان کم تھے۔

صحافی ایم اے جرالکے مطابق پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے میرپور ڈویژن سے تین سے چار ماہ کے دورانلیبیا اور اٹلی جانے والے افراد کی فہرستیں ضلعی انتظامیہ نے مرتب کی ہیں جو تاحال لاپتہ ہیں۔

ایم اے جرال کے مطابق ابھی تک 27 افراد کی فہرست مرتب کی گئی ہے جس میں نوجوانوں کی اکثریت کی تعداد تحصیل کھوئیرٹہ سے ہے جبکہ مزید افراد کی چھان بین کی جا رہی ہے۔

اس حوالے سے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے میرپور ڈویژن کے کمشنر چوہدری شوکت کا کہنا ہے کہ ’انسانی سمگلنگ میں ملوث مرکزی ایجنٹ کی معاونت کرنے والے نو مقامی افراد کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ مرکزی ملزم کو وفاقی ادارے (ایف آئی اے) نے کراچی ایئرپورٹ سے گرفتار کیا تھا۔‘

اقوامِ متحدہ کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ ڈوبنے والی کشتی میں چار سو سے ساڑھے سات سو افراد سوار تھے۔

دوسری جانب وزیرِ اعظم وزیرِ اعظم کے دفتر کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسے تمام انسانی اسمگلروں کی نشاندہی کرنے کی ہدایات کی ہیں جو لوگوں کو جھانسہ دے کر خطرناک اقدامات پر مجبور کرتے ہیں۔‘

کشمیر میں بھی یونان حادثے کا مقدمہ درج، 26 مقامی نامزد

صحافی محمد زبیر خان کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں یونان کشتی حادثے کا پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ مقدمے میں 26 افراد کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ دیگر نامعلوم ملزمان شامل ہیں۔

مقدمہ ضلع کوٹلی پولیس نے پولیس انسپکٹر کی مدعیت میں درج کیا ہے۔درج مقدمہ کے مدعی کھوٹی رٹہ تھان کےایس ایچ او سہیل یوسف ہیں۔

انھوں نے پولیس کو یہ بتایا کہ ’انھیں معتبر زرائع سے اطلاع ملی ہے کہ مقدمے میں نامزد ملزمان جس میں مقامی افراد کم از کم دس ہیں، نے انسانی سمگلنگ کا گروپ منظم کررکھا ہے جو مقامی سطح پر اپنے اپ کو ایجنٹ ظاہر کرکے عوام کو ورغلا کر اور بھلا پھسلا کر قانونی طریقے سے یورپ لے جانے کا جھانسہ دے کر بھاری رقم بٹورتے ہیں۔

بعد ازاں ان افراد کو بحیرہ روم کے سمندر کے راستے غیر محفوظ اور غیر قانونی طور پرڈنکی لگا کر بھجتے ہیں اور انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔

درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ کچھ عرعہ قبل ان لوگوں نے تحصیل کھوئی رٹہ کے متعدد افراد کو بھی جھانسہ دے کر یورپ لے جانے کے بہانے خطیر رقم بٹوری گئی اور 14 جون کو ان افراد کو یونان کی سمندری حدود میں ایک کشتی میں سوار کرایا۔

درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ کشتی میں 300 سے 350 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش موجود تھی مگر اس آٹھ سو افراد کو سوار کرایا گیا۔

مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ ملزمان ’ہمارے تھانے کی حدود میں لوگوں کے ساتھ فراڈ کا سبب بننے کے علاوہ کئی اموات کا سبب بھی بنے ہیں۔‘

’کوسٹ گارڈ نے مذاکرات کے لیے کشتی سے رسی باندھنے کی کوشش کی‘

خیال رہے کہ یونان کی کوسٹ گارڈ فورس پر کشتی الٹنے سے قبل مدد فراہم نہ کرنے اور اس کے ڈوبنے میں ملوث ہونے کے حوالے سے الزام عائد کیے جا رہے ہیں اور اس واقعے کے تناظر میں یہی موضوعِ بحث ہے۔

یونان کے نگران وزیرِ اعظم ایونس سارمس کا کہنا تھا کہ ’اصل حقائق اور تکنیکی امور کی جامع تحقیقات کی جائیں گی‘ تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ کشتی کیوں ڈوبی۔

یونان کی وزارتِ مائیگریشن کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ’کوسٹ گارڈز کی کشتی حادثے کا شکار ہونے والی کشتی سے ایک مناسب فاصلے پر موجود تھی۔‘

تاہم وزارتِ مائیگریشن کے ایک اہلکار مانوس لوگوٹھیٹس نے چینل فور سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یونان کے کوسٹ گارڈ کی جانب سے حادثے کا شکار ہونے والی کشتی کے ساتھ حادثے سے دو گھنٹے قبل رسی باندھنے کی کوشش کی تاکہ ان سے مذاکرات کیے جا سکیں۔‘

انھوں نے اس حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ایسا کشتی کے بالکل قریب آنے کے لیے کیا گیا تاکہ دونوں کشتیاں برابر موجود ہوں۔

انھوں نے کہا کہ ایسا ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے کرنے کی کوشش کی گئی تاہم کشتی میں موجود افراد کی جانب سے ’مزاحمت کی گئی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کوسٹ گارڈز نے جہاز کے کپتان یا ان افراد میں سے جو بھی بات کرنے کے لیے تیار تھا اس سے بات کی کیونکہ کسی نے یونیفارم نہیں پہنا ہوا تھا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ کشتی کے ڈوبنے میں کوسٹ گارڈ ملوث نہیں ہیں۔

خیال رہے کہ یونان کے کوسٹ گارڈز پر اس سے قبل بھی غیر قانونی طور سمندر کے ذریعے نقل مکانی کرنے والے افراد کو واپس بھیجنے کے حوالے سے الزامات لگائے گئے تھے۔ تاہم مانوس لوگوٹھیٹس نے چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یونان کے کوسٹ گارڈ اپنی اور یورپ کی سرحد کی حفاظت کر رہے تھے۔‘

اقوامِ متحدہ کے دو اداروں کی جانب سے اس واقعے کی مذمت کی گئی ہے اور ایک مشترکہ اعلامیے میں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’سمندر میں مشکلات میں گھرے افراد کو ریکسیو کرنا پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ یہ بین الاقوامی میریٹائم قانون کا بنیادی اصول ہے۔‘

گذشتہ برس اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ انھوں نے 540 ایسے واقعات ریکارڈ کیے ہیں جن میں یونان کی جانب سے کشتیوں کو واپس بھیجا گیا تھا۔

تاحال اس حوالے سے تفصیلات سامنے آنا باقی ہیں کہ یونان کشتی حادثے کی وجوہات کیا بنیں اور کیا اس میں یونانی حکام ملوث ہیں یا نہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More