بہار شریف میں 17ویں صدی کی شاہی مسجد پر حملے کے دوران عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

بی بی سی اردو  |  Apr 08, 2023

BBC

انڈیا کی مشرقی ریاست بہار کے شہر بہار شریف میں تقریباً چار صدیوں پرانی شاہی مسجد میں توڑ پھوڑ کو عینی شاہدین نے ’موت کو قریب سے دیکھنے کا منظر‘ قرار دیا ہے۔

مسجد میں آگ لگی ہوئی تھی جبکہ قریبی عمارت میں ایک لڑکی سمیت تین بچے پھنسے ہوئے تھے جنھیں ’لوگوں نے چھت سے اندر کود کر بچایا ورنہ وہ دھوئیں سے دم گھٹنے سے مرجاتے۔‘

ماہ رمضان کے اس روز افطار میں صرف ایک گھنٹہ باقی تھا اور مسجد کے امام محمد شہاب الدین، بارہویں کلاس کے طالب علم نایاب کامران اور مزید 20 سے 22 لوگ مسجد کے اندر موجود تھے۔

کچھ دیر قبل رام نومی کے تہوار کے سلسلے میں شبھ یاترا کا جلوس وہاں سے گزرا جس میں موجود کئی لوگوں نے تلواریں لہرائیں اور نعرے لگائے۔ یہ منظر دیکھ کر سکیورٹی پر مامور پولیس والوں نے شاہی مسجد کا مرکزی دروازہ بند کر دیا۔

امام محمد شہاب الدین کہتے ہیں کہ ’جب مظاہرین مرکزی دروازے کے تالے توڑ کر اندر آئے اور مینار پر چڑھ گئے تو اس وقت صحن میں افطار کا سامان پڑا ہوا تھا۔ مظاہرین نے توڑ پھوڑ کے بعد زعفرانی پرچم لہرا دیا۔ کچھ مشتعل مظاہرین نے قتل کی دھمکیاں دیں۔‘

BBCجس دن مسجد میں تشدد اور توڑ پھوڑ کی گئی

یہ مسجد 17ویں صدی میں مغل بادشاہ شاہ جہاں کے گورنر سیف خان نے تعمیر کروائی تھی۔ پانچ گنبدوں والی اس خوبصورت مسجد کا ذکر فن پر لکھی کتب میں بھی ہوتا ہے۔

قریب واقع مدرسہ عزیزیہ کی جانب سے یہاں مستحق افراد کے لیے افطار کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اس روز بھی یہاں کئی لوگ افطار کے لیے جمع ہوئے تھے۔

مشتعل مظاہرین زبردستی مسجد کی حدود میں داخل ہوئے۔ انھوں نے وہاں موٹر سائیکلوں، گاڑیوں اور دکانوں کو نذر آتش کرنا شروع کر دیا۔ انھوں نے باہر سے پتھراؤ کر کے مسجد کے شیشے توڑ دیے۔

پھر انھوں نے مسجد کے احاطے میں اندرونی دروازے کو توڑنے کی بھی کوشش کی مگر ناکام رہے۔

امام شہاب الدین یہیں قریب دکانوں اور گودام سے اوپر اپنے خاندان کے ہمراہ رہتے ہیں۔ اس عمارت کو بھی نذر آتش کیا گیا۔ پیٹرول بم پھینک کر عمارت میں آگ لگائی گئی اور اس کی وجہ سے کمروں سے دھواں ابھرتا ہوا دیکھا گیا۔

امام شہاب الدین نے روتے ہوئے بتایا ’اوپر کی منزل پر میرا ایک سال کا بیٹا اور دو سال کی بیٹی چیختے رہے۔‘

’شاید ان کا دم گھٹ رہا تھا۔ اگر تین لوگ چھت توڑنے کے بعد اندر داخل نہ ہوتے تو یہ سب وہیں دم گھٹنے سے مر جاتے۔‘

بارہویں جماعت کے نایاب کامران بھی مسجد میں موجود تھے۔ وہ ہر روز کلاس کے بعد یہاں افطار کے لیے آتے ہیں۔

نایاب کامران نے بتایا کہ ’یہ منظر مجھے خوفزدہ کر رہا تھا۔ ہم نے موت کو قریب سے دیکھا۔ ہمیں محسوس ہوا کہ ہم اب محض دس منٹ کے مہمان ہی ہیں۔‘

بیت المقدس میں بکرے کی قربانی کے منصوبے کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ کیوں ہوا؟

’ہندو تہوار انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ڈراؤنا خواب بن گئے ہیں‘

BBC

ان کے مطابق لوگ گالم گلوچ کرتے ہوئے اندر آئے اور پانی لانے والی گاڑی کو نذر آتش کردیا۔ افطار کے وقت لوگوں کے لیے پانی پینا بھی مشکل ہوگیا تھا۔

عینی شاہدین کے مطابق تشدد مزید دو گھنٹے تک جاری رہا۔ وارڈ کونسلر دلیپ کمار یادیو کے پہنچنے کے بعد صورتحال معمول پر آئی۔

مسجد کے باہر مشتعل مظاہرین نے وہاں نایاب کامران، علاقے میں واحد مسلم خاندان کے فرد، کے گھر کو آگ لگانے کی کوشش کی۔ مگر کچھ ہندو ان کوششوں کے خلاف دیوار بن گئے۔

نایاب کہتے ہیں کہ ’کچھ لوگوں نے اس روز انسانیت کی مثال قائم کی۔‘

تاہم لوگوں کا دعویٰ ہے کہ پولیس انتظامیہ بھی واقعے کی ذمہ دار ہے۔

امام صاحب کا کہنا تھا کہ یہ حملہ رمضان کے ماہ میں جمعے کے روز ہوا جبکہ ’شبھ یاترا کی تیاریاں کئی ہفتوں سے جاری تھیں۔ کہیں نہ کہیں پولیس انتظامیہ نے صورتحال سمجھنے میں غلطی کی۔‘

ان کے مطابق مسجد کی سکیورٹی کے لیے شبھ یاترا کے راستے پر چار سے پانچ پولیس والے لاٹھیوں کے ساتھ تعینات تھے مگر ’جب مظاہرین داخل ہوئے تو وہ انھیں روکنے کے لیے کچھ بھی نہ کر سکے۔‘

BBCپولیس انتظامیہ کا موقف

پٹنہ سے اضافی نفری کی آمد کے بعد مسجد میں پھنسے لوگوں کو پولیس کی نگرانی میں باہر لایا گیا اور مسلم اکثریتی علاقے کانتاپورہ لے جایا گیا۔

امام صاحب کے مطابق جب وہ سحری اور نماز فجر کے لیے مسجد پہنچے تو حکام نے جنریٹر کی مدد سے بڑی لائٹ گیٹ پر لگائی ہوئی تھی، نذر آتش کی گئی گاڑیاں ہٹا دی گئی تھیں اور مقام کی صفائی کر دی گئی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ایک طرح سے انتظامیہ نے کوئی سراغ نہیں چھوڑا۔‘

تاہم انتظامیہ ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ ایس پی اشوک مشرا نے کہا کہ لوگوں کو فوراً بچا لیا گیا تھا۔ ’ہم نے لوگوں کو بچایا اور مسجد کو نقصان پہنچانے کی کوشش ناکام بنائی۔ آپ نے مسجد دیکھی ہوگی، وہاں سب معمول پر ہے۔‘

’مسجد کی بحالی کے لیے کام جاری ہے۔ مدرسے میں جو بھی توڑ پھوڑ ہوئی ہم اسے اس کی صحیح شکل میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو کچھ ہوا افسوس ناک ہے۔‘

ان کے مطابق مشتعل مظاہرین کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ ’یہاں دو سے تین ہزار لوگ تھے۔ ہم بھی سامنے موجود تھے۔ مظاہرین کو کالج جانے کے راستے پر روکا گیا۔ اگر وہ وہاں جاتے تو صورتحال سنگین ہوسکتی تھی۔‘

’مظاہرین کو اس طرف آنے میں وقت لگا جس دوران کچھ شرپسندوں نے (مسجد پر) حملہ کیا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More