Getty Images
مسیحی مذہب کے ماننے والوں کے مطابق حضرت عیسیٰ کائنات کے وہمقبول ترین شخص تھے جنھیں مصلوب کیا گیا تھا تاہم یہ خوفناک سزا (مصلوب کرنا) اُن کی پیدائش سے بھی کئی سو سال پہلے سے دی جا رہی تھی۔
جنوبی افریقہ کی یونیورسٹی آف دی فری سٹیٹ میں کلاسیکی کلچر میں ریسرچ فیلو اور مصنف لوئی سلیئرز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’زمانہ قدیم میں کسی کو قتل کرنے کے جرم میں دی جانے والی تین انتہائی ظالمانہ سزاؤں میں کسی شخص کو مصلوب کرنا سب سے خوفناک سزا تصور کی جاتی تھی۔ دیگر دو سزاؤں میں نذرِ آتش کرنا یا سر قلم کرنا شامل تھا۔‘
سپین کی یونیورسٹی آف نواڑا میں محکمہ تھیولوجی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈیگو پیریز گوندار کہتے ہیں کہ ’یہ (مصلوب کرنا) ظلم کی انتہا اور عوام کے دلوں میں خوف بٹھانے کے لیے کیا گیا عمل ہوتا تھا۔‘
اکثر اوقات صلیب پر چڑھائے گئے شخص کی موت اچانک یا چند گھنٹوں میں نہیں بلکہ آہستہ آہستہ اور مصلوب کیے جانے کے چند روز بعد ہوتی تھی۔ کیونکہ اس سزا پر عملدرآمد آبادی کے مرکزی حصے میں ہوتا تھا اس لیے عموماً لوگ چلتے پھرتے غور سے اسے دیکھ رہے ہوتے تھے۔
صلیب پر چڑھائے جانے کے بعد اس شخص کے جسم میں مختلف تبدیلیاں رونما ہوتی تھیں جن میں دم گھٹنا، خون ضائع ہونا، پانی کی کمی اور مختلف اعضا کا کام چھوڑ دینا شامل ہیں۔
تاہم آئیے پہلے یہ جانتے ہیں کہ سزا کے طور پر لوگوں کو مصلوب کرنے کا عمل کیسے شروع ہوا تھا۔
500 سال قبل مسیح Getty Images
ڈاکٹر سیلیئرز کا خیال ہے کہ اس عمل کا آغاز آشوریان اور بابلی قوم میں ہوا تھا۔ یہ دونوں قومیں دورِ حاضر کے مشرقِ وسطیٰ میں آباد تھیں۔ ڈاکٹر سیلیئرز کا یہ بھی خیال ہے کہ سزا دینے کا یہ طریقہ کار ’فارس میں چھٹی صدی قبل از مسیح سے رائج تھا۔‘
پروفیسر پیریز نے نشاندہی کی کہ اس بارے میں جو قدیم معلومات دستیاب ہیں وہ آشوریان آبادیوں کی دیواروں پر کی گئی مصوری سے ملتی ہیں۔ ’دیواروں پر بنائے گئے خاکوں میں جنگوں اور فتوحات کی جھلک نظر آتی ہے اور ان میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ قیدیوں کو کس طرح سے سزا دی جاتی تھی۔ ’امپیلمینٹ‘ یعنی سلاخیں جسم میں اتارنے کا عمل بھی مصلوب کرنے جیسا ہی معلوم ہوتا ہے۔‘
سنہ 2003 میں ڈاکٹر سیلیئرز نے صلیب پر چڑھانے کی تاریخ اور اس کے جسم پر ہونے والے اثرات پر ایک مضمون لکھا تھا جو ساؤتھ افریقن میڈیکل جرنل میں چھپا تھا۔
انھوں نے اس حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ فارس میں لوگوں کو درختوں یا ڈنڈوں کی مدد سے سزا دی جاتی تھی اور اس کے لیے باقاعدہ صلیب کا استعمال نہیں ہوتا تھا۔
پروفیسر پیریز کا کہنا ہے کہ ’سزائے موت کے ساتھ سزا یافتہ شخص کی تضحیک اور ظالمانہ طریقے سے موت دینا بہت عام تھا۔ ایک طریقہ یہ تھا کہ انھیں درخت سے لٹکا رہنے دیا جائے تاکہ وہ دم گھٹنے یا نقاہت سے مر جائیں۔‘
سزا کی ترویج Getty Images
چوتھی صدی قبل مسیح میں سکندرِ اعظم نے اس سزا کو مشرقی بحیرہ روم کے علاقوں میں متعارف کروایا تھا۔ ڈاکٹر سیلیئرز کا کہنا تھا کہ ’سکندر اعظم اور ان کی افواج نے شہرِ صور (دورِ حاضر کا لبنان) کا محاصرہ کیا جسے ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ تاہم وہ اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوئے اور بطور سزا وہاں دو ہزار شہریوں کو مصلوب کر دیا۔‘
سکندرِ اعظم کے بعد آنے والوں نے اس سزا کو مصر اور شام میں متعارف کروایا اور پھر یہ سزا شمال افریقی شہر قرطاجنہ میں سامیوں نے متعارف کروائی۔
رومیوں اور کارطھیجوں کے درمیان ہونے والی تین جنگوں میں، جو 264-146 قبلِ مسیح کے درمیان ہوئیں، رومن فوج نے اس تکنیک کو سیکھا اور اس پر ’500 سال تک عمل کیا۔‘
اس بارے میں بات کرتے ہوئے سیلیئرز کہتی ہیں کہ ’رومن فوج نے مصلوب کرنے کے عمل پر ہر اس جگہ عمل کیا جہاں وہ گئے۔‘
کچھ جگہوں پر تو جب انھوں نے اس سزا کو سزائے موت کے طور پر متعارف کروایا تو مقامی لوگوں نے اس کا خیر مقدم کیا۔
حضرت عیسیٰ کے نو سال بعد جرمن جنرل آرمینیئس نے جنگ ٹیوٹوبرگ فورسٹ میں فتح کے بعد رومن فوجیوں کو مصلوب کرنے کا حکم دیا تھا جو جرمن قبائل کے مقابلے میں رومن فوجوں کو ہونے والی عبرت ناک شکست سمجھی جاتی ہے۔
60 بعد از مسیح میں ایک قدیم برطانوی قبیلے اکینی کی ملکہ باؤڈیکا نے رومن فوج کے خلاف بغاوت کی اور اکثر فوجیوں کو مصلوب کیا۔
رومن رواجGetty Images
ڈاکٹر سیلیئرز کے مطابق رومن قوم نے صلیب کی مختلف اقسام کو سزا میں متعارف کروایا جس میں ’ایکس‘ شکل شامل ہے۔
’تاہم اکثر اوقات وہ ٹی شکل کی لاطینی صلیب استعمال کیا کرتے تھے۔ یہ صلیبیں اونچی بھی ہوتی تھیں لیکن چھوٹی صلیبیں زیادہ عام تھیں۔ ان میں ایک تختہ اور کراس بار موجود تھی۔‘
جس شخص کو سزا دی جا رہی ہوتی تھی اسے تختے کا ایک حصہ سزا کی جگہ پر لے جانے کے لیے مجبور کیا جاتا تھا۔
بربریت پر مبنی سزا
سزا پانے والوں کے بازوؤں کو ڈنڈے کے ساتھ باندھا جاتا اور کئی دفعہ ان کی کلائیوں میں میخیں ٹھونکی جاتیں۔
میخوں کو عام طور پر ہتھیلیوں میں نہیں اتارا جاتا تھا کیونکہ اس طرح میخیں اس شخص کا وزن نہ سہہ پاتیں اور گوشت کو چیر دیتیں۔ اس لیے عموماً اس مقصد کے لیے کلائیوں کی ہڈیوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔
یہ میخیں عام طور پر 18 سینٹی میٹر لمبی اور ایک سینٹی میٹر چوڑی ہوتی تھیں۔ جب متاثرہ شخص کے ہاتھوں کو تختے میں ٹھوک دیا جاتا تھا تو پھر اس تختے کو اس ڈنڈے پر لگایا جاتا تھا جو پہلے سے سزا کی جگہ پر نصب ہوتا تھا۔
اس شخص کے پیروں کو تختے سے باندھا جاتا تھا یا میخوں کے ذریعے ٹھوکا جاتا تھا، کبھی کبھار ایک پیر کو ایک اور دوسرے کو دوسری جانب اور کبھی ایک کے اوپر دوسرا پیر رکھ کر میخ ٹھونکی جاتی تھی۔
مصنف کہتے ہیں کہ اس صورت میں ایک ہی میخ کو پیروں کی ہڈیوں میں اتارا جاتا تھا۔ اس سے ہونے والا درد غیر معمولی ہوتا تھا۔
پروفیسر پیریز کہتے ہیں کہ ’اس سے متعدد رگیں متاثر ہوتیں۔‘
اس سب کے دوران ’بہت سارا خون ضائع ہوتا، شدید درد ہوتا لیکن اگر آپ سانس لینے کے کوشش نہ کرتے، تو آپ دم گھٹنے سے مر جاتے۔‘
اکثر اوقات یہ ایک طویل دورانیے کے بعد آنے والی موت ہوتی، اور یہ اکثر متعدد اعضا کے ناکارہ ہونے کا نتیجہ ہوتی تھی۔‘
ڈاکٹر سیلیئرز بتاتی ہیں کہ یہ عام طور پر خون کی گردش کے بند ہونے کے باعث ہوتا جسے ’ہائپووالیمکم شاک‘ کہا جاتا ہے اور متاثرہ افراد خون ضائع ہونے کے باعث ہونے والی خون اور پانی کی کمی کا شکار ہوتے، تاہم عموماً ایسا دم گھٹنے سے ہوتا۔
دنوں، گھنٹوں کی اذیتGetty Images
سزا کی اذیت میں اضافہ اس لیے بھی ہوتا تھا کیونکہ اکثر افراد جنھیں یہ سزا دی جاتی تھی ان کو مرنے میں کئی روز لگ جاتے تھے۔ تاہم کچھ کی صرف چند گھنٹوں کے اندر ہی موت ہوجاتی تھی۔
پروفیسر پیریز کہتے ہیں کہ ’بسا اوقات فوجی لوگوں کو جلدی قتل کرنے کے لیے لوگوں کی ٹانگوں پر ڈنڈے مار کر ان کی ٹانگیں توڑ دیتے تھے۔ اس طرح متاثرہ افراد سانس لینے کے لیے اپنی ٹانگیں نہیں اٹھا سکتے تھے اور یوں جلد ہی ہلاک ہو جاتے تھے۔‘
’جانی دشمن‘
پروفیسر پیریز کہتے ہیں کہ مصلوب کرنے کا مقصد کسی سزا یافتہ فرد کی ’تضحیک اور اسے بے نقاب کرنا‘ ہوتا تھا۔
’ایسی موت بدترین دشمنوں کو دی جاتی تھی تاکہ یہ پیغام جائے کہ پھر کبھی کوئی اسی قسم کے جرم کا ارتکاب نہ کرے۔‘
یہ سزا رومن شہریوں کو بہت کم دی جاتی تھی اور عام طور پر غلاموں اور غیر ملکیوں کو دی جاتی تھی۔
’مصلوب کرنے کی سزا عام طور پر بغاوت، فوجی بغاوت، دہشتگردی اور ایسے جرائم جن کا تعلق خون خرابے سے ہوتا تھا، میں دی جاتی تھی۔‘
پروفیسر پیریز کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کو مصلوب کیے جانا ایک پیغام تھا اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ’وہ انھیں خطرہ سمجھتے تھے۔‘
وہ کہتے ہیں ’جو نہیں چاہتے تھے کے دنیا بدلے انھوں نے ان کی جان لینے کی کوشش کی اور وہ بھی ایک ایسے طریقے سے تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ ان کا پیغام پھیلایا نہ جائے۔‘
سزا کا خاتمہ
رومن بادشاہ کانسٹنٹائن نے چوتھی صدی بعد از مسیح میں مصلوب کرنے کی سزا کا خاتمہ کیا اور وہ پہلے رومن بادشاہ تھے جو مذہب تبدیل کر کے مسیحی ہوگئے۔
انھوں نے اس مذہب کو قانونی حیثیت دی اور ان کے حامیوں کو وہ مراعات ملیں جو دوسرے مذاہب کے لوگوں کو نہیں دی گئیں۔ یوں رومن سلطنت میں شہریوں کی مسیحی مذہب قبول کرنے کی روایت کا آغاز ہوا۔
تاہم یہ سزا بعد میں دیگر جگہوں پر دی جاتی رہی۔ سنہ 1597 میں 26 مذہبی پیشواؤں کو جاپان میں مصلوب کیا گیا۔
صلیب کے انتہائی بربریت پر مبنی ماضی کے باوجود یہ مسیحیوں کے لیے ایک ایسی علامت ہے جو محبت کے نام پر قربانی کا سبق دیتی ہے۔