عمران خان کی حکومت کے خاتمے کا ایک سال: سیاسی میدان میں کس نے کیا کھویا اور کیا پایا؟

بی بی سی اردو  |  Apr 09, 2023

Getty Images

آج سے ٹھیک ایک سال پہلے، دن ہے نو اپریل 2022 اور منظر ہے وزیر اعظم ہاؤس کے وسیع و عریض لان کا جہاں سابق وزیر اعظم عمران خان سے بعض صحافی آرمی چیف کی تعیناتی اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات سمیت ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کے حوالے سے سوال و جواب کر رہے تھے۔

پھر اسی رات کا دوسرا منظر ہے پارلمینٹ ہاؤس کا، رات کے بارہ بجے کے قریب کا وقت ہے اور سپیکر اسد قیصر ایک بار پھر اس اجلاس کو شروع کر رہے ہیں جو اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے صبح سے جاری تو ہے مگر اس میں وقفے پر وقفہ آ رہا ہے۔

تاہم اس بار سپیکر اسد قیصر جزبات سے بھری آواز میں مخاطب ہو کر اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کر تے ہیں اور سپیکر کی نشست سردار ایاز صادق کے حوالے کر دی جاتی ہے۔

اسی دوران ایک منظر عدالت عظمی کا بھی ہے جہاں سے خبر آتی ہے کہ آدھی رات کو معزز ججز پہنچنا شروع ہو رہے ہیں۔پل پل منظر بدلتی یہ وہ رات ہے جس کے اختتام پر اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان اقتدار سے رخصت ہوئے۔

نو اپریل 2022 کی شب رات گیارہ اور بارہ بجے کے درمیان پہلے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے استعفیٰ دیا، اجلاس کی صدارت ایاز صادق نے سنبھالی اور پھر تحریک عدم اعتماد پر پر ووٹنگ کروائی گئی۔ اور کچھ دیر بعد عمران خان وزیراعظم نہیں رہے تھے۔

پالیمان کی جانب سے ایک وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے جب گھر جانا پڑا تو ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے خود کو غیر جانبدار قرار دینے کا اعلان بھی سامنے آیا۔

یوں ملک میں ایک نئے سیاسی باب کا آعاز ہوا لیکن ایک جانب جہاں اقتدار سے رخصت ہو کر دوبارہ حزب اختلاف میں جانے والی پاکستان تحریک انصاف نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج در احتجاج کا سلسلہ شروع کیا وہیں ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے والی پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت معاشی میدان سمیت ہر محاذ پر چیلینجز کا سامنا رہا۔

EPA

اسی سیاسی ہلچل کے تسلسل میں مختلف نشیب و فراز سے گزر کر پہلے پنجاب کی صوبائی اسمبلی جنوری 2023 کے وسط میں تحلیل کی گئی اور اس کے بعد چار روز بعد ہی خیبرپختونخوا کی اسمبلی تحلیل کر دی گئی۔

تاہم 90 روز میں انتخابات کا انعقاد نہ ہو سکا اور پھر سپریم کورٹ کی ہدایت پر الیکشن کمیشن نے اپریل کے اواخر میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان تو کیا مگر سیکیورٹی اور مالی وسائل کی عدم دستیابی کے باعث اس اعلان کو بدلتے ہوئے 8 اکتوبر کو پنجاب کے انتخاب کی تاریخ دے دی۔

ایک بار پھر معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا اور 14 مئی کو پنجاب کے انتخابات کا شیڈول کا اعلان کر دیا گیا۔

2023 ملک میں عام انتخابات کا سال ہے اور اس ایک سال کے دوران سیاست کے اتار چڑھاؤ میں کس نے کیا کھویا اور کیا پایا، اسی پر ہم نے کچھ ماہرین سے بات کی ہے۔

’حکومت کی ناقص پالیسیوں نے عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ کیا‘

صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کے مطابق مارچ 2022 میں عدم اعتماد کی تحریک آنے سے ایک سال قبل عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی مشکلات شروع ہو چکی تھیں اور ’ان کی مقبولیت کا گراف بھی گر رہا تھا جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھیں ناصرف اس دور میں ضمنی انتخابات میں شکست ہوئی بلکہ خیبرپحتونحوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں بھی پی ٹی آئی کے مقابلے میں جے یو آئی کو کامیابی ملی۔‘

’عدم اعتماد سے پہلے عمران حان کی مقبولیت کم اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کو عوام کے بڑے حلقے میں پذیرائی مل رہی تھی اور اسی باعث اپوزیشن کا اس وقت کی حکمران جماعت پی ٹی آئی پر دباو بھی برقرار تھا۔‘

مظہر عباس کے مطابق’اپوزیشن کی جانب سے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر27 مارچ کو انھوں نے اس تحریک کو ناکام کرنے کی کوشش کی تاہم اس میں ناکامی کے بعد انھوں نے سائفر کے ذریعے عوامی ہمدردی سمیٹنے کی کوشش کی۔ 9 اپریل 2022 کواپنے خلاف عدم اعتمادکی کامیابی کے بعد وہ سڑکوں پر آئے اور اس وقت سے لے کر اب تک پاکستان میں ان کی مقبولیت میں اضافہ سامنے آ رہا ہے۔‘

Getty Images

مظہر عباس نے عمران حان کی مقبولیت کی وجہ حکمران اتحاد کی پالیسیوں کو قرار دیا۔

’حکمران اتحاد کیناقص پالیسیوں کے باعث حکومت کو عوام کو پذیرائی نہیں ملی اور انھی ناقص پالیسیوں نے عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔‘

’اور اب حال یہ ہے کہ حکومت کے پاس ایسی کوئی پالیسی نہیں جس کی بنیاد پر وہ ووٹر کے سامنے اس بیانیے کو آگے لے جا سکیں۔‘

’عمران خان اب اس پوزیشن میں ہیں جس میں انھیں صاف نظر آ رہا ہے کہ انتخابات میں انھیں کامیابی ملے گی اور اگر ایسا ہوا تو یہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہو گا کہ کسی کو اقتدار سے الگ کیا گیا ہو اور اسے دوبارہ کامیابی مل جائے۔ ‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ’جو عمران خان نے سیاسی طور پر اپنے لیے مسائل کھڑے کئے، ان میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔‘

مظہر عباس کے مطابق ’انتخابات کا سال ہونے کے باوجود اس وقت پاکستان میں تین بڑے چیلینجز ہیں۔ 'معاشی بحران جو بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے، سیاسی بحران جس میں بات چیت کے دروازے کھلتے نظر نہیں آ رہے اور عدلیہ کا بحران جس میں تقسیم اور ججز کے آپس کے احتلافات سامنے نظر آ رہے ہیں۔‘

’ن لیگ نے پایا تو کچھ نہیں، کھویا بہت کچھ‘Getty Images

صحافی اور اینکر عاصمہ شیرازی کے مطابق پچھلے چار سالوں میں پاکستان نے بطور ریاست نے کافی کچھ کھو دیا ہے اور اس کا تسلسل جاری ہے۔

’جو پارٹیاں پہلے اس پوزیشن میں تھیں جن کی یہ ڈیمانڈ تھی کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے باہر رکھیں گے تو کسی حد تک تو وہ خواب پورا ہوا لیکن جو سپیس تھی وہ سیاسی جماعتوں نے نہیں لی لیکن دوسرے اداروں نے حاصل کر لی۔‘

’پاکستان میں طاقت کا مرکز تبدیل ہو گیا۔ پہلے پاور سینٹر اسٹیبلشمنٹ کو کہتے تھے او وہ پاور سینٹر عدلیہ کی جانب چلا گیا۔‘

عاصہ شیرازی کے مطابق ’پاکستان نے معاشی سیاسی اور آئینی استحکام کھو دیا ہے اور اب ہر ادارہ ناصرف تقسیم ہے بلکہ اپنی اپنی بقا کی جنگ میں ہے۔پوزیشن بدل گئیں، پہلے جہاں پی ٹی آئی تھی اب وہاں موجودہ حکومت ہے۔‘

’تحریک انصاف نے عوام میں سپورٹ پائی اوربیانیے کی جنگ ہاری‘

عاصمہ شیرازی کے مطابق مسلم لیگ ن نے اس ایک سال میں پایا تو کچھ نہیں لیکن کھویا بہت کچھ ہے۔

’ناصرف اپنی پارٹی کے اندر تقسیم بڑھائی بلکہ اپنا ووٹ بینک بھی کھو دیا اور سیاسی طور پر ایک ان دیکھے خوف کے اندر ہے اس لیے اب تک اسمبلیوں کی تحلیل کے باوجود انتخابات نہیں ہو پائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اتحاد میں موجود باقی جماعتوں کی نسبت مسلم لیگ ن کے اندر کرائسس زیادہ نظر آتا ہے۔‘

’پنجاب کی بڑی جماعت ہونے کے باعث ان کے پاس پچھلے سال واضح امکان تھا کہ وہ وہاں بہتر طریقے سےانتخاب جیتتے لیکن اب یہ ممکن نظر نہیں آ رہا کہ اگلے انتخاب میں ان کو اچھا رسپانس ملے بلکہ ان کو بہت جدوجہد کرنا ہو گی۔‘

عاصمہ شیرازی کے مطابق ’پاکستان تحریک انصاف نےایک سال کے دوران پبلک سپورٹ تو بہت حاصل کی۔ فروری 2022 میں لگ رہا تھا کہ اگر آج حکومت جاتی ہے اور انتخابات ہوتے ہیں تو اس میں تحریک انصاف کا جیتنا آسان نہیں ہو گا لیکن انھوں نے اپنے بیانیے کی جنگ ہاری ہے اور وہ بیانیہ جو وہ لے کر چلے تھے وہ دن بہ دن لوگوں پر کھلتا جا رہا ہے اور اگر اور وقت ملا تو وہ مذید ایکسپوز ہوں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ان کا حقیقی آزادی کے نام سے شروعکی جانے والی جنگ اور اپنا بیانیہ وہ اب کہیں کھو چکے ہیں۔‘

’اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا بیانیہ جو ان کا بنا تھا وہاپنی بات پر قائم نہیں رہ سکے اور بار بار اسٹیبلشمنٹ کو پاور کوریڈور میں آنے کی دعوت د یتے رہے تو اب جب وہ انتخابات میں جائیں گے تو ان کے لیے منشور دینا بہت بڑا چیلینج ہو گا۔‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’اسٹیبلشمنٹ کے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ انھوں نے اپنی بقا کے لیے کیا تھا۔ انھوں نے اپنے آپ کو تو ضرور بچایا تاہم ان کا سارا بوجھ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے برداشت کیا۔‘

’کل کی ڈویلیپمنٹ دیکھیں کہ اس ایک سال ہورا ہونے سے ایک روز پہلے دفاع کونسل پاکستان کا ریاست اور حکومت کے دفاع میں کھڑے ہو جانا اس بات سے محسوس ہوتا ہے کہ ریاست اپنی پرانی غلطیوں سے کچھ بہت نہیں سیکھ سکھی۔‘

عاصمہ شیرازی کے مطابق ’تحریک انصاف کے پاس نہ پہلے معاشی پلان تھا نہ اب ہے۔ ان کی توجہ روز مرہ کے مسائل پر تو ہے کہ ہم انتخاب میں جائیں، دوبارہ جیت کر حکمران بنائیں لیکن دیرپا پالیسی بنانے پر ان کا فوکس نہیں۔‘

’پی ٹی آئی کی کسی غلطی کی اثر ان کی مقبولیت پر نہیں پڑا‘

تجزیہ کار اور اینکرعارفہ نور بھی عاصمہ شیرازی سے اتفاق کرتی ہیں کہ اس ایک سال میں اقتدار میں رہنے کے باوجود سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ ن نے اٹھایا۔

’ان کو حکومت تو ملی اور کمزور اتحادی حکومت کا سال پورا ہوا۔ لیکن دوسری طرف مسلم لیگ ن نے پنجاب میںاپنی مقبولیت کھو دی۔‘

’پہلے پنجاب کا کوئی ضمنی انتخاب ایسا نہیں ہوتا تھا جس کو وہ نہ جیتتے ہوں اور آج وہ کچھ بھی کہیں لیکنہم سب کو یقین ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ انتخابات نہیں کروانا چاہتی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ وہ الیکشن ہار جائے گی۔‘

یہ بھی پڑھیے

سیاست دان، اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ: پاکستان کے موجودہ بحران کا ذمہ دار کون ہے؟

پنجاب میں انتخابات: کیا حکومت پارلیمان کی مدد سے سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد سے بچ سکتی ہے؟

سپریم کورٹ میں ’تقسیم‘: وہ کیس جس نے پاکستان میں نئے بحران کو جنم دیا

دوسری جانب عارفہ نور کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے ایک سال میں مقبولیت حاصل کی۔ ’انھوں نے غلطیاں بھی کیں مگر کسی غلطی کی اثر ان کی پارٹی کی مقبولیت پر نہیں پڑا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پی ڈی ایم حکومت نے بھی اقتدار میں آ کر وہی غلطیاں کیں جو عمران خان کی حکومت نے کیں کیوں کہ بنیادی معاملات میں دونوں ہی کوئی تبدیلی نہیں لا سکے۔‘

عارفہ نور نے کہا کہ ’پاکستان کی سیاسی جماعتیں ہر وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہوتی ہیں، جو پاور میں ہوتی ہے وہ بھی اور جو پاور میں نہیں ہوتی وہ بھی۔ ان کے پاس گورننس کا وقت ہی نہیں ہوتا۔‘

اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں ایک سوال پر عارفہ نور نے کہا کہ ’پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہمیشہ سے رہا ہے جو باتوں سے ختم نہیں ہو گا۔ ان کا کردار طاقت کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہ کہنے سے کہ وہ پیچھے ہٹ گئے ہیں بات ختم نہیں ہوتی کیوں کہ ان کی طاقت اپنی جگہ موجود ہے۔‘

عارفہ نور نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’اب معیشت کی حالت اتنی خراب ہے کہ جو بھی اقتدار میں آئے گا وہ مقبولیت کھو دے گا۔ اگر عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آ کر معیشت کو سنبھال کیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔‘

’یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کی سیاست کا کتنا نقصان ہوا ہے۔ جب تک یہ لڑائی رہے گی کہ کس کو پاور میں لانا ہے اور جو پاور میں ہے اس پر دباؤ رکھنا ہے، کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہو گا کہ وہ معیشت کے بارے میں سوچے، یہ کھیل ایسے ہی چلتا رہے گا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More